800یا 300آدمی؟

2 -سموئیل 8:23 -”حضرت داؤد کے سوماؤں کے سردارنے اپنا بھالاچلایا تو 800(2 -سموئیل 8:23)آدمیوں کو ہلاک کیایا 300(1 -تواریخ 11:11)آدمیوں کو ہلاک کیا؟“

یہ بہت ممکن ہے کہ دونوں اقتباسات نے ایک ہی شخص کے دو الگ الگ واقعات بیان کئے ہیں یا پھر ایک اقتباس نے شاید ایک حصہ بیان کیا ہے جب کہ دوسرا اقتباس پورا واقعہ بیان کرتاہے۔

قرآن میں بھی ایسے ہی عددی اختلافات موجود ہیں۔سورۃ آل عمران بیان کرتی ہے کہ حضرت عیسیٰ کی پیدایش کی خبر حضرت مریم کو بہت سے فرشتگان بتاتے ہیں،جب کہ سورۃ مریم 17:19-21میں صرف ایک فرشتے کا ذِکر کیا گیا ہے۔سورۃ قمر 19:54فرماتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ہی دن میں عاد کے لوگوں کو تباہ کر دیا لیکن سورۃ حآقہ 6:69-7میں لکھا ہے کہ وہ آٹھ طویل دن تھے۔

یہوداہ میں جنگی مرد(2 -سموئیل 9:24)-

یہوداہ میں جنگی مرد(2 -سموئیل 9:24)-(سوال نمبر2)”یہ اقتباس یہوداہ میں جنگی مردوں کی تعداد 500,000 دیتا ہے،جو کہ 1 -تواریخ کے5:21 بیان شدہ واقعات کی نسبت 30,000زیادہ ہے۔“

1 -تواریخ 6:21صاف بیان کرتی ہے کہ یوآب نے، اِس حقیقت کی وجہ سے گنتی مکمل نہیں کی تھی،کہ حضرت داؤد مردم شماری مکمل کرانے کے حق میں تھے، اُس نے بنیامین کے قبیلے اور نہ ہی لاوی کے قبیلے کی مردم شماری ابھی تک کی تھی۔ اِس طرح مختلف تعداد قوم میں خاص غیرمذکور شدہ گروہوں کی شمولیت یا اخراج کی طرف اشارہ کرتی ہے۔اِس کا ہمیں ایک اَو رحوالہ 1 -تواریخ 23:27-24
میں ملتا ہے جہاں حوالہ بیان کرتا ہے کہ حضرت داؤد نے بیس سال کی عمر یا اِس سے چھوٹی عمر والوں کو شمار نہیں کیا تھا اور یہ بھی کہ یوآب نے مردم شماری ختم نہیں کی تھی اِس لئے کُل تعداد حضرت داؤد بادشاہ کی تواریخ میں درج نہیں ہوئی تھی۔

بنگالی عقلیت پسند عروج علی متوبر نے قرآن کے وراثت کے قانون سے متعلق سورۃ نساء 11:4-12اور 176میں بالکل اِسی طرح کے تعداد سے متعلق پیچیدہ مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے:جب ایک آدمی مرتا ہے اور اپنے پیچھے تین بیٹیاں،اپنے د ووالدین اور اپنی بیوی پیچھے چھوڑ رہا ہے،وہاں بالترتیب تین بیٹیوں کو 2/3،والدین کو اکٹھا 1/3 [ آیت 11کے مطابق دونوں کے لئے ] اور بیوی کو1/8حصہ ملے گا
[ 12:4 ] جو جمع کرنے پر دستیاب وراثت سے زیادہ بنتاہے۔دوسری مثال: ایک شخص اپنے پیچھے صرف اپنی ماں،اپنی بیوی اور دو بہنیں چھوڑتا ہے،تب اُنہیں 1/3 [ ماں،11:4 ]، 1/4 [ بیوی،12:4 ] اور2/3 [ دو بہنیں،176:4 ]،ملے گا،جس کو جمع کرنے پر دستیاب جائیداد کا 15/12بنتا ہے۔اِس پر معاملات طے کرنے کے راستے ہو سکتے ہیں مگر یہ تعداد کی ایک پیچیدگی ہے۔

سات یا تین سال؟

2 -سموئیل 13:24 -”یہ حوالہ ذِکر کرتا ہے کہ قحط کے سات سال ہو گے جب کہ 1 -تواریخ 12:21 میں صرف تین سالوں کا ذِکر ہے۔“

ہم یہ فرض کر سکتے ہیں کہ 1 -تواریخ کا مصنف تین سالوں پر زور دیتا ہے جس میں قحط بہت شدید نوعیت کا تھا،جب کہ 2 -سموئیل کا مصنف اِس عرصے سے پہلے کے دو سال اور بعد کے دو سال بھی اِس میں شامل کرتا ہے جس عرصے میں قحط بالترتیب بڑھا او رکم ہوا ۔
ایسا ہی مسئلہ اُس طوفان کی طوالت کے حوالے سے ہمیں قرآن میں ملتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے عاد کے لوگوں پر عذاب بنا کر بھیجا؛ سورۃ قمر
19:54فرماتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ہی دن میں عاد کے لوگوں کو نیست کر دیا لیکن سورۃ حآقہ 6:69-7میں لکھا ہے کہ وہ آٹھ طویل دن تھے۔ہم یہ قیاس کر سکتے ہیں کہ ایک حوالہ آزمائش کے کڑے وقت کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دوسرا کُل تعداد کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

دوسرا حل ہر اقتباس میں الفاظ کے استعمال کا مشاہدہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔جب آپ دو اقتباسات کا موازنہ کرتے ہیں تو آپ دیکھیں گے کہ 1 -تواریخ 21باب میں پائے جانے والے الفاظ 2 -سموئیل 24باب میں پائے جانے والے الفاظ سے خاص طورپر مختلف ہیں۔ 2 -سموئیل 13:24میں یہ سوال ہے،”کیا تیرے ملک میں سات برس تک قحط رہے؟“1 -تواریخ 12:21میں ہم ایک متبادل بیان پاتے ہیں،”یا تو قحط کے تین بر س … چُن لے“اِن باتوں سے ہم جواز کے ساتھ یہ نتیجہ اَخذ کر سکتے ہیں کہ 2 -سموئیل حضرت داؤد کے پاس پہلی مرتبہ جاد نبی کے جانے کا واقعہ درج کرتاہے جس میں متبادل لائحہ عمل سات سال تھا،جبکہ تواریخ کی رُوداد ہمیں بادشاہ کے پاس ناتن نبی کی دوسری اور آخری رسائی کا ذِکر کرتی ہے جس میں خداوند تعالیٰ (بلاشبہ حضرت داؤد کی تنہائی میں دعا میں پُر خلوص التجا کے جواب میں)اُس دہشت کی شدت کو کم کرتے ہوئے سات سال کے پورے عرصے کے بجائے تین سال کر دیتا ہے۔
پھر اِس بات کے ہوجانے کے بعد حضرت داؤدنے خُدا تعالیٰ کی تیسری ترجیح کا انتخاب کیااور اِس لئے تین دن کی شدید مری کا سامنا کیا
جس کے نتیجے میں اسرائیل میں 70,000آدمی مارے گئے۔1

چند مترجم اِسے نقل نویسی کی غلطی قرار دیتے ہیں کہ نقل نویسوں نے اِسے گنتی کے ابتدائی ابجدی نظام کی وجہ سے غلط پڑھا کہ عبرانی ”گیمل“ (تین) کو”زین“ (سات) کے طورپر پڑھا۔اِس قسم کی غلطی حروف کے ایک جیسے ہونے کی وجہ سے بڑی آسانی سے ہو سکتی تھی۔.…

بعشا کا انتقال کب ہوا؟

1 -سلاطین33:15 – ”یہاں لکھا ہے کہ بعشا نے آسا بادشاہ کے سلطنت کے 26ویں سال میں وفات پائی لیکن 2 -تواریخ 1:16
میں لکھا ہے کہ وہ 36ویں سال میں بھی ابھی تک زندہ تھا۔“

جس عبرانی لفظ کا ترجمہ ”سلطنت“ کیا گیاہے وہ”ملکوت“ ہے جو ”سلطنت“ کی بجائے ”قلمرو“ یا ”بادشاہت“کے عام معنوں کے لئے استعمال ہوا ہے۔1.…

یہویاکین کا دور ِ حکومت

2 – سلاطین8:24 -”کیا یہویاکین بادشاہ نے یروشلیم پر تین ماہ (2 – سلاطین 8:24)یا تین ماہ دس دن حکومت کی (2 -تواریخ 9:36
)؟“

تواریخ میں دیئے گئے اعداد و شمار زیادہ واضح ہیں جب کہ سلاطین کے اعداد مہینوں کی تعداد پر ختم ہوتے ہیں،یہ تصور کرتے ہوئے کہ اضافی دس دنوں کا ذِکر کرنا کوئی خاص ضروری نہیں۔وقتوں کا اندراج ہمیشہ موزوں طریق پر ہوتا ہے ورنہ ہمیں ہمیشہ گھنٹوں،منٹوں اور سیکنڈوں کو بھی پڑھنے پرزور دینا ہو گا جو ذرا احمقانہ بات ہے۔تین ماہ اور دس دن کے لئے تین ماہ بیان کرنا مکمل طور پر اظہار کا عام طریقہ ہے۔

قرآن میں دو اقتباسات میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے ہمیں موزوں طریق پر اعداد وشمار کو قبول کرنا چاہئے۔سورۃ لقمان 14اور
سورۃ البقرہ 233ہمیں بتاتی ہے کہ دو سال کے عرصے میں دودھ چھڑایا جاتا ہے جب کہ سورۃ الاحقاف15:46ہمیں بتاتی ہے کہ رحم میں بچے کو رکھنے(زمانہء حمل) اور دودھ چھڑانے کا کُل عرصہ تیس ماہ بنتا ہے۔اگر ہم تیس میں سے 24ماہ نکال دیں تو ہمارے پاس زمانہء حمل کے صرف چھ ماہ بچ جاتے ہیں جو دراصل دس قمری مہینے بنتے ہیں۔

بالکل اِسی طرح ابن ِ عباس نے مکہ میں حضور اکرم کے سالوں کو موزوں طریق(round figure)میں کیا،جس میں وہ ایک جگہ 13سال1 اور دوسری جگہ 10سال بیان کرتے ہیں۔ 2 قرآن میں بھی ایسے ہی اعداد و شمارکے اختلافات پائے جاتے ہیں۔سورۃ آل عمران
حضرت مریم کوحضرت عیسیٰ کی پیدایش کا بتانے میں بہت سے فرشتوں کا ذِکر کرتی ہے،جب کہ سورۃ مریم21:19-17میں صرف ایک فرشتے کا ذِکر کیا گیا ہے۔سورۃ قمر19:54فرماتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ہی دن میں عاد کے لوگوں کو نیست کر دیا لیکن سورۃ حآقہ 6:69-7میں لکھا ہے کہ وہ آٹھ طویل دن تھے۔

  1. Sahih al-Bukhari, Vol 5, p.242.

3,600 یا 3,300 نگران؟

2 -تواریخ 2:2 – ”یہاں لکھا ہے کہ حضرت سلیمان نے ہیکل کی تعمیر کے کام پر 3,600نگران مقرر کئے لیکن 1 -سلاطین 16:5کہتی ہے کہ یہ 3,300تھے۔“

یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔اِس کا زیادہ ممکنہ حل یہ ہے کہ 2 -تواریخ 300آدمی وہ شامل کرتی ہے جو بطور پیچھے رہنے والوں کے منتخب ہوئے تھے تاکہ اُن نگرانوں کی جگہ لیں جو بیمار ہو گئے یا وہ جو مر گئے۔جب کہ 1 -سلاطین 16:5کے حوالے میں صرف نگرانی کرنے والے افراد کا ذِکر ہے۔3,300کے بڑے گروہ میں بیماری اور موت یقینی واقع ہونی تھی اِس لئے پیچھے رہنے والوں کو جب بھی اُن کی ضرورت پڑی بلایا گیا ہوگا۔قرآن میں بھی ایسے ہی اعداد و شمار کے اختلافات پائے جاتے ہیں۔سورۃ آل عمران حضرت مریم کوحضرت عیسیٰ کی پیدایش کا بتاتے ہوئے بہت سے فرشتوں کا ذِکر کرتی ہے،جبکہ سورۃ مریم21:19-17میں صرف ایک فرشتے کا ذکر کیا گیا ہے۔سورۃ قمر19:54فرماتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ہی دن میں عاد کے لوگوں کو نیست کر دیا لیکن سورۃ حآقہ6:69-7میں لکھا ہے کہ وہ آٹھ
طویل دن تھے۔

کیا اخزیاہ 42برس کا تھا یا 22برس کا؟

2 -تواریخ 2:22 -”جب اخز یاہ یروشلیم پرسلطنت کرنے لگاتو کیا وہ اُس وقت 42برس کی عمر کا تھا یا 22برس کی عمرکا (2 -سلاطین 26:8)؟“

چند قدیم نسخہ جات (سپٹواجنٹ اور سُریانی)اِسے ”22“ پڑھتے ہیں جو 2 -سلاطین 26:8سے مطابقت رکھتا ہے جبکہ دیگر نسخہ جات میں ”42“ہے۔یہ صاف واضح ہے کہ چند ابتدائی نسخہ جات میں یہ نقل نویس کی غلطی ہے۔ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ کاتب جو نقل نویسی کرنے کے ذمہ دار تھے وہ بہت محتاط انداز میں کتاب مقدس کے متن کو سنبھالنے میں دیانت دار تھے۔اُنہوں نے بظاہر نظر آنے والی غلطیوں کو بھی تبدیل کئے بغیر جو واقعی چند تھیں،اُنہیں ویسے ہی پیش کیا جیسے اُنہیں ملی تھی۔

حضرت قابیل کی نبوت

پیدایش 14:4-16 – ”آیت 12غلط نبوت کرتی ہے کہ حضرت قابیل زمین پر خانہ خراب اور آوارہ ہو گاکیونکہ آیت 16کہتی ہے کہ وہ اپنے علاقے میں جا بسا۔“

نبوت دو باتوں کی پیشین گوئی کرتی ہے: کہ حضرت قابیل اپنے وطن سے جلا وطن ہو گا اور یہ کہ وہ مسلسل اپنے دشمنوں کے آگے بھاگتا
پھرے گا۔عبرانی اصطلاحات(نع اور ناد)جن کا ترجمہ ”خانہ خراب“اور ”آوارہ“کیا گیا ہے، یہ دونوں الفاظ تعاقب کرنے والے سے بھاگنے کے معانی رکھتے ہیں۔ پھر بھی نقاد عام طور پر اِن دونوں کے درمیان موجود آیات کو چھوڑ دیتے ہیں جہاں خُدا تعالیٰ حضرت قابیل کے مایوسی کے ساتھ جواب دینے پر اُس کی سزا کا دوسرا حصہ آسان بنادیتے ہیں۔ خُدا تعالیٰ کے رحم کے وسیلے سے حضرت قابیل مزید اب آوارہ نہیں ہونا ہو گاکیونکہ خُدا تعالیٰ کو حضرت قابیل کو حملے سے بچانا تھا۔ ترمیم شدہ نبوت مکمل طور پر پوری ہوئی کیونکہ حضرت قابیل اپنی سرزمین سے دُور دراز علاقے میں جلاوطن ہو گیا۔ایک اَور تشریح یہ ہے کہ چونکہ خُدا تعالیٰ کی لعنت میں حضرت قابیل کے آوارہ ہونے کی کوئی خاص مدت شامل نہیں تھی،شاید وہ کچھ عرصہ خانہ خراب اور آوارہ رہا اور بعد میں کسی علاقے میں جا بسا۔

قرآن ایک اَور زیادہ پیچیدہ نبوت پیش کرتا ہے:

”اہل ِ روم مغلوب ہو گئے،نزدیک کے ملک میں۔اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آ جائیں گے۔چند ہی سال میں۔“
(سورۃ الر وم 2:30-4)

معروف قرآنی عالم یوسف علی کے مطابق،”کچھ“کے لئے عربی لفظ(بِضع)تین سے نو سال کے عرصے کو ظاہرکرتا ہے؛یا اسلامی فاؤنڈیشن کے قرآن کے ذیلی نوٹ نمبر 1330میں یہ تین سے دس سال کی طرف اشارہ کرتا ہے؛حضرت محمد نے خود ذکر کیا کہ پیشن گوئی کی گئی ’چھوٹی تعداد‘تین سے نو سال کے درمیان ہے ( البیضاوی)۔فارسیوں نے بار نطینیوں کو شکست دی اور 615/614عیسو ی کے قریب یروشلیم کو فتح کر لیا۔تاہم معروف مسلم مؤرخ الطبری اور عالم البیصاوی نے یہ شکست 628عیسوی سے 13-14 سال پہلے رکھی ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ اقتباس کم از کم پیدایش 12:4کی طرح مسئلے والا ہے۔

دو جوڑے یا سات جوڑے؟

پیدایش 19:6-20 – ”کیا حضرت نوح کو تمام جانداروں کے دو جوڑے لانے تھے (پیدایش 19:6-20)یا اُنہیں پاک جانوروں کے سات جوڑے لانے تھے (پیدایش 2:7؛پیدایش 9,8:7بھی دیکھئے)؟“

پیدایش کا چھٹا باب ’پاک‘جانوروں کا کوئی ذِکر نہیں کرتا جب کہ ساتواں باب خاص طور پر پاک او رناپاک جانوروں کا نقشہ کھینچتا ہے۔
پیدایش 2:7 کے مطابق حضرت نوح کو ’پاک‘جانوروں کے سات جوڑے اور ہر ’ناپاک‘ جانوروں کے دو جوڑے لانے تھے۔یہ صاف ظاہر ہے کہ دونوں باتوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

سات پاک اقسام کو شامل کرنے کی وجہ بالکل واضح ہے،سیلاب کے ختم ہوجانے کے بعد اُنہیں قربانی کے لئے چڑھایا جانا تھا(جیسا کہ پیدایش 20:8کے مطابق اُنہیں قربانی کے لئے چڑھایا گیا)۔صاف ظاہر ہے کہ اگر اِن پاک اقسام میں سے دو سے زیاد ہ نہ ہوتے تو پھر وہ مذبح پر قربان ہونے کے بعد ختم ہو جاتے۔ لیکن ناپاک جانوروں اور پرندوں کا ایک ایک جوڑا کافی ہو گا کیونکہ وہ خون کی قربانی کے لئے ضروری نہیں تھے۔