قرآن مجید او رکتاب مقدس کی تاریخ مقرر کرنا

”مسیحی صحائف حضرت عیسیٰ کے ایک صدی بعد مرتب ہوئے،جب قرآن کے حوالے سے ایسا نہیں ہے وہ حضر ت محمدؐ کی زندگی میں لکھا گیا۔“

دراصل قرآن مجید اور کتاب مقدس کی ترسیل کسی حد تک ملتی جلتی تاریخ ہے جیسا کہ ہم دیکھیں گے۔جیسے کہ بہت سے لوگ اِس بات پر یقین رکھتے ہیں،اِن میں سے کوئی بھی کتاب کی شکل میں براہ ِراست آسمان سے نازل نہیں کی گئی،بلکہ دونوں صحائف کی زبانی مرحلے سے لے کر آج تک کے اصلی نسخوں کے مرحلے تک مرحلہ وار ترقی کرنے کی تاریخ موجود ہے جو جزوی نسخوں کے ثبوت سے لے کر موجود مکمل تحریری مجموعوں پر مشتمل ہے جو دیئے جانے کے سو سال بعد سے تعلق رکھتے ہیں۔

1. زبانی مرحلہ:

جب حضرت محمد کا انتقال جب ہوا تو اُس وقت اُنہوں نے کوئی تحریری قرآن اپنے شاگردوں کے پاس نہیں چھوڑا تھا۔حالانکہ اُن میں سے بہت سے شاگردوں نے اُن کی دی ہوئی سورتیں زبانی یاد کی ہوئی تھیں۔کچھ ایسے شواہد موجود ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ کچھ سورتیں
حضرت محمدؐ کی زندگی میں ہڈیوں اور پتوں پر لکھی گئیں۔حضرت عیسیٰ المسیح اِس لئے نہیں آئے تھے کہ وہ کوئی تحریری ”خدا کا کلام“ دیں کیونکہ وہ اپنی ذات میں خود بڑے منفرد انداز میں خدا کا ”کلام“ تھے۔اِس لئے سید ناحضرت عیسیٰ المسیح کے صحائف بنیادی طور پر اُس کے ”کلام“کی گواہیاں ہیں کچھ اور نہیں ہیں۔سید ناحضرت عیسیٰ المسیح نے اپنی موت سے پہلے کے تین سال خوشخبری کا پیغام دینے کے لئے وقف کر د یئے،تاکہ وہ اُس کے گواہ ہو سکیں۔انجیل کا پیغام نئے عہد نامے کا زبانی مرحلہ تھا۔

2. اب گم ہو جانے والے اصلی قلمی نسخے:

پہلا تحریری قرآن حضرت ابوبکر ؓ کے دَور کے دوران تھا۔ جنگ یمامہ کے دوران،چار سو پچاس قاری شہید ہوئے اور حضر ت ابوبکر ؓ
کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ زیادہ تر قرآن ضائع ہو جائے گا۔اِس لئے اُس سے پتے،پتھر اور حفاظ سے جمع کرنا شروع کردیا گیا۔بخاری میں کچھ یوں وضاحت موجود ہے:

زید بن ثابت ؓسے روایت ہے: جنگ یمامہ میں (صحابہ کی بہت بڑی تعداد کے) شہید ہو جانے کے بعد حضرت ابوبکر ؓ نے مجھے بلا بھیجا۔ اُس وقت حضر ت عمر ؓ بن الخطاب بھی اُن کے پا س ہی موجود تھے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے کہا کہ عمر ؓ میرے پاس آئے اور اُنہوں نے کہا کہ یمامہ کی جنگ میں بہت بڑی تعداد میں قرآن کے قاریوں (وہ لوگ جنہوں نے قرآن کو زبانی یاد کیا ہوا تھا) کی شہادت ہو گئی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ اِسی طرح کفار کے ساتھ دوسری جنگوں میں بھی قراء قرآن بڑی تعداد میں قتل ہو جائیں گے اور یوں قرآن کے جاننے والوں کی بہت بڑی تعداد ختم ہو جائے گی۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ آپ قرآن مجید کو (باقاعدہ کتابی شکل میں) جمع کرنے کا حکم دے دیں۔ میں نے حضر ت عمر ؓ سے کہا کہ آپ ایسا کام کس طرح کریں گے جو رسول اللہ نے(اپنی زندگی میں) نہیں گیا؟ حضر ت عمر ؓ نے اِس کا یہ جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کی قسم یہ تو ایک کارِخیر ہے حضر ت عمر ؓ مجھ سے یہ بات بار بار کہتے رہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اِس مسئلہ میں میرا بھی سینہ کھول دیا اور اب میری بھی وہی رائے ہو گئی جو حضر ت عمر کی تھی۔ حضرت زید نے بیان کیا کہ حضر ت ابوبکر ؓ نے کہا آپ (زید) جوان اور عقلمندہیں، آپ کے معاملہ میں مئم بھی نہیں کیا جا سکتا اور رسول اللہ کی وحی لکھتے بھی تھے، اِس لئے آپ قرآن مجید کو پوری تلاش اور محنت کے ساتھ ایک جگہ جمع کر دیں۔ اللہ قسم اگر یہ لوگ مجھے کسی پہاڑ کو بھی اس کی جگہ سے دوسری جگہ ہٹانے کے لئے کہتے تو میرے لئے یہ کام ا تنامشکل نہیں تھا جتنا کہ ان کا یہ حکم کہ میں قرآن مجید جمع کر دوں۔ میں نے اِس پر کہا، آپ لوگ کیک ایسے کام کو کرنے کی ہمت کیسے کرتے ہیں جو رسول اللہ نے خود نہیں کیا تھا۔ حضرت ابوبکر نے کہا، اللہ کی قسم، یہ ایک عملِ خیرہے۔ حضرت ابوبکر یہ جملہ برابر دُہراتے رہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا بھی اُن کی اور حضرت عمر کی طرح سینہ کھول دیا۔ چنانچہ میں نے قرآن مجید(جو مختلف چیزوں پر لکھا ہو ا موجود تھا)کی تلاش شروع کر دی اور قرآن مجیدکو کجھور کی چھلی ہوئی شاخوں، پتلے پتھروں سے (جن پر قرآن مجید لکھا گیا تھا) اور لوگوں کے سینوں کی مدد سے جمع کرنے لگا۔ سورۃ توبہ کی آخری آیتیں مجھے ابو خزیحہ ا نصاری کے پاس لکھی ہوملیں، یہ چند آیات مکتوب شکل میں اُن کے سوا اور کسی کے پاس نہیں تھیں۔ 1

یہ کوئی سرکاری جلد نہ تھی کیونکہ یہ ذاتی گھروں میں رکھی گئی تھی اور خزانے (بیت المال)میں رکھے جانے کی بجائے یہ حضرت عمر ؓ کی بیٹی حضرت حفصہ ؓ کے پلنگ کے نیچے رکھی گئی تھی۔کچھ جدید علما نے اِس مجموعے کے تاریخی ہونے پر سوال اُٹھایا ہے۔ 2 تقریباً بیس سال بعد،
حضرت عثمان ؓ نے متن سے اختلاف کی وجہ سے پہلا سرکاری مجموعہ بنایا۔اُس نے زید بن ثابتؓ اور تین دیگر مکہ کے رہنے والوں کو یہ کام سونپا۔

جب تمام صحفیے مختلف نسخوں میں نقل کر لئے گئے تو حضرت عثمان نے اِن صحیفوں کو واپس لوٹا دیا اور اپنی سلطنت کے ہر علاقے میں نقل شدہ مصحف کا ایک ایک نسخہ بھجوا دیا اور حکم دیا کہ اِس کے سوا کو ئی چیز اگر قرآن کی طرف منسوب کی جاتی ہے خواہ وہ کسی صحیفہ یا مصحف میں ہو تو اُسے جلا دیا جائے۔ حضرت ابن ثابت نے بیان کیا”جب ہم مصحف کی صورت میں قرآن مجید کو نقل کر رہے تھے تو مجھے سورۃ اخراب کی ایک آیت کو بھی رسول اللہ سے سُناکرتا تھا اور آپ اُس کی تلاوت کیا کرتے تھے، پھر ہم نے اُسے تلاش کیا تو وہ خزیمہ بن ثابت انصاری کے پاس ملی۔“ 3

اِس سرکاری جلد پر چند بہترین قرآن کی قرآت کرنے والوں جیسے کہ ابن مسعودؓ اور أبي کاا جھگڑا تھا۔ 4 حضرت عثمان ؓ کی جلد کی نقول تمام گم ہو چکی ہیں۔ایک مشہور روایت کے مطابق استنبول میں ”ٹوپکاپی“(Topkapi) کا نسخہ اور ازبکستان میں سمر قند کا نسخہ یہ دونوں حضرت عثمان ؓ کی اصلی جلدیں ہیں مگر علما کاربن کے ذریعے تاریخ کا یقین کرنے اور کتبہ خوانی اور خطاطی کے ذریعے تاریخ کا تعین کرنے کی بنیاد پر اِس سے متفق نہیں ہیں حضرت عثمان ؓ کے نظرِثانی کرنے کے بعد سے خط ِ کوفی پر استعمال کیا جانے لگا۔
ایک اسلامی ویب سائٹ درج ذیل الفاظ میں اِس کا خلاصہ پیش کرتی ہے:

کیا یہی (Topkapi) قرآن تیسرے خلفیہ حضر ت عثمان ؓسے تعلق رکھتا ہے؟ اِس کا جواب نہیں میں ہے۔اچھی خاصی تعداد میں قرآن اور بھی ہیں (جیسے کہ ایک وہ جو سینٹ پیٹرز برگ اور سمر قند میں ہے)جو اُس وقت اسلامی دنیا کے بہت سے دیگر حصوں میں وجود میں آئے جن میں سے سب کی مرضی حضرت عثمان ؓ کے قرآن مجید کے چند صفحوں پر اُن کے خون کے چھینٹے دکھانا ہے،اِسی طرح حضرت عثمان ؓجو امام تھے اُن کا اصلی قرآن دکھانا ہے جو وہی ہے اور اپنی شہادت کے وقت تلاوت کر رہے تھے۔مزید یہ کہ نسخہ واضح طور پراُس متن
کی تابانی اور اعراب کے لگائے جانے کو ظاہر کرتا ہے جو اُمیّہ کے زمانے (پہلی صدی ہجری کا آخر/دوسری صدی ہجری کا شروع)سے ہیں۔مزید یہ کہ اِس نسخے پر مختصر طور پر صلاح الدین المنجد نے بھی بحث کی ہے جو اِسے خلیفہ حضرت عثمان ؓ کے دور کا نہیں سمجھتا تھا۔5

سمر قند اور ٹوپکاپی کے نسخے ابتدائی دَور کے ہیں لیکن حضرت عثمان ؓ کی نقول نہیں ہیں۔

نئے عہد نامے کی اصلی جلدیں رسولوں اور اُن کے قریبی ساتھیوں کے ذریعے سیدنا عیسیٰ مسیح کے آسمان پر صعود فرما جانے کے 20 سال بعد 51-96 عیسوی کے عرصے کے دوران لکھی گئیں۔اِن اصلی خطوط اور اناجیل کی جلد از جلد نقول تیار کی گئیں اور اُنہیں بحیرہ روم کی کلیسیاؤں میں فوراً پہنچا دیا گیا۔حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عثمان ؓ کے پہلے قرآنی نسخہ جات کی طرح یہ اصلی نقول بھی گم ہو چکی ہیں۔

3. ٹکڑوں میں موجود نسخہ جات کا ثبوت

سنعاکے نسخوں کے ٹکڑے جو یمن میں 1972 میں ملے،یہی قرآ ن کی قدیم ترین جلد کو پیش کرتے ہیں۔یمن کے آثار قدیمہ کی انتظامیہ
نے Saarland University in Sarrbrucken,Germany میں عربی خطاطی اور قرآن کتبہ خوانی کے ماہر
Gerd R.Puin کو اِن ٹکڑوں پر نظرثانی کا کام سونپا۔پیون نے اِس مجموعے میں ملنے والے چرمی کاغذ کے ٹکڑوں کا بڑی باریک بینی سے معائنہ کیا۔اِن عبارتوں میں آیات کی غیر روایتی ترتیب اور متن کا معمولی رد و بدل پایا گیا۔ 1999 میں پیون کی دریافتوں پر ایٹلانٹک منتھلی نے کچھ یوں رپورٹ دی:

”یمنی ذخائر میں موجود چرمی کاغذوں میں سے کچھ ساتویں اور آٹھویں صدی پہلے یا پہلی دو اسلامی صدیوں کے معلوم ہوتے تھے۔وہ ٹکڑے شایداُس وقت موجود قدیم ترین قرآن کے تھے۔مزید یہ کہ اِن میں سے چند ٹکڑوں میں معمولی مگر معیار ی قرآن سے سازشی طور پر قاعدے کی خلاف ورزی ظاہر ہوئی۔ایسی قاعدے کی خلاف ورزیاں اگرچہ متن کے حوالے سے مورخین کو حیرت زدہ نہیں کرتیں مگر یہ قدامت پسند مسلمانوں کے اِس عقیدے کو کھٹکتی ہیں کہ وہ قرآن جو آج ہم تک پہنچا وہ بالکل سادہ،مکمل،زمانے کی قید سے آزاد اور اللہ تعالیٰ کا لاتبدیل کلام ہے۔“ 6

نئے عہد نامے کا ابتدائی ٹکڑا مقدس یوحنا کی انجیل کے 18 ویں باب کا ایک حصہ ہے جو صفحہ نمبر ”52“ کے نام سے جانا جاتا ہے اور جس کی تاریخ 135 عیسوی یا مقد س یوحنا کی انجیل کے اصلی قلمی نسخہ جات کے تقریباً 40 سال بعد کی ہے۔ 200 عیسوی سے مقدس لوقا،مقدس یوحنا اور پولُس رسول کے دس خطوط کی پیائر س کی نقول موجود ہیں۔

4. مکمل تحریری نسخہ جات

قرآن کا مکمل ابتدائی متن تقریباً 150 ہجری کا ہے جو لند ن کی برٹش میوزیم میں رکھا ہوا ہے۔نئے عہد نامے کی مکمل ابتدائی کتب کی تاریخ 200 عیسوی کی ہے،مگر ابتدائی واحد متن جو پورے نئے عہد نامے پر مشتمل ہے وہ 300 عیسوی کے اواخر کا Sinaiticus
Codex ہے جو حال ہی میں برٹش میوزیم میں رکھا گیا ہے۔اِس مقام سے آگے،قرآن مجید اور نئے عہد نامے دونوں کے لئے بے شمار
نسخہ جات کے ثبوت موجود ہیں۔

یہ چار مراحل درج ذیل زمانوں میں مختصر بیان کئے جا سکتے ہیں:

History of the Qur'ān and Bible Manuscripts

  1. Sahih Al-Bukhari, Vol. 6, Bk. 61, No. 509.
  2. Adams, C.J., The Text and its History, ‘Encyclopedia of Religion, Mircea Eliade (Ed.) [New York: Macmillan, 1987], pp.157-76.
  3. Sahih Al-Bukhari, Vol. 6, Bk. 61. No. 510.
  4. See Copyist Errors
  5. The “Qur’ān Of Uthmān” At The Topkapi Museum , Islamic Awareness,. Retrieved on June 16, 2009.
  6. Lester, Toby (January 1999). “What Is The Koran”. The Atlantic Monthly..

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *