کیا حضرت عیسیٰ مسیح نے سؤر چُرائے؟

متی 28:8-34 – ”حضرت عیسیٰ مسیح نے سؤروں کا ایک غول چُرایا اور اُنہیں ہلاک کر دیا اِس لئے وہ ایک چور ہیں۔“

صاف ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ مسیح نے سؤروں کا غول نہیں ”چُرایا“ حتیٰ کہ اُنہوں نے ہاتھ بھی نہیں لگایا؛سؤروں کو کسی چیز میں بھیج دینا مشکل ہی سے ”چوری“ سمجھا جا سکتا ہے۔

حقیقت میں کھوئے ہوئے سؤروں پر دھیان دینابالکل گناہ آلودہ سوچ ہے جو حضرت عیسیٰ مسیح اِس واقعہ کے ساتھ دکھانے کی کوشش کررہے تھے۔دنیاوی سوچ لالچ کے ساتھ املاک اور ملکیت کے حقوق پر لگی رہتی ہے جو کہ بدروح گرفتہ آدمی کی طرح کے لوگوں کے دُکھوں کو نظر انداز کرتی ہے۔حضرت عیسیٰ مسیح گاؤں والوں کی اِس ڈرامائی واقعہ کے ساتھ غلط ترجیحات کو چیلنج کرتے ہیں اور اِ س رُوح میں کہتے ہیں،”یہ آدمی جو دُکھ اور مصیبت سے آزاد کیا گیا وہ اُ س بات سے کہیں زیادہ اہم ہے جس پر آپ توجہ دیتے ہیں اور وہ ہے آپ کا مال و اسباب۔“

متی 26:15میں نسلی تعصب؟

متی 26:15 -”ایک غیر یہودی کو کتا کہنا،کیا یہ کھلے عام نسلی تعصب نہیں؟“

یہودی باربار غیرقوموں کوآوارہ کتے کہتے ہوئے اُن کی توہین کرتے تھے،جو قدیم فلستین میں جنگلی،بے گھر گندگی کھانے والے کتے ہوتے تھے۔ لیکن جو الفاظ حضرت عیسیٰ مسیح یہاں استعمال کرتے ہیں (کنیریون،پپّی puppy)وہ گھریلو جانوروں کے لئے استعمال کی جانے والی مناسب اصطلاح کا اظہار ہے۔حضرت عیسیٰ مسیح عورت کی توہین نہیں کر رہے تھے بلکہ یہ واضح کرنے کے لئے کہ کس طرح اُن کی بنیادی زمینی خدمت صرف اسرائیل کے لوگوں کے لئے تھی،گھروں میں تقسیم کی ایک گھریلو تشبیہ استعمال کررہے تھے۔ہم اِس کا ثبوت اِس حقیقت میں دیکھ سکتے ہیں کہ یہ عورت کسی طرح بھی اِ س تشبیہ سے پریشان نہیں ہوئی بلکہ حضر ت عیسیٰ مسیح کی مدد کی متلاشی رہی۔حضرت عیسیٰ مسیح نے بالآخر اُس کے ایمان کی تعریف کرتے ہوئے اُسے ایک عظیم جواب دیا۔

قرآن خود بھی شریروں کو بیان کرنے کے لئے ایسے ہی استعارے استعمال کرتا ہے۔ہمیں قرآن میں ملتا ہے کہ بدکاروں کو کتے (175:7-177)،جانور(25,22:8)،گدھے(5:62)اورحتیٰ کہ سؤروں میں تبدیل ہونے کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔یہ اصطلاحات یہ دکھانے کے لئے مجازی معنوں میں استعمال ہوئی ہیں کہ لوگ کس طرح خُدا تعالیٰ کے فضل و کرم کے بغیر تباہ اور بگڑے ہوئے ہیں۔خُداتعالیٰ کی راہنمائی کے بغیر،آدمی مکمل طور پر بگڑا ہوا ہے اور ایسے کام کرتا ہے جو جانور بھی نہیں کرتے ہوں گے۔

مرقس 15:11-16 ہیکل کی صفائی کرنا

مرقس 15:11-16 -”جذباتی جوش میں آکرہیکل میں چوکیوں کو کیوں اُلٹا گیا؟“

”پھر وہ یروشلیم میں آئے اور یسوع ہیکل میں داخل ہو کر اُن کو جو ہیکل میں خرید و فروخت کر رہے تھے باہر نکالنے لگا او رصرّافوں کے تختوں
اور کبوتر فروشوں کی چوکیوں کو اُلٹ دیا۔اور اُس نے کسی کو ہیکل میں سے ہو کر کوئی برتن لے جانے نہ دیا۔اور اپنی تعلیم میں اُن سے کہا کیا یہ نہیں لکھا ہے کہ میرا گھر سب قوموں کے لئے دعا کا گھر کہلائے گا مگر تم نے اُسے ڈاکوؤں کی کھوہ بنا دیا ہے۔“(مرقس15:11-17)

اِس ”جذباتی جوش“یا ”جھنجھلاہٹ“کو ملامت کرنے کے لئے متن میں ایسا کچھ موجود نہیں ہے جہاں صرف حضرت عیسیٰ مسیح کے کام اور الفاظ درج ہیں۔اگر ہم فرض کر لیں کہ حضرت عیسیٰ مسیح کے کام درست تھے تو پھر جوش اور انصاف کے لئے جذبات کسی طرح بھی غلط نہیں ہوں گے۔

اگر حضرت عیسیٰ مسیح ایک عام شہری ہوتے تو ظاہر ہے کہ اُن کے پاس ہیکل میں کاروبار کرنے والوں کو نکالنے کا بہت تھوڑا اختیار ہوتا۔لیکن اگر ہم تھوڑا سا یہ بھی فرض کر لیں کہ حضرت عیسیٰ مسیح اسرائیل کے لئے خُدا تعالیٰ کے نبی تھے تو پھر اُن کے پاس ہیکل کے احاطے کو درست عبادت میں بحال کرنے کے لئے اُسے صاف کرنے کا پورا اختیار ہو گا۔

اِس لئے ہیکل کو صاف کرنے میں حضرت عیسیٰ مسیح کے انصاف یا جذبے کی مذمت کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

مرقس11باب-انجیر کے درخت پر لعنت کرنا

مرقس12:11-14 – ”حضرت عیسیٰ مسیح کیوں انجیر کے درخت پر جذباتی ہوکر برس پڑے۔ کیا وہ وہاں صرف انجیر پیدا نہیں کر سکتے تھے؟“

یہ اعتراض کسی حد تک حضرت عیسیٰ مسیح میں غلطی تلاش کرنے کی مایوس کُن کوشش ہے۔جیسے کہ حضرت عیسیٰ مسیح اکثر کیا کرتے ہیں،وہ اپنے شاگردوں کو روحانی نکتہ سمجھانے کے لئے روزمرہ اشیا اور تصاویر کو بطور استعارہ استعمال کرتے ہیں۔انجیر کا شاگردوں کے لئے ایک شے سے سکھایا ہوا سبق تھا،کہ وہ انسانی زندگیاں جو اُس وقت پھل نہیں لاتیں جب اُنہیں پھل لانا چاہئے،وہ لعنت کئے جانے اور کاٹ ڈالے جانے کے خطرے میں ہیں (لوقا6:13،یوحنا7,6:15)۔انجیر کے درخت پر لعنت کرنا دعا کی طاقت کے بارے میں بھی ایک سبق تھا۔ متی 32:24میں اُنہوں نے اپنی تعلیم میں دوبارہ اِسی انجیر کے درخت کی طرف اشارہ کیا۔اِس لئے یہ واضح ہے کہ یہ کوئی جذباتی جوش نہیں تھا بلکہ اُن کے شاگردوں کے لئے محتاط طریقے سے ایک شے سے سبق سکھایا گیا تھا۔

انبیائے کرام چور یا ڈاکو؟

یوحنا 8:10 -”حضرت عیسیٰ مسیح یہ تعلیم کیسے دے سکتے تھے کہ اُن سے پہلے تمام انبیائے کرام چور اور ڈاکو تھے؟“

یہ کلام کے خلاف حد سے زیادہ احمقانہ حملوں میں سے ایک ہے۔یہ کسی پر بھی حد سے زیادہ واضح ہے جو انجیل شریف سے واقف ہے کہ حضرت عیسیٰ مسیح سابقہ انبیائے کرام کے لئے اپنے دل میں بہت عزت رکھتے تھے (متی 17:5؛متی 3:12؛لوقا28:13؛یوحنا40,39:8)۔ متن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اِس آیت کا اشارہ انبیائے کرام کی طرف نہیں ہے بلکہ جھوٹے مسیحاؤں اور قائدین کی طرف ہے جو انبیا ئے کرام کے دنوں سے ہی سر اُٹھا چکے تھے۔حضرت عیسیٰ مسیح کے یہودی سامعین یہ جانتے ہو ں گے کہ حضرت عیسیٰ مسیح حزقی ایل کی جھوٹے اور اپنی خدمت کرنے والوں (حکمرانوں)پر تنقید کی طرف اشارہ کر رہے تھے اور اِس کے ساتھ ساتھ اُس شخص کے بارے میں حزقی ایل کی حتمی نبوت کی طرف اشارہ کررہے تھے جو حضرت داؤد کی نسل سے آنے والا تھا اور جو حقیقی چرواہا ہو گا (حزقی ایل 23:34)۔حزقی ایل کی نبوت کے بعد چھ سو سال تک،اسرائیل میں اپنے آپ کو مسیحا ظاہر کرنے والے اور گمراہ کرنے والے بہت سے افراد اُٹھ چکے تھے جنہوں نے اپنے پیروکاروں کو آزادی دلانے کا وعدہ کیا مگر اِس کے بجائے وہ اُنہیں جنگی جھگڑوں اورتباہی کی جانب لے گئے۔حضرت عیسیٰ مسیح کا چور کا لفظ استعمال کرنا شاید اُن کے بزدلانہ طریقے سے اندر داخل ہونے (دیکھئے آیت 1)اور ڈاکو اُن کے تشدد استعمال کرنے پر توجہ دلانے کے لئے ہو گا۔

باپ دادا کے گناہوں کے لئے مجرم ٹھہرانا

خروج 5:20-6 – ”باپ دادا کے گناہوں کے بدلے مجرم ٹھہرانا لوگوں کے ساتھ بے انصافی ہے۔“

یہ آیت اِس بات پر زور دینے کے لئے مبالغہ آمیز زبان استعمال کرتی ہے کہ خدا کی نافرمانی کے بدلے سزا ملے گی اور وفاداری کے بدلے برکت ملے گی۔یہ کوئی قانونی اعلان نہیں ہے۔درحقیقت ہم توریت کے قانون میں اِس کے بالکل برعکس پاتے ہیں:

”بیٹوں کے بدلے باپ مارے نہ جائیں نہ باپ کے بدلے بیٹے مارے جائیں۔ہر ایک اپنے ہی گناہ کے سبب سے مارا جائے۔“
(استثنا 16:24)۔

چین جیسی بہت سی قدیم تہذیبوں میں بچوں کو اپنے باپوں یا دیگر افرادکے گناہوں کے بدلے مارا جاتا تھا،اِس لئے اُس زمانے میں یہ ایک
بنیادی تعلیم تھی۔

پھر بھی یہ نا قابل ِ انکار حد تک سچ ہے کہ ایک نسل کے گناہ کا پھل اکثر دوسری نسل کو بطور ”سزا“ کی صورت میں برداشت کرنا پڑتا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ اکثر کسی ایک شخص کے گناہوں کا اثر اُس کے بچوں کی زندگیوں پر ہوتا ہے،چاہے لوگ بے انصافی کی وجہ سے بدلہ لینا چاہیں یا گناہ آلودہ طرزِ زندگی کا انتخاب کرنے میں اُس کے نتائج کا سامنا کریں۔اگر باپ میں شراب نوشی یا تشدد کرنے کی عادات پائی جاتی ہیں،تو بچے بھی اِن تباہ کُن عادات کی طرف مائل ہوں گے۔یہ بات بڑی اچھی طرح حضرت داؤد بادشاہ کی زندگی میں نظر آتی ہے۔اُس کے گناہ اُس کے بچوں کی زندگیوں میں کام کرتے رہے۔ اُس کے ایک معصوم شخص (اوریّاہ)کو تلوار سے قتل کرنے کے گناہ کی وجہ سے خُدا تعالیٰ حضرت داؤد سے فرماتے ہیں کہ ’تیرے گھرسے تلوار کبھی الگ نہیں ہو گی‘ (قب 2 – سموئیل 10:12)۔جب ہم اگلے ابواب (2 -سموئیل 13ذیلی آیت) پڑھتے ہیں توہم اِسے حضرت داؤد کے بڑے بیٹے کی زندگی میں اور اُس کے بعد کی آنے والی نسلوں میں پورا ہوتے دیکھتے ہیں۔