بسم اللہ کا مطلب

یہ خوبصورت فقرہ خدا کی بنیادی صفت- اُس کے عظیم رحم یا فضل کا اعلان کرتا ہے۔خدا کا رحم انسانیت کے لئے خود اُس کی راست بازی کے ذریعے نجات مہیا کرنے سے ظاہر ہوتا ہے۔

مندرجہ بالا جملہ عام طور پر بسم اللہ کے نام سے جانا جاتا ہے کیونکہ عربی میں یہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھا جاتا ہے۔ماسوائے نویں سورہ کے قرآن مجید کی ہر سورہ کی تمہید اِس سے شروع ہوتی ہے۔تاہم،اللہ کے نام کے بطور پُر فضل اور رحیم ہونے کا اِعلان قرآن مجید کے نزو ل کے وقت سے نہیں تھا۔دراصل،بسم اللہ عربی مسیحی اور مسلمان دونوں استعمال کرتے ہیں۔پچھلے صحائف جیسے کہ توریت شریف،زبور شریف، او رانجیل شریف اللہ تعالیٰ کے بارے میں بطور پُر فضل اور رحیم یا ترس کھانے والے کے بات کرتے ہیں۔

ہر میں سے ایک مثال دی گئی ہے:

توریت شریف –“خداوند، خداوند خدایِ رحیم اور مہربان قہر کرنے میں دھیما او رشفقت او روفا میں غنی…”(خروج 6:34) زبور شریف –“لیکن تُو یارب!

اوریاہ کی بیوی بت سبع کے خلاف داؤد نبی کا گناہ

2- سموئیل 12،11 – بائبل مُقدس کیسے کہہ سکتی ہے کہ داؤد نبی نے اوریاہ کی بیوی بت سبع کے خلاف زنا کیا اور پھر اُسے چھپایا؟

دلچسپ امر یہ ہے کہ اِس واقعہ کا کچھ حصہ قرآن میں بھی ہے (21:38-24، 30)، اور بہترین مسلمان مفسر ہمیں بتاتے ہیں کہ اِن قرآنی آیات کی درست تشریح داؤد کا اوریاہ کی بیوی کو ناروا طور پر لے لینا تھا۔ مثلاً ابن عباس سورہ 23:38-24، 26 کے بارے میں لکھتے ہیں:

(ایک دُنبی) یعنی ایک بیوی، (سو یہ کہتا ہے کہ وہ بھی مجھے دے دے اور بات چیت میں دباتا ہے) یہ ایک تشبیہ ہے جس کی وجہ یہ تھی کہ داؤد کو سمجھ آ جائے اُنہوں نے اوریاہ کے ساتھ کیا کیا تھا (تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس)۔ source)

اسلامی ذرائع سے مزید ثبوت کے لئے یہاں کلک کریں

گو کہ یہ واقعہ واضح طور پر ایک بھیانک گناہ تھا، خدا تعالیٰ نے داؤد کی توبہ کو ہم تک انتہائی خوبصورت بائبلی حوالہ جات پہنچانے کے لئے استعمال کیا جو حقیقی توبہ اور ندامت کا اظہار کرتے ہیں:

میر مغنی کے لئے داؤد کا مزمور۔ اُس کے بت سبع کے پاس جانے کے بعد جب ناتن نبی اُس کے پاس آیا۔

اے خدا!