سات یا تین سال؟

2 -سموئیل 13:24 -”یہ حوالہ ذِکر کرتا ہے کہ قحط کے سات سال ہو گے جب کہ 1 -تواریخ 12:21 میں صرف تین سالوں کا ذِکر ہے۔“

ہم یہ فرض کر سکتے ہیں کہ 1 -تواریخ کا مصنف تین سالوں پر زور دیتا ہے جس میں قحط بہت شدید نوعیت کا تھا،جب کہ 2 -سموئیل کا مصنف اِس عرصے سے پہلے کے دو سال اور بعد کے دو سال بھی اِس میں شامل کرتا ہے جس عرصے میں قحط بالترتیب بڑھا او رکم ہوا ۔
ایسا ہی مسئلہ اُس طوفان کی طوالت کے حوالے سے ہمیں قرآن میں ملتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے عاد کے لوگوں پر عذاب بنا کر بھیجا؛ سورۃ قمر
19:54فرماتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ہی دن میں عاد کے لوگوں کو نیست کر دیا لیکن سورۃ حآقہ 6:69-7میں لکھا ہے کہ وہ آٹھ طویل دن تھے۔ہم یہ قیاس کر سکتے ہیں کہ ایک حوالہ آزمائش کے کڑے وقت کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دوسرا کُل تعداد کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

دوسرا حل ہر اقتباس میں الفاظ کے استعمال کا مشاہدہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔جب آپ دو اقتباسات کا موازنہ کرتے ہیں تو آپ دیکھیں گے کہ 1 -تواریخ 21باب میں پائے جانے والے الفاظ 2 -سموئیل 24باب میں پائے جانے والے الفاظ سے خاص طورپر مختلف ہیں۔ 2 -سموئیل 13:24میں یہ سوال ہے،”کیا تیرے ملک میں سات برس تک قحط رہے؟“1 -تواریخ 12:21میں ہم ایک متبادل بیان پاتے ہیں،”یا تو قحط کے تین بر س … چُن لے“اِن باتوں سے ہم جواز کے ساتھ یہ نتیجہ اَخذ کر سکتے ہیں کہ 2 -سموئیل حضرت داؤد کے پاس پہلی مرتبہ جاد نبی کے جانے کا واقعہ درج کرتاہے جس میں متبادل لائحہ عمل سات سال تھا،جبکہ تواریخ کی رُوداد ہمیں بادشاہ کے پاس ناتن نبی کی دوسری اور آخری رسائی کا ذِکر کرتی ہے جس میں خداوند تعالیٰ (بلاشبہ حضرت داؤد کی تنہائی میں دعا میں پُر خلوص التجا کے جواب میں)اُس دہشت کی شدت کو کم کرتے ہوئے سات سال کے پورے عرصے کے بجائے تین سال کر دیتا ہے۔
پھر اِس بات کے ہوجانے کے بعد حضرت داؤدنے خُدا تعالیٰ کی تیسری ترجیح کا انتخاب کیااور اِس لئے تین دن کی شدید مری کا سامنا کیا
جس کے نتیجے میں اسرائیل میں 70,000آدمی مارے گئے۔1

چند مترجم اِسے نقل نویسی کی غلطی قرار دیتے ہیں کہ نقل نویسوں نے اِسے گنتی کے ابتدائی ابجدی نظام کی وجہ سے غلط پڑھا کہ عبرانی ”گیمل“ (تین) کو”زین“ (سات) کے طورپر پڑھا۔اِس قسم کی غلطی حروف کے ایک جیسے ہونے کی وجہ سے بڑی آسانی سے ہو سکتی تھی۔.

قرآن میں بھی ہمیں ایسی کئی مختلف باتیں ملتی ہیں،معمولی اختلافات کے بارے میں مضمون دیکھئے۔


This paragraph is excerpted from 101 Cleared-Up Contradictions in the Bible by Jay Smith, Alex Chowdhry, Toby Jepson, James Schaeffer (http://debate.org.uk/topics/apolog/contrads.htm)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *