پیدایش 5باب ناقابلِ یقین زندگی کا دورانیہ

پیدایش 5— "…یہ نسب نامے حضرت ابراہیم اور اُس کی 19نسلوں کو خراج ِ تحسین ہیں جنہوں نے ناقابل ِ یقین حد تک طویل عرصہ گزارا، جس میں متوسلح نے 969برس عمر پائی …" (بیکاؤلے)

ڈاکٹر بیکاؤلے جو اِس انداز میں توریت شریف پر تنقید کرتا ہے،جس کا یہ دعویٰ ہے کہ اُس نے قرآن کو اصلی زبان میں سیکھنے کے لئے عربی سیکھی،پھر بھی وہ اِس بات سے بے خبر ہے کہ قرآن بھی ابتدائی انسانوں کی بڑی عمریں بیان کرتا ہے!سورۃ…

حضرت آدم نے4000 ق م میں زندگی گزاری؟

پیدایش5 – ”نسب ناموں کو جمع کریں تو اُن کے مطابق،حضرت آدم او رحضرت حوّا 4000ق م میں زندہ تھے،جو ناممکن ہے۔“

اگر آ پ جدید خیالات توریت شریف کے نسب ناموں پر لاگو کریں، توحضرت آدم او رحضرت حوّا کی تخلیق تقریباً 4000ق م اور حضرت نوح تقریباً2100کے قریب تھے۔جیسے کہ کوئی بھی کتاب مقدس کا سنجیدہ عالم یہ جانتا ہے،یہ کُلّی طور پر عبرانی نسب ناموں کی غلط تشریح ہے، جن میں کئی نسلوں کو چھوڑ دیا گیا ہے۔اِس طرح،حضرت عیسیٰ کو بالکل صحیح ”داؤد کا بیٹا‘ اورداؤد کو ”ابرہام کا بیٹا“ کہا گیا ہے (متی 1باب)۔بنیادی طورپر عبرانی نسب ناموں کا مقصد نسلوں اور آباؤ اجداد کا پتا لگانا ہوتاتھا،نہ کہ کئی نسلوں کے دورانیہ کا تعین کرنا۔کتاب مقدس اِن اعداد کو اِس مقصد کے لئے کبھی بھی استعمال نہیں کرتی

کہ حضرت آدم اور حضرت نوح کب زندہ تھے جس کو تلاش کرنے کی ہم توقع کریں گے کہ اگر ہم جدید لحاظ سے نسب ناموں کو پڑھنے کا ارادہ رکھتے۔

اگر کوئی توریت شریف کے طریقے پر متی 1:1کو رکھے تو اِسے یوں پڑھا جائے گا:”اور ابرہام 100برس کا تھا (جب اُس سے اضحاق پیدا ہوا جس کے ذریعے سے نسل داؤد تک گئی)،اور اُس سے داؤد پیدا ہوا۔اور داؤد 40برس کا تھا (تقریباًوہ تاریخ جب
سلیمان پیدا ہوا،جس سے یسوع مسیح نے پیدا ہونا تھا)،اور اُس کے وسیلے سے یسوع مسیح پیدا ہوئے۔

کوئی شخص یہ بھی پوچھ سکتا ہے کہ پھر کیوں یہ تمام اعداد وشمار اِتنی احتیاط سے درج ہیں؟اِس کی وجہ 960سالہ آدم کے زمانے سے 70سالہ عمر تک کم ہوتے ہوئے زندگی کے دورانیہ کو ظاہر کرنا ہے۔

ہم نسب ناموں کے اس فہم کو کتاب مقدس کے دوسرے حصوں میں بھی اظہار پاتے ہیں -متی 8:1 یورام او رعُزیاہ کے درمیان تین نام حذف کر دیتا ہے۔جب آپ عزرا 7باب اور 1 -تواریخ 6باب میں نسب ناموں کا موازنہ کرتے ہیں تو یہ صاف ظاہر ہے کہ عزرا جان بوجھ کر آٹھویں نام سے پندرھویں نام تک حذف کرتا ہے،اِس طرح وہ اپنی فہرست مختصر بناتا ہے لیکن کچھ اِس طرح سے کہ وہ صحائف کی روایات کے مطابق قانونی تھا۔ہم پیدایش میں تارح کی عمر کا تعین اُس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم قدیم شعور میں 26:11کو نہیں سمجھتے۔1

نسب ناموں میں چند کو چھوڑنے اور صرف اہم آباو اجداد کو رکھنے کا روا ج آج بھی افریقہ کے چند معاشروں میں استعمال کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے قدیم نسب ناموں کی سوجھ بوجھ قائم ہے۔

قرآن میں،ہم نسب ناموں کا زیادہ پیچیدہ معاملہ دیکھتے ہیں،جہاں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کی ماں کو حضرت ہارون کی بہن بیان
کہا گیا ہے:

”پھر وہ اُس (بچے)کو اُٹھا کر اپنی قوم کے لوگوں کے پاس لے آئیں۔وہ کہنے لگے کہ مریم یہ تو تُو نے بُرا کام کیا۔اے ہارون کی بہن، (ياُخْتَ هَرُونَ) نہ تو تیرا باپ ہی بداطوار آدمی تھا اور نہ تیری ماں ہی بدکار تھی۔“[القرآن 27:19-28 ]

عرب مسیحیوں کے لئے یہ نہایت حیرانی کی بات تھی کیونکہ حضرت عیسیٰ کی ماں حضرت ہارون اور حضرت موسیٰ کی بہن حضرت مریم ہزاروں سال بعد ہو گزری تھیں۔اِس پیچیدہ اقتباس کے ساتھ نمٹنے کے کم از کم تین نظریات موجود ہیں:

1.

حضرت نوح کی کشتی میں ہر نسل کی قسم

پیدایش 15:6 – ”حضرت نوح کی کشتی میں ہر نسل کی قسم کس طرح سما سکتی ہے جب کہ لاکھوں اقسام موجود ہیں؟“

نقاد کو یہ یاد دلانا چاہئے کہ قرآن بھی یہ بتاتا ہے کہ کشتی میں ہر قسم موجود تھی:

”تو سب (قسم کے حیوانات)میں سے جوڑا جوڑا (یعنی نر اور مادہ)دو دو کشتی میں بٹھالو او راپنے گھر والوں کو بھی۔سوا اُن کے جن کی نسبت اُن میں سے (ہلاک ہونے کا)حکم پہلے (صادر)ہو چکا ہے اور ظالموں کے بارے میں ہم سے کچھ نہ کہنا۔وہ ضرور ڈبو دئیے جائیں گے۔“
(المومنون27:23)

بیشک یہ درست ہے کہ لاکھوں اقسام موجود ہیں مگر بہت سی اقسام سمندروں میں رہتی ہے او رجنہیں کشی میں سوار ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔مزید یہ کہ زمین کے جانوروں کی اقسام میں سے 290صرف بھیڑ سے بڑی ہیں؛بہت سے چھوٹے حشرات ہیں۔کتاب مقدس کے ایک عالم کے الفا ظ میں:

کشتی کا حدو د اربعہ مضبوطی اور گنجائش کے لحاظ سے بڑا مثالی بنایا گیا تھا۔پانی کے حجم کے اعتبار سے یہ بتایا گیا ہے کہ عملی طور پرکشتی کے لئے ڈوبنا ناممکن ہو گا اور حتیٰ کہ پانی کی تیز موجوں او رہواؤں میں بھی مناسب حد تک آرام دِہ ہو گی۔قدیم مربع فٹ کو صرف
17.5(بااختیار افراد کی رائے میں سب سے مختصر)انچ تصور کرتے ہوئے ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کشتی بھیڑ کی جسامت کے 125،000جانور اپنے اندر سما سکتی تھی۔جبکہ زمین کے جانوروں (دودھ پلانے والے جانور،پرندے،رینگنے والے جاندار،پانی اور خشکی دونوں کے جانور) کی 000، 25 اقسام سے زیادہ نہیں ہیں،چاہے وہ موجود ہوں یا ختم ہو گئے ہوں اور چونکہ ایسے جانوروں کی جسامت یقینا بھیڑ کی جسامت سے بھی کم ہے اِس سے یہ ظاہر ہے کہ تمام جانوریعنی ہر جوڑا اپنے مناسب ”کمروں“(لفظی طور پر، گھونسلے) میں حضرت نوح کی کشتی کے نصف حصے سے بھی کم جگہ میں بڑی آسانی سے آ سکتا تھا۔

..تمام

کیا سیلاب پوری دنیا میں تھا؟

پیدایش7باب-”یہاں کتاب مقدس ہمیں بتاتی ہے کہ سیلاب کے پانیوں نے تمام زمین کو ڈھانپ لیا،مگر سائنس کہتی ہے کہ یہ ناممکن
ہے۔“

کتاب مقدس کے نقاد اکثر اِس بات کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ پوری تاریخ میں قرآن کے بہترین علما ئے کرام اِس بات پر بحث کرتے ہیں کہ قرآن ایک عالمگیر سیلاب کے بارے میں بتا تا ہے۔ابن ِ عباس،ابن ِ کثیر،اور الطبری اِن سب نے مانا ہے کہ قرآن میں عالمگیر سیلاب کا ذکر پایا جاتا ہے۔وہ اِن آیات کی دلیل دیتے ہیں:

”اور(پھر)نوح نے (یہ)دعا کی کہ میرے پروردگار کسی کافر کو روئے زمین پر بستا نہ رہنے دے۔اگر تُو اُن کو رہنے دے گا تو تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اوراُن سے جو اولاد ہو گی وہ بھی بدکار او رناشکر گزار ہوگی۔“(نوح 26:71-27)

”یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آ پہنچا اور تنور جوش مارنے لگا۔ تو ہم نے (نوح کو)حکم دیا کہ ہر قسم (کے جانداروں)میں سے جوڑا جوڑا
(یعنی)دو(دو جانورایک ایک نر اور ایک ایک مادہ)لے لو او رجس شخص کی نسبت حکم ہو چکا ہے (کہ ہلاک ہو جائے گا)اُس کو چھوڑ کر اپنے
گھر والوں کو او رجو ایمان لایا ہو اُس کو کشی میں سوار کر لو اور اُن کے ساتھ ایمان بہت ہی کم لوگ لائے تھے۔“(ھُود40:11)

”اے زمین اپنا پانی نگل جا او راے آسمان تھم جا۔ تو پانی خشک ہو گیا او رکام تمام کر دیا گیا اور کشی کوہ ِ جُودی پر جا ٹھہری۔او رکہہ دیا گیا کہ بے
انصاف لوگوں پر لعنت۔“(ھُود 44:11)

یہ دو آیات واضح کرتی ہے کہ حضرت نوح کی کشتی میں موجود افراد کے علاوہ زمین پر ایک بھی غیر ایمان دار زندہ نہ رہا۔اِن دو آیات کی تشریح
درج ذیل ہے:

”الحارث، ابنِ سعد ہشام، اُن کے والد ابو صالح ابن عباس کے مطابق :اللہ تعالیٰ نے چالیس دن او رچالیس رات تک بارش برسائی۔جب بارش آئی تو تمام جنگلی جانور،گھریلو جانور،اور پرندے حضرت نوح کی کشتی میں چلے گئے اوراُن کے مُطیع تھے (کام کے لئے)۔اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اُنہوں نے اپنے ساتھ ہر قسم کے دو جوڑے لئے۔ اُنہوں حضرت آدم جسدِ خاکی کو بھی لیا اور مردوں اور عورتوں کے درمیان ایک رُکاوٹ بنایا۔وہ دس رجب کو کشتی میں سوار ہوئے اور اُنہوں نے اُسے یوم ِ عاشور(دس محرم الحرم)
کو چھوڑا۔اِس لئے وہ سب لوگ یوم ِ عاشور کو روزہ رکھتے ہیں۔پانی کو دوحصوں میں آگے لایا گیا۔اللہ تعالیٰ کے الفاظ یہ ہیں:

پھر ہم نے کھول دئیے پانی کے لئے (منھر) یعنی مُسبِّن نزول، اور وفجر نا یعنی شفقنا علیحٰدہ کردیا۔ زمین سے چشموں کو۔ پھر دونوں پانی مل گئے ایک مقصد کے لئے جو پہلے سے مقر ر ہوچکا تھا۔

عرض (کیونکہ لفظ،’مل گئے‘ ہے جو آیت میں استعمال ہوا ہے،ایسا لگتا ہے کہ) پانی دو برابر حصوں میں آیا،ایک آسمان سے اور دوسرا زمین سے۔یہ زمین پر بلند ترین پہاڑ سے بھی پندرہ مکعب فٹ اُونچا ہو گیا۔

    کشتی نے اُنہیں چھ مہینوں میں پوری زمین کے گرد گھمایا۔ یہ کشتی کہیں پر بھی نہ رُکی جب تک کہ مقدس سرزمین (مکہ اور مدینہ)نہ پہنچ گئی۔ تاہم یہ مقدس سرزمین میں داخل نہیں ہوئی بلکہ ایک ہفتے تک چکر کاٹتی رہی۔جو گھر ابو قبیس پرکالے پتھر کے ساتھ حضرت آدم نے بنایا تھا وہ اُوپر چڑھتا گیا،چڑھتا گیا تاکہ یہ غرق نہ ہو جائے۔مقدس سرزمین پر چکر کاٹنے کے بعد وہ کشتی اپنے مسافروں سمیت زمین کے گرد گھومتی رہی جس کے نتیجے میں یہ الجودی پہنچ گئی …جب یہ الجودی پر ٹھہر ی گیا، تو کہاگیا:زمین اپنا پانی نگل !جس

خرگوش جُگالی کرتا ہے؟

احبار 11:5,6—”خرگوش اور سافان جُگالی نہیں کرتے۔”

یہ محض ترجمے پر مبنی غلط فہمی ہے۔عبرانی اصطلاح גּרה עלה (عا لِہ گرِہ) گائے،بھیڑوں،خرگوش اور سافان کے فرصت میں چارے کو دوبارہ چبانے کے عمل کے لئے استعمال ہوتی تھی۔خرگوش اور سافان دراصل فرصت میں پہلے سے چبائے ہوئے چارے کو دوبارہ چباتے ہیں مگر اِس خوراک کو معدے سے باہر لانے کی بجائے وہ اِسے باہر خارج کرتے ہیں اور غیر ہضم شدہ خوراک کو ہضم کرنے کی غرض سے دوبارہ کھاتے ہیں۔ یہ عمل ہلکا پھُلکا کھاناکہلاتا ہے۔تاہم،گائے،بکریاں اور بھیڑیں اپنے معدے سے براہ ِ راست خوراک منہ میں لے آتی ہیں اور اِسے بالکل اُسی طرح فرصت میں زیادہ بہتر طور پر دوبارہ چباتی ہیں۔ یہ عمل جُگالی کہلاتا ہے۔ .…

احبار-20-11-چار-پاؤں-والے-پردارجاندار

چار پاؤں والے پرندے؟

احبار 20:11 – ”کنگ جیمز ورژن بائبل کہتی ہے ’جتنے چار پاؤں کے بل چلتے ہیں‘وہ مکروہ ہیں -پرندوں کے چار پاؤں نہیں ہوتے!“

عبرانی اصطلاح ”عوف“ جب اکیلے لکھی جاتی ہے تو اِس کا مطلب ہے،’پرندہ‘؛مگر جب یہ عبرانی” شِرتض“
کے ساتھ ایک لفظ کے طورپر ملتی ہے تو ” شِرتض ہاعوف“ بنتی ہے جس کا مطلب عبرانی میں ’اُڑنے والے حشرات ہے۔ایک غلط ترجمہ اصلی متن کو ردّ نہیں کر تا۔نقادوں کی دلیل ایسے ہی احمقانہ ہے جیسے کہ اِس بات پر زور دینا کہ ’لیڈی برڈ‘ کا مطلب مادہ (لیڈی)پرندہ‘ ہونا چاہئے یا ’کیٹ فش‘ کا مطلب ہونا چاہئے،بلّی کی قسم کا آبی جانور جس کے چھلکے اور مونچھیں ہیں۔

چار ٹانگوں والے حشرات؟

احبار21:11-23 – ”ٹڈیوں کی حشرات کی چھ ٹانگیں ہوتی ہیں،نہ کہ چار۔“

یہ ایک سادہ سی غلط فہمی ہے جس کا تعلق ترجمہ سے ہے۔اوّل تو یہ کہ جتنے بھی ٹڈوں کا ذکر ہے اُن سب کی عام چار ٹانگیں ہیں جن کے ساتھ مختلف سی پیچھے کی طرف دو بڑی ٹانگیں ہوتی ہیں جوچھلانگیں لگانے کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ قدیم زمانے میں یہ ٹانگیں یقینا چلنے والی ٹانگوں کے طور پر شمار نہیں کی جاتی تھیں اور اِس طرح اُنہیں ”چار ٹانگوں“ والے جانداروں کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔مزید یہ کہ ”چار ٹانگوں پر چلنے“ کی اصطلاح ایک ایسا اظہار ہے جس میں چار یا زیادہ ٹانگوں والی کوئی بھی مخلوق شامل ہے،جیسے ہزار پا اورکنکھجورا۔

یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ ایک ”کیڑے“ کو کیسے چار ٹانگوں والا بیان کیا جا سکتا ہے جبکہ اِس کی تعریف چھ پاؤں والے کے طور پر ہوتی ہے۔اِس کا جواب سادہ ہے – عبرانی اصطلاح جس کا ترجمہ ’رینگنے والے جاندار‘کیا گیا ہے ” شِرتض“ہے جس کا محض مطلب ”چھوٹی پر دار رینگنے والی مخلوق،“ہے،بالکل اُسی طرح جیسے ہماری روزمرہ کی اصطلاح میں لفظ ’کیڑا‘ ہے۔”حشرہ“ کے لئے بطور چھ ٹانگوں والے کیڑے کی جدید درجہ بندی جدید تکنیکی انگریزی سے تعلق رکھتی ہے نہ کہ عبرانی روزمرہ کی اصطلاح سے۔

مادہ نُطفہ؟

احبار 2:12 – ”یہ اقتباس غلط کہتا ہے کہ عورت نُطفہ پیدا کرتی ہے۔“

نقادوں نے الزام لگایا ہے کہ ”حاملہ ہو“ کا عبرانی فقرہ جب اِس آیت میں عورت کے لئے استعمال ہوا ہے تو اِس کا اشارہ نُطفہ کی پیداوار کی طرف ہے۔سوال میں استعمال شدہ لفظ ” تَزریعا “ہے جس کا لغوی مطلب ”بیج بنانا“ ہے۔یہ بالکل درست ہے کیونکہ جب عورت کا جسم بچہ دانی میں انڈہ بناتا ہے تو یہ ”بیج“ہی ہے جیسے کہ مرد کانُطفہ ہوتا ہے۔اِس اقتباس کو غیر سائنسی سمجھنے کی بالکل کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ مردوں اور عورتوں دونوں میں ایک طرح کا ”بیج“ (تولیدی مادہ اور انڈہ)ہوتا ہے جو حمل میں اپنا اپنا کردار ادا کرتا ہے۔

کوئی بھی شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ کیوں قرآن میں یہ ذِکر آتا ہے کہ انسان ”اُچھلتے ہوئے پانی سے پیدا ہوا ہے جو پیٹھ اور سینے کے بیچ میں سے نکلتا ہے۔“یخرج من بین الصلب والترائب، سورۃ الطارق- 7:86)۔

تمام تسلیم شدہ تراجم اور تفاسیر اِس پریشان کرنے والے تجزیے سے متفق ہیں لیکن حمایتیوں نے جدید سائنس کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے کے لئے اِس آیت کے سات مختلف نئی وضاحتیں کی ہیں۔بے شک ہم اِس بات پر اتفاق کر سکتے ہیں کہ ہم صحائف کے پریشان کُن اقتباسات کو دلیری سے پر کھ نہیں سکتے۔

کیا کتاب مقدس غیر سائنسی نہیں ہے؟”;?>

“کیا کتاب مقدس غیر سائنسی نہیں ہے؟”

کچھ مسلمان اور مسیحی اِس بات پر بحث کرنا پسند کرتے ہیں کہ کون سا کلام جدید سائنس پر پورا اُترتا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ جس نے فطرت کے قوانین اور ترتیب خلق کی،وہی خُدا تعالیٰ ہے جس نے کلام کو نازل کیا،سو اِن دونوں کے درمیان یکسانیت ہونی چاہئے۔ تاہم،کتاب مقدس او ر قرآن میں چند اقتباسات ایسے ملتے ہیں جن میں عدم استقامت نظر آسکتی ہے۔طنز یہ ہے کہ زیادہ تر سائنسی مسائل والے اقتباسات قرآن او رکتاب مقدس میں ملتے ہیں:

کتاب مقدس اور قرآن میں ملنے والے معجزات:

  1. نوح 950برس زندہ رہا
  2. حضرت عیسیٰ مسیح کی ایک کنواری سے پیدایش
  3. حضرت عیسیٰ مسیح کا مُردوں میں سے زندہ ہونا
  4. حضرت عیسیٰ مسیح کا اندھے کو شفا دینا

مخلص ایمان دار اِن مشکلات کا تنگ نظری سے انکار نہیں کرتے بلکہ اِس کے برعکس دانش مندی کی وضاحتیں تلاش کرتے ہیں اور ب ڑی عاجزی سے اِن پر غور کرتے ہیں۔اگر ہم دیانت دار ہیں تو ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ یہ پریشان کرنے والے سوالات ہیں۔

اِس سوال کا پورا جواب حاصل کرنے کے لئے اِس ویب سائٹ پر یہ مضمون دیکھئے، کیا سائنس صحائف کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے؟”