بکاؤلے ازم سے ہٹ کر: سائنس،صحائف اور ایمان

سائنس،صحائف اور ایمان

درج ذیل مضمون اُن مختلف طریقوں کا تجزیہ کرتا ہے جن سے ایمان دار وں نے سائنس او رصحائف کے درمیان تعلق کو سمجھا ہے۔

خاکہ:

حصہ اوّل: ”بکاؤ لے ازم“کو سمجھنا
بکاؤ لے ازم کے لئے مسلم مخالفت
بکاؤ لے ازم کے مسائل
بکاؤ لے ازم کی تاریخ
ویدوں اور دیگر ادب میں ”سائنسی معجزات“
چند دعویٰ کئے گئے معجزات کا تجزیہ
نبوت نمبر۱: چاند کی روشنی منعکس شدہ روشنی ہے
نبوت نمبر۲: جنین (embryo)کے مراحل
نبوت نمبر ۳: چینٹیو ں کا رابطہ

حصہ دوم: کیا سائنس اور صحائف ایک دوسرے سے مربوط ہیں؟
تخلیق او رسائنس
پیدایش کے دنوں کی ترتیب
سورج کی روشنی سے پہلے نباتات؟
کائنات کا علم: چپٹی یا گول زمین؟
کیا زمین چپٹی ہے یا گول؟
آسمان کو تھامے ہوئے ستون
زمین کے نیچے کے ستون
سورج،چاند،ستارے،دمدارتارے اورآسمان

حصہ سوم: سائنس کی تاریخ
سائنس کس نے ’ایجاد‘ کی؟
سنہرا دور کیوں ختم ہوا؟


 

حصہ اوّل

”بکاو لے ازم“کو سمجھنا

”بکاؤ لے ازم“قرآن مجید میں ”سائنسی معجزات“ کی بنیاد ی کی جستجو ہے یعنی جدید سائنسی دریافتیں جنہیں بڑے مخفی انداز میں قرآن میں بیان کیا گیا ہے۔یہاں ذاکر نائیک سے ایک عام مثال پیش کی گئی ہے:

چاند کی روشنی منعکس روشنی ہے: ابتدائی تہذیبوں کا یہ ایمان تھا کہ چاند خود اپنی روشنی دیتا ہے۔اب سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ چاند کی روشنی منعکس روشنی ہے۔تا ہم 1400 سال پہلے قرآن مجید میں اِس حقیقت کا ذکردرج ذیل آیت میں آیا ہے:

  ”بڑی برکت والا ہے جس نے آسمانوں میں بُرج بنائے اور اُنہیں چراغ او رچمکتا ہوا چاند بھی بنایا۔“(القرآن 61:25)

قرآن میں عربی میں سورج کے لئے لفظ شمس ہے۔اِسے سِرٰجاً بھی کہا گیا ہے … چاند کے لئے عربی لفظ قَمَرً ہے اور قرآن میں اِسے مُنّیراً کہا گیا ہے جو ایک ایسا عنصر ہے جو نور دیتا ہے یعنی منعکس شدہ روشنی … اِس کا مطلب ہے کہ قرآن سورج اور چاند کی روشنی کے درمیان فرق کو بیان کرتا ہے۔ 1

اِسی طرح دعوے کئے گئے ہیں کہ بلیک ہولز،علم حیاتیات،علم ارضیات اور علم نجوم کے بارے میں قرآن میں پیشین گوئیاں موجود ہیں۔

بکاولیازم کے لئے مسلمانوں کی مخالفت

قرآن مجید میں ”سائنس کے معجزات“ کی مخفی جستجو اسلامی تاریخ کاحال ہی میں سامنے آنے والا ایک خبط ہے۔یہ بنیاد پرستوں میں بہت مقبول ہے لیکن اِسے چند مسلم مفکرین کی حمایت حاصل نہیں ہے۔نامور بھارتی اسلامی علم ِ الہٰی کے ماہر جناب مولانا اشرف علی تھانوی
(بہشتی زیور کے مصنف)چار نکات کی وجہ سے اِس طریقہ کار کی مخالفت کرتے ہیں۔ 2 اِسی طرح مغرب اور عرب کی یونیورسٹیوں کے بہت سے نامور اسلامی سائنس دان بکاؤ لے ازم کی وجہ سے پریشان ہیں۔ضیاالدین شاکر اپنے کتاب ”اسلامی سائنس میں دریافتیں
”Exploration in Islamic science“میں سائنسی معجزات کو مناظرہ کا’بُری قسم کااعتزار“ کہتا ہے۔پین سٹیٹ یونیورسٹی کے مسلم مؤرخ نعمان الحق بکاؤ لے ازم کے نقادوں میں سب سے آگے ہیں جو بکاؤ لے ازم کے سامنے آنے کی وجہ مسلمانوں میں پائے جانے والے گہرے احساس ِکمتری کو قرار دیتا ہے جنہیں آبادیا تی نظام نے تضحیک کا نشانہ بنایا اور جو اسلامی سائنس کی کھوئی ہوئی شان و شوکت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے ہیں۔ایک او رنقاد مظفر اقبال ہیں جو البرٹا کینیڈا میں اسلام اور سائنس کے مرکز کے صدر ہیں۔


پاکستان کے نامور مسلم ماہر طبیعات پرویز ہود بائے لکھتے ہیں:

”ایسے دعوے کرنے والوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اُن میں اِس بات کی وضاحت کرنے کی کمی ہوتی ہے کہ کیوں مقداری نظریہ،مالیکیولز کی ساخت وغیر ہ کو کہیں اَور دریافت ہونے کے لئے انتظار کرناپڑا۔اور نہ ہی کبھی کسی قسم کی مُستند پیشین گوئیاں کی گئیں۔اُن کے پاس اِس بات کی بھی کوئی دلیل موجود نہیں کہ اینٹی بائیٹکس،ایسپرین،بھاپ کے انجن،بجلی،ہوائی جہاز،یا کمپیوٹر پہلے مسلمانوں نے کیوں ایجاد نہیں کئے۔بلکہ ایسے سوالات پوچھنا توہین آمیز سمجھا جا تا ہے۔“ 4

ترکی مسلمان فلسفی اور ماہر طبیعات ٹینر ادیس لکھتے ہیں:

”قرآن -سائنس( بکاؤ لے ازم)رقت انگیز ہے لیکن بہت سے مسلمانوں نے بھی اِس بات کو تسلیم کیا ہے۔جتنی انسٹیٹیوٹ فار کریشین ریسرچ مسیحیت کی ترجمانی کرتا ہے اُسی طرح یہ اُس سے زیادہ اسلام کا اظہار نہیں کرتی۔تاہم وہ احمقانہ شدت جو میں نے اُوپر بیان کی ہے وہ سائنس او رقدامت پسند اسلام کے درمیان مبہم تعلق کی وضاحت کرسکتی ہے۔جبکہ بہت سے ایمان دار
اِس مسئلے کے نظر انداز کرنے کو تیار ہیں اور قرآن مجید کے ساتھ مکمل سائنسی ہم آہنگی کا اظہار کرتے ہیں،کچھ ماہرین اَدراکی کا متعلقہ راستہ اپناتے ہیں،یا اِس بات پر زور دیتے ہیں کہ سائنس اسلام کی ساخت کردہ ہے،اِس لئے ہمیں فطر ت کی اسلامی نظریے کو تسلیم کرنا ہے۔“ 5

ابو عمر یوسف قاضی جو ایک معروف واعظ اور ییل Yaleکے فارغ التحصیل ہیں،اُنہوں نے اپنی کتاب،”An Introduction
to the Sciences of the Quran"میں لکھا:

”دوسرے الفاظ میں قرآن مجید کی ہر تیسری آیت میں کوئی سائنسی سراب موجود نہیں ہیں جو اِس بات کے منتظر ہوں کہ چند پُر جوش،اعلیٰ تصوراتی مسلمان اُنہیں صفحہ ِ ہستی پر لے کر آئیں گے۔“ 6

”اِسلامی سائنس“ کے حوالے سے،پاکستانی نوبل انعام یافتہ اور ماہر طبیعات جناب ڈاکٹر عبدالسلام لکھتے ہیں:

”صرف ایک عالمگیر سائنس ہے؛اِس کے مسائل اور اِس کے طریقے بین الاقوامی ہیں اور اسلامی سائنس جیسی کوئی چیز نہیں ہے جیسے کہ ہندو سائنس یا یہودی سائنس،یاکنفیو شین سائنس اور نہ ہی مسیحی سائنس ہے۔“

بکاؤ لے ازم کے مسائل

بکاؤ لے ازم کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کو کمزور پیش کرتا ہے جو ناقابل اعتراض حد تک واضح ہونے کے قابل نہیں ہے۔مثلاًاگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ صرف زمین کی شکل ہی بیان کرنا تھا تو پھر اُس نے ایک ہی آیت کیوں نہ رکھی جو یہ کہتی کہ ”کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ہم نے زمین کو چپٹا نہیں بلکہ گول بنایا ہے جو سورج کے گرد گھومتی ہے؟“یا اگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ ٹیلی وژن کی پیشین گوئی کرنا ہوتا تو،وہ واضح طور پر یہ کہہ سکتا تھا کہ،”ایک دن لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کر ڈبوں میں تصویریں دیکھیں گے۔“ دوسری جگہوں پر خدا بڑی وضاحت سے بولتا ہے! دیکھئے ال عمران آیت نمبر۲:”خدا اُس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں زندہ ہمیشہ رہنے والا۔“یہ بات بالکل صاف و شفاف ہے اور اِس پر بحث کی کوئی گنجائش موجود ہی نہیں ہے۔اگر اللہ تعالیٰ کا مقصد قرآن مجید میں سائنس کا ذکر کرنا ہی ہوتاتو اُس نے ایسے پیش کیا ہوتا جس میں بحث کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ بکاؤ لے ازم کے حامی جن آیات کو غلط استعمال کرتے ہیں وہ انسان کو فطرت کی ظاہر ی حالت کو سمجھنے کی درخواست کرتی ہے یعنی یہ کہ اِن سب چیزوں کا ایک خالق ہے جو بھلا ہے۔

دوم یہ کہ مولانا تھانوی یہ تنبیہ کرتے ہیں کہ ہم صحائف کی سچائی کو خطرے میں ڈالتے ہیں اگر ہم اُنہیں موجودہ سائنسی نظریات کے ساتھ منسلک کرتے ہیں جو دس سالوں میں ختم ہو سکتے ہیں۔مثلاً ذاکر نائیک بڑے فخر سے یہ کہتا ہے کہ قرآن بڑی وضاحت سے ”بِگ بینگ“
Big Bang(اگرچہ بِگ بینگ کو سب سے پہلے ایک کٹّر کیتھولک پادری نے تجویز کیا)کو بیان کرتا ہے۔ چونکہ ابھی تک بِگ بینگ نظریے کے لئے سائنسی برادری میں کوئی متفق الرائے حمایت موجود نہیں ہے اِس لئے اِس نظریے کا کیا بنے گا اگر یہ دس سالوں میں ختم ہو جاتا ہے؟تب بکاؤ لے ازم کے حامیوں کو اپنی سابقہ ”دریافت“ سے تضاد رکھنا ہو گا او رپھر نئے نظریے کی حمایت کے لئے کوئی نئی آیت تلاش کرنی ہو گی۔

بکاؤ لے ازم کی تاریخ

طنزیہ ہے کہ یہ ایک غیر مسلم فرانسیسی ڈاکٹر تھا جس نے سب سے پہلے اِس معاملہ کو شروع کیا۔اُس کا نام مورس بکاؤلے (Maurice Bucaille) تھا جس نے سعودی عرب کے شاہ فیصل کے خاندانی طبیب مقرر ہونے کے بعد ایک کتاب شائع کی جس کا نام”دی بائبل،دی قرآن او رسائنس‘‘ تھا جس میں اُس نے یہ بحث کی تھی کہ کتاب مقدس سے ہٹ کر قرآن حیران کُن حد تک سائنسی ہے۔ بکاؤلے کے بعد ایک کرشماتی یمنی سیاست دان بنام شیخ عبدالمجید زندانی نے بڑے سرمائے سے شروع کیا جانے والا ”کمیشن آن سائنٹیفک سائنزاِن دی قرآن اینڈ سنّا“( Commission on Scientific Signs in the Quran and Sunnah)
شروع کیا جو سعودی عرب میں قائم تھا۔ا وہ خود بکاؤ لے ازم کا سب سے بڑا عالمگیر مجوز بن گیا۔مزید یہ کہ حال ہی میں ذاکر نائیک نے بھارت میں اور زغلول ال نگر نے مصر میں زندانی کے مواد کو ٹیلی وژن پر دینی چینلز کے ذریعے بہت زیادہ پھیلایا۔زندانی کمیشن نے مغربی سائنس دانوں کو کانفرنسز میں بلایا۔اُنہیں اور اُن کی بیویو ں کو جہاز کا فرسٹ کلاس کا ٹکٹ دیا،بہترین ہوٹلز میں کمرے دئیے،ایک ہزار ڈالر بطور انعام دیا،مسلم قائدین کے ساتھ ضیافتوں کا انتظام کیا جیسے کہ اسلام آباد میں پاکستان کے صدر ضیاالحق کے ساتھ جہاز کے حادثے میں اُن کی موت ہو جانے سے کچھ عرصہ قبل عشائیہ کا انتظام کیا۔ 7 جب وہ اُنہیں فریب دے کر چند آیات کی الہٰی تحریک کا اعلان کرتا ہے توزندانی نے سائنس دانوں سے ”مکمل غیر جانب دار“ رہنے کا وعدہ کیا۔زندانی نے اُن کی کانفرنسز کی فلمی تصویریں لے کر اِس بات کو مشتہر کیا کہ مغربی سائنس دانوں نے قرآن میں
’سائنسی معجزات‘ کی تصدیق کی ہے۔بہت سے شرکاء اپنے مثبت بیانات دینے کی وجہ سے بیوقوف بنائے جانے پر پریشان تھے۔سمندری سائنس دان ولیم ہے اِس کے متعلق لکھتے ہیں،”میں ایک چال میں پھنس گیا او ردوسرے لوگوں کو اِس خطرے سے باخبر رہنے کی تنبیہ کی۔“ 8 وال سٹریٹ کے رسالے میں ایک مضمون میں ایک شریک کار کا رد عمل کچھ یوں بیان کیا گیاہے:

جیرالڈ گیونگر جو جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے ایک ریٹائرڈ جینیات کے ماہر ہیں،وہ کہتے ہیں، کہ اُنہوں نے کمیشن کوکچھ باتوں کی تصدیق کروانے پر ابھارا:کہ ایک خودمختارعالم کو بلایا جائے جو یہ دیکھے کہ کیا قرآن مجید کے بیانات کہاں سے لئے گئے ہیں۔

ارسطو جو ایک یونانی عالم او رسائنس دان تھا اور جس نے ایک تقریبا ہزارسال پہلے ایک کتاب لکھی سے لئے گئے ہیں۔گیونگرکہتے ہیں کہ اُس کی درخواست کے رد کئے جانے کے بعد اُس نے مذہبی جنون کے ساتھ منسلک کئے جانے کے خوف سے کانفرنسز میں جانا بند کر دیا۔

وہ کہتا ہے کہ ”یہ ایک باہمی سازباز تھی۔“”ہم ایسی جگہوں پر جاتے ہیں جہاں ہم کسی بھی طو رجانا نہیں چاہتے۔جو کچھ وہ شائع کر رہے تھے اُس میں وہ کچھ عزت و احترام کا اضافہ کرنا چاہتے تھے۔“

زندانی شیخ اُسامہ بن لادن کا دوست اور ایک معلم تھا جو بکاؤ لے ازم کا سب سے پہلے معتقد ین میں سے تھا۔اُسی نے اِس کے تحقیقی کام پر سرمایہ لگایا۔زندانی کی جینیات(Embryology)پر معاون مصنف کے طورپر لکھی گئی کتاب میں شیخ اُسامہ بن لادن کو بنیادی طور پر معاونت کرنے والوں کی فہرست میں شامل کیاہے۔اُسامہ بن لادن کا سوانح نویس یوسف بودنسکے کہتا ہے کہ دنیا کا سب سے زیادہ مطلوب شخص بڑی باقاعدگی سے اِس بارے میں زندانی سے راہنمائی لیتا رہا کہ آیا دہشت گردی کے کاموں کی منصوبہ بندی اسلام کے مطابق ٹھیک ہے یا نہیں۔حسن۔اے۔اے بحافظ اللہ زندانی کے بن لادن کے ساتھ الحاق کے بارے میں کہتا ہے ”جو کچھ میں جانتا ہوں وہ یہ کہ افغانستان میں جہاد کے دوران زندانی اُس سے ملنے وہاں گیا تھا۔“1995میں زندانی کمیشن سے ہٹ گیا او راِس وقت یمن میں ایک اسلامی ریاست کی وکالت کر رہا ہے۔

ویدوں اور دیگر ادب میں ”سائنسی معجزات“

صحائف میں جدید سائنس کی مخفی نبوتوں کی یہ تحقیق صرف اسلام تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ہم نے یہی چیز ہندو مذہب میں بھی دیکھی ہے۔
چند بنیاد پرست ہندو ؤں کے مطابق ویدوں نے جو ہری ذرات،ذرّاتی نظریے اور مقداری نظریے کی پیشین کی کرتی ہے۔جے۔سی۔چیتر جی کی کتاب ”دی ویذڈم آف دی ویداس“(The Wisdom of the Vedas)چند فرضی پیشین گوئیوں کے متعلق بات کرتی ہے۔اِس کا طریقہ کار بھیبکاؤلے ازم کی طرح ہی ہے اور اگرچہ مذہب اور مقدس کتاب مختلف ہیں مگر نتائج ملتے جلتے ہیں۔

دینی حلقوں سے باہربکاؤلے ازم کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ایک نقاد نے ایک مزاحیہ نقل ”discovring“ تربیت دی ہے جو ور جلِ جیورجیکا Virgil’s Georgicaنظم میں ایک جیسے پوشیدہ سائنسی معجزات جیسی ہے۔بکاؤلے ازم اور نائیک کے ملتے جلتے دلائل کا استعمال کرتے ہوئے وہ ورجلِ کی نظم کی پہلی چند سطور ہی میں ایک کے بعد دوسری سائنسی دریافت کی نشان دہی کرتا ہے۔

چند دعویٰ کئے گئے معجزات کا تجزیہ

اگر ہم قرآن کے معجزات کی بیان شدہ مثالوں پر ایک نظر ڈالیں تو وہ غیر اہم دکھائی دیتے ہیں۔یہ کوئی قرآن مجید پر حملہ کرنا نہیں ہے بلکہ یہ محض قرآن مجید کے جدید طریقے سے غلط استعمال کی نفی کرنا ہے۔قرآن مجید کے اِن معجزات کی اِس طرح سے نفی کرنے یا اُنہیں نامنظور کرنے میں خطرہ یہ ہے کہ بہت سے مسلمان غلط طور پر اِسے قرآن مجید پر ایک حملہ کہہ کر اِس کی غلط تشہیر کرتے ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ مولانا تھانوی نے قرآن مجید میں معجزات کی تلاش کے خلاف تنبیہ کی تھی کیونکہ اگر وہ غلط ثابت ہوئے تو پھر لوگ قرآن کو رد کر سکتے ہیں۔

نبوت # 1: چاند کی روشنی منعکس شدہ روشنی ہے

آئیے! ذاکر نائیک کی مندرجہ بالا چاند کی نبوت سے شروع کریں:

چاند کی روشنی منعکس شدہ روشنی ہے:ابتدائی تہذیبوں کا یہ ایمان تھا کہ چاند خود اپنی روشنی دیتا ہے۔اب سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ چاند کی روشنی منعکس روشنی ہے۔تاہم 1400 سال پہلے قرآن مجید میں اِس حقیقت کا ذکردرج ذیل آیت میں آیا ہے:

”بڑی برکت والا ہے جس نے آسمانوں میں بُرج بنائے اور اُنہیں چراغ او رچمکتا ہوا چاند بھی بنایا۔“(لقرآن 61:25)

قرآن میں عربی میں سورج کے لئے لفظ شمس ہے۔اِسے سراج بھی کہا گیا ہے جس کا مطلب ہے ’مشعل‘یا جیسے وہاج،جس کا مطلب ہے ’جلتا ہوا چراغ‘یا جیسے دیا جس کا مطلب ہے،’چمکتی ہوئی روشنی‘۔یہ تینوں وضاحتیں سورج پر بالکل درست بیٹھتی ہیں کیونکہ یہ اپنے اندر جلتا ہوا مادہ رکھتے ہوئے شدید گرمی اور روشنی پیدا کرتا ہے۔ چاند کے لئے عربی لفظ قمرہے اور قرآن میں اِسے مُنیر کہا گیا ہے جو ایک ایسا عنصر ہے جو نور یا روشنی دیتا ہے یعنی منعکس شدہ روشنی۔دوبارہ یہ بات سامنے آتی ہے کہ قرآن کی وضاحتیں چاند کی حقیقی فطرت سے مکمل طور پر میل کھاتی ہے جو خود سے روشنی نہیں دیتا اور جو ایک غیر متحرک جسم ہے جو سورج کی روشنی منعکس کرتا ہے۔
قرآن میں ایک مرتبہ بھی چاند کو سراج،وہاج یا دیا نہیں کہا گیا اورنہ ہی سورج کو نور یا منیر کہا گیاہے۔یہ بات اِس طرف اشارہ کرتی ہے کہ قرآن سورج اور چاند کے درمیان اختلاف کی حقیقت سے آگاہ ہے۔ 9

نائیک کی دلیل میں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ نورکا محض مطلب ہے ”روشنی“،جب کہ کسی بھی عربی لُغت یا زبان میں اِس لفظ کے معنی ”منعکس“ کرنے کا بالکل کوئی مطلب نہیں ہے۔اگر صرف دلیل کی خاطر ہم نائیک کی دوبارہ دی گئی تعریفیں اپنا لیں تو اللہ تعالیٰ جو ”اَلنور“کا لقب رکھتا ہے اُس کا مطلب ’منعکس روشنی‘ہونا چاہئے جب کہ سورۃ 46:33میں روشنی کا حقیقی منبع حضرت محمد کو ”چراغ،(سِرَاجاً)روشنی پھیلانے والا“کہا گیا ہے۔ یہ سب کچھ تو کفر لگتا ہے۔

مزید یہ کہ حضرت محمد سے کم از کم ایک ہزار سال پہلے یہ معلوم تھا کہ چاند کی روشنی ایک منعکس شدہ روشنی ہے۔جب ارسطو
( 322 – 384BC )نے زمین کی شکل پر بحث کی تھی تو اُس نے زمین کے قطر پر یہ دلیل دیتے ہوئے ثابت کیا تھا کہ چاند گرہن کے دوران چاند پر زمین کا سایہ نظر آتا ہے۔حضرت محمد ؐ سے صدیوں پہلے یہودی جانتے تھے کہ چاندسورج سے ”اپنی روشنی اُدھار لیتا ہے“
(Philoپہلی صدی)اور”چاند کی روشنی لازماً سورج کی روشنی سے حاصل ہوتی ہے“ مِدراش با گدول، پہلی صدی کا وسط(Midrash Hagadol,mid 1st century)۔

نائیک نے اللہ تعالیٰ کی ذات کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے اِس نتیجے سے گریز کیا ہے:(1)سراج کی روشنی،اور(2)منعکس کرنے والا،طاق جو اللہ تعالیٰ حصہ اوّل کو منعکس کرتا ہے اورنور کو پیدا کرتا ہے(نعوذ باللہ)۔وہ یہ عجیب خیال چراغ کی ایک آیت (35:24) کی دوبارہ کی گئی تشریح کی وجہ سے کرتا ہے۔اُس کی تشریح کُلّی طو رپر تمام صحابہ کرام (ابن ِ عباس،ابن ِ مسعود ا بي بن کعب،وغیرہ)کی تشریح سے تضاد رکھتی ہے،جن سب نے طاق او رشیشے(چمنی) کو ایک ایمان دار کے دل کے طورپر طاق کہا جس میں ایمان کی روشنی جلتی ہے۔کسی صحابی نے بھی اللہ تعالیٰ کو دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کرنے کی جسارت کبھی نہیں کی،اللہ تعالیٰ کا ایک حصہ جلتی ہوئی بتّی اور دوسرا حصہ منعکس کرنے والا طاق۔ذاکر نائیک کی تفسیر غلط ہے اور خیال کافرانہ ہے۔

نبوت# 2: جنین(embryo)کے مراحل

ڈاکٹر مورس بکاؤلے اور ڈاکر کیتھ ایل۔مورنے یہ خیال مشہور کیا کہ قرآن معجزانہ طور پر ہمارے جدید فہم کے بارے میں بتاتا ہے کہ
جنین مراحل میں فروغ پاتا ہے:

ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا ہے۔پھر اس کو ایک مضبوط اور (محفوظ)جگہ میں نُطفہ بنا کر رکھا۔پھر نُطفے کا لوتھڑا بنایا۔پھر
لوتھڑے کی بوٹی بنائی پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت (پوست)چڑھایا۔پھر اُس کو نئی صورت میں بنادیا۔تُو خدا جو سب سے
بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے!(سورہ مومنون 12:23-14)۔

اِس طرح قرآن مجید میں دئیے گئے پانچ مراحل کا پتا چلتا ہے:

1. نُطْفَه (sperm)

2. عَلَق (clot) لوتھٹرا

3. مُضْغَه (piece or lump of flesh) گوشت کا ٹکڑا

4. عَظَمَ (Dressing the bones with muscles) ہڈیوں پر پٹھوں کو چڑھانا

یہ بیان کیا گیا ہے کہ چونکہ یہ مراحل صرف آخری صدی میں دریافت ہوئے تھے اِس لئے قرآن سائنس کی غیر واضح پیشین گوئیوں پر مشتمل ہے۔تاہم،چونکہ ’خون کا لوتھڑا‘ کسی بھی جنینی مرحلہ کو بیان نہیں کر سکتا، اِس لئے بکاؤلے نے ایک اور لفظ ایجاد کیا،عَلَق جس کا مطلب ہے،
”جو چمٹ جاتا ہے“یا ”جونک کی طرح چمٹنے والا مادہ۔“

اِس دلیل میں بہت سارے مسائل کھڑے ہوتے ہیں:

تاریخ بتاتی ہے کہ یہ مراحل حضرت محمد کے زمانے تک نامعلوم نہیں تھے بلکہ درست معنوں میں ایک عام علم تھے۔ بُقراط،ارسطو اور گیلن جیسے یونانی مصنفین اِن سب نے فروغ پانے کے یہی مراحل دئیے ہیں: نُطفہ،حیض کا خون،گوشت،ہڈیاں اور ہڈیوں کے اِرد گرد گوشت کی نشو ونما۔یونانی سائنس عرب میں بہت اچھی طرح جانی جاتی تھی اور حضرت محمد کے ساتھی حارث بن کلدہ نے جونڈی گندی شا پور میں طب کا مطالعہ کیا تھا او راِس طرح ارسطو،بُقراط اور گیلن کی طبی تعلیم کو بھی حاصل کیا تھا۔

دوم یہ کہ لفظ عَلَق کا مطلب صرف ”جونک“ نہیں ہے،کیونکہ کوئی بھی تاریخی ترجمہ یہ بتاتا ہے کہ اِس کا مطلب،’لوتھڑا‘ ہے جو قدیم یونانی مراحل پر صادق آتا ہے لیکن سائنسی وضاحت کے مطابق موضوں نہیں ہے۔ابن ِ سینا اور ابن قائم دونوں نے عَلَق کو خون کا لوتھڑا ہی سمجھا ہے،جیسے کہ ماضی میں چار سوسال پہلے اور آج کے تمام مترجمین نے سمجھا ہے۔

سوم یہ کہ جدید علم ا لجنین یہ بتاتا ہے کہ اِس سے پہلے کہ ہڈیاں سخت ہو جائیں پوست یا کھال (مندرجہ بالا پانچواں مرحلہ)ظاہر ہوتی ہے۔
ہڈیوں پر”گوشت نہیں چڑھتا“بلکہ اِس کے بجائے وہ پہلے سے موجود گوشت اور کھال میں شکل پکڑنا او رسخت ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔

مسلم او ربخاری دونوں میں سے ایک صحیح حدیث فروغ پانے کے قرآنی مراحل کویہ کہتے ہوئے وسعت دیتی ہے کہ پہلے تین مراحل چالیس دن تک برقرار رہتے ہیں۔ 10 ؎ حتیٰ کہ ڈاکٹر بکاؤلے بھی جبراً یہ تسلیم کرنے پر راضی ہوتے ہیں،”جنین کے فروغ کی یہ وضاحت جد ید علم کے ساتھ متفق نہیں ہے۔“ 11

ذاکر نائیک ایک مغربی ماہر قبالت دان ڈاکٹر جو ئے لی سمپسن کا حوالہ دیتا ہے کہ وہ بھی اِس ”معجزہ“ کی حمایت کرتے ہیں۔ڈاکٹر سمپسن
نے بعد میں متن سے باہر اِن تاثرات کو ”احمقانہ اور پریشان کُن“ کہا۔ 12

نبوت # 3: چیونٹیوں کا رابطہ

ڈاکٹر ذاکر نائیک درج ذیل اقتباس کو سائنسی علم کا ایک معجزہ تصور کرتا ہے:

”اور سلیمان کے لئے جنّوں اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے اور وہ قسم وار کئے گئے تھے۔یہاں تک کہ جب چیونٹیوں کے میدن میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا کہ چیونٹیو!اپنے اپنے بِلوں میں داخل ہو جاؤایسا نہ ہو کہ سلیمان او راُس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں اور اُن کو خبر بھی نہ ہو۔“(القرآن 17:27-18)۔

(ذاکر نائیک:) ماضی میں شاید چند لوگوں نے قرآن کا مذاق اُڑایا ہو،اِسے فرضی کہانیوں کی کتاب سمجھا ہو جس میں چیونٹیاں ایک دوسرے سے بات کرتی ہیں اور بڑے مدبّرانہ پیغامات دیتی ہیں۔تا ہم موجود ہ زمانے میں تحقیق نے چیونٹیوں کی طرز ِ زندگی کے بارے میں ہم پر کئی حقائق آشکارا کئے ہیں جو پہلے انسانوں کو معلوم نہیں تھے۔ 13

یہ سمجھنا کہ چیونٹیاں آپس میں باتیں کرتی ہیں یہ ایک عام فہم بات ہے۔یہ کچھ ایسے ہی ہے جیسے دس سال پہلے کسی تجسّس کرنے والے نے خود بخود یہ سمجھ لیا ہو۔

ائیک اِس اقتباس کا وسیع متن بیان نہیں کرتا جہاں حضرت سلیمان ؑ ایک ہدہدپرندے اور ایک عفریت کے ساتھ سیاسی اور مافوق الفطرت معاملات پر بھی بات چیت کرتا ہے۔ یقینا خداکسی معجزے کے تحت پرندوں اور چیونٹیوں کو مختلف سلطنتوں پرایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنے کی اہلیت دے سکتا ہے مگر اِسے سائنسی کہنا حماقت ہو گی۔

حضرت سلیمان ؑ کے بارے میں کتاب مقدس کی قدیم معلومات ہمیں کہیں بھی اُسے چیونٹیوں،ہدہد اور جانوروں سے بات چیت
کرتے ہوئے نہیں بتاتیں بلکہ اِس کی بجائے وہ اُسے اُن کا سائنسی مطالعہ کرتے ہوئے دکھاتی ہیں:

”اُس نے درختوں کایعنی لُبنان کے دیودار سے لے کر زُوفا تک کا جو دیوداروں پر اُگتا ہے بیان کیا اورچوپایوں اور پرندوں اور رینگنے والے جانداروں او رمچھلیوں کا بھی بیان کیا۔او رسب قوموں میں سے زمین کے سب بادشاہوں کی طرف سے جنہوں نے اُس کی حکمت کی شہرت سنی تھی لوگ سلیمان کی حکمت کو سننے آتے تھے۔“(1 -سلاطین 33:4-34)۔


 

حصہ دوم

کیا سائنس اور صحائف ایک دوسر ے سے مر بط ہیں؟

چند مسلمان او رمسیحی اِس بات پر بحث مباحثہ کرنا پسند کرتے ہیں کہ کون سا صحیفہ جدید سائنس کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ وہ خدا جس نے فطرت کے قوانین اور نظام مرتب کیا وہی خدا ہے جس نے صحائف کو ظاہرکیا، اِس لئے دونوں کے درمیان ایک اتفاق ہونا چاہئے۔ تاہم،کتاب مقدس اور قرآن مجید دونوں میں چند ایسے اقتباسات ہیں جن میں غیر مطابقت نظر آسکتی ہے۔طنزاً سائنسی اعتبار سے کتاب مقدس او رقرآن دونوں میں مسائل والے اقتباسات موجود ہیں:

کتاب مقدس او رقرآن دونوں کے متضاد معجزات :

– حضرت نوح ؑ 950 برس تک زندہ رہتا ہے

– حضرت عیسیٰ المسیح کی ایک کنواری سے پیدایش

– حضرت عیسیٰ المسیح کا مُردوں میں سے جی اُٹھنا

– حضرت عیسیٰ المسیح کا اندھے کو شفا دینا

– جنات،بدارواح اور فرشتے -تمام صحائف روحانی مخلوقات کی موجودگی پر ایمان رکھتے ہیں جو کبھی کبھار مادی شکل اختیار کرتے ہیں او ر
انسانوں پر ظاہر ہوتے ہیں۔

– زندگی کے بعد -یہ خیال کہ ایک گلا سٹرا انسانی جسم دوبارہ زیادہ روحانی جی اُٹھے شخص کی صورت میں آ سکتا ہے،بظاہر یہ سائنس میں ناممکن دکھائی دیتا ہے، لیکن ہم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ خالق میں یہ قدرت پائی جاتی ہے۔

مخلص ایمان دار اِن مشکلات کا صریحاً انکار نہیں کرتے بلکہ اِس کے بجائے عقلی وضاحتیں تلاش کرتے ہیں اور بڑی حلیمی سے اِس پر غور کرتے ہیں۔اگر ہم دیانت دار ہیں تو ہمیں اِن پریشان کُن سوالات کوتسلیم کرنا چاہئے۔تا ہم جیسے کہ ہم دیکھیں گے اِس کی عقلی شہادت موجود ہے کہ اگر اِس کی درست تشریح کی جائے تو کتاب مقدس سائنس سے مناسبت رکھتی ہے۔

تخلیق اور سائنس

نقاد جیسے کہ ذاکر نائیک نے الزام لگایا ہے کہ کتاب مقدس چوبیس گھنٹے کے دن رات کی تخلیق کی بات کرتی ہے جب کہ قرآن مابعد
استعاراتی طور پرچھٹے دَور کی تخلیق کی بات کرتا ہے۔یہ بالکل غلط ہے۔

دو مکتبہ ِ فکر ہیں جو پیدایش کے بارے میں ایک پرانی زمین کے ساتھ موافقت پیدا کرتے ہیں۔دونوں میں سے کوئی بھی پیدایش کو جدید سائنس کے ساتھ مناسبت دینے کے لئے ”دوبارہ تشریح“ کی صرف کوشش بھی نہیں کرتے کیونکہ دونوں مکتبہ ِ فکر ایسے مبصّرین کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جو پرانی زمین کی جدید سائنسی دریافت کو اُس کی اصل تاریخ سے پہلے کا بتاتے ہیں۔

پیدایش کا پہلا نظریہ: دن کے دَور کی تشریح

پیدایش میں جو عبرانی لفظ استعمال ہوا ہے وہ”یوم“ (Hebrew יום)ہے،یہی لفظ قرآن میں بھی تخلیق کے چھ ”دنوں“(یوم) کو بیان کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے۔یوم کو کئی دیگر مطالب میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے جیسے بارہ گھنٹے،چوبیس گھنٹے یا لامحدود زمانے۔ 14 مزید یہ کہ ہم کتاب مقدس میں پڑھتے ہیں،”خداوند کے نزدیک ایک دن ہزار برس کے برابر ہے اور ہزار برس ایک دن کے برابر“(انجیل شریف،
2 -پطرس 8:3 اور زبور شریف 4:90)۔ 15 مزید یہ کہ پیدایش میں صبح‘ (بقر)اور ’شام‘(عیرب)کے لئے استعمال ہونے والے الفاظ
کا مطلب بالترتیب محض،’یوم کا شروع‘ اور’یوم کا آخر‘ بھی ہو سکتا ہے،جیسے کہ ہم ’دنیاوی تاریخ کا طلوع‘ اور ”کسی کی زندگی کے غروب‘ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ 16 یہ واضح ہے کہ مصنف کا مطلب ہر گز لغوی معنوں میں سورج کا طلوع یا غروب نہیں ہے کیونکہ اُس نے یہ اصطلاحات سورج کے منظر ِ عام پر آنے سے پہلے تین ایام کے ادوار کی نشاندہی کرنے کے لئے استعمال کیں۔ 17

ممکن ہے کہ اِس مزید تخلیق کی تشریح کے مُستند ہونے کاصاف اور واضح اشارہ یہ حقیقت ہے کہ 400 عیسوی تک کے پیدایش کے زیادہ تر ابتدائی مسیحی مفکر ین نے صریحاً یہ سکھایا کہ پیدایش کے تخلیق کے دن ایک طویل عرصے پر محیط ہیں (جیسے کہ ایک دن ہزار برس کے برابر)۔ 18 یہ جدید سائنس سے ایک ہزار سال قبل اُس وقت ہو چکا تھا جب طویل دنوں کے عرصے پر یقین کرنے کی کوئی سائنسی وجہ نہیں تھی۔

اِس کے برعکس علم ِ الہٰی کے ا عتبار سے بااختیار صحیح حدیث بتاتی ہے کہ حضرت محمد تخلیق کے قرآنی دنوں کو واقعی ہفتے کے دنوں کی طرح سمجھتے تھے یعنی ہفتہ،اتوار،پیر وغیرہ:

ابوہریر ہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر نے میرے ہاتھ تھامے اور کہا:اللہ تعالیٰ عظیم اور جلال والا جس نے ہفتے کو مٹی بنائی اور اتوار کو اُس نے پہاڑ بنائے اور پیر کو اُس نے درخت بنائے اور وہ چیزیں جس میں محنت درکار تھی منگل کو بنائے اوربدھ کو روشنی بنائی اور اُس نے جانور جمعرات کو بنا کر زمین پر پھیلا دیے اور حضرت آدم ؑ کو جو آخری تخلیق تھی جمعہ کے گھنٹوں کے آخری گھنٹے میں عصر کے وقت یعنی سہ پہر اور رات کے درمیان بنایا۔“ 19

بہت سے ابتدائی مبصّرین کا بھی یہی نظریہ ہے؛ا لطبری ابن عباس کی روایت درج کرتے ہیں:

”یہودی نبی کریم کے پاس آئے اور آسمان اور زمین کی تخلیق کے بارے میں دریافت کیا۔اُنہوں نے فرمایا:خدا نے اتواراورپیر کو زمین بنائی۔اُس نے پہاڑ وں کو اور اُس میں استعمال کی چیزیں منگل کو بنائیں۔بدھ کے دن اُس نے درخت،پانی اور شہر بنائے اور بنجر زمین پر سبزی اُگائی۔یہ چار (دن)ہیں۔اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھی(قرآن کا حوالہ دیتے ہوئے):کہہ:کیا تم واقعی اُس پر ایمان نہیں رکھتے جس نے دو دنوں میں زمین کو خلق کیا اور اُ س جیسی اور بہت سی چیزیں بنائیں؟یہ کائنات کا خداوند ہے۔اُس نے مضبوطی سے اِسے
(پہاڑوں کو) قیام بخشا اور اُسے برکت بخشی اور یہ حکم دیا کہ اُس میں چاردنوں میں ہر قسم کی خوراک برابر اُن کے لئے پائی جائے جو اُسے مانگتے ہیں۔جمعرات کو اُس نے آسمان بنایا۔جمعہ کے دن اُس نے باقی تین گھنٹے رہ جانے تک ستارے،سورج،چاند اورفرشتے بنائے۔ 20

چونکہ صحیح حدیث قرآن کی تشریح کرنے میں مُستند اور بااختیار ہیں اِس لئے ہم ذاکر نائیک سے برعکس یہ ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن چوبیس گھنٹوں کی تخلیق کی تعلیم دیتا ہے۔

شاید کچھ لوگ اِس بات پر اعتراض کریں کہ چونکہ چھ دن کی ترتیب ایک ہفتے کے کام جیسی ہے اِس لئے چوبیس گھنٹوں کا عرصہ ہونا چاہئے۔یہ سچ ہے کہ تخلیقی ہفتے کا موازنہ کام کے ہفتے کے ساتھ ہوتا ہے(خروج 11:20)۔تا ہم یہ توریت شریف میں یہ عام بات نہیں کہ ایک ایک عنصر کا موازنہ غیر متناسب طور پر کیا جائے۔مثال کے طور پر خدا نے نافرمانی کے چالیس دنوں کی وجہ سے بیابان میں چالیس سالوں کا بھٹکنا مقرر کیا (گنتی 34:14)۔ یا پھر دانی ایل 24:9-29 میں 490 دن 490 سالوں کو ظاہر کرتے ہیں۔

پیدایش کا دوسرا نظریہ:
لغوی خاکے کی تشریح

بہت سے علما پیدایش کی کتاب کو ایک بصری نظم کے طور پر لیتے ہیں جس کا مقصد محض لفظی طور پر اور نہ ہی تاریخی تربیت کے لحاظ سے اِس کی تشریح کرنا ہے کیونکہ یہ بنیادی طور پر علم ِ الہٰی کی وضاحت کے ساتھ واضح طور پر ایک نظمیہ بناوٹ ہے:

بنانے کے دن:
بھرنے کے دن:
دن نمبر1: ”روشنی“(آیت 3) دن نمبر4: ”روشنیاں“(آیت 14)
دن نمبر2: ”فضا اور سمندر“(آیت 7) دن نمبر5: ”پرندے اور سمندری مخلوق“(آیت 21)
دن نمبر3 الف: ”خشک زمین“(آیت 9) دن نمبر6: ”جانور“(آیت 24)

”انسان“(آیت 26)

دن نمبر 3ب: ”نباتات“(آیت 11) دن نمبر6: ”سبز پودے“(آیت30)

اِس نظریے میں ’دن‘ کی استعارا تی شاعرانہ لغوی خاکے کے طورپر تشریح کی گئی ہے۔کسی کو بھی صحائف کو اُن کی اصلی زبان اور روایات کے مطابق ترجمہ کرنا چاہئے اور ہم جانتے ہیں کہ واقعات کو تواریخی اعتبار سے ترتیب دینے کی بجائے اُنہیں علم الہٰیات کے مطابق دوبارہ ترتیب دینا یہودی ادب میں عام تھا۔متی رسول کی معرفت لکھی گئی انجیل اِس کی ایک مثال ہے جس میں سید نا حضرت عیسیٰ المسیح کی زندگی کے تواریخی واقعات کو جان بوجھ کر علم ِ الہٰیات کے گروہوں کے مطابق دوبارہ ترتیب دیا گیا ہے اگرچہ کہ تب بھی ترتیب کی زبان استعمال ہوئی ہے۔یہ ہماری تہذیب اور ادبی روایات کے حساب سے ہمیں عجیب لگتاہے مگر یہ عبرانی صحائف کے مطابق درست ہے۔

اگر ہم صحائف میں تخلیقی حوالے سے درست تواریخی ترتیب کا تقاضا کریں تو پھر قرآن کو بھی خطرہ لاحق ہو جائے گا۔اگر ہم
سورہ 9:41-12 کے تخلیقی دنوں کو جمع کریں تو ہمیں آٹھ دن ملتے ہیں (2+4+2) جب کہ قرآن مجید میں باقی جگہ لکھا ہے کہ تخلیق چھ دنوں میں پایہ تکمیل کو پہنچی(7:11،3:10،54:7 اور 59:25) ۔ہم ہمیشہ صحائف کی ترتیب سے تشریح نہیں کر سکتے۔

پیدایش کے دنوں کی ترتیب

نقادوں نے پیدایش کی ترتیب کو چیلنج کیا ہے جیسے کہ سورج اور چاند کے بننے سے پہلے دن او ررات کیسے بن گئے یا سورج سے پہلے نباتات
کیسے پیدا ہو گئیں۔پیدایش کی درج ذیل تشریح تمام غلط فہمیوں کو دور کردیتی ہے۔

بنیادی طو رپر پیدایش کے پہلے باب کی پہلی آیت میں جو تناظر یا نظریہ قائم ہوا وہ زمین پر پانی کی سطح ہے جہاں انسان کو تخلیق کے سب سے آخر میں رکھا گیا ہو گا۔

تخلیق کے مراحل کو اُسی طرح بیان کیا گیا ہے جیسے اُنہیں اُس تناظر سے سمجھا گیا ہو گا نہ کہ کسی قسم کے خارنی مفروضاتی جائزہ لینے والے کے تناظر سے درست خیال یا تناظر کو سمجھتے ہوئے تخلیق کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ 21

جدید سائنس پیدایش کا حوالہ
تخلیق: (14 کروڑ سال پہلے) عام طور پر قبول کئے جانے والے ”خدا نے ابتدامیں زمین و آسمان کو پیدا کیا“(آیت 1)۔
بگ بینگ نظریے کے مطابق۔
زمین کے ابتدائی حالات:(ساڑھے چار کروڑ سال پہلے) بگ بینگ نظریے کے مطابق۔
زمین کے ابتدائی حالات:(ساڑھے چار کروڑ سال پہلے)موجودہ سائنس کے مطابق،زمین کی اوّلین فضا اورنظام ِشمسی کے سیاروں کے ٹکڑوں نے سورج،چاند اور ستاروں کی روشنی کو
زمین کی سطح کے سمندر تک پہنچنے سے روکا جو زندگی کے لئے
ابتراورغیر مناسب تھا۔
”زمین ویران اور سُنسان تھی اور گہراؤ کے اُوپر اندھیرا تھا اور خدا کی رُوح پانی کی سطح پر جُنبش کرتی تھی۔“(آیت 2)
بے ترتیبی سے ترتیب کے مراحل
پہلا مرحلہ: فضا کا جزوی صاف ہونا(ساڑھے چار سے تین کروڑ سال پہلے)۔سیاروں کے ٹکڑوں کا صاف ہونا اور زمین کی فضا کی جزوی تبدیلی تاکہ آسمانی چیزوں کی روشنی زمین کے سمندر کی سطح تک پہنچ سکے۔ پہلا دن:”…اور خدا نے کہا کہ روشنی ہو جا اور روشنی ہو گئی۔ اور خدا نے دیکھا کہ روشنی اچھی ہے اور خدا نے روشنی کو تاریکی سے جدا کیا۔اورخدا نے روشنی کو تو دن کہا اور تاریکی کو رات اور شام ہوئی اور صبح ہوئی۔سو پہلا دن ہوا۔“(آیت 5-3)
دوسرا مرحلہ: فضا او رپانی کا الگ ہونا (2-3 کروڑ سال پہلے)

فضا کے نیچے بادل یا آبی بخارات کا بنناجس سے اِن حالات میں پانی کا چکر قائم ہوا۔

دوسرا دن: ”پس خدا نے فضا کو بنایا اور فضا کے نیچے کے پانی کو فضا کے اُوپر کے پانی سے جدا کیا اور ایسا ہی ہوا۔“ (آیت 7)
تیسرا مرحلہ: براعظم،پودے(650-2b لاکھ سال پہلے) براعظموں کے ٹکڑوں اور سمندروں کی تہوں کا بننا اور ابتدائی نامیاتی اجسام اور پودوں کا بننا۔

تیسرا دن: ”…اور خدا نے کہا کہ آسمان کے نیچے کا پانی ایک جگہ جمع ہو کہ خشکی نظر آئے اور ایسا ہی ہوا۔اور خدا نے خشکی کو زمین کہا او رجو پانی جمع ہو گیا تھا اُس کو سمندر اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے۔“

(آیت 10-9)

چوتھا مرحلہ: سورج اور چاند نظر آئے (650-600 کروڑ سال پہلے) نیم شفاف رہنے سے کبھی کبھار صاف رہنے کے لئے فضا کی تبدیلی۔اب سورج،
چاند،سیارے اور ستارے زمین کی سطح کے
اُونچے مقام سے دور دراز کی چیزوں کے
طور پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

چوتھا دن: ”…سو خدا نے دو بڑے نیّر بنائے۔ایک نیّر اکبر کہ دن پر حکم کرے اور ایک نیّر اصغر کہ رات پر حکم کرے اور اُس نے ستاروں کو بھی بنایا۔“(آیت 16)
پانچواں مرحلہ: جانوروں کی حیات کا آغاز (600-200 کروڑ سال پہلے)

چھوٹے سمندری جانوروں کی کثرت کا ارتقا

پانچواں دن: ”اور خدا نے کہا کہ پانی جانداروں کو کثرت سے پیدا کرے اور پرندے زمین کے اُوپر فضا میں اُڑیں۔“ (آیت 20)
چھٹا مرحلہ: مختلف جانوروں کا پیدا ہونا

(600-200 کروڑ سال پہلے)

دودھ پِلانے والے جانوروں کا ارتقا اور انسانوں کا آغاز۔

چھٹا دن: اور خدا نے جنگلی جانوروں اور چوپایوں کو اُن کی جنس…پھر خدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں۔“ (آیت 25،24)

Geologic Timeline of Creation

قرآن مجید اور توریت شریف دونوں میں تخلیق کے واقعات میں کچھ نہ کچھ ایک جیسی پیچیدہ ترتیب موجود ہے۔سورۃ 9:41-12 میں قرآن
کی بنیادی تخلیق کا وا قعہ زمین کو خلق کرنے کے بعد سات آسمانوں کی تخلیق بیان کرتاد کھائی دیتا ہے۔سورہ البقرۃ 29 میں بھی یہی اشارہ ملتا ہے:

”وہی تو ہے جس نے سب چیزیں جو زمین میں ہیں تمہارے لئے پیدا کیں پھر آسمانوں کی طرف متوجہ ہوا۔تو اُن کو ٹھیک سات آسمان بنا دیا۔“

اِس طرح ہم قرآن میں ایک جیسی تواریخی تربیت کی مشکل دیکھتے ہیں۔اِس کاہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ قرآن غلط ہے،اِس سے ہمیں یہ پتاچلتا ہے کہ سب سے پہلے آیات جیسے ہمیں دکھائی دیتی ہیں ہم ہمیشہ اُن کی ویسے تشریح نہیں کر سکتے۔

کچھ نقاد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ چوتھے دن سورج یا چاند کے لئے جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ ’خلق‘ ہے نہ کہ ’بنایا‘۔تاہم،اِن الفاظ کے لئے عبرانی لفظ ’خلق‘ (בּרא, بارا) نہیں ہے بلکہ عبرانی لفظ (עשׂה ”ایشا“ )ہے جس کا ترجمہ ”ظاہر کیا“ بھی ہو سکتا ہے۔پرانے عہد نامے میں یہ لفظ
1200 مرتبہ آتا ہے اور جس کے بہت وسیع معنی ہیں جن میں ”کیا“،”بنایا“،”دکھانا“،”ظاہرہونا“،”ظاہر کیا“وغیرہ شامل ہیں۔اِس حقیقت کی روشنی میں ہم یہ نتیجہ اَخذ کرنا چاہئے کہ سورج اور چاند پہلے دن خلق ہوئے (آیت 3)لیکن چوتھے دن ظاہر ہوئے۔

سورج سے پہلے نباتات

نائیک نے پیدایش کی اِس تعلیم پر تنقید کی ہے کہ نباتات سورج کی تخلیق سے پہلے بنیں جو کہ سائنسی اعتبار سے ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ 22 اگرچہ مندرجہ بالا وضاحت نائیک کی مشکل کو حل کرتی ہے۔صحیح مسلم 23 میں اور ا لطبری کے مطابق قرآن کی تخلیقی ترتیب میں بھی ہمیں یہ ملتا ہے کہ نباتات سورج کی تخلیق سے پہلے دو دن بنیں۔مندرجہ بالا تشریحی خاکہ توریت شریف کی تخلیقی ترتیب دکھاتے ہوئے اِس نیم شفاف روشنی (جو پہلے دن ظاہر ہوئی)کو یوں بیان کرتا ہے کہ یہ روشنی اِس عرصے سے پہلے بھی فضا میں سے گزر کر آرہی تھی اگرچہ کہ سورج یا چاند
ابھی تک دکھائی نہیں دیتے تھے۔اِس طرح فوٹوسینتھسس (photosynthesis) کا عمل ہو سکا اور پودے اُگ سکے،جس کے بدلے میں آکسیجن پیدا ہوئی اور فضا صاف ہو گئی۔ڈاکٹر رابرٹ سی۔نیومین (جنہوں نے کارنل یونیورسٹی سے تھیورو یٹیکل آسٹر و فزکس میں پی۔ایچ ڈ ی کی)یہ نتیجہ اَخذ کرتے ہیں کہ:

”نباتات فضا میں آکسیجن کے بننے اور اِس پر سے بھاری بادل کے غلاف کو ہٹانے،دونوں کا فوری نتیجہ تھیں۔“ 24



 

کائنات کا علم

چپٹی یا گول زمین؟

Ancient Cosmology

شکل نمبر:1 کائنات کا قدیم نظریہ

کوپرنیکوس (Copernicus) سے پہلے بہت سی ثقافتیں زمین کے متعلق ایک عام خیال کچھ ایسا تصور کرتی تھیں جیسے کہ مندرجہ بالا شکل میں دکھایا گیا ہے۔ تاہم ارسطو (322-384 ق م) اور بطلیموس(دوسری صدی عیسوی)نے یہ تعین کیا تھا کہ زمین گول ہے اور ارسترخس(Aristarchus)(سرکا 280 ق م)نے یہ تعین کیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔

شکل نمبر 2: یہ تصویر ’عمر بن مظفر ابن ِ الوردی کی ہے جو خیریدات العجائب وفریدات الغرائب(The pearl of Wonders
and the Uniqueness of Things Strange) میں 17 ویں صدی میں شائع ہو چکی ہے۔

Ajaib al-Makhluqat

شکل نمبر3: ایران کے مصنف زکریاہ قازوینی کی بنائی گئی عجائب المخلوقات (The wonders of creation)کی تصویر۔
(1283 یا 1284 عیسوی)

Egyptian Cosmology

شکل نمبر4: مصر کا ایک قدیم خیال یا نظریہ

شکل نمبر4: مصر کا ایک قدیم خیال یا نظریہ

”کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا ہی رات کو دن او ردن کو رات میں داخل کرتا ہے؟“ (سورۃ لقمان 29:31)

نائیک وضاحت کرتا ہے کہ مندرجہ بالا آیت معجزانہ طور پر یہ سکھاتی ہے کہ زمین گول ہے کیونکہ اگر زمین گول نہ ہوتی تو کیا دن کا رفتہ رفتہ رات میں تبدیل ہونا ممکن ہوتا۔درحقیقت،قرآن صرف یہ بیان کر رہا ہے کہ عام علم کیا ہے کہ دن فوری طور پر رات میں نہیں بن جاتا۔
اِس دعوے کی مزید حمایت میں نائیک یہ آیت استعمال کرتا ہے:

”اور اِس کے بعد زمین کو پھیلا دیا۔“ (30:79)

پھر نائیک نے وہ کیا جو وہ اکثر اپنے نکتے کو ثابت کرنے کے لئے کرتا ہے،وہ عربی الفاظ کے لئے اپنے نئے ”معنی“ایجاد کرتا ہے۔وہ الفاظ
جو سینکڑوں سالوں سے مقبول تعریفوں کے طورپر جانے جاتے تھے،اورمحض ذاکر نائیک کے سائنسی معجزہ کو ثابت کرنے کے لئے بغیر کسی وجہ کے اُن کی اچانک دوبارہ تعریف کی جاتی ہے۔اِس طرح سورۃ 30:79 کا ترجمہ ہمیشہ سے یوں ہی کیا گیا ہے،”پھیلا دیا“،تاہم،
تاہم نائیک یہ دلیل دیتا ہے کہ لفظ دَحَہا کا مطلب ’پھیلا ہوا“نہیں ہے،بلکہ ’شُتر مُرغ کا اَنڈہ“ ہے،اِس لئے وہ اِس کا ترجمہ کچھ یوں کرتا ہے،”اور زمین اُس نے مزید انڈے کی شکل کی بنائی۔“

عربی کی کوئی بھی ایسی مُستند لُغت نہیں ہے جہاں دَحَہا کا مطلب ”شُتر مُرغ کا اَنڈہ“دیا گیا ہو۔ بکاؤلے ازم کی پچھلی دو دہائیوں سے پہلے،کسی بھی عربی عالم نے اِس آیت کا اِس طرح سے ترجمہ نہیں کیا؛جن میں یوسف علی،پیکتہال،شاکر،اسداور داؤد جیسے علما شامل ہیں جنہوں نے اِن آیات کے درست ترجمے کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔ہمیں کس کی بات سننی چاہئے -لسانی ماہرین اورقرآن کی عربی کے سنجیدہ علما کی،یا سعودیہ کے تعاون سے چلنے والے ٹیلی وژن کے مُبلّغ ذاکر نائیک کی؟جیسے کہ عبدالرحمان لومکس اشارہ کرتا ہے،
یہ دوبارہ سے کیا گیا انڈے کا ترجمہ”فضول بات“ہے کیونکہ زمین انڈے کی شکل کے بالکل برعکس ہے۔وہ دونوں سروں سے پچکی ہوئی ہے نہ کہ اُبھری ہوئی ہے۔

نائیک کی کوشش کے باوجود قرآن کے حصوں کی تاریخ میں یوں تفسیر کی گئی ہے کہ یہ ایک چپٹی زمین کی نشاندہی کرتے ہیں۔اِس لئے:

”اور زمین کوبھی ہم ہی نے پھیلایا(ایک قالین کی مانند)…“ (ال ہجر 19:15)

”کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا؟“(النبا 78:6)

”کیا اُنہوں نے اپنے اُوپر آسمان کی طرف نگاہ نہیں کی کہ ہم نے اُس کو کیونکر بنایا او ر(کیونکر)سجایا اور اُس میں کہیں شگاف تک نہیں
اور زمین کو (دیکھو اُسے)ہم نے پھیلایا او راُس میں پہاڑ رکھ دئیے۔“ (ق 6:50-7)

”اور آسما ن کی طر ف کہ کیسا بلند کیا گیا ہے اور پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح کھڑے کئے گئے ہیں اور زمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی
گئی۔“ (الغاثیہ 18:88-20)

نامور مفس الجلالین کی تفسیر اِس آیت کے بارے میں کچھ یوں کہتی ہے:

”جیسے کہ اُس کے الفاظ سوتیحات،’پھیلا دیا‘اِس کی لفظی قرأت سے پتاچلتا ہے کہ زمین چپٹی ہے جو کہ شریعت کے زیادہ تر علماکی رائے ہے،اور یہ گول نہیں ہے جیسا کہ بہت سے علم ِ نجوم کے ماہرین کہتے ہیں …“

اِسی طرح نامورمصری شافعی علم ِ الہٰی کے ماہر جناب امام السیوطی نے بھی یہی سکھایا کہ زمین چپٹی ہوئی ہے۔

مندرجہ بالا اقتباسات کے باوجود نائیک دانی ایل 10:4-12 کا استعمال کرتے ہوئے کتاب مقد س پر حملہ کرتا ہے کہ یہ تعلیم دیتی ہے کہ زمین چپٹی ہے۔

”میں نے نگاہ کی اور کیا دیکھتا ہوں کہ زمین کے وسط میں ایک نہایت اُونچا درخت ہے… تمام بشر نے اُس سے پرورش پائی۔“

نائیک مکمل طور پر اِس حقیقت کو نظر انداز کر دیتا ہے کہ یہ اقتباس محض اِس بات کا ذکر کر رہا ہے کہ کس طرح ایک بت پرست بادشاہ نے اپنا ایک پریشان کرنے والا خواب بیان کرنے کی کوشش کی۔شاید نبوکدنضر نے یہ سوچا ہو کہ زمین چپٹی ہوئی ہے۔جیسا کہ اکثر خوابوں میں ہوتا ہے شاید اُس کے خواب میں بگڑی ہوئی طبعی حقیقتیں ہوں یا اُس نے اپنے خواب کو سمجھنے میں غلطی کی ہو۔کسی بھی معاملے میں یہ ا قتباس یہ بتانے کے لئے استعمال نہیں ہو سکتا کہ کتاب مقدس ایک چپٹی زمین کی تعلیم دیتی ہے۔نائیک ایک اور رویا استعمال کرتا ہے جو یسوع کی آزمائش کے دوران شیطان نے پیدا کی جس میں،

”ابلیس نے اُسے اُونچے پر لے جا کر دنیا کی سلطنتیں پل بھر میں دکھائیں۔“ (لوقا کی انجیل 5:4)

نائیک کے مطابق اِس کا مطلب ہے کہ کتاب مقدس یہ درس دیتی ہے کہ زمین چپٹی ہے۔درحقیقت،یہ ایک پلک جھپکنے کی رویا ہے۔کوئی شخص معراج پر جانے کی سائنسی وضاحت کے بارے میں بھی سوال کر سکتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ نبی یروشلیم ایک پر َ والے گھوڑے پر جا سکتے اور پھر آسمان تک پہنچ جاتے اور ایک ہی رات میں واپس بھی آ جاتے ہیں۔

آخر کار،نائیک درج ذیل آیت کو بھی کتاب مقدس کی چپٹی زمین کے ”ثبوت“ کے طورپر استعمال کرتا ہے:

”اور وہ قوموں کے لئے ایک جھنڈا کھڑا کرے گا اور اُن اسرائیلیوں کو جو خارج کئے گئے ہوں جمع کرے گا او رسب بنی یہوداہ کو جو پراگندہ
ہوں گے زمین کی چاروں طرف سے فراہم کرے گا۔“ (یسعیاہ 12:11)

جس لفظ کا ترجمہ’طرف‘سے کیا گیا ہے وہ لفظ،’کانپ‘ ( ‘kanaph’ כּנף) ہے جس کے تراجم ”شدید حد تک“،”چوتھائی“،”سرحد“،
”انتہائیں“،یا پھر ”پَر“بھی کئے گئے ہیں۔حتیٰ کہ وہ قدیم معاشرے جو اِس بات پریقین رکھتے تھے کہ زمین چپٹی ہوئی ہے،اُنہوں نے سوچا کہ یہ ایک ڈِسک کی طرح تھی جو یہاں کتاب مقدس کی وضاحت کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتی۔قدیم معاشرے شمال،جنوب،مشرق مغرب کی چاروں سمتوں کو جانتے تھے،یہی وجہ ہے کہ ہم فطری طو ر پر چاروں،’کاناف‘ کی تشریح کرتے ہیں۔یہ بالکل واضح ہے کہ چاروں سمتوں (شمال،جنوب،مشرق،مغرب)کے لئے یہ ایک محاورہ ہے۔طنزاً،حتیٰ کہ کتاب مقدس کے نقاد احمد دیدات (نائیک کا پیش رو)نے بے پروائی سے اِس محاورے کو یہ کہتے ہوئے استعمال کیا:”دنیا کے چاروں کونوں تک۔“ 25

اِس طرح ہم نائیک کی تمام کوششوں کو دیکھتے ہیں،کتاب مقدس میں ایسی کوئی آیت نہیں ہے جو چپٹی زمین کو ثابت کرے۔اِس کی بجائے،چونکہ قدیم عبرانی میں گولائی کے لئے کوئی لفظ نہ تھا،جب کہ ’دائرہ‘ ہی قریب ترین لفظ تھا جو زمین کو بیان کرنے کے لئے استعمال ہو سکتا تھا۔”دائرہ“کی وضاحت زمین کو بیان کرنے کے لئے کتاب مقدس میں بارہا استعمال ہوئی ہے (دیکھئے یسعیاہ 22:40، ایوب
10:26، امثال27:8)۔

آسمان کو تھامے ہوئے ستون

قرآن صریحاً ستونوں کی موجودگی سے انکار نہیں کرتا، تا ہم یہ بہت سی آیات میں کہتا ہے کہ وہ انسانی نظروں سے اوجھل ہیں:

”خدا وہی تو ہے جس نے ستونوں کے بغیر آسمان جیسا کہ تم دیکھتے ہو (اتنے)اُونچے بنائے …“(الرعد 2:13 اور لقمان 10:31)

اِس آیت پر ابنِ کثیر کی تفسیر کچھ یوں کہتی ہے،

ابن ِ عباس،مجاہد،الحسن، قتادہ ااور کئی دوسرے علما کے مطابق،”ستون ہیں لیکن تم اُنہیں دیکھ نہیں سکتے۔“

اِس طرح کی کتاب مقدس میں ایک آیت ہے جو ستونوں کی بات کرتی ہے جو نقاد غلطی سے کتاب مقدس کے نظام کائنات پر تنقید کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں:

”آسمان کے ستون کانپتے اور اُس کی جھڑکی سے حیران ہوتے ہیں۔“ (ایوب 11:26)

ایوب کی کتاب حکمت کا ادب ہے اور یہ بہت زیادہ استعاری،مبالغہ آمیزی اور شاعرانہ تصور استعمال کرتا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ واقعی ایوب اِس پر یقین نہیں کرتا ہوگا کہ آسمانوں کے ستون ہیں کیونکہ اِس آیت سے پہلے کی آیت یہ کہتی ہے:

”وہ شمال کو فضا میں پھیلاتا ہے اور زمین کو خلا میں لٹکاتا ہے۔“ (ایوب 7:26)

ایوب نہ صرف یہ جانتا تھا کہ آسمان خلا میں لٹکے ہوئے ہیں بلکہ شاید اُسے یہ بھی معلوم تھا کہ زمین بھی خلا میں لٹکی ہوئی ہے جو شاید ایسی قدیم تحریر کے لئے غیر معمولی طور پر بہت جدید دکھائی دیتی ہو گی۔اگر نقاد یہ ثبوت نہ بھی قبول کریں تب بھی اُسے یہ یادکروانے کی ضرورت ہے کہ کتاب کے آخر میں خدا ایوب کو تخلیق کے بارے میں سب کچھ فرض کرنے پر اُسے ملامت کرتا ہے (ایوب 1:38-4) ۔تب ایوب توبہ کرتا ہے اور خدا اُسے اِس بات کے لئے عزت بخشتا ہے۔

زمین کے نیچے کے ستون

نائیک کتاب مقدس پر حملہ کرتا ہے کہ یہ کہتی ہے کہ زمین کے ستون ہیں:

”وہ زمین کو اُس جگہ سے ہلا دیتا ہے اور اُس کے ستون کانپنے لگتے ہیں۔“ (ایوب 6:9)

”زمین او راُس کے سب باشندے گداز ہو گئے ہیں۔میں نے اُس کے ستونوں کو قائم کر دیا ہے۔“ (زبور 3:75)

یہاں ”زمین“ یا ”ستونوں“ کی وضاحت کا کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ محض عبرانی اصطلاحات کا استعمال ہے جسے آج ہم ”براعظمی پلیٹس“
اورزیرِ زمین ٹکڑے کہیں گے۔ 26 ؎ اگر خدا نے یہ کہا ہوتا،”…جب براعظمی پلیٹس ہلتی ہیں تو یہ میں ہوں جو زیر ِ زمین تہوں کومضبوطی سے سنبھالے رکھتا ہوں“تو یہودی یہ کبھی نہ سمجھ پاتے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اِس لئے اُس نے اُن کا ذخیرہ الفاظ استعمال کیا۔خدا بات چیت کرنے کے لئے انسانی جانا پہچانااظہار او رزبان کو استعمال کرتا ہے۔بالکل اِسی طرح قرآن بھی ایسے اظہار استعمال کرتا ہے جو تکنیکی اعتبار سے درست نہیں ہیں تاہم قابلِ قبول ہیں جسے ”غروب آفتاب“اور ”طلوع ِ آفتاب“۔نقاد یہ سمجھنے میں ناکام ہوتے ہیں کہ یہ آیت زمین کی وضاحت کرنے کی غرض سے نہیں لکھی گئی ہے بلکہ یہ خدا کی حاکمیت کے بارے میں ایک اقتباس ہے جو بات چیت کرنے کے لئے جانے پہچانے انسانی استعارات استعمال کرتا ہے۔

نائیک درج ذیل اقتباس پر بھی تنقید کرتا ہے:

”وہ غریب کو خاک پر سے اُٹھاتا اور کنگال کو گھُورے میں سے نکال کر کھڑا کر تا ہے تاکہ اِن کو شاہ زادوں کے ساتھ بٹھائے او رجلا ل کے تخت کے وارث بنائے کیونکہ زمین کے ستون خدا وند کے ہیں۔اُس نے دنیا کو اُن ہی پر قائم کیا ہے۔“ (1 -سموئیل 8:2)

مندرنہ بالا لفظ”ستون“ جو حنّہ کی دعا میں استعمال ہوا ہے، لفظ ”متسوق“ matsuq ہے جو بعض اوقات ”ستون“ کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔ دوبارہ یہ بات کہنی ہے کہ ”ستون“ براعظموں کی پلیٹس کے نیچے زیر ِ زمین ٹکڑوں کی ایک جائز وضاحت ہے۔ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ تاریخی اقتباس صرف ایک کمزور انسان(سموئیل کی ماں حنّہ) کی دعا رقم کر رہا ہے۔

سورج،چاند،ستارے،دُم دار تارے اورآسمان

نائیک نے یہ الزام لگایا کہ توریت شریف یہ غلط تعلیم دیتی ہے کہ چاند روشنی دیتا ہے:

خدا نے دو بڑے نیّر بنائے۔ایک نیّر اکبر کہ دن پر حکم کرے اور ایک نیّر اصغر کہ رات پر حکم کرے اور اُس نے ستاروں کو بھی بنایا۔او ر خدا نے اُن کو فلک پر رکھا کہ زمین پر روشنی ڈالیں۔او ردن پر اور رات پر حکم کریں اور اُجالے کو اندھیرے سے جدا کریں او رخدا نے دیکھا کہ اچھا ہے۔ (پیدایش 16:1-18)

یہ دلیل بالکل بیہودہ ہے کیونکہ چاند کو ”نور“ کہنا بالکل قابل قبول ہے کیونکہ یہ آیت کہیں بھی اُسے ”نور کا ذریعہ“ نہیں کہتی۔شاید کوئی شخص جدید لوگوں پر”چاند کی روشنی“ کی اصطلاح استعمال کرنے کے زُمرے میں اعتراض کرسکتاہے۔تمام صحائف تخلیق کو بیان کرنے کے لئے غیر معمولی اصطلاحا ت استعمال کرتے ہیں۔قرآن بھی چاند کو ”نور“کہتا ہے (15:71-16)۔ ”نور“ کے لئے عبرانی لفظ (ما اورmaor) (מאור, mâ’ôr ) براہ ِ راست اور منعکس روشنی دونوں کی بات کرتا ہے(امثال 30:15) ۔درحقیقت حزقی ایل 7:32-8 اور متی 29:24 یہ اشارہ دیتے ہیں کہ چاند کی روشنی سورج کی بنیادی روشنی پر منحصر ہے۔

قرآن بھی کسی حد تک چاند کی پیچیدہ وضاحت بیان کی گئی ہے،کیونکہ یہ کہتا ہے کہ تہہ دار سات آسمان ہیں،جس کے سب سے نچلے پر ستارے ہیں 27 (اگر چہ اب ہم جانتے ہیں کہ ستارے پوری کائنات میں پھیلے ہوئے ہیں)۔جب کہ سورہ نوح 15:71-16 چاند کو سات افلاک کے درمیان میں جگہ دیتی ہے جو اِسے نچلے افلاک میں سے قریب ترین ستاروں کی بجائے اِسے بہت دُور جگہ دیتی ہے۔

ہم بھی قرآن میں مقابلتاً کائناتی پیچیدگیاں پاتے ہیں،اِس مرتبہ دُم دار ستاروں سے متعلق سورہ الصافات یوں بیان کرتی ہے:

”ہم ہی نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے مزّین کیا اور ہر شیطان سرکش سے اِس کی حفاظت کی کہ اُوہر کی مجلس کی طرف کان نہ لگا سکیں او رہر طرف سے (اُن پر انگارے)پھینکے جاتے ہیں (یعنی وہاں سے)نکال دینے کو اور اُن کے لئے عذاب دائمی ہے۔ہاں جو کوئی
(فرشتوں کی کسی بات کو)چوری سے جھپٹ لینا چاہتا ہے تو جلتا ہوا انگار ا اُس کے پیچھے جا لگتا ہے۔“ (6:37-10)

ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے دُم دار ستارے مخبری کرنے والے جنوں کا تعاقب کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں جب تک کہ کوئی شخص اِن آیات کی دوبارہ تشریح نہ کرے یا الفاظ کی دوبارہ تعریف نہ کرے۔یہ مثالیں قرآن کو کم تر کرنے کے لئے نہیں دی گئیں بلکہ یہ بیان کرنے کے لئے دی گئی ہیں کہ غیر تکنیکی زبان استعمال کرنے کے لئے ہم صحائف کو رد نہیں کر سکتے۔


 

حصہ سوم

سائنس کی تاریخ

ذاکر نائیک جیسے نقاد کتاب مقدس کو سائنسی ترقی روکنے والی کتاب کے طور پر پیش کرنے کی سخت کوشش کرتے ہیں:

”اگر آپ تجزیہ کریں تو ماضی میں کلیسیا سائنس کے خلاف رہی ہے -اور آپ اِس واقعہ سے باخبر ہیں کہ اُنہوں نے گلیلیو کو موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا۔اُنہوں نے گلیلیوکو موت کے گھاٹ اُتار دیا -کیوں؟کیونکہ اُس نے علم ِ نجوم میں کچھ ایسے بیانات دیئے تھے جوبائبل کے خلاف تھے -اِس لئے اُنہوں نے اُسے موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ 28

گلیلیو ایک کٹّر کیتھولک شخص تھا جسے کبھی بھی موت کے حوالے نہیں کیا گیا۔گلیلیو کو 22 جون 1933 میں عمر قید ہوئی اور پھر وہ سزا گھر ہی میں نظر بندی میں بدل گئی۔اور آٹھ سال سے زیادہ کے عرصے کے بعد اُس نے 8 جنوری 1642 کی شام عمر رسیدہ ہو کر وفات پائی۔گلیلیو کو یقین تھا کہ اُس کے نظریات کتاب مقدس کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں اور اُس نے ابتدائی مسیحیوں جیسے کہ آگسٹین کی تشریحات کو بنیاد بناتے ہوئے ایک کتاب میں اِس پر بحث بھی کی۔

جب ہم تاریخ کو دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ کتاب مقدس کی بنیاد پر مبنی دنیا کا نظریہ سائنس پر ایک شاندار مثبت اثر رکھتا تھا۔وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ، کلیدی سائنس دان کتاب مقدس پر گہرا ایمان رکھتے ہوئے فطرت کامطالعہ کرنے پر متحرک ہوئے۔موجودہ
علم و فضل یہ دوبارہ دریافت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ سائنس کیسے محض ’حقائق کو دریافت‘کرنا نہیں ہے بلکہ یہ بہت حد تک کسی شخص کے دنیا کے بارے میں نظریے کی تشکیل ہے۔ایسے معاشرے جہاں دریا ؤں او ردرختوں کو خدا مانتے ہوئے اُن کی پوجا کی جاتی ہے،اُنہوں نے ابھی تک خطرناک طوفانوں کو روکنے کے لئے کنارے نہیں بنائے یا ایسے ڈیم نہیں بنائے جہاں وسائل کو سنبھالا جائے۔یونانی لوگوں نے ٹیکنالوجی میں تھوڑی سی ترقی کی کیونکہ اُنہوں نے مادی دنیا او رکام کو حقیر جانا اور اُ سکی جگہ غیر مادی اشیاکے لئے منصوبہ بندی کرنے کو
ترجیح دی۔

آئزک نیوٹن جو جدید طبیعات کا بانی ہے ایک پکا مسیحی تھا جو اپنے سائنسی نظریات کو خالق کا ایک ثبوت سمجھتا تھا۔واقعی نیوٹن نے سائنس سے کہیں زیادہ مسیحی علم ِ الہٰی پر لکھا ہے۔آئزک نیوٹن کے زمانے میں دیکارت جیسے فلسفیوں نے فطری دنیا او رروحانی دنیا کو بالکل الگ دیکھا
جب کہ دوسرے اِس میں قدرے ہمہ اوست کے معنوں میں پیدائشی طور پر ایسی اندرونی روحانیت دیکھتے ہیں جو کائنات میں سرایت کر جاتی ہے۔تاہم،نیوٹن نے خالصتاًمشینی کائنات اور وحدت الوجود کائنات کے مابین ایک درمیانی راستہ تلاش کرتے ہوئے دنیا کے بارے میں کتاب مقدس کے نظریے کے مطابق طبیعات کے قوانین بنائے۔نیوٹن پورے دل سے نئے عہد نامے کے اختیار کو قبول کرتے ہوئے اور لفظی معنوں میں اُن کی تشریح کرتے ہوئے اور اِس بات پر یقین رکھتے ہوئے کہ حضرت عیسیٰ المسیح خدا کے بیٹے اور خداوند دونوں ہیں
اُس کی تعلیمات کا وفادار تھا۔

رابرٹ بوئل (1691-1627) ایک بے حد گہر ا دینی مسیحی تھا جو جدید علم ِ کیمیا کا بانی تھا اور جس نے بوئل کا قانون دریافت کیا اور وہ یہ تھاکہ گیس جتنی جگہ گھیرتی ہے اُس کا دباؤ تناسب کے لحاظ سے اُس کے بالکل برعکس ہے۔اُس نے علم ِ الہٰی پربہت زیادہ لکھا۔

نیکولس کوپرنیکس (1543-1473) نے کائنات کا ہیلیو سینٹرک ”heliocentric“ (جس کا مرکز سورج ہو)نمونہ بنایا او راُسے مقبولیت بخشی۔جبکہ ہیلیو سینٹرک نظریات ماضی میں یونانی،بھارتی او رمسلم فلسفی متعارف کروا چکے تھے۔کوپرنیکس کی سائنسی وضاحتیں جد ید سائنس کے میدان میں ترقی کا ایک سنگ میل بن گئیں۔کوپرنیکس ایک کیتھولک پادری تھاجس نے سب سے پہلے اپنے نظریات پوپ کلیمنٹ ہفتم اور کئی دیگر کیتھولک کارڈینلز کو بتائے جو پُر جوش اور مثبت سوچ رکھنے والے لوگ تھے۔کوپر نیکس کا انتقال ایک چوٹ لگنے سے ہوا۔اُس وقت اُس کی عمر 70 برس تھی اور وہ فروم بروک کتھیڈرل میں دفن ہوا۔

جوہانس کیپلر (1630-1571) 17 ویں صدی کے سائنسی ارتقا کی ایک کلیدی شخصیت تھا جس نے ہیلیو سینٹرک نمونے(میسڑیم کاسمو
گرافیکم Mysterium Cosmographicum ؛دی کاسمو گرافک میسڑی The Cosmographic Mystery)
کے دفاع میں کچھ شائع کیا۔دیگر الفاظ میں کیپلر نے ہیلیو سینٹری ازم کے قدیم یونانی نظریے کو یورپ میں دوبارہ متعارف کروایا۔
اِس دلیل کے بارے میں اُس کے پہلے نسخے کے ایک خاص باب میں کتاب مقدس کے اقتباسات شامل ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ
کیسے ہیلیو سینٹری ازم کتاب مقدس کے مطابق ہے۔کیپلر ایک کٹّر دینی پروٹسٹنٹ تھا جس نے درحقیقت یہ منصوبہ بنایا تھا کہ اپنے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ پادری بنے گا۔اُس کی سائنسی یاداشت کی کتب دعاؤں، ستایش اور علم ِ الہٰی کے خیالات سے بھری پڑی ہیں۔

گلیلیو گلیلی (1642-1564) اپنی پوری زندگی میں ایک کٹّر کیتھولک رہاجس نے ہیلیو سینٹری ازم کو فروغ دیا او ردوربین کو او رزیادہ بہتر بنایا۔بہت سے لوگ غلطی سے اِس بات پر یقین کرتے ہیں کہ گلیلیو کو چپٹی زمین کے نظریے سے اختلاف کرنے کی وجہ سے قید کر دیا گیا تھا
جب کہ اختلاف زمین کی حرکت پر تھا۔گذشتہ دو ہزار سالوں سے ماضی میں یورپ میں یہ ایک عام علم رہا ہے کہ زمین گول ہے،کیتھولک فرقے نے چپٹی زمین کے علمِ کائنات کی کبھی حمایت نہیں کی۔کیتھولک پاپائیت نے اُن اقتباسات میں سے زمین کے مرکز ہونے پر بحث کی جو یہ کہتے ہیں کہ سورج ”غروب“اور ”طلوع“ہوتا ہے،بالکل ویسے ہی جیسے قرآن مجید کی سورہ الکھف 17:18 کہتی ہے۔مزید یہ کہ گلیلیو نے یہ بحث کبھی نہیں کی کہ کتاب مقدس غلط ہے بلکہ درحقیقت اُس نے ایک کتاب لکھی جس میں ابتدائی کلیسیا کے راہب جیسے کہ آگسٹین کی تشریحات کا حوالہ دیتے ہوئے اِس بات پر بحث کی گئی تھی کہ ہیلیو سینٹری ازم کتاب مقدس کے برعکس نہیں ہے۔اِس مسئلے پر
کتاب مقدس کو الزام دینا احمقانہ بات ہے کیونکہ اُس وقت کیتھولک کلیسیا صحائف کے کلام پر چلنے کی بجائے اپنی روایات(جیسے کہ حدیث
)پر انحصار کرنے کی خاصیت رکھتی تھی۔ 29 ہیلیو سینٹری ازم کا ایک او رنامور مجوّز کیپلربھی ایک کٹّر لوتھرن تھا جس نے کتاب مقدس کا استعمال کرتے ہوئے ہیلیو سینٹری ازم پر بحث کی۔

اسلامی تاریخ میں بھی ایسے ہی عالمانہ مسائل تھے۔بارہویں صدی کے ایک عربی سائنس دان ابن الہیشم نے بھی دعوے سے کہا کہ زمین چپٹی نہیں بلکہ گول ہے، اِس لئے علما نے کہا کہ اُس کا کام قرآن سے تضاد رکھتا ہے۔وہ ملحد کے طور پر بدنام تھا،اُس کا علم ِ نجوم کا کام جل گیا اور صدیوں تک اُسے کسی نے یاد نہ رکھا کیونکہ زمین کے کُرہ کے متعلق اُس کا خاکہ ناپاک کفر کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ 30

سویڈن کا رہنے والا ماہر نباتات کارل لینوس Carl Linnaeus (1778-1707)موجودہ حیوانات میں جنس او رانواع کی تقسیم کے اُصول مرتب کرنے کا اور ماحولیات کا بانی سمجھا جاتا ہے۔روسیو Rousseau نے اُس کے بارے میں کہا،”میں زمین پر اُس سے بڑے کسی انسان کو نہیں جانتا“،او روہ پورے یورپ میں اپنے زمانے کے سب سے زیادہ نامور سائنس دانوں میں سے ایک تھا۔لینوس
ایک کٹّر لوتھرن مسیحی تھا جس کا شخصی مقصد ”راست بازی سے جیو کیونکہ خدا موجود ہے۔“اُس نے علم ِنباتات اورعلم ِ حیوانات کو ایسی سرگرمی سمجھا جو خالق کے نام کو جلال دیتے ہیں۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ اُسے کتاب مقدس میں سے حضرت سلیمان ؑ سے بہت تحریک ملی ہو گی:

”اُس نے درختوں کا یعنی لُبنان کے دیودار سے لے کر زُوفا تک جو دیوداروں پر اُگتا ہے بیان کیا اور چوپایوں اور پرندوں اور رینگنے والے جاندار وں او رمچھلیوں کا بھی بیان کیا۔اور سب قوموں میں سے زمین کے سب بادشاہوں کی طرف سے جنہوں نے اُس کی حکمت کی شہرت سنی تھی لوگ سلیمان کی حکمت سننے آتے تھے۔“ (1 -سلاطین 33:4-34)

اِسی طرح یورپ میں اُس وقت کے زیادہ تر طبیعات کے ماہر پادری تھے جنہوں نے مشغلے کے طور پر فطرت کا مطالعہ کرنے کی جستجو کی۔
مشہور ماہر نباتات جان رے John Ray (1627-1705) جس نے سب سے پہلے انواع کی جدید نباتاتی تعریفیں پیش کیں،اُس کی سوچ او رفہم پیدایش میں درج تخلیق کے واقعات پر مبنی تھی۔

تخلیق کا بگ بینگ کا نظریہ بلجیئم کے ایک پادری نے پیش کیا تھا جس کا نام جارجس لیمترے Georges Lemaitre (1894-1960) تھا جس نے یہ لکھا،”اِسے روشنی سے شروع ہونا چاہئے تھا“(جیسے کہ کتاب مقدس میں درج ہے)۔اِس سے پہلے کہ یہ نظریہ سائنسی طور پر بہترین طریقے سے پیش ہوتاپوپ پائس XII بھی بگ بینگ نظریے کا ایک پُرجوش حمایتی تھا۔ بلیز پاسکل Blaise Pascal (1623–1662) بھی ایک وفادار مسیحی تھا جس نے اپنا سائنسی او رحسابی طرز ِزندگی مسیحی ایمان کے دفاع پر تحریر لکھ کر ختم کیا۔ نیلز بوہر Niels Bohr (1962-1885) ایک عملی مسیحی تھااور ایٹمی نظریے اور مقداری طبیعات (quantum physics)کا سہرا اُس کے سر جاتا ہے۔

یہ فہرست بڑھتی جاتی ہے:راجر بیکن،فراڈے،ہرسچل،جے۔سی۔ایڈمز،وین ہیلمونٹ،ہیزن برگ،پلانگ،ہوجنز۔کتاب مقدس
سائنس کی مخالفت نہیں کرتی۔بلکہ یہ دنیا کی ایسی تصویر پیش کرتی ہے جس نے جستجو اور تجربے کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے جس کی وجہ سے جد ید سائنسی انقلاب میں بہت سے شہرہ آفاق ہستیاں سامنے آئی ہیں۔

سائنس کس نے ایجاد کی؟

اسلام کا بھی سائنس میں ایک سنہرا دور تھا جویورپ میں سائنسی ا نقلاب سے پہلے تھا اور جس نے ہوا اور اِس میں اپنا حصہ ڈالا۔آٹھویں صدی سے لے کر تیرھویں صدی تک،اسلامی سلطنت علم و فضل کا مرکز رہی جس نے بھارت،یونان اور چین سے خیالات اکٹھے کئے او راُنہیں فروغ دیا۔
نامورعلما جیسے کہ ابن ِسینا (Avicenna) ،ابن رُشد (Averroes) ،فارابی،ابن الہیشم (Al Hazen) ،خیام،الکند ی اور الرازی نے یورپی نشاۃ ثانیہ کے لئے راہ ہموار کرتے ہوئے علم ِ بصارت،طب،کیمیا،حساب او رعلم ِ نجوم میں نئی راہیں دریافت کیں۔
مسلمانوں،یہودیوں اور مسیحیوں نے مل کر دنیا کے تمام علم کاعربی اور فارسی میں ترجمہ کیا جس کی وجہ سے بغداد، قرطبہ،اور قاہرہ عالمگیر
علم و ذہانت کا مرکز بن گئے۔علمانے ارسطو، اقلیدس،افلاطون اور بھارتی اور چینی فلسفیوں کے کاموں کو کھنکھال ڈالا۔ یورپی نشاۃ ثانیہ کا
زیادہ تر حصہ عرب علما جیسے کہ ابن ِ سینا اور ابن ِ رُشدکے ساتھ ساتھ اسلامی دنیا کی بدولت دوبارہ حاصل کئے گئے قدیم یونانی متون دونوں پر قائم ہوا۔

جیسے کہ چند ہندو بنیاد پرست دعویٰ کرتے ہیں کہ سائنس کا سب کچھ بھارت میں شروع ہوا،اِسی طرح چند مسلمان مبلغو ں نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ سائنس کی خاص چیزیں اسلام کی بدولت معرض وجود میں آئی ہیں۔درحقیقت،اسلامی سنہرا دور دریافت کرنے کے بتدریج مرحلے کی کڑیوں میں سے ایک اہم کڑی ہے جس میں قدیم یونان،مصر،بھارت،چین،روم،یورپ اور جدید دنیا شامل ہے۔یہ دعویٰ کرنے کی کوشش کرنا احمقانہ بات ہے کہ سائنس ایک مذہب کی جاگیر ہے۔ڈاکٹر عبدالسلا م جو سائنس کے میدان میں نوبل انعام جیتنے والے سب سے پہلے مسلمان ہیں،اُنہوں نے لکھا:

”صرف ایک ہی عالمگیر سائنس ہے،اِس کے مسائل او رطریقے عالمگیر ہیں اور اسلامی سائنس جیسی کوئی چیز نہیں ہے جیسے کہ کوئی ہندو سائنس اور نہ ہی یہودی سائنس،نہ کنفیو شیس سائنس اور نہ ہی مسیحی سائنس ہے۔“

ذاکر نائیک جیسے ٹیلی وشن کے مبلغین نے دعویٰ کیا ہے کہ دنیا میں ایجاد کی گئی ہر ایک شے،نقشے سے کر صابن تک،کافی سے لے کر صفر کے نمبر تک سب کچھ اسلام کا ہے۔صفر کانمبر ہمیں بہت اچھی کیس سٹڈی فراہم کرتا ہے۔چونکہ عربوں نے یورپ میں صفر کے نظریے کو متعارف کروایا،جدید نمبروں کا نظام یورپ میں ”عربی نمبر“ کے نام سے جانا گیا۔تاہم خود عربوں نے بھار ت سے یہ نظریہ لیا تھا۔پہلی مرتبہ شائع ہونے والا ہندو عربی نمبر کا نظام کسی طرح بھی اصلی کام نہیں تھا بلکہ ایک بھارتی کتاب بنام،”براہما زپتا سیدہنتا“
(Brahamasphtasiddhanta) کا ترجمہ ہے جو 628 عیسوی میں لکھی گئی۔الخو ارزمی اور ا لکند ی بھارتی طریقہ کار کو مشہور کرنے کے خاص ذمہ دار ہیں۔

اِسی طرح لفظ،”الجبرا“عربی لفظ (al-jabr , الجبر) سے نکلا ہے جس کا مصدر قدیم بابلیوں سے ہو سکتا ہے۔علم ِ مثلث (Trigonometry) جیسے کہ کچھ لوگ خیال کرتے ہیں عمر خیام نے ایجا نہیں کی تھی بلکہ یہ ریاضی کی ایک شاخ ہے جو 4000 ہزار سال پرانی ہے۔ایلوگریتھمز (algorithums) سب سے پہلے قدیم بابلیوں اور اقلیدس او رایرا ٹوستھنس اور بعد میں الکندی نے اِ سے ترقی دی۔

ٹیلی وژن کے مبلع ذاکر نائیک نے دعویٰ کیا کہ ”…وہ لو گ جنہوں نے سب سے پہلے دنیا کا نقشہ بنایا وہ مسلمان تھے …“یوں لگتا ہے نائیک نے یونانی مفکر پتالمے کے بارے میں نہیں سنا ہے جس نے اسلام سے پانچ سو سال پہلے معلوم دنیا کا نقشہ بنایا۔نائیک شاید 1513 میں پیری رئیس کی طرف اشارہ کر رہا ہو گا جو بطلیموس کے دنیا کے نقشے کی جدید نقشہ کشی کے مراحل کے ایک چھوٹے سے اقدام کی نمائندگی کرتا ہے۔

یہ کہا جا تا ہے کہ جابر ابن ِ حیان نے 800 عیسوی میں عمل کشید (distillation) ”ایجاد“ کیا۔دراصل ارسطو نے اِس عمل کا ذکر کیا اور ”(پلینیوس اکبر“ Pliny the Elder جسکا 79 عیسوی میں انتقال ہوا) نے ایک ابتدائی بھپکا یعنی اُس آلہ کے بارے میں لکھا جس سے عمل کشید کیا جاتا ہے۔مزید یہ کہ تیسری صدی عیسوی میں ماریہ یہودن، جیساکہ وہ مشہور تھی کہ وہ ایک تھی،اِس نے بظاہر موجودہ دور میں الکوحل کی کشید کی پیش روی کو فروغ دیا۔مصری تیسری صدی میں الکوحل پیدا کرنے کے لئے عمل کشید کا استعمال کر رہے تھے۔جو کچھ جابر نے کیا وہ صرف ایک کشید کرنے کا آلہ دریافت کیا نہ کہ عمل کشید کو دریافت کیا۔ گول زمین کو عربی علمانے دریافت نہیں کیا بلکہ یہ قدیم یونانیوں نے کیا تھا۔ارسطو نے چوتھی صدی قبل از مسیح میں اِس نظریے کے ثبوت فراہم کئے۔ میں زمین کا شما حجم شمار کرنے میں،ایراتوستینسں نے 250 ق م میں اصل حجم میں سے 800 کلومیٹر کے اندر کا حجم معلوم کیا۔یہ ایک فرضی بات ہے کہ دریافت و جستجو کے زمانے سے پہلے بھی وسیع پیمانے پر لوگ یہ یقین کرتے تھے کہ زمین چپٹی ہے۔پہلی صدی عیسوی میں پلینیوس نے یہ کہا کہ تقریبا ً ہر شخص اِس بات سے متفق ہے کہ زمین گول ہے۔ 31

بندوق کا بارود (Gunpowder) انگلستان میں سفری مسلم سائنس عجائب گھر نے یہ دعویٰ کیا کہ:

اگرچہ چینیوں نے قلمی شورہ سے گن پاؤڈر دریافت کیا تھا اور اِسے اپنے آتش بازی کے کام میں استعمال بھی کیا تھا،یہ عربی تھی جنہوں نے یہ کام کیا کہ اِس بارود میں پوٹاشیم نائٹریٹ ملا کر صاف کرنے سے اِسے عسکری استعمال میں لایا جا سکا ہے۔ 32

قلمی شورہ کے بارے میں جو کچھ عجیب ہے وہ یہ ہے کہ یہ پوٹاشیم نائٹریٹ ہے!شاید عربوں نے قلمی شورہ کی کوئی مزید شفاف شکل پیدا کر لی ہو۔گن پاؤڈر ساتویں صدی عیسوی میں چین نے تیار کیا اور یہ مغر ب میں شاہراہ ِ ریشم کے ذریعے یا پھر منگولوں کے ذریعے کے پہنچا۔معاملہ کوئی بھی ہو،اِس کے استعمال کے کسی بھی درج واقعے سے پہلے چینی گیارویں صدی میں عسکری راکٹ استعمال کر رہے تھے۔ اُڑان کا سہرا عباس بن فرناس کو دیا ناتا ہے جس نے 875 عیسوی میں ایک مناسب اور کامیاب گلائیڈر بنایا۔تاہم، 500 ق م میں چینیوں نے ایسے گلائیڈر بنا لئے تھے جن میں آدمی بھی سوار تھا اور اکیس صدیاں پہلے کام کرنے والے پیرا شوٹ بھی بنا لئے تھے۔سب سے پہلے کام کرنے والے ہوائی جہاز کا سہرا پچھلی صدی کے رائٹ برادران کو جانا چاہئے۔

اِسی طرح قالین،چیکس او رپن چکیاں بھی اسلام سے پہلے کی ہیں اور ایران اور وسطیٰ ایشیا میں ایجاد ہوئیں۔یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ خوبصورتی کے لئے باغ عربوں نے ایجاد کیا لیکن یہ بات بابل کے قدیم معلّق باغات اور قدیم یونانیوں اور رومیوں کے باغات کو بالکل نظر انداز کردیتی ہے۔کافی (Coffee)عباسیوں نے مشہور کی لیکن یہ سب سے پہلے ایتھوپیا کے لوگوں نے برآمد کی جہاں قبیلے کے لوگ اِس کے بیجوں کو شکارپر جاتے وقت اپنے آپ کو ہوشیار رکھنے کے لئے منھ میں رکھ کر چباتے تھے۔

نتیجتاً،ہمیں اِس بات پر دوبارہ زور دینا چاہئے کہ اسلام کے سنہری دور نے انسان کی ترقی میں بہت گراں قدر کردار ادا کیا ہے لیکن اِس نے اُن بڑی تہذیبوں میں جو اُس وقت ماجود تھیں اپنا حصہ بھی ڈالا ہے اور اُن پر انحصار بھی کیا ہے۔

سنہرا دور کیوں ختم ہوا؟

اگر ہم اسلامی تاریخ پر نظر کریں تو فخر کرنے کے لئے بہت کچھ ہے،ادب کا ایک شاندار دور،علم اور کامیابیاں۔پھر بھی یہ کامیابیاں
(اسلامی تاریخ کی ابتدائی چند صدیوں میں)دوسری تہذیبوں جیسے یونان اور بھارتی تہذیب کے ساتھ کھلے ذہن کے نقطہ ِ نظر اور تعاون سے حا صل ہوئیں۔یہ وہ وقت تھا جب مسلمان علما نے دوسری تہذیبوں کے عظیم کاموں کا مطالعہ کیا اور اُن میں ضم ہو گئے،
اُن کے علماکے ساتھ تبادلہ خیال کیا اور اُن کے فلسفیانہ خیالات میں شریک ہو گئے۔اسلامی تاریخ کے عظیم علما جیسے کہ ابن ِ سینا اور ابن ِ
رُشد دوسری تہذیبوں کی روایات سے بہت متاثر تھے اور اِسی لئے اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مذہبی علما نے اِسے بدعت کہہ کر رد کر دیا۔ 33 ؎ پادریوں نے الہیشم کے کام اُس کے علم ِ نجوم کی وجہ سے جلا دیئے 34 اورابن ِ رُشد پر اُس کے تقلید پسند نہ ہونے کا فلسفہ اپنانے کی وجہ سے پابندی لگا دی گئی۔[اسلام کے سنہرے دور کے قرآن کے ابتدائی با اختیار مفسرین جیسے کہ طبر ی،قانوبی،رازی،ابن تیمیہ اور قطب یہودیوں اورمسیحیوں کے صحائف کو بہت اعلیٰ مرتبہ دیتے تھے۔وہ یہ تسلیم کرتے تھے کہ قرآ ن کی حقیقی تعلیم انجیل شریف او رتوریت شریف کے متن کی پختگی کی تصدیق کرتی ہے،اور یہ کہ انجیل شریف جیسے تعلیم دیتی ہے ویسا ہی ہے کہ یسوع واقعی مصلوب ہو ااو رمُردوں میں سے جی اُٹھا۔ ]

”جاہلیت“ کی مخالفت

الغزالی نے وقت کے عظیم علما پراُن کے قرآن سے متاثر ہونے کی بجائے ”غیر اسلامی“ یونانی مفکرین سے متاثر ہونے پر شدید تنقید لکھی۔جس کے نتیجے میں الغزالی کی رائے جیت گئی اور مذہبی علما نے تمام بیرونی تعلیم کوبطور”جہاہلیا“یعنی جہالت اور آزمائش کہہ کر پابندی لگا دی اور تقاضا کیا کہ علما صرف ”خالص“ اسلامی مضامین کا مطالعہ کریں۔امام نے ریاضی اور طب کو بطور فرد ِ کفایہ کے بیان کیا۔ 35 اُس نے بڑے فریب سے اُن تمام مضامین کو دینی علم کے مقابلے میں ثانوی جگہ دی۔ 36 آج ہمیں الغزالی جیسا بنا ہوا ذہن ذاکر نائیک جیسے بکاؤلے ازم کے پیروکار قدامت پسند کی شکل میں جاری و ساری نظر آتا ہے،جس کے سر میں دوسرے عقائد پر ایمان رکھنے والوں سے دشمنی کا اظہار کر تے ہوئے سائنس کو خاص طور پر قرآن اور اسلامی تاریخ میں تلاش کرنے کا بھوت سوار ہے۔اِس میں عظیم طنز یہ ہے کہ اگرچہ وہ اسلام کے سنہرے دور پر بڑا گھمنڈ کرتے ہیں، لیکن خاص طور پر یہ اُن کا بنا ہوا ذہن ہے جس سے سنہرے دور کی روانی ختم ہو گئی اور یہ اُ س کے زوال کا سبب بنا۔
بیرونی خیالات او رتعلیم کی مخالفت کی ایک مثال ہمیں قرون ِ وسطیٰ میں اسلام کی چھاپے خانے کے ردعمل میں دکھائی دیتی ہے۔

چھاپہ خانے کی مخالفت

چھاپہ خانہ یورپ میں نہیں بلکہ چین میں ایجاد ہوا۔اگرچہ چین نے اِ س کا کچھ زیادہ استعمال نہیں کیا۔جب جوہانس گٹن برگ نے ایک اعلیٰ قسم کا قابل حرکت چھاپہ خانہ ایجاد کیا او راپنی پہلی کتاب (کتاب مقدس)شائع کی تو اُس نے خواندگی،تعلیم اور نشرو اشاعت کی معلومات میں عالمگیر ارتقا کا آغاز کیا۔گٹن برگ نے بڑے واضح طور پر اپنے ارادے بیان کئے:

”مذہبی سچائی محدود پیمانے پر چھوٹے چھوٹے نسخوں کی صورت میں بند ہے جو اِن خزانوں کو پھیلانے کی بجائے اِن کی حفاظت کرتے
ہیں۔آئیے! اِس مہر کو توڑیں جو پاک چیزوں کو باندھے رکھتی ہے؛آئیے!سچائی کوپَرلگا دیں تاکہ یہ کلام ِمقدس کے ساتھ اُڑ سکے،جس کی تیاری پر اب زیادہ خرچہ نہیں آئے گا،بلکہ مشین کے ذریعے بکثرت ازل تک رہتا جو ہر اُس روح میں کام کرتے نہیں تھکتی جو زندگی میں داخل ہوتی ہے۔“

یقینا یہ ایک پریس ہے جس سے بے انتہاندیاں بہیں گی۔۔۔ اِس کے ذریعے خدا ااپنا کلام پھیلائے گا۔ اِس سے سچائی کا چشمہ بہہ نکلے گا، ایک نئے ستارے کی مانند یہ جہالت کی تاریکی کو مٹائے گا اور انسانوں میں اُس نور کو پہنچانے کا باعث بنے گا جس سے وہ ناواقف ہیں۔

گٹن برگ کی پیشین گوئی سچ ثابت ہوئی،کہ ایک عام شخص نے بھی کلام ِ مقدس تک اپنی مادری زبان میں رسائی حاصل کر لی۔پورے یورپ میں پرہیزگاری،دیانت داری اور محنت کا ایک مذہبی انقلاب آیا جس نے 18 ویں صدی میں شمالی یورپ میں معاشی ترقی کی بنیاد رکھی۔جدید عمرانیات کے لاادری بانی میکس ویبر (Max Weber) کے مطابق بائبلی تعلیمات کا پروٹسٹنٹ انقلاب شمالی یورپ میں صنعتی انقلاب کا ذمہ دار تھا۔

گٹن برگ کے جدید چھاپہ خانے کی مشین کے فوری بعد،سلطان بایزید دوئم نے اِس پر 1485 میں سلطنت ِ عمان میں پابندی لگا دی اور
ساڑھے تین سو سال تک پورے عرب میں کوئی چھاپہ خانہ قائم نہ ہو ا۔اُ س عرصے کے دوران مشرق ِ قریب میں چھاپہ خانے صرف مسیحیوں اور یہودیوں کی وساطت سے چل رہے تھے۔یہ پابندی عرب کی دنیا میں سائنس او رٹیکنالوجی کے فروغ کی تباہی کا سبب بنی۔

فطرت کی کتا ب اور مکاشفہ کی کتاب

مسیحی اور مسلمان دونوں علم کے دو بنیادی ذرائع دیکھتے ہیں؛ فطرت کی کتاب (جو فطری دنیا ہمارے ارد گرد موجود ہے)
اورمکاشفہ کی کتاب (الہٰی کلام)۔لوگ اکثر اِن دونوں کتاب میں فرق رکھتے ہیں؛کلام جو دینی رسومات اور علم ِ الہٰی پر مشتمل ہے،جب کہ
فطرت قدرتی سائنس او رٹیکنالوجی کے بارے میں ہماری سمجھ کی راہنمائی کرتی ہے او ر کلام الہٰی بنیادی اختیار ہے۔سو مذہب سائنسی ترقی پر کس طرح اثر انداز ہو تاہے؟مکاشفہ کی کتاب کا مطالعہ کرنے کے لئے ہمارا لائحہ عمل ایک ایسا طریقہ
متعین کرتا ہے کہ ہم کس طرح فطرت کی کتاب کے لئے لائحہ عمل تیار کرتے اور کیسے اُس کا مطالعہ کرتے ہیں۔ جس طرح ہم کلامِ ا لہٰی کا مطالعہ کرتے ہیں اُس سے اِس بات کا تعین ہوتا ہے کہ ہم فطرت کا کیسے مطالعہ کرتے ہیں۔یہ بڑے ڈرامائی انداز میں تاریخ میں بیان کیا گیا ہے جہاں اسلام اورمسیحیت کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ اُنہوں نے کس طرح صحائف کا استعمال کیا ہے۔اسلام میں یہ زبانی یاد کرنے اور عربی زبان میں تلاوت کرنے کے لئے ہے نہ کہ بنیادی طور پر مطالعہ کرنے کے لئے اور ایک عام کتاب کی طرح اُس کی تشریح کرنے کے لئے ہے۔

کسی بھی بڑے علم ِ الہٰی کے معاملے میں اجتہاد یا ذاتی تشریح کی اجاز ت نہیں تھی،اور صحائف کی تشریح کو مذہبی علما کے اختیار کے ساتھ پیش کیا گیا تھا۔درحقیقت سنہرے دور کا زوال 12ویں صدی میں ”اجتہاد کے دروازوں کو بند کرنے“ کے ساتھ ہوا،جب یہ کہا گیا کہ
مزید کسی ذاتی یا شخصی تشریح کی ضرورت نہیں ہے۔اِس لئے مذہب کا ہر پہلو پلیٹ میں رکھ کر ایک عام شخص کے حوالے کر دیا گیا اور وہ شخص اُسے زبانی یاد کرنے اور قرآن کی تلاوت کرنے کاپابند تھا اور وہ دینی اختیار رکھنے والوں کو چیلنج نہیں کر سکتا تھا۔ایک عام شخص کوصحائف پر براہ ِ راست توجہ کرنے کا حق حاصل نہیں تھا۔اِ س رویے نے کہ ”مزید کچھ نہ کہا جائے“ فطرت کے مطالعہ کو ختم کر دیااور پھر بہت سے لوگوں کے لئے تعلیم و تربیت محض مُردہ طور پر قدیم علم وفضل کو زبانی یاد کرنے کے سوا کچھ نہیں تھا۔

یورپ میں انقلاب سے پہلے بالکل اِسی طرح کی حالت تھی۔پادریوں نے الہٰی علم کو اپنے قبضے میں لیا ہوا تھا او رصرف چند لوگ نیااپنے لئے صحائف کی تشریح کی۔لوگ صرف پادریوں کی فرماں برداری کرتے او رغیر زبان میں صحائف کی تلاوت کرتے تھے۔چھاپہ خانے کی وجہ سے اب عام لوگوں کو اُ ن صحائف تک اپنی مادری زبان میں براہ ِ راست رسائی حاصل تھی اور پورے یورپ میں عام خاندان ہر رات صحائف کو بلند آواز سے پڑ ھ سکتے تھے۔مذہب ابتدائی مسیحی کلیسیا کے طور طریقے پر واپس آگیا او ریہ یقین کیا گیا کہ صحائف کی شخصی سمجھ بوجھ
اور تشریح ہر شخص کا ایک مقدس فریضہ تھااو ر جیسے ایک دینی نظریہ ”تمام ایمانداروں کی کہانت“ کے نام سے جا نا جاتا ہے۔انسانی پادریوں کے مشکوک رویوں اور صرف صحائف پر بھروسے کی وجہ سے سائنسی حکمرانی کا آغاز ہوا جہاں پروٹسٹنٹ لوگوں نے جیسے کہ نیوٹن،کیپلر اور بوئل نے قدیم اختیار رکھنے والوں جیسے کہ ارسطو کو شک کی نگاہ سے دیکھا اور فطرت کی خود اپنے لئے براہ راست تشریح کی۔مذہبی اختیار والوں کی تشکیکیت(مذہبی عقائد پر شک کرنا) سائنسی اختیار کی تشکیکیت کی جانب لے گئی جو سائنسی انقلاب کا سبب بنی۔

  1. Zakir Naik, The Qur’an and Modern Science: Compatible or Incompatible? Islamic Research Foundation, www.irf.net, p.9,10.
  2. in Islam awr “Aqliyyat, ed., Muhammad Mustafa Bijnauri, Lahore: Idarah Islamyat, 1994, 403-421.
  3. Strange Bedfellows: Western Scholars Play Key Role in Touting `Science’ of the Quran Wall Street Journal, Jan 23, 2002. pg. A.1.
  4. When Science Teaching Becomes A Subversive Activity By Pervez Hoodbhoy
  5. “Quran-science”: Scientific miracles from the 7th century? By Taner Edis, retrieved from http://www2.truman.edu/~edis/writings/articles/quran-science.html
  6. Abu Ammar Yasir Qadhi, An Introduction to the Sciences of the Quran Footnote, p.282.
  7. Strange Bedfellows: Western Scholars Play Key Role in Touting `Science’ of the Quran Wall Street Journal, Jan 23, 2002.
  8. Strange Bedfellows: Western Scholars Play Key Role in Touting `Science’ of the Quran Wall Street Journal, Jan 23, 2002.
  9. Zakir Naik, The Qur’an and Modern Science: Compatible or Incompatible? Islamic Research Foundation, www.irf.net, p.9,10.
  10. Sahih Bukhari, Volume 4, Book 54, Number 430; Sahih Muslim, Book 33, Number 6390.
  11. Bucaille, The Bible, the Qur’an and Science, p.245.
  12. Strange Bedfellows: Western Scholars Play Key Role in Touting `Science’ of the Quran Wall Street Journal, Jan 23, 2002.
  13. Zakir Naik, The Qur’an and Modern Science: Compatible or Incompatible? Islamic Research Foundation, www.irf.net, p.41.
  14. For example, “year” (Exodus 13:10); “period” (Genesis 29:14).
  15. This psalm is actually attributed to Moses, the same prophet who under divine inspiration recorded the Torah creation account.
  16. For further discussion on this, see Hugh Ross, Creator and the Cosmos, (Navpress, 2001). Hugh Ross, who advocates the Day-Age view, holds a PhD in Astronomy from the University of Toronto, was a postdoctoral research fellow at Caltech, and was the youngest person ever to have served as director of observations for Vancouver’s Royal Astronomical Society.
  17. In addition, the third day is clearly longer, for in it God created not only vegetation but also matured it to seed-bearing capacity. The sixth day also involves a series of events impossible to complete in 24 hours.
  18. Hugh Ross writes, “Prior to the Nicene Council, the early Church fathers wrote two thousand pages of commentary on the Genesis creation days, yet did not devote a word to disparaging each other’s viewpoints on the creation time scale. All these early scholars accepted that yom could mean “a long time period.” The majority explicitly taught that the Genesis creation days were extended time periods (something like a thousand years per yom ). Not one Ante-Nicene Father explicitly endorsed the 24-hour interpretation. Ambrose, who came the closest to doing so, apparently vaccilated on the issue.” ( The Genesis Debate, ed David Hagopian (Crux Press: Mission Viejo, 2001), p 125,126.
  19. Sahih Muslim, 39:6707
  20. The History of al-Tabari , Volume 1- General Introduction and from the Creation to the Flood (trans. Franz Rosenthal, State University of New York Press, Albany 1989), pp. 187-193:
  21. If the reader finds it difficult to justify the “point of perspective” adjustment, we can see a similar need with the Qur’an. In Sura Al-Kahf 18:86, we read that Dhul-Qarnain “journeyed on a certain road until he reached the West and saw the sun setting in a pool of black mud.” This appears consistent with the pre-Islamic legend of the sun setting in a muddy pool on the horizon of a flat earth. Yet we must consider this verse to be described from the perspective of Dhul-Qarnain in order for it to make sense. In the same way, we cannot interpret all scripture from an imaginary “cosmic” perspective.
  22. Sahih Muslim, #6707
  23. (John Warwick Montgomery, ed. Evidence For Faith [World Publishing, 1986], pp.108-109)
  24. In Who moved the Stone? by Shaikh Ahmed Deedat.
  25. The word translated “pillars” here (עמוד ‛ammûd ) is also defined as ‘stand’ or ‘platform’—a good description for the subterranean masses under the continental plates. In these verses, we should understand “earth” not as “globe” but as landmass as in continental plates. The Hebrew word “תּבל têbêl ” and “ארץ ‘erets ” translated here as “earth” can mean simply “land” as in one particular country, and in some contexts they simply cannot mean the entire “earth” (Genesis 38:9).
  26. Surah Fussilat 41:12
  27. Question on the Theory of Evolution (http://www.youtube.com/watch?v=OYmjLrzKNl8&feature=related)
  28. Incidentally, many historians say the dispute between the Catholic Church and Galileo was less due to heliocentrism and more due to Galileo’s abrasive personality which antagonized nearly everyone around him.
  29. De Boer, T. J. The History of Philosophy in Islam . London 1933.
  30. Many of these claims can be found in an article by the Independent (http://www.independent.co.uk/news/science/how-islamic-inventors-changed-the-world-469452.html)
  31. Paul Vallely, “How Islamic inventors changed the world”, in The Independent, 11 March, 2006.
  32. Iqbal Latif, “Why the clergy has made our heroes our heretics?” in Global Politician, Nov 26, 2006.
  33. History of Philosophy in Islam, by T.J. de Boer (1904), p153.
  34. i.e. not something obligatory for everyone to study but a ‘group obligation’ which someone in the community should learn about.
  35. Iqbal Latif, “Why the clergy has made our heroes our heretics?” in Global Politician, Nov 26, 2006.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *