عزرا/نحمیاہ کے اعدادوشمار میں اختلافات

عزرا2 -”کیا بابلیوں کی اسیری سے رہائی پانے والے اسرائیلیوں کی تعداد عزرا میں ٹھیک ہے یا نحمیاہ 7باب میں؟“

اِس سے صحائف میں تضاد ظاہر نہیں ہوتا بلکہ نقاد کی جہالت جھلکتی ہے۔

اوّل تو یہ کہ جہاں عزرا بڑی وضاحت سے اِس کی درستی کا دعویٰ کرتا ہے (”…وہ لوگ یہ ہیں …“عزرا 1:2)،نحمیاہ محض وہ لکھ رہاہے جو اُسے نسب نامے کے رجسٹر میں لکھا ہوا ملا (”…مجھے اُن لوگوں کا نسب نامہ ملا جو پہلے آئے تھے اور اُس میں یہ لکھا ہوا پایا…“-نحمیاہ
5:7)۔وہ اُن کی درستی کی تصدیق نہیں کرتا؛وہ صرف ایک اچھا مؤرّخ ہونے کے ناطے قاری کو وہی کچھ بتاتا ہے جواُس مخصوص نسب نامے کے رجسٹر میں موجود ہے۔  

دوم سیاق و سباق ہمیں بتاتاہے کہ عزرا کا رجسٹر یروشلیم کو ہجرت کرنے سے پہلے بنایا گیا تھاکہ جب وہ ابھی تک بابل ہی میں تھا (450ق م)۔نحمیاہ کا رجسٹر یہوداہ کو سفر کرنے اور تعمیر ِ نو کے چند سالوں بعد لکھا گیا (تقریباً 445ق م)۔بظاہر دونوں فہرستیں ایسی فہرست سے لی گئیں جس میں اُن سالوں میں اُس وقت تبدیلی کی گئی اور اُس میں نئے اندراج کئے گئے جب لوگوں اپنے سفر سے واپس آئے،مرے یا اَور رشتہ داروں نے اُن کے ساتھ واپس آنے کا فیصلہ کیا۔چند لوگوں نے شروع میں جانے کا ارادہ کیا ہو گا مگر بعد میں ذہن تبدیل کر لیا؛دوسرے بعد میں اُن کے ساتھ شریک ہو ئے۔ جیسے لوگ ہجرت میں سے نکل گئے یا اُس میں شامل ہوئے،اِس ”فہرست“ میں قدرتی طور پر وقت کے تقاضوں کے مطابق تبدیلی کی گئی تاکہ قائد کو ایک درست معلومات دی جائیں کہ مختلف گروہوں میں کون کون لوگ شامل تھے۔

جب ہم ناموں کو دیکھتے ہیں تو پتا چلتاہے کہ چند ناموں کا ذِکر متبادل صورتوں میں کیا گیاہے۔اُس وقت کے یہودیوں میں (اور اِس کے ساتھ وہ لوگ بھی جو مشرق میں آباد تھے)ایک شخص کا نام، لقب اور آباواجداد کا نام چلتا تھا۔اِس طرح بنی خارف(نحمیاہ 24:7)بنی یُورہ بھی ہیں (عزرا 18:2)جب کہ بنی سیغا(نحمیاہ 47:7)بنی سیعہابھی ہیں (عزرا 44:2)۔عزرا سفر سے پہلے اِن مستقل تبدیلیوں کی محض ایک سرسری تصویر کا اندراج کرتا ہے اور نحمیاہ چند سالوں بعد ایک اَور سرسری تصویرکا اندراج کر تا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *