کُتے اور سؤر؟

متی 6:7 – ”انجیل شریف کس طرح غیر ایمان داروں کے لئے ”کتوں“اور ”سؤروں“ کے ناشائستہ الفاظ استعمال کر سکتی ہے؟انبیا کو
دوسروں کے لئے ایسی اصطلاحات استعمال نہیں کرنی چاہیے تھیں۔“

یہ حوالہ بتا رہا ہے کہ حقیقی ایمان داروں کو اُن کو انجیل کی منادی غیر معینہ مدت تک جاری نہیں رکھنی چاہئے جو سختی سے اِسے ردّ کرتے ہیں
تاکہ وہ آگے بڑھ سکیں اور زیادہ قبول کرنے والوں میں انجیل کی منادی کرسکیں (دیکھئے 14:10)۔یہ آیت براہ ِ راست کسی شخص کو بھی کتا یا سؤر نہیں کہتی،یہ روزمرہ زندگی میں سے یہ بیان کرنے کے لئے صرف ایک استعارہ استعمال کرتی ہے کہ کسی شخص کو اُن لوگوں پر قیمتی باتیں ضائع نہیں کرنی چاہئیں جن کو اُن کی قدر نہیں ہے۔

قرآن نے خود شریروں کو بیان کرنے کے لئے ایسے ہی استعارے استعمال کئے ہیں۔ہمیں قرآن میں ملتا ہے کہ بدکاروں کو کتے (175:7-177)،جانور(25,22:8)،گدھے(5:62)اورحتیٰ کہ سؤروں میں تبدیل ہونے کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔یہ اصطلاحات یہ دکھانے کے لئے مجازی معنوں میں استعمال ہوئی ہیں کہ لوگ کس طرح خُدا تعالیٰ کے فضل و کرم کے بغیر تباہ اور بگڑے ہوئے ہیں۔خُدا تعالیٰ کی راہنمائی کے بغیر،آدمی مکمل طور پر بگڑا ہوا ہے اور ایسے کام کرتا ہے جو جانور بھی نہیں کرتے ہوں گے۔

غزل الغزلات – ایک عاشقیہ مواد؟

غزل الغزلات- ”ممکن نہیں ہے کہ اللہ کا کلام ایسے عاشقیہ یا ناشائستہ مواد پر مشتمل ہو۔“

خدا کا کلام زندگی کے ہر شعبے کے لئے راہنما کا باعث ہے۔غزل الغزلات شوہر او ربیوی کے درمیان محبت کی ایک نظم ہے،جبکہ مواد علامتی ہے جو شادی کے مواد کے لئے زیادہ مناسب ہے۔محبوب اور پیاری کی اصطلاحات کا استعمال کتاب کے مرد او رعورت کے کرداروں کے شادی کے تعلق کی طرف اشارہ کرتا ہے۔مرد کا کردار اپنی بیوی کی طرف بطور ’بیوی‘ کا اشارہ نہیں کرتا بلکہ محبت سے بھرا ہوا نام ’پیاری‘ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔گیت میں جو دو اشخاص ہیں وہ شادی شدہ افراد ہیں،جو ایک دوسرے سے بہت محبت رکھتے ہیں،اِس لئے وہ ایک دوسرے کے لئے اپنی خوشی اور محبت کا اظہار کر رہے ہیں۔یقینا یہ کوئی ناشائستہ بات نہیں ہے،جب تک کوئی یہ نہ سوچے کہ شادی شدہ لوگوں کے درمیان بھی بُری بات ہے۔اِس کے برعکس،ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حضرت محمد ؐ نے یہ سکھایا کہ شادی اور شادی کے تعلقات ایک برکت اور اچھی بات ہے اور اُن کی باتیں (احادیث)شادی کی زندگی کی تفصیلات کی بہت زیادہ وضاحت پیش کرتی ہیں۔

جدید دور میں،مشرق او رمغرب دونوں میں،بعض اوقات ایسا معلوم ہوتا ہے کہ معاشرہ کہتا ہے کہ ہر طرح کا جنسی عمل اور موج مستی کی اجازت ہے ماسوائے وہ جو دو شادی شدہ لوگوں کے درمیان ہوتا ہے!…

کیا حزقی ایل 23باب فحش ہے؟

حزقی ایل 23باب – ”کتاب مقدس میں ’فحاشی‘ اور دیگر غیرشائستہ باتیں موجود ہیں۔“

یہ حوالہ ایک استعارہ ہے جو اسرائیل اور سامریہ کی بت پرستی کا دو کسبیوں کے ساتھ موازنہ کرتا ہے جن کے نام اہولہ او راہولیبہ ہیں۔

اِس حوالہ کو ظاہر کرنے میں خُدا تعالیٰ کا مقصداِن سرد مہر اقوام کو ایک دھچکا پہنچانا ہے تاکہ وہ یہ احساس کریں کہ اُن کی بت پرستی کس حد تک
نفرت انگیز ہے۔اِس مقصد کی خاطر وہ جسم فروشی کا استعارہ استعمال کرتا ہے جو بدترین گناہوں میں سے ایک ہے۔قرآن بھی لوگوں کے عیب جوئی کے گناہ کا آدم خوری کے خوفناک گناہ کے ساتھ موازنہ کرتاہے جو قابل ِنفرت ہے (12:49)۔دونوں حوالوں کا مقصد بے حِس گنہگاروں کو اُن کے خوفناک گناہ سے باخبر کرنا ہے۔ایسی سخت زبان استعمال کرنے کی ضرورت تھی تاکہ نبی کا پیغام اُن کے دل ودماغ پر گہرا کام کرے۔

بت پرستی اور گناہ خُدا تعالیٰ اور ہمارے نزدیک ناپسندیدہ ہیں۔ اِس خُدا کا مقصد فحش باتیں کرنا نہیں بلکہ ایسے لوگوں پر خُدا تعالیٰ کی عدالت کا اعلان کرنا ہے۔حوالہ کے آخر میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اِس طرح کی زبان کیوں استعمال کی گئی ہے۔خُداتعالیٰ فرماتے ہیں: ”وہ تمہارے فسق وفجو رکا بدلہ تم کو دیں گے اور تم اپنے بتوں کے گناہوں کی سزا کا بوجھ اُٹھاؤ گے تاکہ تم جانو کہ خدواند خدا میَں ہی ہوں۔“
(حزقی ایل 49:23)۔

صحیح بخاری سے ہم سیکھتے ہیں کہ قرآ نی بیان ،”تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں تو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاؤ“
(سورۃ البقرۃ 223)کئی طرح کی جنسی حالتوں کے بارے میں ہے ( (صحیح بخاری 51.60.6)۔
حدیث میں وضاحت کے ساتھ چند جنسی واقعات بھی موجود ہیں،لیکن عبرانی صحائف کے برعکس اِن کا مقصد انبیا ئے کرام کی مثبت تصویر پیش کرنا ہے:

ابو ہریرہ سے روایت ہے:اللہ تعالیٰ کے رسول نے فرمایا،”(پیغمبر)حضرت سلیمان نے فرمایا،”آج رات میَں نوے عورتوں کے ساتھ
سوؤں گا،ہر عورت سے ایک لڑکا پیدا ہو گا جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑے گا۔“اِس پر اُن کے ساتھی (سفیان نے کہا کہ اُس کا ساتھی ایک فرشتہ ہے)نے اُن سے کہا،”کہو،”اگر اللہ چاہے (انشااللہ)۔“لیکن حضرت سلیمان (یہ کہنا)بھول گئے۔وہ اپنی تمام بیویوں کے ساتھ سوئے،
لیکن عورتوں میں سے کسی نے بھی بچے کو جنم نہ دیا ماسوائے ایک کے جس نے آدھے بچے کو جنم دیا۔ابو ہریرہ مزید فرماتے ہیں:نبی کریم نے فرمایا،”اگر حضر ت سلیمان نے کہا ہوتا،”اگر اللہ چاہے“(انشا ءَ اللہ)،تو وہ اپنے عمل میں ناکام نہ ہوئے ہوتے اور وہ کچھ حاصل کر لیتے جس کی اُنہوں نے خواہش کی تھی۔“ایک مرتبہ ابو ہریرہ نے فرمایا:رسول اللہ نے فرمایا،”اگر اُنہوں نے قبول کیا ہوتا۔“(صحیح بخاری 711.8)

قرآن اور حدیث کے اِن حصوں کو ناقص مواد نہیں سمجھنا چاہئے اور نہ ہی عبرانی صحائف کے ساتھ ایسا کرنا چاہئے۔یہ طعن آمیز ہے کہ نقاد کتاب مقدس پر فحش مواد رکھنے کا الزام لگائیں،جب پوری تاریخ کے دوران معاشرے میں فحاشی کی مخالفت کرتے ہوئے یہ حیا اور جنسی پاکیزگی کی زبردست قوت رہ چکی ہے۔مثلاً مشرق ِ وسطیٰ میں محمد ؐکے زمانے سے صدیوں پہلے مسیح کے پیروکار حجاب استعمال کرتے تھے جو آج بھی مشرق ِ وسطیٰ میں مسیحی استعمال کرتے ہیں۔

یہ یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ عبرانی میں جنسی اصطلاحات کے تراجم اکثربہت حد تک گمراہ کن ہیں۔عبرانی صحائف جنسی معاملات پر بات چیت کرنے میں شدید حد تک بالواسطہ بات کرتے ہیں۔ اِس لئے مثال کے طورپر آیت 20میں جس لفظ کا ترجمہ اکثر ”عضو تناسل“ کیا گیا ہے وہ سادہ طور پر لفظ ”بدن“ (عبرانی،بسر)ہے۔جو کچھ نقاد کہتے ہیں اُس کے برعکس،جنتا ممکن ہو سکتا ہے عبرانی صحائف ہوش مندی سے کام لیتے ہیں۔

قوس ِ قزح سیلاب کے بعد تخلیق ہوئی؟

پیدایش 13:9 – ”یہ کہنا سائنسی طور پر غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قوس ِ قزح سیلاب کے بعد خلق کی۔“

اِس اقتباس میں کوئی ایسی نشان دہی نہیں ہے کہ قوس ِ قزح حضرت نو ح کے زمانے میں خلق ہوئی۔یہ محض ایک یاد دہانی کے نشان کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اب مزید بڑے سیلاب نہیں آئیں گے۔13آیت میں خُدا تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ”میں َ اپنی کمان کو بادل میں رکھتا ہوں۔
وہ میرے اور زمین کے درمیان عہد کانشان ہو گی ..“نقاد…

سارہ کی بابت ابراہام کا جھوٹ،

پیدایش 20 – ”کتاب مُقدس کیسے کہہ سکتی ہے کہ ابراہام نبی نے اپنی بیوی کی بابت جھوٹ بولا اور ایک اَور آدمی کو اُسے لے جانے کی اجازت دی؟“

دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ واقعہ نہ صرف بائبل مُقدس میں موجود ہے بلکہ صحیح بخاری میں بھی لکھا ہے:

ابوہریرہ نے بیان کیا کہ ابراہیم علیہ السلام نے تین مرتبہ جھوٹ بولا تھا۔ دو اُن میں سے خالص اللہ عز و جل کی رضا کے لئے تھے۔ ایک تو اُن کا فرمانا کہ ”میں بیمار ہوں“ اور دوسرا اُن کا یہ فرمانا کہ ”بلکہ یہ کام تو اُن کے بڑے (بت) نے کیا ہے۔“ اور بیان کیا کہ ایک مرتبہ ابراہیم علیہ السلام اور سارہ علیہا السلام ایک ظالم بادشاہ کی حدود سلطنت سے گزر رہے تھے۔ بادشاہ کو خبر ملی کہ یہاں ایک شخص آیا ہوا ہے اور اُس کے ساتھ دُنیا کی ایک خوبصورت ترین عورت ہے۔ بادشاہ نے ابراہیم علیہ السلام کے پاس اپنا آدمی بھیج کر اُنہیں بلوایا اور سارہ علیہا السلام کے متعلق پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ میری بہن ہے۔ پھر آپ سارہ علیہا السلام کے پاس آئے اور فرمایا کہ اے سارہ!

باپ دادا کے گناہوں کے لئے مجرم ٹھہرانا

خروج 5:20-6 – ”باپ دادا کے گناہوں کے بدلے مجرم ٹھہرانا لوگوں کے ساتھ بے انصافی ہے۔“

یہ آیت اِس بات پر زور دینے کے لئے مبالغہ آمیز زبان استعمال کرتی ہے کہ خدا کی نافرمانی کے بدلے سزا ملے گی اور وفاداری کے بدلے برکت ملے گی۔یہ کوئی قانونی اعلان نہیں ہے۔درحقیقت ہم توریت کے قانون میں اِس کے بالکل برعکس پاتے ہیں:

”بیٹوں کے بدلے باپ مارے نہ جائیں نہ باپ کے بدلے بیٹے مارے جائیں۔ہر ایک اپنے ہی گناہ کے سبب سے مارا جائے۔“
(استثنا 16:24)۔

چین جیسی بہت سی قدیم تہذیبوں میں بچوں کو اپنے باپوں یا دیگر افرادکے گناہوں کے بدلے مارا جاتا تھا،اِس لئے اُس زمانے میں یہ ایک
بنیادی تعلیم تھی۔

پھر بھی یہ نا قابل ِ انکار حد تک سچ ہے کہ ایک نسل کے گناہ کا پھل اکثر دوسری نسل کو بطور ”سزا“ کی صورت میں برداشت کرنا پڑتا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ اکثر کسی ایک شخص کے گناہوں کا اثر اُس کے بچوں کی زندگیوں پر ہوتا ہے،چاہے لوگ بے انصافی کی وجہ سے بدلہ لینا چاہیں یا گناہ آلودہ طرزِ زندگی کا انتخاب کرنے میں اُس کے نتائج کا سامنا کریں۔اگر باپ میں شراب نوشی یا تشدد کرنے کی عادات پائی جاتی ہیں،تو بچے بھی اِن تباہ کُن عادات کی طرف مائل ہوں گے۔یہ بات بڑی اچھی طرح حضرت داؤد بادشاہ کی زندگی میں نظر آتی ہے۔اُس کے گناہ اُس کے بچوں کی زندگیوں میں کام کرتے رہے۔ اُس کے ایک معصوم شخص (اوریّاہ)کو تلوار سے قتل کرنے کے گناہ کی وجہ سے خُدا تعالیٰ حضرت داؤد سے فرماتے ہیں کہ ’تیرے گھرسے تلوار کبھی الگ نہیں ہو گی‘ (قب 2 – سموئیل 10:12)۔جب ہم اگلے ابواب (2 -سموئیل 13ذیلی آیت) پڑھتے ہیں توہم اِسے حضرت داؤد کے بڑے بیٹے کی زندگی میں اور اُس کے بعد کی آنے والی نسلوں میں پورا ہوتے دیکھتے ہیں۔

اوریاہ کی بیوی بت سبع کے خلاف داؤد نبی کا گناہ

2- سموئیل 12،11 – بائبل مُقدس کیسے کہہ سکتی ہے کہ داؤد نبی نے اوریاہ کی بیوی بت سبع کے خلاف زنا کیا اور پھر اُسے چھپایا؟

دلچسپ امر یہ ہے کہ اِس واقعہ کا کچھ حصہ قرآن میں بھی ہے (21:38-24، 30)، اور بہترین مسلمان مفسر ہمیں بتاتے ہیں کہ اِن قرآنی آیات کی درست تشریح داؤد کا اوریاہ کی بیوی کو ناروا طور پر لے لینا تھا۔ مثلاً ابن عباس سورہ 23:38-24، 26 کے بارے میں لکھتے ہیں:

(ایک دُنبی) یعنی ایک بیوی، (سو یہ کہتا ہے کہ وہ بھی مجھے دے دے اور بات چیت میں دباتا ہے) یہ ایک تشبیہ ہے جس کی وجہ یہ تھی کہ داؤد کو سمجھ آ جائے اُنہوں نے اوریاہ کے ساتھ کیا کیا تھا (تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس)۔ source)

اسلامی ذرائع سے مزید ثبوت کے لئے یہاں کلک کریں

گو کہ یہ واقعہ واضح طور پر ایک بھیانک گناہ تھا، خدا تعالیٰ نے داؤد کی توبہ کو ہم تک انتہائی خوبصورت بائبلی حوالہ جات پہنچانے کے لئے استعمال کیا جو حقیقی توبہ اور ندامت کا اظہار کرتے ہیں:

میر مغنی کے لئے داؤد کا مزمور۔ اُس کے بت سبع کے پاس جانے کے بعد جب ناتن نبی اُس کے پاس آیا۔

اے خدا!