اناجیل کا مصنف ہونا

”حضرت عیسیٰ مسیح کے حقیقی بارہ شاگردوں نے چاروں اناجیل میں سے ایک بھی انجیل نہیں لکھی۔“

ابتدائی کلیسیا، جس میں بہت سے مقدس متی،مقدس مرقس،مقدس لوقا او رمقدس یوحناکو شخصی طورپر جانتے ہیں،متفق تھی کہ چاروں اناجیل
مقدس متی،مقدس مرقس،مقدس لوقا او رمقدس یوحنانے ہی لکھی ہیں۔مقدس متی او رمقدس یوحنا دونوں حضرت عیسیٰ مسیح کے بارہ شاگردوں میں سے تھے،مقدس مرقس نے تمام واقعات مقدس پطرس (وہ بھی بارہ میں سے ایک تھا)سے سنے،اور مقدس لوقا پہلی نسل کی کلیسیا کا ایک سرگرم رُکن تھا۔ابتدائی کلیسیا کی تحریروں کا تاریخی ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ ابتدائی کلیسیا اِس بارے میں مُتفق الرائے تھی کہ یہ اصلی مصنفین تھے۔یہ محض گذشتہ چند صدیاں ہیں جب مُلحد علماء نے اِن اناجیل کی تاریخ کو نئی شکل دینے کی کوشش کی۔تاریخ کی اِس جھوٹی توضیح و تشریح
کے پیچھے کام کرنے والی بہت سی قوتیں تھیں:

معجزوں کا انکار – کچھ علما ء کا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ معجزات نہیں ہو سکتے اور نہیں ہوئے،اِ س لئے جتنے بھی واقعات میں معجزات درج ہیں وہ شاید خود سے کہانیاں بنائی گئی ہیں جو رفتہ رفتہ فروغ پاتی گئیں۔ اُن کی منطق یہ ہے کہ اگر کوئی متن تاریخی حقیقت کے طور پر کوئی معجزہ پیش کرتا ہے تو تحریر کا وہ پورا حصہ بھی اُسی طرح گھڑا او ربنایا گیا ہوگا۔اِس لئے جب اناجیل حضرت عیسیٰ مسیح کنواری سے پیدایش اور معجزات کو تاریخی حقائق کے طور پر لکھتی ہیں، تو پھر تمام سوانح حیات بتدریج مبالغہ آرائی میں ڈھلنے والی کہانی ہے جو کسی فرض کئے ہوئے مصنف سے نہیں لکھی جا سکتی تھی۔

نئے نظریات اور اشاعت کی ضرورت – حیاتیات اور طب پڑھنے والوں کے نزدیک،تعلیمی اعتبار سے اِس میں تقریباً لامحدود حد تک نامعلوم مواد تازہ تحقیق کا منتظر رہتا ہے۔تاہم،جہاں تک کتاب مقدس کا تعلق ہے، صدیوں سے تقریباًہر ایک آیت اور کتاب پربیش بہا تحقیقی کام موجود ہے۔ایک جدید عالم کو توجہ حاصل کرنے کے لئے کسی نئے نظریے پر مفروضہ قائم کرنا پڑتا ہے جس میں غالباًکچھ نئی آثارِ قدیمہ کی دریافتوں پر مبالغہ آرائی کی گئی ہوتی ہے۔آپ کو اُن باتوں کے لئے کوئی خراج تحسین نہیں ملے گا جو پہلے ہی کئی مرتبہ کہی جا چکی ہیں۔اکثر ”تاریخی حضرت عیسیٰ مسیح“ کی نئی تصاویر محض موجود ہ تعلیمی جنون کو پیش کرتی ہیں۔جب مارکس ازم بہت مشہور تھا تو حضرت عیسیٰ مسیح
کو مارکسی کے طور پر پیش کیاگیا؛جب تصوف مشہور تھا تو جد ید علما نے اُسے ایک صوفی کا رُوپ دے دیا۔جدیدعلمائے کرام کا تاریخی
حضرت عیسیٰ مسیح بھی اکثر محض اُن کی اپنی سوچ اور جنون کی تصویر پیش کرتا ہے۔

تاریخی -تنقیدی طریقے کو زیادہ گراں قدر سمجھنا – کتاب مقدس کے مطالعے کے طریقہ کار تنقید اعلیٰ اور صورت کی تنقید تاریخ کو دوبارہ سے تشکیل دینے کی کوشش ہیں جو ادبی انداز اور موازنے پر مبنی ہیں۔یہ مطالعہ کے لئے گراں قدر طریقہ کار ہیں اور یہ ماضی کے متعلق ہمار ی تصویر کو واضح کرتے ہیں۔مسئلہ تب ہوتا ہے جب علمائے کرام سادہ تاریخی ریکارڈ پر یقین رکھنے کے بجائے ادبی تجزیوں کو بہت مُستند طریقہ کار سمجھتے ہیں اور تکبّر میں آ کر یہ فرض کرتے ہیں کہ وہ دو ہزار سال بعد بھی اُس وقت کے لوگوں کی نسبت قدیم واقعات کو زیادہ جانتے ہیں۔اِس لئے مثال کے طور پر ہمارے پاس نسخہ جات کی شہادت موجود ہے کہ وہ لوگ جو بارہ شاگردوں کو جانتے تھے،اُنہوں نے کہا کہ متی کی انجیل مقدس متی نے ہی لکھی،لیکن دو ہزار سال بعد علماء غرور میں آ کر یہ قیاس کر تے ہیں کہ اِن ابتدائی قائدین کی نسبت زیادہ جانتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *