متی میں تشدد کی تعلیم؟

متی 34:10 – ”انجیل شریف تشدد کی تعلیم دیتی ہے:حضرت عیسیٰ مسیح نے فرمایا،’میَں صلح کرانے نہیں بلکہ تلوار چلانے آیا ہوں۔“

یہ آیت ’تلوار‘ کو تقسیم اور کشمکش کوبیان کرنے کے لئے ایک استعارے کے طورپر استعمال کر رہی ہے جس کا نتیجہ خاندانوں میں اُس وقت سامنے آتا ہے جب ایک خاند ان کافرد اکیلے ہی خُدا تعالیٰ کی پیروی کرنا چاہتا ہے اور گھر کے باقی افراد ایسا نہیں کرنا چاہتے۔
لوقا51:12میں اِس عبارت کے متوازی بیان یہ بتاتا ہے کہ اِ س کا مطلب محض تقسیم ہے اور’تلوار‘کے لئے یونانی لفظ (مخائرا)کہیں اَور بھی تقسیم کے لئے استعارہ کے طور پر استعمال ہوا ہے (عبرانیوں 12:4)۔

یہ کہنے کے لئے نقادوں کا اِس آیت کو استعمال کرنا کہ حضرت عیسیٰ مسیح نے تشددکی تعلیم دی اور وہ تشدد ہی لے کر آئے،حماقت ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ مسیح نے کبھی بھی تلوار استعمال نہیں کی اور اپنے شاگردوں کو عدم تشدد کی تعلیم دی:

”اپنی تلوار میان میں کر لے کیوں کہ جو تلوار کھینچتے ہیں وہ سب تلوار سے ہلاک کئے جائیں گے۔“(متی 52:26)

درحقیقت،پہلی دو صدیوں میں حضرت عیسیٰ مسیح کے پیروکارتشدد کے سخت خلاف تھے کہ اُن پر اُن کے امن پسند ہونے کی وجہ سے تنقید کی گئی۔ حضرت عیسیٰ مسیح کے پیروکاروں کی جماعت رومی حکومت کی ایذا رسانی اورمخالفت کے باوجود جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔تب بھی حضرت عیسیٰ مسیح کے پیروکاروں نے کبھی بھی بدلہ نہیں لیا اور نہ باغی ہوئے اور نہ ہی اُنہوں نے کوئی فوج یا سیاسی شاخ تشکیل دی۔جب حضرت عیسیٰ مسیح سے اُن کے سیاسی مقاصد کے بارے میں پوچھا گیا تو اُنہوں نے جواب دیا:

”میری بادشاہی اِس دنیا کی نہیں۔اگر میری بادشاہی دنیا کی ہوتی تو میرے خادم لڑتے تاکہ میَں یہودیوں کے حوالہ نہ کیا جاتا۔مگر اب میری بادشاہی یہاں کی نہیں۔“(یوحنا 36:18)

تشدد او رصحائف کے موضوع پر مزید جاننے کے لئے یہاں دیکھئے۔

حضرت یحیٰی علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ مسیح

متی 2:11 – ”کیاحضرت یحیٰی نے حضرت عیسیٰ مسیح کو بطور مسیحا پہلے نہیں پہچانا تھا؟(جیسے کہ یوحنا 32:1-33میں ہے)“

جب حضرت یحیٰی (یوحنا بپتسمہ دینے والا) نے حضرت عیسیٰ مسیح کو بپتسمہ دیا،تو اُنہوں نے یہ واضح تصدیق دیکھی کہ حضرت عیسیٰ مسیح ہی مسیحا تھے۔لیکن حضرت عیسیٰ نے مسیحا کے بارے میں یہودیوں کے روایتی نظریے کو پورا نہیں کیا جو ایک سیاسی قائد کا تھا جو رومی حکومت کو نکال پھینکے گا اور یہودیوں کے لئے سیاسی نجات کا باعث بنے گا۔حضرت یحیٰی جناب مسیح سے ایک سیاسی فوجی انقلاب کی قیادت کرنے کی توقع کر رہے تھے،اِس لئے اُنہوں نے اِس تذبذب کو دُور کرنے کے لئے اپنے شاگردوں کو اُن کے پاس بھیجا۔

اندریاس کے ذریعے یا آسمان کے ذریعے؟

متی 17:16 -”کیا شمعون پطرس کو آسمانی مکاشفے کے ذریعے یا اندریاس کے ذریعے پتا چلا کہ حضرت عیسیٰ مسیح تھے (یوحنا 41:1)؟“

اِس کی بظاہر تشریح یہ ہے کہ شمعون پطرس نے حتیٰ کہ تب بھی تشکیک پرستی کو قائم رکھاجب اندریاس نے اُس پر یہ ظاہر کیا حضرت عیسیٰ مسیح ہی مسیحا ہے؛اُس نے اندریاس کا یقین نہ کیا۔بعد میں جب وہ حضرت عیسیٰ مسیح کو جان گیا تو اُس کے دِل میں خُدا تعالیٰ نے یہ ظاہر کیااور اُس نے اپنے لئے یہ قبول کر لیا کہ واقعی حضرت عیسیٰ مسیح ہی مسیحا ہے۔پطرس ایک زبردست شخص کی مثال مہیا کرتا ہے جو بڑی دیانت داری سے حضرت عیسیٰ مسیح کا متلاشی تھا،اُن کے پاس آیا تاکہ اُنہیں اُس مسح شدہ مسیحا کے طو ر پر قبول کرے جس کے بارے میں بہت سی نبوتیں کی گئی تھیں۔

تین دن یا دو دن؟

متی 40:12 – ”(سوال نمبر1):”حضرت عیسیٰ مسیح نے پیشین گوئی کی تھی کہ وہ قبر میں تین دن تین رات رہیں گے،لیکن وہ قبر میں
دوراتیں او رایک پورا دن رہے۔“

chart
یہاں نقاد دیدات صرف اپنی یہودی ثقافت اور زبان سے لاعملی کا مظاہر ہ کرتا ہے۔یہودی ثقافت میں دن کا کوئی بھی حصہ تب گِنا جاتا ہے جب ایک مسلسل وقت کے عرصے کا شمار کیا جائے او رایک دن کا شمار ایک غروب ِ آفتاب سے لے کر دوسرے غروب آفتاب تک ہوتا ہے۔
چونکہ حضرت عیسیٰ مسیح جمعہ،ہفتہ اور اتوار کے دن کے ایک حصے میں قبر میں رہے،اِس طرح عبرانی حساب کتاب کے مطابق وہ تین دن قبر میں رہے۔ 

”تین دن او رتین راتیں“ کا فقرہ یہودی بات چیت کا وہ کلمہ ہے جس کا مطلب صرف تین دن ہے؛ایک دن کی زبان میں یہ کبھی بھی کوئی نہیں کہے گا،”تین دن اور دو راتیں۔“یہ گویا انگریزی اظہار ِ بیان کی طرح ہو گا،”پندرہ روزہ“ (biweekly)جس کا تکنیکی مطلب ہے
ہر دو ہفتے میں ایک مرتبہ،لیکن عام بول چال میں اِس کا مطلب ہے ہفتے میں دوبار۔”تین دن او رتین راتیں“اِس فقرے کے یہودی فہم کا واضح اظہار آستر کی کتاب میں ملتا ہے جہاں ملکہ نے کہا کہ کوئی بھی تین روز تک دن او ررات نہ کچھ کھائے نہ پیئے(آستر 16:4) مگر تیسرے روز جب ابھی صرف دو راتیں ہی گزری تھیں،وہ بادشاہ کے محل میں گئی اور روزہ ختم ہو گیا۔طوبیاہ کی کتاب (200ق م)اِس استعمال کی ایک واضح تصدیق ہمیں دیتی ہے (12:3-13):”جب اُس نے یہ بات سُنی تو اپنے گھر کے بالا خانے میں چڑھی۔اور تین
دن اورتین رات وہیں رہی نہ کچھ کھایا اور نہ پیا۔مگر دعا کرتی اور آنسوؤں کے ساتھ خدا کی منت کرتی رہی کہ یہ ننگ مجھ سے دُور کر [اُس پر
قتل کا الزام تھا]۔اور تیسرے دن جب اُس نے اپنی دعا تمام کی اور خداوند کو مبارک کہا…“

اِس لئے آپ کو صرف ترجمہ ہی سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح صحائف کی اصلی زبانوں میں الفاظ اور محاورے استعمال ہوئے ہیں۔یہاں دیدات کی دلیل یہ بحث کرنے کے مترادف ہے کہ چونکہ توریت شریف اور قرآن اللہ تعالیٰ کے لئے جمع کا صیغہ ”ہم“ استعمال کرتے ہیں اِس لئے وہ بہت سے خداؤں کی تعلیم دیتے ہیں۔

Related Articles:

Were Jesus & Jonah dead in the tomb?

حضرت عیسیٰ مسیح کبھی بھی نہیں مرے؟

متی 40:12 -(سوال نمبر2):”چونکہ حضرت یونس مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہے،حضرت عیسیٰ مسیح بھی قبر میں زندہ ہو ں گے،اِس لئے درحقیقت حضر ت عیسیٰ مسیح صلیب پر نہیں مرے۔“

[see here for the related question of duration; 3 days & 3 nights]

دیدات نے آیت کے چند خاص حصے چُن چُن کر پیش کرنے اور دوسری آیات کو چھپانے سے صرف یہ دلیل قابل ِ یقین بنائی ہے۔اِس لئے پوری آیت یہ ہے جو حضر ت عیسیٰ مسیح نے فرمائی:

”کیونکہ جیسے یونا ہ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسے ہی ابن ِ داؤد تین رات دن زمین کے اندر رہے گا۔“(متی 40:12)

دیدات اِ س آیت کو یوں کاٹتا ہے، ”جیسے یوناہ …ویسے ہی ابن ِ آدم بھی“اِس آیت کے مرکزی خیال کو کاٹ دینا جو واضح طور پر(۱) آیت کا پہلا حصہ ہے (یعنی دورانیہ،تین دن اور تین راتیں)اور (۲) اُس وقت ایک بند جگہ پر رہے گا۔یہاں ایسا کوئی ذِکر موجود نہیں کہ آیا حضرت عیسیٰ مسیح یا حضرت یونس زندہ تھے یا نہیں کیونکہ یہ پیغام کا مرکزی نکتہ نہیں ہے۔اگر ہم دیدات کی منطق کو قبول کرتے ہیں تو آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ بات کس طرح حضر ت عیسیٰ مسیح کی مو ت کے بارے میں ایک ملتی جلتی نبوت پر لاگو ہوتی ہے:

”اور جس طرح موسیٰ نے سانپ کو بیابان میں اُونچے پر چڑھایا اُسی طرح ضرور ہے کہ ابن ِ آدم بھی اُونچے پر چڑھایا جائے تاکہ جو کوئی ایمان لائے اُس میں ہمیشہ کی زندگی پائے۔“(یوحنا 15,14:3)

یہاں موسیٰ کے بنائے ہوئے پیتل کے سانپ(دیکھئے گنتی 9:21) اور حضرت عیسیٰ مسیح کے درمیان ایک مماثلت پیدا کی گئی ہے،جن میں سے دونوں دوسروں کی نجات کا وسیلہ بننے کے لئے اُونچے پر چڑھائے گئے۔اِس لئے اگر ہم دیدات کی منطق کی پیروی کریں تو یہ آیت ثابت کرتی ہے کہ پیتل کے سانپ کی طرح حضرت عیسیٰ مسیح بھی صلیب سے پہلے،اُس کے دوران اور اُس کے بعد زندگی سے عاری تھے!…

متی 7:18-9 -کیا حضرت عیسیٰ مسیح قطع ِ عضوکا مشورہ دیتے ہیں؟

متی 7:18-9 -”قطع ِ عضو گناہ کے علاج کا ایک مضحکہ خیز علاج ہے۔“"

اِ س حوالے کو واضح طور پر لغوی معنوں میں نہیں لینا چاہئے لیکن ایک واضح اور یادگار یاددہانی کے طور پر ہمیں گناہ سے بچنے کے لئے سنجیدہ اقدامات لینے چاہئیں اُس چیز کو رضاکارانہ طور پر ترک کر دینا چاہئے جو ضروری ہے (حتیٰ کہ ہمارا عزیز ساز و سامان بھی) کہ اگر یہ بدی سے محفوظ رہنے میں ہماری مدد کرے گا۔یہ مبالغہ آرائی کہلاتا ہے (یونانی، ہیوپربول)،جو ایک لغوی آلہ کار ہے جسے مصنفین،شعراء اور مقررین استعمال کرتے ہیں،”یہ مبالغہ آرائی زور دینے یا پھر جذباتی اثر چھوڑنے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔“ذہین قاری جو مبالغہ آرائی کا سامنا کرتے ہیں وہ اِسے لغوی معنوں میں نہیں لیتے بلکہ ایسی علامت کے طور پر لیتے ہیں کہ معاملات کو ڈرامائی مقام تک لانے کے لئے بڑھا چڑھا کر بیان کر رہی ہے۔

جدید مارکیٹ کی تحقیق نے لوگوں کے ذہنوں میں چپک جانے کے لئے ایسے طرز ِ تکلم کی طاقت کو ظاہر کیا ہے جن میں سے 75فیصد اشتہاروں میں کم از کم ایک طرز ِ تکلم استعمال ہوا ہے۔حضرت عیسیٰ ؑ ایک ماہر پیغام رساں تھے اور وہ جانتے تھے کہ اُنہیں کس طرح کچھ ایسے طریقے سے اپنی تعلیم کو پیش کرنا ہے کہ اُن کا مرکزی نکتہ بڑے واضح طریقے سے لوگوں کے ذہنوں میں اٹک جائے۔

مزید یہ کہ انجیل شریف قانونی قواعد کی کتاب کی طرح محض قواعد و ضوابط کی ایک خشک فہرست نہیں ہے،یہ ایک ”زندہ“اور زندگی بخش کلام ہے جو خُدا تعالیٰ کی طرف ہمارے دِلوں کو مائل کرتا ہے۔حضر ت عیسیٰ مسیح نے ہمیشہ اپنے سننے والوں کواپنی باتوں کے مفہوم کو سوچنے اور غور کرنے کا چیلنج دیا۔اُنہوں نے اکثر صنائع و بدائع میں بات کی تاکہ گھمنڈ یوں کو چھانٹیں اور اُنہیں اپنی طرف کھینچیں جو سمجھنے کی کوشش کرنے میں حلیم تھے۔یہ حضرت عیسیٰ مسیح کا پسندیدہ جملہ تھا،”جس کے سننے کے کان ہوں وہ سُنے۔“

متی 26:15میں نسلی تعصب؟

متی 26:15 -”ایک غیر یہودی کو کتا کہنا،کیا یہ کھلے عام نسلی تعصب نہیں؟“

یہودی باربار غیرقوموں کوآوارہ کتے کہتے ہوئے اُن کی توہین کرتے تھے،جو قدیم فلستین میں جنگلی،بے گھر گندگی کھانے والے کتے ہوتے تھے۔ لیکن جو الفاظ حضرت عیسیٰ مسیح یہاں استعمال کرتے ہیں (کنیریون،پپّی puppy)وہ گھریلو جانوروں کے لئے استعمال کی جانے والی مناسب اصطلاح کا اظہار ہے۔حضرت عیسیٰ مسیح عورت کی توہین نہیں کر رہے تھے بلکہ یہ واضح کرنے کے لئے کہ کس طرح اُن کی بنیادی زمینی خدمت صرف اسرائیل کے لوگوں کے لئے تھی،گھروں میں تقسیم کی ایک گھریلو تشبیہ استعمال کررہے تھے۔ہم اِس کا ثبوت اِس حقیقت میں دیکھ سکتے ہیں کہ یہ عورت کسی طرح بھی اِ س تشبیہ سے پریشان نہیں ہوئی بلکہ حضر ت عیسیٰ مسیح کی مدد کی متلاشی رہی۔حضرت عیسیٰ مسیح نے بالآخر اُس کے ایمان کی تعریف کرتے ہوئے اُسے ایک عظیم جواب دیا۔

قرآن خود بھی شریروں کو بیان کرنے کے لئے ایسے ہی استعارے استعمال کرتا ہے۔ہمیں قرآن میں ملتا ہے کہ بدکاروں کو کتے (175:7-177)،جانور(25,22:8)،گدھے(5:62)اورحتیٰ کہ سؤروں میں تبدیل ہونے کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔یہ اصطلاحات یہ دکھانے کے لئے مجازی معنوں میں استعمال ہوئی ہیں کہ لوگ کس طرح خُدا تعالیٰ کے فضل و کرم کے بغیر تباہ اور بگڑے ہوئے ہیں۔خُداتعالیٰ کی راہنمائی کے بغیر،آدمی مکمل طور پر بگڑا ہوا ہے اور ایسے کام کرتا ہے جو جانور بھی نہیں کرتے ہوں گے۔

حضرت عیسیٰ مسیح نے کس دن ہیکل کو صاف کیا؟

متی 12:21 – ”کیا حضرت عیسیٰ مسیح نے اُس دن ہیکل کو صاف کیا جس دن وہ یروشلیم میں داخل ہوئے (متی 12:21)یا اگلے دن (مرقس1:11-17)؟اور انجیر کے درخت کو کب لعنت کی (دیکھئے مرقس12:11)؟“

تاریخی ترتیب یوں ہے:

پہلا دن: حضرت عیسیٰ مسیح ایک گدھی کے بچہ پر یروشلیم میں داخل ہوتے ہیں،مختصراً ہیکل کا دورہ کرتے ہیں،اور رات بسر کرنے کے لئے بیت عنیاہ چلے جاتے ہیں۔

دوسرا دن: حضرت عیسیٰ مسیح صبح جلدی اُٹھتے ہیں،اور یروشلیم جاتے ہوئے انجیر کے درخت پر لعنت کرتے ہیں اور پھر ہیکل کو صاف کرتے ہیں۔

مرقس او رلوقا میں تو یہ بات واضح ہے مگر متی ہیکل کی صفائی کو یروشلیم میں فاتحانہ داخلے اور انجیر کے درخت پر لعنت کے درمیان رکھتا ہے۔ اِس کا سادہ سا حل یہ ہے کہ متی کی انجیل تواریخی اعتبار سے اِتنی سخت نہیں ہے،بلکہ موضوعاتی ہے جو ابتدائی سوانح ِ حیات کی ایک عام خصوصیت ہوتی تھی۔وہ فاتحانہ داخلے اور ہیکل کی صفائی کے دو مربوط واقعات کو اکٹھا ملانا چاہتا تھا اور اِس لئے انجیر کے درخت کے غیر متعلقہ واقعے کو بعد میں ڈال دیا۔ملاحظہ کیجیے کہ متی میں نہ تو ہیکل کی صفائی کا واقعہ اور نہ ہی انجیر کے درخت کا واقعہ واضح او رترتیب کی زبان سے شروع ہوتاہے (’پھر‘،’اُس کے بعد‘،وغیرہ)۔

مرقس 15:11-16 ہیکل کی صفائی کرنا

مرقس 15:11-16 -”جذباتی جوش میں آکرہیکل میں چوکیوں کو کیوں اُلٹا گیا؟“

”پھر وہ یروشلیم میں آئے اور یسوع ہیکل میں داخل ہو کر اُن کو جو ہیکل میں خرید و فروخت کر رہے تھے باہر نکالنے لگا او رصرّافوں کے تختوں
اور کبوتر فروشوں کی چوکیوں کو اُلٹ دیا۔اور اُس نے کسی کو ہیکل میں سے ہو کر کوئی برتن لے جانے نہ دیا۔اور اپنی تعلیم میں اُن سے کہا کیا یہ نہیں لکھا ہے کہ میرا گھر سب قوموں کے لئے دعا کا گھر کہلائے گا مگر تم نے اُسے ڈاکوؤں کی کھوہ بنا دیا ہے۔“(مرقس15:11-17)

اِس ”جذباتی جوش“یا ”جھنجھلاہٹ“کو ملامت کرنے کے لئے متن میں ایسا کچھ موجود نہیں ہے جہاں صرف حضرت عیسیٰ مسیح کے کام اور الفاظ درج ہیں۔اگر ہم فرض کر لیں کہ حضرت عیسیٰ مسیح کے کام درست تھے تو پھر جوش اور انصاف کے لئے جذبات کسی طرح بھی غلط نہیں ہوں گے۔

اگر حضرت عیسیٰ مسیح ایک عام شہری ہوتے تو ظاہر ہے کہ اُن کے پاس ہیکل میں کاروبار کرنے والوں کو نکالنے کا بہت تھوڑا اختیار ہوتا۔لیکن اگر ہم تھوڑا سا یہ بھی فرض کر لیں کہ حضرت عیسیٰ مسیح اسرائیل کے لئے خُدا تعالیٰ کے نبی تھے تو پھر اُن کے پاس ہیکل کے احاطے کو درست عبادت میں بحال کرنے کے لئے اُسے صاف کرنے کا پورا اختیار ہو گا۔

اِس لئے ہیکل کو صاف کرنے میں حضرت عیسیٰ مسیح کے انصاف یا جذبے کی مذمت کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

مرقس11باب-انجیر کے درخت پر لعنت کرنا

مرقس12:11-14 – ”حضرت عیسیٰ مسیح کیوں انجیر کے درخت پر جذباتی ہوکر برس پڑے۔ کیا وہ وہاں صرف انجیر پیدا نہیں کر سکتے تھے؟“

یہ اعتراض کسی حد تک حضرت عیسیٰ مسیح میں غلطی تلاش کرنے کی مایوس کُن کوشش ہے۔جیسے کہ حضرت عیسیٰ مسیح اکثر کیا کرتے ہیں،وہ اپنے شاگردوں کو روحانی نکتہ سمجھانے کے لئے روزمرہ اشیا اور تصاویر کو بطور استعارہ استعمال کرتے ہیں۔انجیر کا شاگردوں کے لئے ایک شے سے سکھایا ہوا سبق تھا،کہ وہ انسانی زندگیاں جو اُس وقت پھل نہیں لاتیں جب اُنہیں پھل لانا چاہئے،وہ لعنت کئے جانے اور کاٹ ڈالے جانے کے خطرے میں ہیں (لوقا6:13،یوحنا7,6:15)۔انجیر کے درخت پر لعنت کرنا دعا کی طاقت کے بارے میں بھی ایک سبق تھا۔ متی 32:24میں اُنہوں نے اپنی تعلیم میں دوبارہ اِسی انجیر کے درخت کی طرف اشارہ کیا۔اِس لئے یہ واضح ہے کہ یہ کوئی جذباتی جوش نہیں تھا بلکہ اُن کے شاگردوں کے لئے محتاط طریقے سے ایک شے سے سبق سکھایا گیا تھا۔