مسیحی علما اور کتاب مقدس کا معتبر ہونا

”حتیٰ کہ مسیحی علما بھی کہتے ہیں کہ کتاب مقدس معتبر نہیں ہے“

توریت شریف اور انجیل شریف کے بارے میں اپنے کم تر نظریے کا دفاع کرنے کے لئے حضرت عیسیٰ کی ”Abysmal failure theory“یورپین سکالرز آف ہائر کرٹیسزم کا حوالہ دینا پسند کرتی ہے۔پچھلی صدی کے اِن مادہ پرست مکتبہ فکر نے یہ رائے قائم کی کہ
کتاب مقدس غلط او ردیومالائی ہے کیونکہ یہ معجزات کی کہانیوں پر مشتمل ہے۔حتیٰ کہ اِن علما میں سے بہت سے مسیحی ہونے کا لیبل لگائے ہوئے تھے مگر پھر بھی اُن کا دنیا کے بارے میں نظریہ مادہ پرستی کی بنیادی روشن خیالی تھا۔

وہ یہ قیاس کرتے تھے کہ کائنات ایک بند
مشین ہے اِس لئے معجزات ناممکن تھے،نبوتی پیشین گوئیاں ناممکن تھیں اور اِس لئے کتاب مقدس کو خیالی کتاب ہونا چاہئے۔اِس قسم کے علما میں سے ایک نے اپنے تعصب کو کھلم کھلا تسلیم کیا: 1

ایک تاریخی حقیقت جس میں مُردوں میں سے جی اُٹھنا شامل ہے،یہ بالکل ناقابل ِ یقین ہے۔
تمام سچے مسلمان او رمسیحی اِس مقدمے سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مُردوں میں سے زندہ کرنے اور کنواری سے جنم دلانے کے معجزات کئے ہیں۔ 2 اِس نے لچک بنیادی قیاس کی بنیاد پر اُنہوں نے کتاب مقدس کے دَور کا دوبارہ تعین کیا اورمسوداتی مفروضے اور بیئت پر تنقید کے ساتھ اِس کی تاریخ کی دوبارہ تشریح کی۔اُن کے بہت سے نتائج نے تعلیمی حلقوں میں مقبولیت کھو دی۔اِس لئے یہ ایک المیہ ہے کہ نائیک او ردیدات کتاب مقدس پر اُن کی تاریخوں اور نظر ثانی کی گئی تاریخ کا استعمال کر سکتے ہیں (جو مکمل طور پر معجزات اور نبوتوں کی ممانعت پر مبنی ہیں)اور وہ اُسی تشریحی طریقہ کار کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں جو قرآن پر لاگو ہوتا ہے۔
چلئے! کسی بھی مغربی علم و فضل کی قرآن پر با ت کرلیں۔آرتھر جیفری،جیرڈ پیون او رپیٹریسیا کرون او رکرسٹوف لیگسن برگ جیسے علما کو
نائیک اور دیدات کریں گے کبھی قبول نہیں۔ہائر کریٹیسزم جرمنی سے فروغ پاتا ہے اور اسلام کا پہلا جرمن یونیورسٹی کا پروفیسر محمد کالیش
Kalisch جو ایک باعمل مسلمان ہے او رجس نے پندرہ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا اور جس نے اپنی عمر کے زیادہ تر حصے میں قرآن اور فقہ کا مطالعہ کیا ہے۔اُس حال ہی میں یہ ا قرار کرتے ہوئے اپنے ہم عصر مسلمانوں کو حیران کر دیا ہے کہ وہ اُس ثبوت پر یقین رکھتا ہے جو اِس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ حضرت محمد شاید کبھی موجود ہی نہیں تھے۔ ہائر کریٹسزم کے علما جیسے کارل ہینز اولگ Karl-Heinz Ohlig نے یہ لازمی شرط قرار دے دی کہ قرآن سابقہ مسیحی متن سے ارتقاپذیر ہوا ہے۔ٹورنٹو سٹار لکھتا ہے:

لیکن وہ (کالیش)نئے ایمان میں داخل ہونے والے مخصوص افراد سے مختلف ہے کیونکہ اُس نے کبھی بھی سوال پوچھنا ترک نہیں کیا۔
وہ کہتا ہے،”مذہب کو دلیل سے کبھی بھی اختلاف نہیں کرنا چاہئے۔“میں ایسی الہٰی تعلیم یا عقیدے کو کبھی قبول نہیں کر سکتا جو میرے روایتی ذہن کے خلاف ہو۔“

کالیش نے کہا کہ وہ 2001 کے آغاز میں یہ جان گیا کہ جب یہی سائنسی طریقے مسلمانوں کے دعویٰ کردہ تاریخ کی کھوج لگانے کے لئے استعمال ہوئے ہیں، کیونکہ یہ طریقے یہودیوں اور مسیحیوں کے آغاز کے لئے استعمال ہوئے،تب بھی یہی مسائل اچانک پیدا ہو گئے تھے۔
اُسے پتا چلا کہ جونہی ٹھوس شواہد ملتے ہیں روایتی علم ِ الہٰی کے مرتبے جلد ہی زمین بوس ہوجاتے ہیں۔اُس میں جو کچھ اُس نے دریافت کیا
وہ اسلام میں ”فرضی کہانیاں“ ہیں جیسے کہ یہودیت اور مسیحیت میں ہے۔اور اِس طرح ”اسلام کے بارے میں اُس کی سوچ“ کا موجودہ
عمل شروع ہو گیا تھا۔

جب اُس سے یہ پوچھاگیا کہ کیا اُس کی دریافتوں کی عوامی آراء کہیں لوگوں کے ایمان کو تو خراب نہیں کریں گی،اُس نے کہا:
”یہ لفظ پرست ایمان کو خراب کر دیں گی،ایک ایسا ایمان جو دلیل کی وجہ سے مزید معتبر نہیں رہا۔لیکن جس اللہ تعالیٰ پر میں ایمان رکھتا ہوں وہ
لفظ پرستوں کا خدا نہیں ہے۔وہ قادر ِمطلق ہے۔اللہ تعالیٰ کتابیں نہیں لکھتے۔تمام طرح کی مقدس کتب انسانی ذہن اور تجربات کی پیداوار ہیں۔وہ مدد گار ہو سکتی ہیں لیکن اُنہیں آج کے لئے ترجمہ ہونا چاہئے۔“

کالیش ایسے غیر مسلم علما سے اتفاق کرتا ہے جو اُس کے اِس فرضی مفروضے سے اتفاق رکھتے ہیں لیکن وہ مسلمانوں کی ”عزت“ کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں اور درحقیقت اُس کے ساتھ ایسے سلوک کرتے ہیں جیسے وہ اِس سچائی سے نمٹ نہیں سکتے۔

”یہ کوئی عزت نہیں ہے۔یہ مسلمانوں کے ساتھ بچوں جیسا سلوک کرنے کے مترادف ہے جو اپنے بارے میں نہ سوچ سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی فیصلہ کر پاتے ہیں اور جن کے سینٹا کلاز یا ایسٹر بنی (خرگوش)کی طرح کے فریب کو کوئی بھی خراب نہیں کر نا چاہتا۔“ 3

آپ کو بااُصول ہونا چاہئے۔اگر کتاب مقدس کے بارے میں آپ آزادانہ علم و فضل کے احمقانہ نظریات کو قبول کرتے ہیں تو پھر آپ کو
اُسی طرح اُن کے قرآن کے بارے میں بھی احمقانہ نظریات کو قبول کرناچاہئے۔اعلیٰ تنقید کے تشریحی ڈھانچے طریقہ کار کادونوں صحائف پر اطلاق ہونا چاہئے یا پھر کسی پر بھی نہیں۔

  1. Kergyma and Myth, Rudolph Bultmann, English trans. Harper & Row, New York, 1961, p.39.
  2. see for example Al-‘Imran 3:45-50.
  3. Tom Harpur, “Questioning Of Prophet’s Existence Stirs Outcry” The Toronto Star, December 23, 2008

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *