یکونیاہ ناجائز اولاد؟

لوقا32:1 – ”یہ حوالہ یہ بتاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ مسیح داؤد کے شاہی وارث تھے مگر حضر ت عیسیٰ مسیح کے بزرگ یکونیاہ (متی 11:1)کوآخری بادشاہ کے طور پر شاہی نسل سے خارج کر دیا گیا تھا (یرمیاہ 30:36)،اِس طرح یہ نسل قانونی حیثیت نہیں رکھتی۔“

حضرت عیسیٰ مسیح کا حیاتیاتی نسب نامہ یوسف کی نسل سے نہیں تھا بلکہ اُن کی والدہ ماجدہ بی بی مریم سے تھا (لوقا کی معرفت لکھاگیا نسب نامہ)جو حضرت داؤد سے بھی تھا مگر یکونیاہ سے الگ تھا۔جبرائیل فرشتے کا اعلان اِس قانونی استحقاق کو مضبوط بناتا ہے: ”اور خداوند خدا اُس کے باپ داؤد کا تخت اُسے دے گا۔“

عزرا/نحمیاہ کے اعدادوشمار میں اختلافات

عزرا2 -”کیا بابلیوں کی اسیری سے رہائی پانے والے اسرائیلیوں کی تعداد عزرا میں ٹھیک ہے یا نحمیاہ 7باب میں؟“

اِس سے صحائف میں تضاد ظاہر نہیں ہوتا بلکہ نقاد کی جہالت جھلکتی ہے۔

اوّل تو یہ کہ جہاں عزرا بڑی وضاحت سے اِس کی درستی کا دعویٰ کرتا ہے (”…وہ لوگ یہ ہیں …“عزرا 1:2)،نحمیاہ محض وہ لکھ رہاہے جو اُسے نسب نامے کے رجسٹر میں لکھا ہوا ملا (”…مجھے اُن لوگوں کا نسب نامہ ملا جو پہلے آئے تھے اور اُس میں یہ لکھا ہوا پایا…“-نحمیاہ
5:7)۔وہ اُن کی درستی کی تصدیق نہیں کرتا؛وہ صرف ایک اچھا مؤرّخ ہونے کے ناطے قاری کو وہی کچھ بتاتا ہے جواُس مخصوص نسب نامے کے رجسٹر میں موجود ہے۔  

دوم سیاق و سباق ہمیں بتاتاہے کہ عزرا کا رجسٹر یروشلیم کو ہجرت کرنے سے پہلے بنایا گیا تھاکہ جب وہ ابھی تک بابل ہی میں تھا (450ق م)۔نحمیاہ کا رجسٹر یہوداہ کو سفر کرنے اور تعمیر ِ نو کے چند سالوں بعد لکھا گیا (تقریباً 445ق م)۔بظاہر دونوں فہرستیں ایسی فہرست سے لی گئیں جس میں اُن سالوں میں اُس وقت تبدیلی کی گئی اور اُس میں نئے اندراج کئے گئے جب لوگوں اپنے سفر سے واپس آئے،مرے یا اَور رشتہ داروں نے اُن کے ساتھ واپس آنے کا فیصلہ کیا۔چند لوگوں نے شروع میں جانے کا ارادہ کیا ہو گا مگر بعد میں ذہن تبدیل کر لیا؛دوسرے بعد میں اُن کے ساتھ شریک ہو ئے۔ جیسے لوگ ہجرت میں سے نکل گئے یا اُس میں شامل ہوئے،اِس ”فہرست“ میں قدرتی طور پر وقت کے تقاضوں کے مطابق تبدیلی کی گئی تاکہ قائد کو ایک درست معلومات دی جائیں کہ مختلف گروہوں میں کون کون لوگ شامل تھے۔

جب ہم ناموں کو دیکھتے ہیں تو پتا چلتاہے کہ چند ناموں کا ذِکر متبادل صورتوں میں کیا گیاہے۔اُس وقت کے یہودیوں میں (اور اِس کے ساتھ وہ لوگ بھی جو مشرق میں آباد تھے)ایک شخص کا نام، لقب اور آباواجداد کا نام چلتا تھا۔اِس طرح بنی خارف(نحمیاہ 24:7)بنی یُورہ بھی ہیں (عزرا 18:2)جب کہ بنی سیغا(نحمیاہ 47:7)بنی سیعہابھی ہیں (عزرا 44:2)۔عزرا سفر سے پہلے اِن مستقل تبدیلیوں کی محض ایک سرسری تصویر کا اندراج کرتا ہے اور نحمیاہ چند سالوں بعد ایک اَور سرسری تصویرکا اندراج کر تا ہے۔

یہویاکین 8یا 18کا؟

2 -تواریخ 9:36 – ”یہ آیت ایسا کیوں کہتی ہے کہ یہویاکین 8برس کا تھا جب وہ یروشلیم کا بادشاہ بنا،لیکن 2 -سلاطین 8:24کہتی ہے کہ جب وہ بادشاہ بنا تو وہ 18برس کا تھا؟“

اِس آیت کے بہت سے ابتدائی نسخہ جات(جیسے کہ سپٹواجنٹ،سریانی اور ایک عبرانی مسورائی) میں دراصل ”18“ کا ذِکر ہے جو
2 -سلاطین 8:24کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے،جبکہ دوسرے نسخہ جات میں یہ ”8“ ہے۔یہ صاف واضح ہے کہ چند نسخہ جات میں نقل نویس کی غلطی سے ”18“ میں سے ”1“ کا ہندسہ رہ گیا۔اِس لئے بہت سے تراجم 18 کاذِکر کرنے والے نسخہ جات پر بھروسا کرتے ہیں۔قرآن اورکتاب مقدس میں کاتبوں کی معمولی نقل کی غلطیوں کی پوری وضاحت کے لئے دیکھئے مضمون، توریت شریف،زبور شریف،
انجیل شریف اور قرآن میں نقل نویسی کی غلطیوں کے معمولی اختلافات۔
.…

تم الٰہ ہو؟

یوحنا 34:10 – کیسے یسوع اور زبور کہہ سکتے ہیں کہ ’تم خدا ہو“؟

یسوع یہاں زبور 82:6 کا اقتباس کر رہا تھا، سو آئیے یہ سمجھنے سے آغاز کریں کہ یہ زبور کیا بیان کر رہا ہے۔ لیکن پہلے ہمیں اِس بات کی وضاحت کرنی چاہئے کہ اِس حوالہ میں ”خدا“ کے لئے استعمال ہونے والا لفظ ”ایلوہیم“ ہے جس کا اکثر معنٰی منصف بھی ہے۔ لفظ ”خداوند“ بھی ایسے ہی معنٰی کا حامل ہے، یہ خدا کے لئے اور صاحب اختیار افراد کے لئے بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ تاہم، عبرانی میں خداکا شخصی نام ”یہوہ“ ہمیشہ صرف خدا کے لئے استعمال ہوا ہے، کبھی لوگوں کے لئے استعمال نہیں ہوا۔

یہاں زبور 82 دیا گیا ہے:

خدا کی جماعت میں خدا موجود ہے۔
وہ الہٰوں (ایلوہیم، منصفوں) کے درمیان عدالت کرتا ہے۔
تم کب تک بے انصافی سے عدالت کرو گے
اور شریروں کی طرفداری کرو گے؟
غریب اور یتیم کا انصاف کرو۔
غمزدہ اور مُفلِس کے ساتھ انصاف سے پیش آؤ۔
غریب اور محتاج کو بچاؤ۔
شریروں کے ہاتھ سے اُن کو چھڑاؤ۔
وہ نہ تو کچھ جانتے ہیں نہ سمجھتے ہیں۔
وہ اندھیرے میں اِدھر اُدھر چلتے ہیں۔
زمین کی سب بنیادیں ہل گئی ہیں۔
میں نے کہا تھا کہ تم الٰہ (ایلوہیم، خدا /منصف) ہو
اور تم سب حق تعالیٰ کے فرزند ہو۔
تَو بھی تم آدمیوں کی طرح مرو گے۔
اور امرا میں سے کسی کی طرح گر جاؤ گے۔
اے خدا!

انبیائے کرام چور یا ڈاکو؟

یوحنا 8:10 -”حضرت عیسیٰ مسیح یہ تعلیم کیسے دے سکتے تھے کہ اُن سے پہلے تمام انبیائے کرام چور اور ڈاکو تھے؟“

یہ کلام کے خلاف حد سے زیادہ احمقانہ حملوں میں سے ایک ہے۔یہ کسی پر بھی حد سے زیادہ واضح ہے جو انجیل شریف سے واقف ہے کہ حضرت عیسیٰ مسیح سابقہ انبیائے کرام کے لئے اپنے دل میں بہت عزت رکھتے تھے (متی 17:5؛متی 3:12؛لوقا28:13؛یوحنا40,39:8)۔ متن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اِس آیت کا اشارہ انبیائے کرام کی طرف نہیں ہے بلکہ جھوٹے مسیحاؤں اور قائدین کی طرف ہے جو انبیا ئے کرام کے دنوں سے ہی سر اُٹھا چکے تھے۔حضرت عیسیٰ مسیح کے یہودی سامعین یہ جانتے ہو ں گے کہ حضرت عیسیٰ مسیح حزقی ایل کی جھوٹے اور اپنی خدمت کرنے والوں (حکمرانوں)پر تنقید کی طرف اشارہ کر رہے تھے اور اِس کے ساتھ ساتھ اُس شخص کے بارے میں حزقی ایل کی حتمی نبوت کی طرف اشارہ کررہے تھے جو حضرت داؤد کی نسل سے آنے والا تھا اور جو حقیقی چرواہا ہو گا (حزقی ایل 23:34)۔حزقی ایل کی نبوت کے بعد چھ سو سال تک،اسرائیل میں اپنے آپ کو مسیحا ظاہر کرنے والے اور گمراہ کرنے والے بہت سے افراد اُٹھ چکے تھے جنہوں نے اپنے پیروکاروں کو آزادی دلانے کا وعدہ کیا مگر اِس کے بجائے وہ اُنہیں جنگی جھگڑوں اورتباہی کی جانب لے گئے۔حضرت عیسیٰ مسیح کا چور کا لفظ استعمال کرنا شاید اُن کے بزدلانہ طریقے سے اندر داخل ہونے (دیکھئے آیت 1)اور ڈاکو اُن کے تشدد استعمال کرنے پر توجہ دلانے کے لئے ہو گا۔

ہیرودیس یا حضرت یحیٰی

لوقا9:9 – ”کیا ہیرودیس نے یہ سوچا کہ حضرت عیسیٰ مسیح ہی حضرت یحیٰی ہیں (متی 2:14،مرقس16:6)یا نہیں؟“

لوقا ہیرودیس کے ابتدائی رَدّ ِعمل کو بیان کرتا ہے جبکہ متی اور مرقس اُ س کے بعد کے نتیجے کو بیان کرتے ہیں۔لوقا میں وہ اپنی پریشانی کا اظہار کرتا ہے مگر متی اور مرقس میں وہ اِس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ جناب مسیح ہی حضر ت یحیٰی(یوحنا بپتسمہ دینے والا) ہیں جو مُردوں میں سے دوبارہ زندہ ہوئے ہیں۔

عزرا/نحمیاہ کی فہرست کی کُل تعداد

عزرا64:2 -”عزرا64:2اورنحمیاہ 66:7دونوں اِس بات پر متفق ہیں کہ پوری جماعت میں لوگوں کی کُل تعداد 42,360تھی،پھر بھی
جب دونوں فہرستوں کی کُل تعداد کو جمع کیا جاتاہے تو عزرا کے مطابق کُل تعداد818,29اور نحمیاہ کے مطابق کُل تعداد 31,089 ہے۔“

[جیسے کہ اُوپر بیان کیا جا چکا ہے،نحمیاہ اُن کی درستی کی ذمہ داری نہ اُٹھاتے ہوئے بڑی وفاداری سے وہ تعداد درج کرتا ہے جو اُسے چند نسب ناموں کے رجسٹر سے ملی تھی (”…مجھے اُن لوگوں کا نسب نامہ ملا جو پہلے آئے تھے اور اُس میں یہ لکھا ہوا پایا…“)۔ایک اچھا مؤرّخ ہوتے ہوئے وہ براہ ِ راست اقتباس میں تبدیلی کی کوشش نہیں کر رہا۔اِس لئے ہمارا دھیان عزرا میں کُل تعداد29,818اور
”اکٹھی پوری جماعت“کی تعداد 42,360کے درمیان فرق پر ہے۔]

بظاہر جواب یہ ہے کہ نحمیاہ اُن 12,542لوگوں کو بھی شامل کر رہا ہے جنہیں اُس نے کسی بھی وجہ سے فریقوں یا برادریوں میں شمار کرنے کے لئے منتخب نہیں کیا تھا۔اگر کُل تعداد حاصل جمع سے کم ہوتی تو پھر ہمیں مشکل ہو تی۔وہ کہیں پر بھی یہ دعویٰ نہیں کرتا
کہ ”اکٹھی پوری جماعت“ کی تعداد42,360خاص طور پر صرف وہی تعداد پیش کرتی ہے جس کا اُس نے ذِکر کیا تھا۔غائب12,542
لوگ شاید ایسے لڑکے ہو سکتے ہیں جنہیں ”مردوں“ کے طور پر برادری کے رجسٹر میں شمار نہیں کیا گیا۔ہم جانتے ہیں کہ برادری کی تعداد کا اشارہ صرف 12سال کی عمر سے زیادہ کے بالغ مردوں کی طرف ہے،جیسے کہ آیت 2میں عبرانی لفظ،”ایش“ (”مرد،آدمی“)استعمال کرنے سے ظاہر ہوتا ہے۔یوسیفس مؤرّخ بھی یہی کہتا ہے کہ اسیری سے واپس آنے والوں کا شمار ”12سال کی عمر سے زیادہ“ لوگوں کا کیا گیا۔ایک اور مبصّر تجویز کرتاہے کہ غیر مذکور 12,542لوگ اسرائیل کے کئی دیگر قبائل کے تھے جو عام طور پر یہوداہ،بنیمین اور لاوی کے قبیلوں پر مشتمل جنوبی سلطنت سے منسلک نہ تھے، اِس لئے وہ تعداد یا برادری میں تقسیم نہیں ہوئے تھے۔اُن کی جو بھی شناخت تھی،یہ سمجھنا
بالکل واجب ہے کہ اُن کاذِکرنہ کرنے کی اچھی وجہ نحمیاہ کے پاس تھی۔

چپٹی زمین؟

ایوب 6:9 – ”یہ آیت کہتی ہے کہ زمین کے ستون ہیں، جس سے اشارہ ملتا ہے کہ زمین چپٹی ہے۔“

اِن اقتباسات میں سے کسی میں بھی کوئی جغرافیائی ہدایت نہیں ہے،بلکہ خُدا تعالیٰ کی قدرت کا اظہار کرنے کے لئے روزمرہ کا استعارہ استعمال کرتے ہوئے یہ ایک نغماتی شاعری ہے۔مزید یہ کہ نقاد نے اشتقاقی لحاظ سے ایک غلطی کی ہے کہ عبرانی لفظ،”تیبل“ اور”ارتض“ کا مطلب ”کُرّہ ارض“یا ”سیارہ“ کے معنوں میں زمین ہے۔زیادہ تر اِن الفاظ کا مطلب صرف ”زمین“ ہوتا ہے جیسے کہ ایک خاص ملک میں اور کچھ سیاق و سباق میں وہ اِس کا مطلب ”کُرّہ ارض“ نہیں لے سکتے (پیدایش 9:38)۔اِن آیات میں،ہمیں ”زمین“ کو خشکی کا ٹکڑا سمجھنا چاہئے۔

ایوب 6:9 اور زبور 3:75میں،عبرانی ”عمود“ جس لفظ کا ترجمہ ”ستون“ کیا گیا ہے، لُغت اُس کی تعریف’ٹیک‘یا’منبر‘ کے طور پر بھی کرتی ہے،جو براعظمی پلیٹوں کے نیچے خشکی کے زیرِزمین ٹکڑے ہیں۔اِس وضاحت میں کوئی مشکل نہیں ہے۔

”ستون“ کا لفظ حنّہ کی دعا میں بھی استعمال ہوا ہے (1 -سموئیل 8:2)جو ”متسوق“ ہے،جو صحائف میں دو مرتبہ استعمال ہوا ہے
۔دوسری آیت (1 -سموئیل 5:14)میں اِس کا مطلب ”واقع“ ہے۔اِس کا ترجمہ ”بنیاد“ بھی ہو سکتا ہے جو براعظمی پلیٹوں کے نیچے کے خشکی کے ٹکڑوں کی دوبارہ ایک بہتر وضاحت ہے۔ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ تاریخی اقتباس صرف ایک خطا وار انسان(سموئیل کی والدہ حنہّ) کی دعا کا ذِکر کر رہا ہے۔

قرآن میں بھی ایسی ہی آیات ہیں جو چپٹی زمین کو ظاہر کرتی نظر آتی ہیں:

”اورآسمان کی طرف کہ کیسا بلند کیا گیاہے اور پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح کھڑے کئے گئے ہیں اورزمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئی
(سورۃ الغاشیہ 18:88-20)

اِس آیت پر نامور مفسِّر الجلالین کی تفسیر میں لکھا ہے،

”جہاں تک اُس کے لفظ سُطحِتَ،’ ہموار بچھا دیا‘ کا تعلق ہے اِس کی لغوی قرأت تجویز کرتی ہے کہ زمین چپٹی ہے جو شریعت کے زیادہ تر علمائے کرام کی رائے ہے نہ کہ گول جیسی کہ علم ِ نجوم والے کہتے ہیں …“1

اِسی طرح مصر کے علم ِ الہٰی کے ماہر امام سیو طی نے بھی یہ کہا کہ زمین چپٹی ہے۔

  1. Available online from http://altafsir.com

آسمان کے ستون

ایوب 11:26 -”یہ آیت غلط کہتی ہے کہ آسمان کے ستون ہیں۔“

حضر ت ایوب کی کتاب حکمت کا ادب ہے اور اِس میں کافی زیادہ استعارے،تشبیہات اور شاعرانہ اشارے استعمال ہوئے ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ حضرت ایوب حقیقی طور پر ایمان نہیں رکھتے تھے کہ آسمان کے ستون ہیں کیونکہ اُس کے فوراً بعد کی ایک آیت فرماتی ہے:

وہ شمال کو فضا میں پھیلاتا ہے اور زمین کو خلامیں لٹکاتا ہے۔(ایوب 7:26)

حضرت ایوب نہ صرف یہ جانتے تھے کہ آسمان خلا میں لٹکا ہوا ہے،بلکہ اُنہیں یہ بھی معلوم تھاکہ پوری زمین خلا میں لٹکی ہوئی ہے جو غیر معمولی حد تک قدیم تحریروں کے حوالے سے زیادہ آگے ہے۔حتیٰ کہ اگر نقاد بھی یہ ثبوت قبول نہ کرے،تو اُسے یاد دلانا چاہئے کہ حضرت ایوب کو کتاب کے آخر میں خُدا تعالیٰ اُسے یہ فرض کرنے کی وجہ سے کہ وہ تخلیق کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے ملامت کرتا ہے (ایوب
1:38-4)۔تب حضرت ایوب توبہ کرتے ہیں اور اِس بات کے لئے خُدا تعالیٰ اُسے سراہتے ہیں۔

اتفاقاً،قرآن بھی یہ بیان کرتا ہے کہ آسمانوں کو ستونوں نے سہارا دیا ہوا ہے جو انسانی آنکھ کو نظر نہیں آتے۔(سورۃ لقمان 10:31)
ہمیں قرآن میں بھی کائناتی مشکلات ملتی ہیں،اِس دفعہ مسئلہ دُم دار سیاروں کا ہے۔سورۃ الصّٰفّٰت کہتی ہے:

”بے شک ہم ہی نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے مزیّن کیا اور ہر شیطان سرکش سے اِس کی حفاظت کی کہ اُوپر کی مجلس کی طرف کان نہ لگا سکیں اور ہر طرف سے اُن پر انگارے پھینکے جاتے ہیں۔(یعنی وہاں سے)نکال دینے کو اور اُن کے لئے عذاب دائمی ہے ہاں جو کوئی (فرشتوں کی کسی بات کو)چوری سے جھپٹ لینا چاہتا ہے تو جلتا ہوا انگارا اُس کے پیچھے لگتا ہے۔“(6:37-10)

ایسا لگتا ہے کہ دُم دار سیارے گرنے والے جنوں کا تعاقب کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں جب تک کہ کوئی شخص اِن آیات کا دوبارہ ترجمہ نہ
کرے یا الفاظ کی دوبارہ تعریف نہ کرے۔

دیومالائی مخلوق؟

ایوب 1:41 – ”یہ اقتباس ایک دیومالائی مخلوق کاذِکر کرتا ہے؟“

بعض اوقات کتاب مقدس شیطان کا دیومالائی مخلوقات کے ساتھ موازنہ کرتی ہے جیسے کہ ”اژدہا“(مکاشفہ 9:12)یا ”لویاتان“
(یسعیاہ 1:27)۔ایسے اقتباسات یہ فرض نہیں کرتے کہ ایسی مخلوقات موجود بھی ہیں،وہ ایسے واقف استعاروں کے ساتھ محض شیطان کے بُرے کردار کو پیش کرتے ہیں۔ایوب کی کتاب میں یہ اقتباسات شاید خُدا تعالیٰ کی اعلیٰ حاکمیت کو بیان کرنے کے لئے صرف استعارہ کا استعمال کرتے ہیں۔

ایک چھوٹا سا سوال ہے کہ ایوب 15:40-24میں مذکور ”دریائی گھوڑا“ محض ایک بڑا جنگلی جانور یا ہیپوپوٹیمس ہے۔بہت سے مبصّرین یہ تجویز کرتے ہیں کہ ایوب کی کتاب میں مذکور”لویاتان“ایک بڑے مگرمچھ کی طرف اشارہ کرتا ہے جسے لویاتان کا نام اِس کو قابو نہ کر سکنے پر زور دینے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔مزید یہ کہ شاید یہ ایک غیر موجود مخلوق کو بیان کررہی ہے جس کے بارے میں ہم نہیں جانتے۔حال ہی میں سائنس دان 43فٹ لمبے اور1000کلو گرام وزنی ایسے سانپ کی باقیات دریافت کر کے ششد ر رہ گئے جو مگرمچھوں کو بھی نگل جاتا تھا اور ڈائنو سار کے مر جانے کے بعد طویل عرصہ تک موجود تھا۔ اِن مخلوقات کی قدامت کا ذِکر 19:40میں کیا گیا ہے:”وہ خدا کی خاص صنعت ہے۔“

قرآن میں ہم پڑھتے ہیں کہ حضرت سلیمان نے دیومالائی مخلو ق سے بات کی جسے ’عفریت‘ کہا گیا ہے (سورۃ النمل 15:27-44)جو حامد اللہ کے مطابق،”ایک طرح کا بُرا شیطان ہے جو بہت سی افسانوی کہانیوں میں پایا جاتا ہے۔“بریٹینیکاکے انسائیکلوپیڈیا میں اِس کی تعریف درج ذیل الفاظ میں کی گئی ہے:

”اسلامی دیومالائی کہانیوں میں، جہنمی جنوں کی ایک قسم (ایسی روحیں جو فرشتوں اور شیطانوں کے درجے سے کم ہیں) مذکور ہے جو اپنی قوت اور مکار ی کے بارے میں جانی جاتی ہے۔ایک عفریت ایک عظیم پروں والی دھوئیں کی مخلوق ہے چاہے وہ نر ہو یا مادہ،جو زیر زمین رہتے ہیں اور مسلسل تباہی پھیلاتے ہیں۔ عفریت قدیم عربی نسلوں کے ساتھ معاشرے کی طرح رہتے ہیں،جو بادشاہوں،قبیلوں اور برادریوں کی صورت میں مکمل ہوتے ہیں۔وہ عام طور پر ایک دوسرے کے ساتھ شادی کرتے ہیں لیکن وہ انسانوں کے ساتھ بھی شادی کر سکتے ہیں۔

معراج کے واقعہ میں کہا گیا ہے ہے کہ نبی اسلام جسمانی طور پر ایک سفید پروں والے گھوڑے پر سوار ہوئے جس کی مور کی طرح کی دُم تھی اور ایک فرشتے کا سر تھا۔اگر یہ عفریت او ربرّاق قابل ِ قبول ہیں،تو یقیناجنگلی سانڈاور بڑے مگر مچھ بھی قابل ِ قبول ہیں۔