کسی اَور کا بوجھ اُٹھانا؟

”حضرت عیسیٰ ہمارے گناہوں کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتے،کیونکہ قرآن فرماتا ہے:’کوئی شخص دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا،
(38:53)“

ْْْقرآن کو اکثر اُن لوگوں نے جو اِس کے معنی سے واقف نہیں ہیں حضرت عیسیٰ مسیح کے عوضی کفارے کا اِنکار کرنے کیلئے غلط اِستعمال کیا ہے،

”جو باتیں موسیٰ کے صحیفوں میں ہیں اُن کی اس کو خبر نہیں پہنچی اور ابراہیم کی جنہوں نے (حق طاعت و رسالت)پورا کیا،’کوئی شخص دوسرے (کے گناہ)کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا‘(36:53)“

جو کوئی بُرا کام کرتا ہے تو اُس کا ضرر اُسی کو ہوتا ہے اور کوئی شخص کسی دوسرے کا گناہ کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا،(قرآن 164:6)


جیسے کہ قرآن یہ فرماتا ہے تو یہ توریت شریف (عبرانی صحائف)سے ہی اقتباس کرتا ہے:

”بیٹا باپ کے گناہ کا بوجھ نہ اُٹھائے گا اور نہ باپ بیٹے کے گناہ کا بوجھ۔صادق کی صداقت اُسی کے لئے ہو گی اور شریر کی شرارت شریر کے لئے۔“(حزقی ایل،20:18)


جب ہم اِس آیت کے سیاق و سباق کا جائزہ لیتے ہیں تو اِس بیان کا مقصد واضح ہو تا ہیں – یہ براہ ِ راست فرزندانہ ذمہ داری سے منع کرتا ہے،جو کہ ایک قدیم قانونی نظریہ ہے کہ ایک شخص کواپنے باپ یا بیٹے کے گناہ کی خاطر سزا دی جا سکتی ہے۔وسیع النظری میں یہ کسی شخص کو زبردستی کسی اَور شخص کے گناہ کے نتائج بھگتنے سے بھی منع کرتا ہے (حضرت عیسیٰ مسیح کے رضاکارانہ عوضی ہونے کے برعکس)۔


واقعی،ہم اِسے ایک عالمگیر اور حتمی اُصول کے طور پر نہیں لے سکتے:


1۔ قرآن خود اِس خاص اُصول کے عالمگیرانہ اطلاق سے تضاد رکھتا ہے۔ایسے شریر لوگوں کی بات کرتے ہوئے جو ناواقف لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں،قرآن فرماتا ہے:

”یہ قیامت کے دن اپنے (اعمال کے)پورے بوجھ بھی اُٹھائیں گے اور جن کو یہ بے تحقیق گمراہ کرتے ہیں اُن کے بوجھ بھی (اُٹھائیں گے) سن رکھو کہ جو بوجھ یہ اُٹھا رہے ہیں بُرے ہیں۔“(25:16)


اگر ہم (جھوٹ موٹ)اُصول کوعام اُصول کی بجائے حتمی قرار دیں تویہ براہ ِ راست 13:17-15 اور 38:53-42 سے تضاد رکھتا ہے
اِسی طرح تنویر المقباس من تفسیرابن عباس میں سورۃ 24:8-25 کی تفسیر میں لکھاہے:

(اور اس فتنہ سے ڈرو)کسی بھی فتنہ سے جو واقع ہو سکتا ہے (جو خصوصیت کے ساتھ اُنہی لوگوں پر واقع نہ ہو گا جو تم میں گناہ گار ہیں)بلکہ اِس کی بجائے وہ گناہ گاروں او رجس کے ساتھ بے اِنصافی ہوئی دونوں پر واقع ہو گا (او رجان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے)جب وہ سزا دیتا ہے۔


اگر ہم اِس اُصول کی پیروی کرتے ہیں کہ قرآن کے مختلف حصے ایک دوسرے کی وضاحت کرتے ہیں،تو ہمیں اِس نتیجے پر پہنچنا ہو گا کہ یہ اُصول حتمی نہیں ہے لیکن وسعت میں محدود ضرور ہے۔


2۔ مزید یہ کہ یہ اُصول حضرت آدم پہلے ہی توڑ چکے ہیں۔ قرآن اور کتاب مقدس دونوں یہ بتاتے ہیں کہ حضرت آدم کے گناہ کے نتیجے میں پوری نسل ِ انسانی اب مزید کامل جنت میں نہیں رہ سکتی تھی مگر زمین پر زندگی بسر کرنے اور مرنے کے لئے سزاوار ٹھہری۔دوسرے الفاظ میں،ہم سب کو بھی کسی اَور کے گناہ کے نتائج بھگتنے تھے جسے ہم جنت سے بے دخل کئے جانے اور موت کا نام دیتے ہیں۔


حضرت آدم کے خدا کے اِس عام اُصول سے مُستشنیٰ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ خدا تعالیٰ نے حضرت آدم کو مقرر کیا کہ اِنسانیت کے تعلق سے ایک منفرد کردار رکھیں۔ حضرت آدم کی مانند حضرت عیسیٰ خدا تعالیٰ کی مرضی سے انسانیت سے ایک منفرد تعلق رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جیسے قرآن بیان کرتا ہے، کتاب مقدس بھی اُسے دوسرا آدم کہتی ہے (”عیسیٰ کا حال خدا کے نزدیک آدم کا سا ہے“(قرآن 59:3)۔
انجیل شریف کچھ یو ں بیان کرتی ہے:

”جیسے آدم میں سب مرتے ہیں ویسے ہی مسیح میں سب زندہ کئے جائیں گے“(۱-کر نتھیوں 22:15 اور 45:15 بھی دیکھئے)۔


جیسا کہ ہمارا حضرت آدم کے ساتھ ایک منفرد تعلق ہے،اُسی طرح ہم حضرت عیسیٰ مسیح کے ساتھ بھی ایک منفرد تعلق رکھ سکتے ہیں۔

اِس بات کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد کے لئے کہ کس طرح انصاف کے ایک اچھے اُصول کو محض نظر انداز کیا جا سکتا ہے،ہم اِس کا ایک اَور الہٰی اُصول کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں -”قتل نہ کرنا“۔یہ حکم کہ قتل نہ کرنا ایسے نظر انداز ہوسکتا ہے کہ جب ایک اعلیٰ ترین منصف کسی شخص (جلاّد) کو موت کی سزا دینے کے لئے مقرر کرے۔یہی بات کسی اَو رکا بوجھ نہ اُٹھانے کے اُصول پر صادق آتی ہے –
یہ صرف اُسی وقت مُستشنیٰ قرار دیا جا سکتا ہے جب اعلیٰ منصف (خدا تعالیٰ)کسی کو اُس خاص کام کے لئے مقرر کرے(عیسیٰ مسیح)

ایک اَور وجہ کہ حضرت عیسیٰ یہ عام طریقہ کار کیوں توڑتے یہ ہیں کہ تمام نسل ِ انسانی میں صرف و ہی بے گناہ ہیں۔خدا کے انصاف میں گناہ
دوسرے گناہ گار پیروں،مقدسین یا پاک لوگوں سے دعا کرنے سے معاف نہیں ہوسکتے،چاہے وہ کتنے ہی پاک باز اشخاص کیوں نہ ہوں،وہ تب بھی گناہ سے داغ دار ہیں۔چونکہ صرف حضرت عیسیٰ مسیح ہی کامل طور پر گناہ سے مبّرا ہیں اِس لئے صرف وہی خدا کی مرضی سے رضاکارانہ طورپر دوسرے کے گناہ کا بوجھ اُٹھانے کا حق رکھتے ہیں۔

آخر ی بات یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ مسیح کا عوضی کفارہ کتابِ مقدس کی نا قابل ِ انکارگواہی ہے جو باربار نہ صرف انجیل شریف میں بلکہ توریت شریف میں بھی دہرائی گئی ہے۔ہم اِس بات کا انکار کرنے کا چناؤکر سکتے ہیں کہ کوئی بھی دوسرے شخص کے گناہ کا بوجھ اُٹھا سکتا ہے لیکن اِس سے ہم جہنم کے سزاوار اور خدا کے رحم اورمعافی کے ذریعے کو ردّ کرنے والے ٹھہرتے ہیں۔ ہمیں خدا کے نجات کے انعام کو اچھے طریقے سے قبول کرنا ہو گا۔

کیا یعقوب او رپولُس ایک دوسرے سے تضاد رکھتے ہیں؟

کیا ایمان او راعمال کے بارے میں یعقوب اور پولُس ایک دوسرے کے ساتھ تضاد نہیں رکھتے؟“

بہت سے نقادیہ ظاہر کرنے کے لئے پولُس اور یعقوب کی تحریروں میں سے مخصوص آیات کا انتخاب کرنا پسند کرتے ہیں کہ یہ ابتدائی مسیحی قائدین آپس میں اختلاف رکھتے تھے۔تاہم،اگر آپ پورے نئے عہد نامے سے واقف ہیں تو یہ دلیل ردّ ہوجاتی ہے۔یعقوب اور پولُس
ایک سی انجیل پر ایمان رکھتے تھے اور اُسی کا اُنہوں نے پرچار کیا،اُنہوں نے محض اُن لوگوں کی ضرورت کے مطابق مختلف حصوں پر زوردیا جنہیں وہ لکھ رہے تھے۔ یہ وہ باتیں ہیں جن پر وہ دونوں ایمان رکھتے تھے:
شریعت اچھی ہے مگر اِس سے ہم نجات حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ لوگ کُلّی طور پر اِس کی فرماں برداری نہیں کر سکتے۔تاہم،خدا نے نجات کے اپنے ذریعے کو ظاہر کیا جو یسوع کے وسیلے کفارے اور صلح صفائی ہے۔ ہمیں ایمان اور توبہ کے ذریعے اور ایک شاگرد بننے سے خُدا کی طرف سے نجات کی بخشش کو قبول کرنا ہے۔ بھلائی کے کام حقیقی ایمان کی ایک ضروری علامت یا نشان ہیں۔اگر کسی شخص کا ایمان بھلائی کے کام پیدا نہیں کرتا تو اِس کا مطلب یہ ہے
کہ وہ ایک حقیقی ایمان نہیں تھا(اور اُسے نہیں بچائے گا)۔اِس لئے ایمان او رکام دونوں ضروری ہیں مگر ایمان بنیادی چیز ہے۔چونکہ نجات
حضرت عیسیٰ مسیح کی ہماری خاطر کفارے سے ملتی ہے،اِس لئے نجات کو شریعت کے ذریعے سے حاصل کرنے کی کوشش کرنا بنیادی طور پر حضرت عیسیٰ مسیح کی مفت بخشش کا اِنکار کرناہے۔

پولُس اور یعقوب دونوں کی تحریریں اِس بات سے مطابقت رکھتی ہیں۔جس طرح نقاد الزام لگاتے ہیں کیا واقعی پولُس شریعت سے نفرت کرتا ہے؟آئیے!…

کیا حضرت عیسیٰ مسیح صرف یہودیوں کے لئے ہیں؟

بہت سے نقادیہ ظاہر کرنے کے لئے کہ حضرت عیسیٰ مسیح کو صرف یہودیوں کے لئے بھیجا گیا تھا،دو اقتباسات کی طرف نشان دہی کرنا پسند کرتے ہیں۔یہ تو ایسے کہنا ہے جیسے کہ محمدؐ صرف عرب لوگوں کے لئے بھیجے گئے تھے کیونکہ وہ عرب سے باہر کبھی نہیں گئے اور ایک جگہ قرآن فرماتا ہے،”ہم نے تم کو ایک عربی قرآن نازل فرمایا تاکہ تم مکہ او راِس کے اِرد گرد رہنے والوں کو خبردار کرو۔“ایسے غیر متوازی دعوے کرنے کے لئے آپ کو دوسری آیات کو چھپا نا یا نظر انداز کرنا ہوگا۔نیچے ہم اُن دو اقتباسات کا جائزہ لیں گے اور مجموعی طور پر ثبوت کا جائزہ لیں گے۔

متی 5:10 – ”صرف یہودیوں کو؟“

متی 10باب میں حضرت عیسیٰ مسیح اپنے شاگردوں کو عارضی سفر کے لئے بھیج رہے ہیں مگر اِس مرتبہ صرف یہودیوں کے پاس۔ہم جانتے ہیں کہ یہ ہدایات عارضی تھیں،جب کہ لوقا9باب اِس دئیے گئے کام کا خاتمہ درج کرتا ہے اور بعد میں حضرت عیسیٰ مسیح اُن چندابتدائی ہدایات میں خاص طور پر تبدیلی کی (لوقا35:22-36)۔

متی 21:15-28 – ”صرف یہودیوں کے لئے؟“

متی 21:15-28(مرقس23:7-30بھی)میں حضرت عیسیٰ مسیح ایک کنعانی عورت کو واضح کر رہے ہیں کہ کس طرح اُن کی بنیادی زمینی خدمت بنی اسرائیل کے لئے تھی۔اِس حوالہ او رمتی 10باب میں حضرت عیسیٰ مسیح کی اپنے شاگردوں کو ہدایات کویہ تجویز کرنے کے لئے کئی نقادوں نے بگاڑا کہ وہ صرف بنی اسرائیل کے لئے بھیجا گیا تھا۔اِس کے برعکس توریت شریف،زبور شریف او راناجیل میں دس مرتبہ سے زیادہ واضح اقتباسات موجود ہیں۔ صرف پولُس کے خطوط ہی کو دیکھیں جو انکار کئے بغیر یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ مسیح کے پیغام کا مقصد پوری دنیا کے لئے تھا۔یہ سچ ہے کہ اُ ن کی زمینی خدمت یہودیوں کے لئے تھی کیونکہ حضر ت ابراہیم کے وقت سے بنی اسرائیل خُدا کے پیغام کے خادم تھے۔ اِس لئے حضرت عیسیٰ مسیح سب سے پہلے اسرائیل کے لئے پیغام لے کر آئے!…

پولُس رسول نے انجیل شریف چُرا لی؟

”پولُس نے حضرت عیسیٰ مسیح کا پیغام چُرا لیا اور اُسے اپنے مفاد ات کے مطابق بدل ڈالا۔“

کتاب مقدس یا کسی اور مُستند ذریعے سے ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ رسولی جماعت اور پولُس رسول کے درمیان کوئی بڑی کشمکش موجود تھی۔نقاد پولُس رسول اَور برنباس کے درمیان ایک بڑے اختلاف کے طور پر اعما ل39:15کے بارے میں مبالغہ آرائی کرنا پسند کرتے ہیں۔آئیے!…