قربانی

قربانی

سُنی شریعت کے مطابق قربانی دینا واجب ہے فرض یا لازمی نہیں ہے۔جبکہ شعیہ فرقے میں قربانی صرف اُن لوگوں پر واجب ہے جو
مکہ میں حج کرتے ہیں اور محض چند لوگ اِس کی سے کر اِس کی مشق کرتے ہیں۔سو قربانی سے متعلق مختلف آراء پائی جاتی ہیں:

قرآن میں ہم کچھ یوں پڑھتے ہیں:

”ہم نے اُن کو(حضرت ابراہیم)ایک نرم دل لڑکے کی خوشخبری دی جب وہ اُن کے ساتھ دوڑنے کی (عمر)کو پہنچا تو ابراہیم نے کہا کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ (گویا)تم کو ذبح کر رہا ہوں تو تم سوچو کہ تمہارا کیا خیال ہے۔اُنہوں نے کہا کہ ابّاجو آپ کو حکم ہوا ہے وہی کیجیے
خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائیے گا۔جب دونوں نے حکم مان لیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹا دیا تو ہم نے اُن کو پکارا کہ
اے ابراہیم تم نے خوا ب کو سچا کر دکھایا۔ہم نیکو کاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔بلا شبہ یہ صریح آزمایش تھی اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو اُن کا فدیہ دیا۔“(سورۃ الصّفّت 101:37-107)

اب اگر آپ کا بھتیجا سنے کہ اُس کا باپ کہتا ہے،”میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ مجھے تمہیں ذبح کرنا ہے“،تو اُس کا بیٹا کیا کہے گا۔اُسے اپنی ماں کو کہنا چاہئے کہ ابو جان پاگل ہو گئے ہیں،اُن کے سر پر ٹھنڈا پانی ڈالیں!آئیے! توریت شریف میں سے اِس سارے واقعہ کو پڑھتے ہیں:

”اِن باتوں کے بعد یوں ہوا کہ خدا نے ابرہام کو آزمایا اور اُسے کہا اے ابرہام!اُس نے کہا میں حاضر ہوں۔تب اُس نے کہا کہ تُو اپنے بیٹے اضحاق کو جو تیرا اکلوتا ہے اور جسے تُو پیار کرتاہے ساتھ لے کر موریاہ کے ملک میں جا او روہاں اُسے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ پر جو میں تجھے بتاؤں گا سوختنی قربانی کے طورپر چڑھا۔تب ابرہام نے صبح سویرے اُٹھ کر اپنے گدھے پر چارجامہ کسا او راپنے ساتھ دو جوانوں اور اپنے بیٹے اضحاق کو لیا او رسوختنی قربانی کے لئے لکڑیاں چیریں اور اُٹھ کر اُس جگہ کو جو خدا نے اُسے بتائی تھی رواانہ ہوا۔تیسرے دن ابرہام نے نگاہ کی اور اُس جگہ کو دُور سے دیکھا۔تب ابرہام نے اپنے جوانوں سے کہا تم یہیں گدھے کے پاس ٹھہرو۔میں اور یہ لڑکا دونوں ذرا وہاں تک جاتے ہیں اور سجدہ کرکے پھر تمہارے پاس لوٹ آئیں گے۔اورابرہام نے سوختنی قربانی کی لکڑیاں لے کر اپنے بیٹے اضحاق پر رکھیں اور آگ اور چھُری اپنے ہاتھ میں لی اور دونوں اکٹھے روانہ ہوئے۔تب اضحاق نے اپنے باپ ابرہام سے کہا اے باپ! اُس نے جواب دیا
کہ اے میرے بیٹے میں حاضر ہوں۔اُس نے کہا دیکھ آگ اور لکڑیاں تو ہیں پر سوختنی قربانی کے لئے برّہ کہاں ہے؟ابرہام نے کہا اے میرے بیٹے خدا آپ ہی اپنے واسطے سوختنی قربانی کے لئے برّہ مہیا کرلے گا۔سو وہ دونوں آگے چلتے گئے۔اور اُس جگہ پہنچے جو خدا نے بتائی تھی۔وہاں ابرہام نے قربان گاہ بنائی اور اُس پر لکڑیاں چُنیں اور اپنے بیٹے اضحاق کو باندھا اور اُسے قربان گاہ پر لکڑیوں کے اُوپر رکھا۔اور
ابرہام نے ہاتھ بڑھا کر چُھری لی کہ اپنے بیٹے کو ذبح کرے۔تب خداوند کے فرشتہ نے اُسے آسمان سے پکارا کہ اے ابرہام اے ابرہام! اُس نے کہا میں حاضر ہوں۔پھر اُس نے کہا کہ تُو اپنا ہاتھ لڑکے پرنہ چلا اور نہ اُس سے کچھ کر کیونکہ میں اب جان گیا کہ تُو خدا سے ڈرتا ہے اِ س لئے کہ تُو نے اپنے بیٹے کو بھی جو تیرا اکلوتا ہے مجھ سے دریغ نہ کیا۔او رابرہام نے نگاہ کی اور اپنے پیچھے ایک مینڈھا دیکھا جس کے سینگ جھاڑی میں اَٹکے تھے۔تب ابرہام نے جا کر اُس مینڈھے کو پکڑا اور اپنے بیٹے کے بدلے سوختنی قربانی کے طور پر چڑھایا اور ابرہام نے اُس مقام کا نام یہوواہ یری رکھا۔“(پیدایش 1:22-14)

یہاں ہم قربانی کے سارا واقعہ دیکھتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قربانی کیاہے؟ اِس کا مطلب خون بہانا ہے۔پہلی قربانی کیا تھی،جب پہلی مرتبہ خون بہا؟یہ دراصل حضرت آدم کے زمانے میں ہوئی،جب پہلے گناہ کے بعد خود خُدا تعالیٰ نے قربانی گذرانی:

خداوند خدا نے آدم اور اُس کی بیوی کے واسطے چمڑے کے کُرتے بنا کر اُن کو پہنائے۔(پیدایش 21:3)

ہم دیکھتے ہیں کہ قربانی ڈھانپنے یا کفارہ دینے یا فدیہ دینے کے مقصد کو پورا کرتی ہے۔بالکل یہی نظریہ ہم سورۃ الصآفات میں دیکھتے ہیں:

وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ
”اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو اُن کا فدیہ دیا۔“(سورۃ 101:37-107)

”فدیہ“ جس کا مطلب ہے کسی چیز کے بدلے میں واپس خرید لینا۔اب وہ قربانی جس نے حضرت اضحاق کو نجات دلائی وہ ایک عظیم قربانی تھی۔جو کچھ آپ واپس خریدتے ہیں تو اُس کے بدلے میں آپ کو اُس کی قیمت کے برابر یا زیادہ قیمت چُکانی پڑتی ہے۔کیا اشر ف المخلوقات کی نسبت بکرے یا بھیڑ کی قیمت زیادہ ہے؟ہے کہ یہ بعد کی قربانی کا ذِکر ہو رہاتھا۔اِسی طرح،توریت شریف میں خود ابراہیم یہ نبوت کرتے ہیں کہ”خدا خود برّہ مہیا کر لے گا“لیکن جو کچھ اُس وقت مہیا کیا گیا وہ برّہ نہیں تھا بلکہ ایک بالغ مینڈھا تھا۔یہاں دوبارہ اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بیٹے کے کفارے کے لئے حقیقی فدیہ بعد کی قربانی تھی جو ایک”عظیم“ قربانی تھی اور ایک ”برّہ“ بے گناہی کو ظاہر کرتا ہے۔

اِس لئے یہ ابتدائی قربانیاں عظیم حقیقت یا تکمیل کا عکس تھیں جو ہونے والی تھی۔یہ بھی دیکھئے کہ حضر ت ابراہیم نے تنہا ایک بالغ مینڈھے کو قربان کیاجبکہ اگر ہم ایک بڑے بکرے کی قربانی کرتے ہیں تو ہمیں پانچ یا چھ آدمیوں کی ضرورت پڑتی ہے،ٹھیک ہے نا!یہ حقیقی قربانی کی طرف ایک اَور اشارہ کرتی ہے کہ ذبح ہونے والے کو رضاکارانہ طور پر اپنا آپ قربانی ہونے کے لئے خدا کو دینا چاہئے۔

آئیے! دیکھتے ہیں کہ قربانی کے متعلق زبور شریف میں کیا لکھا ہے:

”میں تجھے تیری قربانیوں کے سبب سے ملامت نہیں کروں گا
    اور تیری سوختنی قربانیاں برابر میرے سامنے رہتی ہیں۔
نہ میں تیرے گھر سے بیل لوں گا
نہ تیرے باڑے سے بکرے
کیونکہ جنگل کا ایک ایک جانور
او رہزاروں پہاڑوں کے چوپائے میرے ہی ہیں
میں پہاڑوں کے سب پرندوں کو جانتا ہوں
اور میدان کے درندے میرے ہی ہیں
اگر میں بھوکا ہوتا تو تجھ سے نہ کہتا
کیونکہ دنیا اور اُس کی معموری میری ہی ہے
کیا میں سانڈوں کا گوشت کھاؤں گا
یا بکروں کا خون پیوں گا؟
خدا کے لئے شکر گزاری کی قربانی گزران
اور حق تعالیٰ کے لئے اپنی منتیں پوری کر
اور مصیبت کے دن مجھ سے فریاد کر
میں تجھے چھڑاؤں گا اور تُو میری تمجید کرے گا۔“(زبور شریف 8:50-15)

اگر میں کسی دوست کے گھر جاؤں اور اُس کے دروازے میں سے گزرتے ہوئے مجھے احساس ہوکہ میں اُس کے لئے کوئی تحفہ لانا تو بھول ہی گیااور میں اُس کے درختوں سے کچھ پھل توڑ لوں او راُسے تحفے میں دے دوں،تو وہ کیا سوچے گا؟”اِس بد دیانت شخص نے مجھے میرے ہی پھل دے دئیے!“ہمارے لئے حقیقی قربانی صرف خُدا تعالیٰ ہی فراہم کر سکتا ہے اور صحائف میں ایسے بہت سے حوالہ جات موجود ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ حتمی قربانی کیا تھی۔

”جو بیل ذبح کرتا ہے اُ سکی مانند ہے جو کسی آدمی کو مار ڈالتا ہے اور جو برّہ کی قربانی کرتا ہے اُس کے برابر ہے جو کتے کی گردن کاٹتا ہے۔“
(یسعیاہ 3:66)

حقیقی قربانی یہ نہیں کہ ہم جانور قربان کریں،اُس کی کھال اُتاریں،بلکہ اپنا آپ قربان کریں اور اُس کے حوالے کریں۔جب آپ کسی امام کو اُس کے مذبح میں دیکھتے ہیں جس پر خون لگا ہوا ہے اور وہ جانور کو ذبح کر رہا ہے،تو آپ سوچے بغیر نہیں رہ سکتے کہ یہی آدمی لوگوں کو بھی ذبح کرے گا۔

”کیونکہ میں قربانی نہیں بلکہ رحم پسند کرتا ہوں اور خدا شناسی کو سوختنی قربانیوں سے زیادہ چاہتا ہوں۔“
(ہوسیع 6:6)

حقیقی قربانی دیانت داری،انصاف اور یک جہتی کی زندگی بسر کرنے کانام ہے۔اگر میں کہوں،”مجھے کچھ پیسے قرض دے دیں میں کل شام تک لوٹا دوں گااور کل شام میں نظر ہی نہ آؤں،حقیقت میں یہی مسئلہ ہے جہاں حقیقی کوشش کرنی ہوتی ہے۔ایک گائے خریدنا آسان ہے
مگر حقیقی قربانی کرنا بہت مشکل ہے۔حتمی قربانی دی جا چکی ہے اب ہماری قربانی یہ ہے کہ ہمیں خود انکاری کرنا اور درست زندگی بسر کرنا ہے۔

”پس اے بھائیو۔میں خدا کی رحمتیں یاد دلا کر تم سے التماس کرتا ہوں کہ اپنے بدن ایسی قربانی ہونے کے لئے نذر کرو جو زندہ اور پاک اور خدا کو پسندیدہ ہو۔یہی تمہاری معقول عبادت ہے۔“(رومیوں 1:12)

یہی حقیقی قربانی ہے یعنی فنافی اللہ،خُدا تعالیٰ کے ہاتھوں میں اپنی زندگیوں کو بے عیب قربانی ہونے کے لئے دے دینا۔

One response to “قربانی”

  1. Patres Khan says:

    its amazing for me. God bless you.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *