کیا حضرت عیسیٰ کو “خدا کا بیٹا” کہا جا سکتا ہے؟

حضرت عیسیٰ کو “خدا کا بیٹا” نہیں کہا جا سکتا؟
انجیل مُقدس پر سب سے زیادہ عام اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ حضرت عیسیٰ کے لئے بار بار “خدا کے بیٹے” کی اصطلاح استعمال کرتی ہے۔ جیسا کہ ہم مندرجہ ذیل سطور میں دیکھیں گے کہ انجیل مُقدس میں مذکور یہ اصطلاح ایک جسمانی تعلق (نعوذ باللہ) کی طرف نہ اشارہ کرتی ہے اور نہ کر سکتی ہے بلکہ یہ خالص طور پر ایک مجازی بیان ہے۔ اِس مضمون کے اختتام پر ہم دیکھیں گے کہ جب ہم عربی الفاظ کو درست سمجھ جائیں تو کیسے قرآنی تعلیم جو بظاہر حضرت عیسیٰ کے “خدا کے بیٹا” ہونے کا انکار کرتی ہے،حقیقت میں مُقدس انجیل کے ساتھ متفق ہے۔

مجازی علامتی زبان کو نہ سمجھنا
یہودی، مسیحی اور مسلمان سب نے کبھی کبھار اِس انداز میں خدا کے کلام کے کچھ الفاظ کو غلط طور پر سمجھا ہے۔ مثلاً ایک وقت ایسا تھا جب اسلام میں مشبہ اور زاہریہ کا یہ اعتقاد تھا کہ اللہ ایک جسم رکھتا ہے۔ اُنہوں نے محسوس کیا کہ اللہ جسمانی پہلوﺅں کا حامل ہے جیسے ہاتھ اور چہرہ۔ قرآن و حدیث میں سے ایسے حوالہ جات کی جو اللہ کو اپنے تخت پر بیٹھے یا محمد عربی کے کندھے پر اپنے ہاتھ کو رکھنے کو بیان کرتے ہیں لفظی تشریح کی گئی اور اُنہوں اِس اعتقاد کے ثبوت کے لئے پیش کیا گیا۔

تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ علمائے اسلام نے بتدریج محسوس کیا کہ ایسے حوالہ جات کو لفظی طور پر نہیں لینا چاہئے۔ دیگر واضح تر حوالہ جات کی گواہی سے یہ سمجھا گیا کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی جسم نہیں یا اُس کی کوئی جسمانی محدودیت نہیں ہے۔ تب یہ سمجھ آئی کہ ایسے حوالہ جات جیسے اوپر مذکور حوالہ ہے اِنہیں تشبیہاتی طور پر لینا چاہئے۔ اور ایک بار جب یہ بات سمجھ آ گئی کہ مخصوص حوالہ جات کو لازماً تشبیہاتی طور پر لینا ہے تو یہ واضح ہو گیا کہ کیسے دوسرے مشکل حوالہ جات کی تشریح و توضیح کرنی ہے۔ سو، حدیثوں کو جیسے ذیل میں تین مثالیں موجود ہیں، ایک لفظی تشریح کرتے ہوئے سمجھنا ناممکن تھا۔

نبی اسلام نے کہا:
حدیث 1 : کعبہ کا حجر اسود اللہ کا ہاتھ ہے۔
حدیث2 : ایک مسلمان کے دِل میں اللہ کی انگلیاں موجود ہیں۔
حدیث 3 : مجھے یمن سے اللہ کی خوشبو آتی ہے۔
(اسلامی درشن، ص 169)

لفظی تشریح کے ساتھ مندرجہ بالا حدیث کوسمجھنا مشکل ہے، تاہم اِسے ایک بالواسطہ ، تشبیہاتی تشریح کو مدنظر رکھتے ہوئے سمجھا جا سکتا ہے۔ ایسا کرنے سے دشواریاں ختم ہو جاتی ہیں اور حقیقی معنٰی فوراً سامنے آ جاتے ہیں۔

مندرجہ بالا نوعیت کی مذہبی غلط فہمیاں صرف قرآن اور حدیث تک محدود نہیں ہیں۔ تاریخ میں توریت، زبور اور انجیل کو بھی تشریح کے ایسے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اور غلط تشریح کی وجہ سے کئی غلط فہمیاں سامنے آئی ہیں۔

“خدا کا بیٹا” کے تشبیہاتی / مجازی معنٰی
بلاشک و شبہ ایسی سب سے زیادہ مشہور اور سنجیدہ غلط فہمی انجیل مُقدس میں اکثر استعمال ہونے والے الفاظ “خدا کا بیٹا” سے متعلقہ ہے۔ کچھ مثالوں میں یہ اصطلاح تمام یہودی قوم کی طرف اشارہ کرتی ہے، جبکہ کچھ مثالوں میں یہ سب ایمانداروں کے لئے استعمال ہوئی ہے، اور کچھ جگہوں پر یہ عیسیٰ مسیح کے لئے مستعمل ہے۔ آئیے کچھ لمحے اِس اصطلاح کا جائزہ لیں اور یہ جاننے کی سعی کریں کہ یہ کیسے استعمال ہوئی ہے اور حقیقت میں اِس سے کیا مراد ہے۔

اِس اصطلاح پر اعتراض کرنے والے افراد نے اِسے اِس کے لفظی معنٰی میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ایسا کرنے سے بہت سی سنجیدہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر اِسے لفظی طور پر لیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ خدا کی ایک بیوی تھی جو جسمانی طور پر بچے جنتی ہے (نعوذ باللہ)۔ تاہم، ایسی کفرگوئی پر مبنی سوچ انجیل مُقدس کی واضح تعلیم سے تضاد رکھتی ہے۔ انجیل مُقدس میں یسوع مسیح نے سکھایا کہ خدا ایک ہے اور اُس کا کوئی شریک نہیں۔ اِسی طرح انجیل مُقدس میں واضح طور پر سکھایا گیا ہے کہ خدا کا کوئی جسمانی بدن نہیں ہے بلکہ وہ ایک رُوح ہے۔ خدا کا ایک بیٹے کو جسمانی طور پر جنم دینے کا تصور کفرہے اور ناممکن ہے۔ اِس لئے جنہوں نے اِس اصطلاح کو لفظی طور پرسمجھنے کی کوشش کی ہے اُنہیں ویسی ہے ناقابل عبور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے جو اُن لوگوں کو پیش آتی ہیں جو قرآن و حدیث سے مندرجہ بالا حوالہ جات کی لفظی طور پر تشریح کرتے ہیں۔

دراصل، انجیل مُقدس کے پیروکاروں کا عالمگیر ایمان یہ ہے کہ اصطلاح “خدا کا بیٹا” کی تشریح مجازی معنٰی میں کرنی چاہئے۔ نہ صرف ایسی مجازی تشبیہاتی تشریح لفظی سمجھ کے مسائل و مشکلات سے بچاتی ہے، بلکہ اِس کی تائید کئی دوسرے عوامل سے بھی ہوتی ہے۔ آئیے اِس اصطلاح کے تشبیہاتی و علامتی معنٰی کو قبول کرنے کے لئے کچھ عوامل کا جائزہ لیں۔

“خدا کا بیٹا” زبور میں
سب سے پہلے، داﺅد کے مزامیر جو یسوع کے زمانے سے سینکڑوں برس پہلے لکھے گئے آنے والے “مسیح” کا اعلان کرتے ہیں اور یسوع مسیح کو “خدا کا بیٹا” بتاتے ہیں جسے خدا قوموں پر اختیار بخشے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ عبرانی زبان و ثقافت میں ایک بڑا بادشاہ اپنے نائب یا صوبائی نمائندے کو اپنا “بیٹا” کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔ سو، جب یسوع نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہا تو جو صحائف مُقدسہ کی درست سمجھ رکھتے تھے اُنہوں نے اِس بات پر اعتراض نہ کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مسیح کو “خدا کا بیٹا” کہا جائے گا کیونکہ وہ پہلے ہی اِس کے درست تشبیہاتی معنٰی “نائب” سے واقف تھے۔

“خدا کا بیٹا” یسوع کے لئے استعمال ہونے والا واحد تشبیہاتی لقب نہیں ہے ، بلکہ قرآن اور انجیل دونوں یسوع کو خدا کا “کلمہ” کہتے ہیں۔ یہاں واضح طور پر اِس لقب کو لفظی معنٰی میں ایک آواز، حرف یا لفظ کے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔ بلکہ اِس اصطلاح کو لازماً مجازی طور پر سمجھنا چاہئے۔ ایک لفظ لازمی طور پر رابطہ کا ذریعہ یا وسیلہ ہوتا ہے جو ایک فرد کے خیالات و خواہشات کو دوسرے سے پہنچاتا ہے۔ بالکل اِسی طرح یسوع خدا کا کلمہ تھے، نسل انسانی کے لئے خدا کے رابطہ کا ذریعہ۔ یسوع کے وسیلہ سے خدا اپنی سوچیں اور ارادے انسان پر ظاہر کرنے کے قابل تھا۔اب جبکہ یہ واضح ہے کہ یسوع کے ایک نام “خدا کا کلمہ” کو لازماً تشبیہاتی مجازی طور پر سمجھنا چاہئے، تو یہ سوچنا ہرگز غلط نہیں ہے کہ آپ کا ایک اَور نام “خدا کا بیٹا” بھی ویسے ہی لازماً مجازی طور پر سمجھا جانا چاہئے۔ ایسے خیال کی بھرپور تائید اَور جگہوں سے بھی ہوتی ہے۔

“باپ” اور “بیٹا” کے دیگر تشبیہاتی مجازی استعمال
یہ زباندانی کی ایک بنیادی حقیقت ہے کہ کسی کا “بیٹا” اور “باپ” کے الفاظ اکثر بالکل ویسے ہی مجازی معنٰی کے حامل ہوتے ہیں جیسے ہم نے بیان کیا ہے۔آئیں، سب سے پہلے ہم لفظ “باپ” کا جائزہ لیں اور اِس کے مختلف مجازی استعمال پر نگاہ ڈالیں۔ عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص قوم کا “باپ” ہے۔ اب کوئی بھی شخص اتنا احمق نہیں ہو گا کہ یہ سوچے کہ ایسے فرد کو “باپ” اِس لئے کہا گیا ہے کہ اُ س نے حقیقت میں اُس سرزمین کے ہر ایک شہری کو حقیقت میں جنا ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے ، اِس کے حقیقی و منطقی معنٰی مجازی ہیں۔ قوم کی آزادی و ترقی میں اُس فرد کے ادا کئے گئے نمایاں کردار کی بنا پر اُسے عزت و احترام کا یہ بڑا لقب دیا جاتا ہے کہ قوم کا باپ۔ اِس کا سادہ طور پر اشارہ اُس قریبی تعلق کی طرف ہوتا ہے جو ایسا فرد اپنے ملک کے ساتھ رکھتا ہے۔

اصطلاح “باپ” کا ایسا مجازی استعمال صرف انسانوں تک محدود نہیں ہے۔ ہمیں اِس کا استعمال خدا کے لئے بھی ملتا ہے۔ آخرکار، خدا سب چیزوں کاخالق، پروردگار اور بحال کرنے والا ہے۔ قرآن کی پہلی سورہ، سورہ فاتحہ الفاظ “‏ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَلَمِينَ” سے شروع ہوتی ہے۔اِس سورہ کی تفسیر کرتے ہوئے محمد عبدالحکیم اور محمد علی حسین لکھتے ہیں: کچھ مفسروں کا ماننا ہے کہ لفظ “رب” عربی زبان کے لفظ “اب” سے ماخوذ ہے جو لفظ “باپ” کا مادہ ہے۔ سو، “رب” کے حقیقی معنٰی باپ کے ہیں۔ ایک بار پھر یہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ کوئی بھی فرد اتنا احمق نہیں ہو گا کہ جیسے لفظ “رب” یہاں خدا کے لئے استعمال ہوا ہے اُسے لفظی و جسمانی طور پر باپ کے معنٰی میں سمجھے۔ جیسا کہ یہ خدا کی طرف اشارہ کرتا ہے تو اِس کے لازماً ایک مجازی روحانی معنٰی ہیں۔ خدا اپنی تمام مخلوق کا جسمانی باپ نہیں ہے۔ تاہم، اُس کی قوت و قدرت کے بغیر کچھ بھی خلق نہیں ہو سکتا تھا۔ اِس دنیا میں پیدا شدہ ہر مخلوق کے پیچھے وہی حقیقی تخلیقی قوت و قدرت ہے۔ وہ تمام دُنیا کا “رب” ، مجازی معنٰی میں باپ اور تخلیق کرنے والی قوت ہے۔

اگر ہم اِس حقیقت کو مزید شخصی سطح پر دیکھیں تو ہم لازمی نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اِس دُنیا میں پیدا ہونے والا ہر بچہ برا ہ راست خدا کی تخلیقی سرگرمی کا نتیجہ ہے۔ اولاد سے محروم کئی جوڑے ایسے ہیں جو یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے کہ جب تک خدا اپنی تخلیقی قوت کے ساتھ ہمیں اِس قابل نہیں بناتا بچہ حاصل کرنے کی ہماری اپنی کوششیں بیکار ہیں۔ ہم فخریہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک بچہ کے باپ یا خالق ہیں لیکن آخرکار ہمیں لازماً یہ اقرار کرنا ہے کہ ایسے القاب درست طور پر صرف خدا کو ہی دیئے جا سکتے ہیں۔ یہاں ہم لفظی یا جسمانی پدریت کی بات نہیں کر رہے بلکہ تخلیقی قوت اور قابلیت کی بات کر رہے ہیں۔ یوں جیسے اوپر مذکور قرآنی مفسروں کا نتیجہ ہے ویسے حقیقی طور پر خداتمام مخلوق بشمول انسانوں کا باپ ہے۔

آئیے، اب اصطلاح “بیٹا” کے مجازی و علامتی استعمال کا جائزہ لیں۔ ایسا ہی ایک استعمال قرآن میں سورہ البقرہ 2: 215 میں موجود ہے۔ اِس حوالہ میں ایک مسلسل سفر کرنے والے فرد کو “ابنِ السبیل” (راستہ کا بیٹا) کہا گیا ہے۔ ہم ایک بار پھر دیکھتے ہیں کہ ایک لفظی تشریح منطقی طور پر غلط ہو گی۔ ایک لفظی تشریح واضح طور پر ناممکن ہے۔ اِس کے حقیقی معنٰی مجازی ہیں۔ ایک فرد کا سڑک کے ساتھ اتنا قریبی تعلق ہے کہ اُسے اُس کا بیٹا کہا گیا ہے۔ ہم ایک بار پھر دیکھتے ہیں کہ “بیٹے” یا “باپ” کے مجازی استعمال میں قربت یا نزدیکی بنیادی بات ہے۔

انجیل مُقدس سے علامتی و مجازی معنٰی کا مزید ثبوت
مندرجہ بالا نتیجہ کی گواہی انجیل مُقدس بھی دیتی ہے۔ ایک حوالہ میں ہم پڑھتے ہیں کہ یسوع مسیح کچھ یہودی راہنماﺅں سے بات چیت کر رہے ہیں۔ وہ یہودی راہنما بڑے فخر سے یسوع کے سامنے یہ کہتے ہیں کہ وہ ابرہام کے فرزند ہیں۔ یسوع اُنہیں جھڑکتے ہیں کہ اگر وہ ابرہام کے فرزند ہوتے تو خدا کی مرضی پر ویسے ہی عمل پیرا ہوتے جیسے ابرہام نے اُس کی فرمانبرداری کی تھی۔بلکہ اِس کے برعکس وہ بدی کرنے کی کوشش میں تھے۔ اِس لئے یسوع نے یہ نتیجہ نکالا “تم اپنے باپ ابلیس سے ہو اور اپنے باپ کی خواہشوں کو پورا کرنا چاہتے ہو۔”

ایک جسمانی اور لفظی معنٰی میں وہ یہود ی یقیناً یہ کہنے میں درست تھے۔ وہ ابرہام کے جسمانی فرزند تھے۔تاہم، یسوع نے لفظی معنٰی سے ہٹ کر اِن الفاظ کے پیچھے چھپی گہری او ر بڑی اہمیت کو دیکھا۔ اُن یہودی لوگوں کے کاموں نے واضح طور پر دکھایا کہ روحانی طور پر وہ یہودی مرد ِ خدا ابرہام کے ساتھ قریبی تعلق اور وفاداری کے حامل نہ تھے بلکہ وہ شیطان اور اُس کی مغرورانہ باغی فطرت سے تعلق رکھتے تھے۔ اِس لئے اُنہیں “شیطان کے فرزند” کہہ کر مخاطب کرنا مکمل طور پر درست اور مناسب تھا۔

“باپ” اور “بیٹے” کی اصطلاحات کے اوپر مذکور عام مجازی و علامتی استعمال کا جائزہ لینے کے بعد ہم ایک ایسے درجہ پر ہیں جہاں ہم “خدا کا بیٹا” کے انجیلی استعمال کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر مثالوں میں ہے، بلاشبہ اِس کے ایک علامتی و روحانی معنٰی ہیں۔ یہ ایک فرد کے خدا کے ساتھ قریبی تعلق کو واضح کرنے کے لئے استعمال ہوئی ہے۔ جیسے شیطان کی راہنمائی میں چلنے والے فرد کو “شیطان کافرزند” کہا گیا ہے ویسے ہی جو خدا کے ساتھ ایک قریبی اور گہرا روحانی تعلق رکھتا ہے اور اُس کی راہنمائی میں چلتا ہے اُسے “خدا کا فرزند” یا “خدا کا بیٹا” کہا گیا ہے۔ اِس کی ایک مثال انجیل مُقدس میں موجود یہ حوالہ ہے: “کیونکہ اگر تم جسم کے مطابق زندگی گزارو گے تو ضرور مرو گے اور اگر رُوح سے بدن کے کاموں کو نیست و نابود کرو گے تو جیتے رہو گے۔ اِس لئے کہ جتنے خدا کے روح کی ہدایت سے چلتے ہیں وہی خدا کے بیٹے ہیں” (رومیوں 8: 13-14)۔

اِس لئے، اصطلاح “خدا کا بیٹا” کی انجیل مُقدس میں کوئی بھی جسمانی اہمیت نہیں ہے۔ یہودی قوم کو اُن کے ابتدائی ایام میں تب “خدا کا بیٹا” کہا گیا ہے جب یہ خدا کی فرمانبرداری میں زندگی بسر کر رہی تھی۔ تاہم اِس کے برعکس وہ یہودی جو بعد میں غرور و بغاوت میں خدا کی راہوں سے پھر گئے اُنہیں “ابلیس کے فرزند” کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے۔ تاہم ، انجیل مُقدس کے مطابق ایک فرد چاہے وہ یہودی ہے یا غیر یہودی، اگر وہ اپنی اندرونی خود غرض خواہشات کو مصلوب کرتا ہے اور خدا کی پیروی کرتا ہے تو وہ “خدا کا بیٹا” ہے۔

یوں ہم بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ کیوں یہ اصطلاح اکثر یسوع کے لئے استعمال ہوئی ہے، جو خدا کی فرمانبرداری اور اُس پر انحصار اور اُس کے ساتھ قریبی تعلق کے لحاظ سے ہمارے تجربہ سے کہیں بڑھ کر ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ یہ لقب اُن الزمات سے قطعی پاک ہے جو اِس کے خلاف پیش کئے جاتے ہیں۔ یقیناً اِس کا مطلب خدا کے ساتھ کسی بھی طرح کا جسمانی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی اِس سے مراد خدا کی کوئی جسمانی صفات ہیں۔ بلکہ اِس سے مراد سب چیزوں کے واحد خالق اور سنبھالنے والے کے ساتھ ایک گہرے روحانی تعلق میں زندگی بسر کرنا ہے۔

کیا قرآن “خدا کا بیٹا” کا انکار کرتا ہے؟
یہاں، بہت سے لوگ سوال کر سکتے ہیں کہ کیا “خدا کا بیٹا” کے خلاف قرآنی بیانات کی اِس اصطلاح کے انجیلی استعمال کے ساتھ کوئی وضاحت ہو سکتی ہے۔ آئیں، ہم قرآن میں اِن بیانات کا جائزہ لیں۔ لیکن سب سے پہلے ہمیں بیٹے کے لئے دو عربی الفاظ میں تمیز کرنا ہو گی: “ابن” اور “ولد”۔

“ابن” ایک وسیع اصطلاح ہے جو اکثر ایک علامتی، غیر طبعی معنٰی کی حامل ہو سکتی ہے جیسے “ابنِ السبیل” (راستہ کا بیٹا، سورہ بقرہ 2: 215)۔ جیسے بائبل مُقدس میں یسوع کے لئے “بیٹا” (ہُیاس) کا لفظ استعمال ہوا ہے اُس کا درست عربی ترجمہ “ابن” ہے جو عبرانی کے لفظ “بن” سے تعلق رکھتا ہے۔

“ولد” کی اصطلاح ایک ایسے بیٹے کی طرف اشارہ کرتی ہے جو جنسی تعلق کے نتیجہ میں پیدا ہوا۔ خدا کے ساتھ یسوع کے تعلق کو بیان کرنے کے لئے یہ اصطلاح انتہائی نامناسب ہے۔

اب آئیے اُن قرآنی آیات کو دیکھیں جو اِس موضوع سے متعلق ہیں:

“اور یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے (فرشتوں کو ) اولاد (ولد)بنا رکھی ہے، وہ (اللہ) اِس سے پاک ہے، بلکہ (وہ فرشتے اُس کے ) بندے ہیں۔” (سورہ الانبیا 21: 26)
“اگر اللہ کسی کو اپنا بیٹا(ولد) بنانا چاہتا تو اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا منتخب کر لیتا۔ وہ پاک ہے وہی ہے اللہ جو اکیلا ہے بڑا زبردست ہے۔ ” (سورہ الزمر 39: 4)

“اور یہ کہ ہمارے پروردگار کی شان بہت بلند ہے وہ نہ بیوی رکھتا ہے نہ اولاد (ولد)۔ ” (سورہ الجن 72: 3)

“وہی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، اُس کے اولاد (ولد)کہاں سے ہو جبکہ اُس کی بیوی ہی نہیں اور اُس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے۔” (سورہ الانعام 6: 101 ; 2: 116 ; 10: 68 ; 17: 11 ; 18: 4 ; 19: 35، 88، 91-92 ; 23: 91 ; 25: 2)

مندرجہ بالا آیات سے واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن “بیٹے” کے اُس تصور سے فرق بات کر رہا ہے جسے انجیل مُقدس بیان کرتی ہے۔ قرآ ن “بیٹے” کو لفظی، جسمانی فرزند کے طور پر بیان کرتا ہے جو ایک بیوی سے جسمانی تعلق سے پیدا ہو۔ قرآن لازماً عرب میں رہنے والے اُن بھٹکے ہوئے نام نہاد مسیحیوں کو ملامت کر رہا تھا جوغلط فہمی کا شکار تھے اور کہتے تھے کہ عیسیٰ خدا کا “ولد” تھے جو خدا کے مریم کے ساتھ جسمانی تعلق کی وجہ سے پیدا ہوئے (نعوذ باللہ)۔ ایسے بدعتی خیال کو نقایہ کی کونسل میں یسوع پر ایمان رکھنے والوں سے بڑی سختی سے رد کیا۔ یسوع پر حقیقی ایمان رکھنے والے سب افراد قرآن کے ساتھ متفق ہیں کہ “وہ نہ بیوی رکھتا ہے اور نہ ولد” اور یہ کہ ایسا تصور گمراہ کن تصور ہے۔

بیان کی گئی حقیقت کہ قرآن انجیلی سچائی کی تصدیق کرتا ہے اور انجیل مُقدس بار بار “خدا کا بیٹا” کے علامتی و تشبیہی تصور کو استعمال کرتی ہے،واحد بیان کردہ ایسی یکساں وضاحت ہے جو قرآن و انجیل دونوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اخذ کی گئی ہے۔

کیا حضرت عیسی المسیح صلیب پر مصلوب ہوئے؟

کیا حضرت عیسی المسیح صلیب پر مصلوب ہوئے؟

وہابیوں کے تعاون سے چلایا جانے والے ”peace TV“ ٹیلی وژن چینل کے ذریعے ڈاکٹر ذاکر نائیک اور احمد دیدات کی نظریات حال ہی میں پورے بھارت میں بڑی تیزی سے پھیلے ہیں۔اُس کے بہت سے پروگرامز اچھی تعلیمات دیتے ہیں جیسے کہ میانہ روی کو فروغ دینا،خدا کا خوف رکھنا،اور صحائف کا مطالعہ کرنا۔تاہم،یہ پروگرامز کچھ غلط قادیانی اور وہابی نظریات بھی پھیلارہے ہیں جو صحائف کو درست طریقے سے اُس طر ح پیش نہیں کر رہے جیسے کہ حقیقت میں جو کچھ صحا ئف بیان کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر ذاکر نائیک اور احمد دیدات سیدنا عیسیٰ المسیح کی موت کے بارے میں ایک قادیانی نظریہ پیش کرتے ہیں جسے ”بے ہوش ہونے کا نظریہ“کہا گیاجو سب سے پہلے مغربی لادینوں نے ایجاد کیا اور بعد میں قادیانیوں کے ذریعے مسلمانوں میں متعارف ہوا۔تقریباً تمام علما حتیٰ کہ مسیحیت کے نقادوں نے بھی اِس نظریے کو ملامت کیا ہے،اور اِس نے صحائف کی سچائی کوچھپانے کی کوشش کی ہے۔

اِس مضمون میں ہم یہ دیکھیں گے کہ اِس اہم سوال کے بارے میں قرآن مجید،انجیل شریف اور تاریخ دراصل کیا کہتی ہے کہ کیا سید نا
عیسیٰ المسیح مصلوب ہوئے تھے؟ہم درج ذیل سوالات کی ترتیب سے بات کریں گے:

  1. کیا قرآن شریف اِس بات سے انکار کرتا ہے کہ سید نا عیسیٰ المسیح صلیب پر مؤئے تھے؟
  2. کیا قادیانیوں کا بے ہوشی کانظریہ درست ہو سکتا ہے؟
  3. کیا انجیل شریف حقیقت میں یہ کہتی ہے کہ حضرت عیسیٰ المسیح مصلوب ہوئے تھے؟
  4. کیا مصلوبیت توریت شریف اور انجیل شریف کے مطابق درست ثابت ہوتی ہے؟
  5. کیا ذاکر نائیک کے دلائل سچے ہیں؟
  6. تاریخی شہادت کیا کہتی ہے؟

خاکہ:

حِصّہ اوّل: اسلا م اور قر آن کیا کہتا ہے؟
حضرت عیسیٰ المسیح کی موت کا اسلامی نظریہ
کیا قرآن شر یف واقعی سید نا عیسیٰ المسیح کی مصلوبیت کا انکار کرتا ہے؟
سوان نظریہ (المسیح کے بے ہوش ہونے کا نظریہ)

حِصّہ دوم: انجیل شریف کیا کہتی ہے؟
انجیل شریف میں بارہ ناقابل ِ انکار بیانات کہ حضرت عیسیٰ المسیح صلیب پر مرے تھے
ذاکر نائیک کی ناقابل ِ چیلنج گستاخی

حِصّہ سوم:توریت شریف اور زبور شریف کیا کہتی ہیں؟
توریت شریف اورزبور شریف میں پہلے سے مذکور مصلوبیت
کفارہ اور قربانی
آخری قربانی
صحائف میں حضرت عیسیٰ المسیح کی موت کی پیشین گوئیاں
سید نا عیسیٰ المسیح کی اپنی موت کے بارے میں پیشیں گوئیاں

حِصّہ چہارم:ذاکر نائیک کوباطل ثابت کیا
یسوع المسیح کے شاگردوں کی مصلوبیت کے بارے گواہی
ایک جی اُٹھا بدن
پہلا نشان: تباہ شدہ ہیکل
دوسرا نشان: یوناہ کا نشان
تاریخی اندراج

نتیجہ


 

حِصّہ اوّل

اسلام اور قرآن مجید کیا کہتا ہے؟

حضرت عیسیٰ المسیح کی موت کا اسلامی نظریہ

ذاکر نائیک کچھ یوں دکھانے کی کوشش کرتا ہے کہ اسلام اور قرآن شریف دونوں مصلوبیت کا انکار کرتے ہیں مگر ایسا نہیں ہے۔ ذاکر نائیک کی وضاحت دراصل ایک غلط نظریہ ہے جو مغربی لا دینوں نے حال ہی میں ایجاد کیا اور قادیانیوں کے ایک بدعتی گروہ کے ذریعے اسلام میں متعارف ہوا۔جدید دور کے بہت سے مسلمان یہ سوچتے ہیں کہ اسلام یہ سکھاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ المسیح مرے نہیں تھے بلکہ اُن کا جسم ِمبارک زندہ آسمان پر اُٹھالیا گیا تھا۔دراصل بڑے بڑے مفسرین (اسلامی مبصّرین)جیسے کہ ا لطبر ی اور الرازی کہتے ہیں کہ سید نا عیسیٰ المسیح کی موت کو قبول کرنا دراصل قرآن شریف کی ایک متواتر وضاحت ہے :

””عیسیٰ!

کسی اَور کا بوجھ اُٹھانا؟

”حضرت عیسیٰ ہمارے گناہوں کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتے،کیونکہ قرآن فرماتا ہے:’کوئی شخص دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا،
(38:53)“

ْْْقرآن کو اکثر اُن لوگوں نے جو اِس کے معنی سے واقف نہیں ہیں حضرت عیسیٰ مسیح کے عوضی کفارے کا اِنکار کرنے کیلئے غلط اِستعمال کیا ہے،

”جو باتیں موسیٰ کے صحیفوں میں ہیں اُن کی اس کو خبر نہیں پہنچی اور ابراہیم کی جنہوں نے (حق طاعت و رسالت)پورا کیا،’کوئی شخص دوسرے (کے گناہ)کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا‘(36:53)“

جو کوئی بُرا کام کرتا ہے تو اُس کا ضرر اُسی کو ہوتا ہے اور کوئی شخص کسی دوسرے کا گناہ کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا،(قرآن 164:6)


جیسے کہ قرآن یہ فرماتا ہے تو یہ توریت شریف (عبرانی صحائف)سے ہی اقتباس کرتا ہے:

”بیٹا باپ کے گناہ کا بوجھ نہ اُٹھائے گا اور نہ باپ بیٹے کے گناہ کا بوجھ۔صادق کی صداقت اُسی کے لئے ہو گی اور شریر کی شرارت شریر کے لئے۔“(حزقی ایل،20:18)


جب ہم اِس آیت کے سیاق و سباق کا جائزہ لیتے ہیں تو اِس بیان کا مقصد واضح ہو تا ہیں – یہ براہ ِ راست فرزندانہ ذمہ داری سے منع کرتا ہے،جو کہ ایک قدیم قانونی نظریہ ہے کہ ایک شخص کواپنے باپ یا بیٹے کے گناہ کی خاطر سزا دی جا سکتی ہے۔وسیع النظری میں یہ کسی شخص کو زبردستی کسی اَور شخص کے گناہ کے نتائج بھگتنے سے بھی منع کرتا ہے (حضرت عیسیٰ مسیح کے رضاکارانہ عوضی ہونے کے برعکس)۔


واقعی،ہم اِسے ایک عالمگیر اور حتمی اُصول کے طور پر نہیں لے سکتے:


1۔ قرآن خود اِس خاص اُصول کے عالمگیرانہ اطلاق سے تضاد رکھتا ہے۔ایسے شریر لوگوں کی بات کرتے ہوئے جو ناواقف لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں،قرآن فرماتا ہے:

”یہ قیامت کے دن اپنے (اعمال کے)پورے بوجھ بھی اُٹھائیں گے اور جن کو یہ بے تحقیق گمراہ کرتے ہیں اُن کے بوجھ بھی (اُٹھائیں گے) سن رکھو کہ جو بوجھ یہ اُٹھا رہے ہیں بُرے ہیں۔“(25:16)


اگر ہم (جھوٹ موٹ)اُصول کوعام اُصول کی بجائے حتمی قرار دیں تویہ براہ ِ راست 13:17-15 اور 38:53-42 سے تضاد رکھتا ہے
اِسی طرح تنویر المقباس من تفسیرابن عباس میں سورۃ 24:8-25 کی تفسیر میں لکھاہے:

(اور اس فتنہ سے ڈرو)کسی بھی فتنہ سے جو واقع ہو سکتا ہے (جو خصوصیت کے ساتھ اُنہی لوگوں پر واقع نہ ہو گا جو تم میں گناہ گار ہیں)بلکہ اِس کی بجائے وہ گناہ گاروں او رجس کے ساتھ بے اِنصافی ہوئی دونوں پر واقع ہو گا (او رجان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے)جب وہ سزا دیتا ہے۔


اگر ہم اِس اُصول کی پیروی کرتے ہیں کہ قرآن کے مختلف حصے ایک دوسرے کی وضاحت کرتے ہیں،تو ہمیں اِس نتیجے پر پہنچنا ہو گا کہ یہ اُصول حتمی نہیں ہے لیکن وسعت میں محدود ضرور ہے۔


2۔ مزید یہ کہ یہ اُصول حضرت آدم پہلے ہی توڑ چکے ہیں۔ قرآن اور کتاب مقدس دونوں یہ بتاتے ہیں کہ حضرت آدم کے گناہ کے نتیجے میں پوری نسل ِ انسانی اب مزید کامل جنت میں نہیں رہ سکتی تھی مگر زمین پر زندگی بسر کرنے اور مرنے کے لئے سزاوار ٹھہری۔دوسرے الفاظ میں،ہم سب کو بھی کسی اَور کے گناہ کے نتائج بھگتنے تھے جسے ہم جنت سے بے دخل کئے جانے اور موت کا نام دیتے ہیں۔


حضرت آدم کے خدا کے اِس عام اُصول سے مُستشنیٰ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ خدا تعالیٰ نے حضرت آدم کو مقرر کیا کہ اِنسانیت کے تعلق سے ایک منفرد کردار رکھیں۔ حضرت آدم کی مانند حضرت عیسیٰ خدا تعالیٰ کی مرضی سے انسانیت سے ایک منفرد تعلق رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جیسے قرآن بیان کرتا ہے، کتاب مقدس بھی اُسے دوسرا آدم کہتی ہے (”عیسیٰ کا حال خدا کے نزدیک آدم کا سا ہے“(قرآن 59:3)۔
انجیل شریف کچھ یو ں بیان کرتی ہے:

”جیسے آدم میں سب مرتے ہیں ویسے ہی مسیح میں سب زندہ کئے جائیں گے“(۱-کر نتھیوں 22:15 اور 45:15 بھی دیکھئے)۔


جیسا کہ ہمارا حضرت آدم کے ساتھ ایک منفرد تعلق ہے،اُسی طرح ہم حضرت عیسیٰ مسیح کے ساتھ بھی ایک منفرد تعلق رکھ سکتے ہیں۔

اِس بات کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد کے لئے کہ کس طرح انصاف کے ایک اچھے اُصول کو محض نظر انداز کیا جا سکتا ہے،ہم اِس کا ایک اَور الہٰی اُصول کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں -”قتل نہ کرنا“۔یہ حکم کہ قتل نہ کرنا ایسے نظر انداز ہوسکتا ہے کہ جب ایک اعلیٰ ترین منصف کسی شخص (جلاّد) کو موت کی سزا دینے کے لئے مقرر کرے۔یہی بات کسی اَو رکا بوجھ نہ اُٹھانے کے اُصول پر صادق آتی ہے –
یہ صرف اُسی وقت مُستشنیٰ قرار دیا جا سکتا ہے جب اعلیٰ منصف (خدا تعالیٰ)کسی کو اُس خاص کام کے لئے مقرر کرے(عیسیٰ مسیح)

ایک اَور وجہ کہ حضرت عیسیٰ یہ عام طریقہ کار کیوں توڑتے یہ ہیں کہ تمام نسل ِ انسانی میں صرف و ہی بے گناہ ہیں۔خدا کے انصاف میں گناہ
دوسرے گناہ گار پیروں،مقدسین یا پاک لوگوں سے دعا کرنے سے معاف نہیں ہوسکتے،چاہے وہ کتنے ہی پاک باز اشخاص کیوں نہ ہوں،وہ تب بھی گناہ سے داغ دار ہیں۔چونکہ صرف حضرت عیسیٰ مسیح ہی کامل طور پر گناہ سے مبّرا ہیں اِس لئے صرف وہی خدا کی مرضی سے رضاکارانہ طورپر دوسرے کے گناہ کا بوجھ اُٹھانے کا حق رکھتے ہیں۔

آخر ی بات یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ مسیح کا عوضی کفارہ کتابِ مقدس کی نا قابل ِ انکارگواہی ہے جو باربار نہ صرف انجیل شریف میں بلکہ توریت شریف میں بھی دہرائی گئی ہے۔ہم اِس بات کا انکار کرنے کا چناؤکر سکتے ہیں کہ کوئی بھی دوسرے شخص کے گناہ کا بوجھ اُٹھا سکتا ہے لیکن اِس سے ہم جہنم کے سزاوار اور خدا کے رحم اورمعافی کے ذریعے کو ردّ کرنے والے ٹھہرتے ہیں۔ ہمیں خدا کے نجات کے انعام کو اچھے طریقے سے قبول کرنا ہو گا۔

دوسرا گال پھیرنا

متی 38:5-39 -”بے انصافی کے سامنے دوسرا گا ل پھیرنا حماقت اور غیر منصفانہ عمل ہے۔“

کچھ نے یہ بحث کی کہ وہ امن پسندی جس کا حضرت عیسیٰ مسیح دعویٰ کرتے ہیں وہ قابل ِ مذمت ہے۔یہ ایک دلچسپ دعویٰ ہے،خاص طور پرجیسے کہ پچھلے چند سالوں میں دنیانے جنگ او ردہشت گردی کے تباہ کُن نتائج کو دیکھا ہے۔ہم اِس حقیقت کے گواہ رہ چکے ہیں کہ مذہب کے نام پر جنگ،عسکری قوت،دہشت گردی اور بڑھتی ہوئی قومیت نے صرف دنیا کو دُکھ اور تکلیف،غم اور مصیبت ہی دی ہے۔جو مسائل دنیا کو درپیش ہیں جنگ اُن کا حل نہیں نکالتی۔اگر جنگ دنیا کے حالات کو بہتر نہیں بنا رہی تو کیا ہم دوسرے متبادل ذرائع پر غور نہیں کر سکتے؟

یہ آیات جن کا ذِکر اوپر کیا گیا ہے اِن سے پہلے،حضرت عیسیٰ مسیح نے فرمایا،”مبارک ہیں وہ جو صُلح کراتے ہیں کیو نکہ وہ خدا کے بیٹے کہلائیں گے“(متی 9:5)۔صلح کرانے والوں کو ”خدا کے بیٹے“ کیوں کہا گیا ہے؟کیوں کہ خُدا تعالیٰ ہی تمام امن کا وسیلہ ہیں اور وہ جو امن لانے کے لئے کام کرتے ہیں وہ اپنے کردار میں خُدا تعالیٰ کی مانند ہیں۔

انجیل مقدس یہ تعلیم دیتی ہے کہ عدالت کے روز خُدا تعالیٰ واقعی بے انصافی کا بدلہ لے گا لیکن گناہ آلودہ،خطا کار بنی نوعِ انسان ہوتے ہوئے،ہمیں بدلے کو خُدا تعالیٰ کے ہاتھ میں چھوڑ دینا چاہئے۔ انصاف کو یقینی بنانا حکومت کا کام ہے لیکن ایمان داروں کو بِنا تشددکے مزاحمت،سچائی اور مضبوط دلیری سے بُرائی کی مخالفت کرنے کو کہا گیا ہے نہ کہ بم دھماکوں اور دہشت گردی سے۔ہم آدمیوں کے ضمیر سے اپنے مضبوط اور بے خوف ایمان کے ساتھ درخواست کرتے ہیں کہ طاقت سے زیادہ مضبوط سچائی ہے،جوبدی کے آگے، موت کے سامنے بے خوف رہنا ہے۔حضرت عیسیٰ مسیح کے پیروکاروں میں امن پسند شہادت کی روایت قائم ہے جو اپنے دشمنوں کی محبت سے بھری ہوئی ہے جس نے بے شمار لاکھوں زندگیوں کو مسیح کی راہ اختیار کرنے کی جانب مائل کیا۔

حضرت عیسیٰ مسیح نے فرمایا،”اپنا اطمینان تمہیں دیتا ہوں۔جس طرح دنیا دیتی ہے مَیں تمہیں اُس طرح نہیں دیتا۔“انسانوں کے قائدین نے طاقت کے ایک خونریز انقلاب کے بعدایک پُرامن ریاست قائم کرنے کا وعدہ کیا مگر اُنہوں نے خونریزی کے علاوہ کچھ حاصل نہ کیا۔حضرت عیسیٰ مسیح یہاں او رابھی ایک مختلف قسم کا امن پیش کرتے ہیں۔موت اور تباہی فتح تو لاسکتی ہیں مگر وہ انصاف یا امن کبھی نہیں لائیں گی۔

یہ دُنیا جس نے مذہب کے نام پر جنگ کا پھل دیکھا ہے؛ہم جانتے ہیں کہ صرف حضرت عیسیٰ مسیح کی باتیں ہی بے انصافی اور تباہی کے سلسلے کو ختم کرنے کا مناسب جواب ہیں۔ حضرت عیسیٰ مسیح کی قیمتی تعلیمات نے بے شمار لوگوں کو آپ کا شاگرد بننے کی طرف مائل کیا۔

تم الٰہ ہو؟

یوحنا 34:10 – کیسے یسوع اور زبور کہہ سکتے ہیں کہ ’تم خدا ہو“؟

یسوع یہاں زبور 82:6 کا اقتباس کر رہا تھا، سو آئیے یہ سمجھنے سے آغاز کریں کہ یہ زبور کیا بیان کر رہا ہے۔ لیکن پہلے ہمیں اِس بات کی وضاحت کرنی چاہئے کہ اِس حوالہ میں ”خدا“ کے لئے استعمال ہونے والا لفظ ”ایلوہیم“ ہے جس کا اکثر معنٰی منصف بھی ہے۔ لفظ ”خداوند“ بھی ایسے ہی معنٰی کا حامل ہے، یہ خدا کے لئے اور صاحب اختیار افراد کے لئے بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ تاہم، عبرانی میں خداکا شخصی نام ”یہوہ“ ہمیشہ صرف خدا کے لئے استعمال ہوا ہے، کبھی لوگوں کے لئے استعمال نہیں ہوا۔

یہاں زبور 82 دیا گیا ہے:

خدا کی جماعت میں خدا موجود ہے۔
وہ الہٰوں (ایلوہیم، منصفوں) کے درمیان عدالت کرتا ہے۔
تم کب تک بے انصافی سے عدالت کرو گے
اور شریروں کی طرفداری کرو گے؟
غریب اور یتیم کا انصاف کرو۔
غمزدہ اور مُفلِس کے ساتھ انصاف سے پیش آؤ۔
غریب اور محتاج کو بچاؤ۔
شریروں کے ہاتھ سے اُن کو چھڑاؤ۔
وہ نہ تو کچھ جانتے ہیں نہ سمجھتے ہیں۔
وہ اندھیرے میں اِدھر اُدھر چلتے ہیں۔
زمین کی سب بنیادیں ہل گئی ہیں۔
میں نے کہا تھا کہ تم الٰہ (ایلوہیم، خدا /منصف) ہو
اور تم سب حق تعالیٰ کے فرزند ہو۔
تَو بھی تم آدمیوں کی طرح مرو گے۔
اور امرا میں سے کسی کی طرح گر جاؤ گے۔
اے خدا!

اللہ تعالیٰ کو آرام کی ضرورت نہیں

پیدایش 2:2-3 -”اللہ تعالیٰ کو آرام کی ضرورت نہیں؛جیسے کہ قرآن بتاتا ہے (سورۃ 38:50)!“

کتاب مقدس واضح بتاتی ہے کہ خُدا تعالیٰ تھکتا نہیں یا اُسے آرام کی ضرورت نہیں۔”تیرا محافظ اُونگھنے کا نہیں۔دیکھ اسرائیل کا محافظ نہ
اُونگھے گا نہ سوئے گا“(زبور شریف 3:121-4)۔”خداوند خدائے ابدی و تمام زمین کا خالق تھکتا نہیں او رماندہ نہیں ہوتا۔اُس کی حکمت
اِدراک سے باہر ہے“(یسعیاہ 28:40)۔آرام کے لئے عبرانی اصطلاح بھی یہی لغوی معنی رکھتی ہے،”ختم کر نا،”رُکنا۔“

قرآن اللہ تعالیٰ کے ”چہرے‘(سورۃ الرحمن27,26:55)،اُس کے ہاتھ (سورۃالفتح 10:48)،اُس کی آنکھ(سورۃ طہٰ
36:20-39)،اُس کے تخت(سورۃالحدید 4:57)؛وہ”بھولتا ہے“(سورۃ الاعراف51:7)‘ کا ذکر کرتے ہوئے اُس کے لئے بالکل علم الانسانی (انسانوں کی مانند)جیسی زبان استعمال کرتا ہے۔اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اُس میں انسانی خصوصیات ہیں بلکہ اِس کے بجائے خُدا تعالیٰ انسانی وضاحتیں استعمال کرتے ہوئے انسانی زبان میں بات کرتا ہے جو محدود انسان کے لئے بعیداز فہم کو سمجھنے کی اجازت دیتا ہے۔

کیا حضرت عیسیٰ کو خداوند کہا جا سکتا ہے؟

”جیسے کہ انجیل شریف بیان کرتی ہے،حضرت عیسیٰ کو’خداوند‘ نہیں کہا جا سکتا۔“

جیسے کہ قرآن سکھاتا ہے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی خداوند (”ربّ“)نہیں ہے،تو بہت سے لوگ انجیل شریف کے حضرت عیسیٰ مسیح کو
”خداوند“ کا لقب دینے پر اعتراض کریں گے۔یہ غلط فہمی پر مبنی ہے،کیونکہ قرآن سورۃ 10:89میں خود فرعون کو ”خداوند“ کہتا ہے –

”اور فرعون کے ساتھ (کیاکیا)جو خیمے اور میخوں کا ملک تھا۔“

”خداوند“محض ایک عزت اور اطاعت کا ایک لقب ہے چاہے وہ کسی آقا،بادشاہ یاحتمی طور پر خُدا تعالیٰ کے لئے ہو۔بے شک،حتمی لحاظ سے خُدا تعالیٰ ہی واحد اور حتمی ”خداوند“ ہے۔

تاہم، جناب عیسیٰ مسیح کے پاس ”خداوند“ کا لقب رکھنے کا خاص دعویٰ ہے۔حضرت عیسیٰ مسیح کی پیدایش سے سیکڑوں سال پہلے،زبور شریف کی تحریروں میں آنے والے مسیحا (مسیح)کو ایک ایسی ہستی کے طور پر بیان کیاگیاہے جسے خُدا تعالیٰ کی طرف سے ”کل زمین کا اختیار“ملا ہے
(زبور شریف 8:2)۔ دوسرے الفاظ میں،آنے والا مسیحا کوکسی خلیفہ یا نائب کی مانند ہو نا تھا،جو مکمل طور پر خُدا تعالیٰ کا فرماں بردار تھا مگر تب بھی خُدا تعالیٰ کی طرف سے بنی نوع ِانسان پر پور ااختیار رکھنے والا تھا۔حضرت عیسیٰ مسیح نے مُردوں میں سے جی اُٹھنے سے شیطان کے کام کو شکست دینے کے بعد اپنے شاگردوں سے کہا،

”آسمان اور زمین کا کُل اختیار مجھے دیا گیا ہے۔“(متی کی انجیل 18:28)

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنا شاندار اختیار حضرت عیسیٰ مسیح کو عنایت کیا ہے۔وہ انجیل شریف اور قرآن شریف کے مطابق ”کلمتہ اللہ“ کا منفرد لقب بھی رکھتے ہیں۔دوسرے الفاظ میں،حضرت عیسیٰ مسیح تمام بنی نوعِ انسان کے دیکھنے کے لئے خُدا تعالیٰ کی مرضی کا زندہ اظہار یا پیغام ہیں۔ مزید یہ کہ وہی واحد کُلّی طور پر بے گناہ انسان ہیں،اِس لئے وہی وہ واحد شخصیت ہے جس کی کُلّی طور پر پیروی یا تقلید کی جانی چاہئے۔

اِن تمام وجوہات کی بِنا پر یہ حضرت عیسیٰ مسیح کے لئے بالکل درست ہے کہ اُنہیں ”خداوند“ کہا جا ئے کیونکہ انجیل شریف میں اُنہیں باربار یہ کہا گیا ہے۔ہمیں خُدا تعالیٰ کے مقدس صحائف کے مطابق اپنی سمجھ کی تعمیرکرنی چاہیے، اور خُدا کے کلام کو اپنے خیالی تصوارات سے رد نہیں کرنا چاہیے۔