یعقوب یا عیلی؟

متی 16:1 – ”یعقوب(متی 16:1)یا عیلی (لوقا23:3)کون یوسف کا باپ اور حضرت مریم کا شوہر تھا؟“

متی مسیح کے نسب نامے کو اُس کے قانونی باپ یوسف سے شروع کر کے حضرت داؤدکے بیٹے حضرت سلیمان تک لے جاتا ہے جبکہ لوقا نسب نامے کو اُن کی حیاتاتی ماں حضرت مریم سے لے کر حضرت داؤد کے بیٹے ناتن تک لے جاتا ہے۔دونوں نسب ناموں کے اِرد گرد کے متن پر نظر کرتے ہوئے پتاچلتاہے کہ متی یوسف کے پس منظر پر دھیان دیتا ہے جب کہ لوقا کنواری سے پیدایش کے واقعے کو پوری طرح مقدسہ مریم کے نقطہء نظر سے بتاتا ہے۔ایک منطقی سوال پھر یہ اُبھرتا ہے،’لوقاکے نسب نامے میں یوسف کوعیلی کا بیٹا کہا گیا ہے نہ کہ مقدسہ مریم کو؟‘ اِس بات کے لئے چار شہادتیں موجود ہیں:

لوقا صرف مردوں کے ذِکر کرنے کی عبرانی روایت کی سختی سے پیروی کرتا ہے؛ایک کنواری سے پیدایش کسی نہ کسی طرح ایک بد وضع حالت
ہے! اِس لئے اِس سلسلے میں مقدسہ مریم کا اُن کے شوہر کے نام سے ذِکرکیا گیا ہے۔یونانی متن (لغوی طور پر یہ ہے ”یوسف عیلی کا“)میں ”بیٹا“کا لفظ نہیں ہے اگرچہ یہی مفہوم لیا جاتا ہے۔

یروشلیمی تالمود میں جو ایک یہودی ذریعہ ہے جو مقدسہ مریم کو عیلی کی بیٹی کہتے ہوئے اِسے اُس کے نسب نامے کو مانتی ہے(Hagigah 4:2)۔

ثبوت کی آخری کڑی یہ ہے کہ لوقا کے نسب نامے کے یونانی متن میں سوائے یوسف کے ہر شخص کے نام سے پہلے حرف ِتعریف آتا ہے(مثلاً’the’ Heli, ‘the’ Matthat)۔اگرچہ یہ انگریزی تراجم میں ظاہر نہیں ہوتا،مگر یہ بات ہر یونانی پڑھنے والے کو چونکا دے گی جو یہ جان جائے گا کہ یہ یوسف کی بیوی کی نسل تک پہنچتی ہے،اگرچہ اُس کا نام استعمال ہوا ہے۔یہ حقیقت کہ سیالتی ایل اور زُربابل کے نام دونوں نسب ناموں میں آتے ہیں،یہ ثابت نہیں کرتی کہ وہ ایک جیسے ہیں کیونکہ یہ نام بہت عام تھے۔مردوں کے دیگر عام نام جیسے کہ یوسف،یہوداہ اِسی طرح ایک ہی فہرست میں دہرائے گئے ہیں (لوقا30,26:3)۔یہ واضح ہے کہ متی کا نسب نامہ ”باپ“ کو”دادا“ یا ”جانشین“ کی جگہ مجازی معنوں میں استعمال کرتا ہے۔اُس وقت متی کی یہودی ثقافت میں اِس کا عام استعمال ہوتا تھا۔مثلاً وہ یُوسیاہ کو یکونیاہ کا باپ کہتا ہے جب کہ وہ یکونیاہ کا دادا تھا۔یہ بات بھی یاد رکھنے سے تعلق رکھتی ہے کہ عبرانی نام عام طور پر مختلف صورتوں میں ہوتے تھے جیسے کہ یہورام /یورام۔

قرآن میں ہم اِس سے زیادہ پیچیدہ نسب ناموں کے مسئلے دیکھتے ہیں جہاں حضرت عیسیٰ کی ماں حضرت مریم کو حضرت ہارون کی بہن کے طور پر بیان کیا گیا ہے:

”پھر وہ اُس (بچے)کو اُٹھا کر اپنی قوم کے لوگوں کے پاس لے آئیں۔وہ کہنے لگی کہ مریم یہ تو تُو نے بُرا کام کیا۔اے ہارون کی بہن نہ تو تیرا
باپ ہی بداطوار آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی بدکار تھی۔“[القرآن 27:19-28]

عرب مسیحیوں کے لئے یہ نہایت حیرانی کی بات تھی کیونکہ حضرت عیسیٰ کی ماں حضرت ہارون اور حضرت موسیٰ کی بہن حضرت مریم کے ہزاروں سال بعد ہو گزری تھیں۔اِس پیچیدہ اقتباس کے ساتھ نمٹنے کے کم از کم تین نظریات موجود ہیں:

1) جب پریشان صحابہ کرام نے اِس مسئلے کے بارے میں حضور اکرم سے دریافت کیا تو اُنہوں نے کہا کہ یہ ماضی کے پاک لوگوں کے ساتھ ربط پیدا کرنے کے لئے بہن کا استعارہ استعمال کیا گیا ہے۔

2)بظاہر ذاکر نائیک اِس حدیث کی وضاحت سے مطمئن نہیں تھے،اُنہوں نے یہ الزام لگایا کہ ادبی عربی میں بیٹی کی اصطلاح (اُخت) کا مطلب اولاد بھی ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ آیا یہ سچ بھی تھا کہ نہیں،نائیک کے برعکس صحابہ کرام اور نصرانی عربی دونوں کی مادری زبان عربی تھی،مگر اُنہوں نے یہ سوال کبھی بھی نہیں پوچھاتھا۔ مزید یہ کہ پھر نائیک کو اِس بات کا انکار کرنا چاہئے کہ بی بی مریم ؑحضرت ہارون کی نسل سے نہیں بلکہ حضرت داؤد کی نسل سے تھیں،یہی وجہ ہے کہ وہ مردم شماری کے لئے بیت لحم کو گئیں۔

3)عبدالصدیقی یہ رائے دیتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کی ماں بی بی مریم کی ایک بہن کا نام ہارون بھی تھا مگر یہ حضو ر کی تشریح کے بر عکس ہے۔
Kaiser, Classical Evangelical Essays in Old Testament Interpretation (Grand Rapids, Mich,: Baker, 1972), pp.13-28.
related by Mughirah ibn Shu’bah in Sahih Muslim, #5326
Sahih Muslim, Book 25, Number 5326:
حضرت مغیرہ بن شعبہ نے کہا:جب میں نجران آیا تو اُنہوں نے(نجران کے مسیحیوں) نے مجھ سے پوچھا:آپ قرآن میں پڑھتے ہیں کہ ”اے ہارون کی بہن“(حضرت مریم)جب کہ حضرت موسیٰ حضرت عیسیٰ سے بہت پہلے پیدا ہوئے۔جب میَں اللہ تعالیٰ کے پیغمبر
حضور اکرم ؐ کے پاس واپس آیا تو میں نے اُن سے اِس بارے میں پوچھا،جس کے جواب میں اُنہوں نے کہا:(قدیم زمانہ کے لوگ)اُن رسولوں اور نیک لوگوں کے نام (اپنے لوگوں کو)دے دیا کرتے تھے جو اُن سے پہلے گزر چکے ہوتے تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *