کنواری کی نہ پوری ہونے والی نبوت؟

یسعیاہ 14:7 – ”حضرت عیسیٰ میں یہ نبوت تکمیل نہیں پاتی،کیونکہ ”علمہ“ کا مطلب ’کنواری‘ نہیں بلکہ ’جوان عورت‘ ہے اور حضرت عیسیٰ کو کتاب مقدس میں کہیں بھی عمانوایل نہیں کہا گیا۔“

پہلا اعتراض -یہ کہ ”علمہ“کا صرف مطلب ’جوان عورت‘ غلط ہے۔یہ دراصل خاص طور پر ’دوشیزہ‘ کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی وہ جوان عورت جو غیر شادی شدہ ہے اور جنسی طور پر پاک ہے اور اِس طرح وہ اپنی خصوصیات میں سے ایک کی طرح اپنے اندر کنوارپن رکھتی ہے۔اِس لئے جب حضرت یسوع مسیح کی پیدایش سے 200برس پہلے سپٹواجنٹ کے مترجمین نے ”علمہ“ ترجمہ یونانی لفظ پارتھینوس(’کنواری‘کے لئے ایک خاص اصطلاح)کیا تو اُنہوں نے عبرانی اصطلاح کا درست مطلب سمجھا۔
دونوں طرح سے، مقدسہ مریم ”جوان عورت“ بھی تھیں اور ایک ”کنواری“ بھی۔

نبوت کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ یہ بچہ عمانوایل کہلائے گاجس کا سادہ مطلب ”خدا ہمارے ساتھ“ ہے۔
[ عبرانی سے یہ غیر واضح ہے کہ یہ اِس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حضرت مریم اپنے بچے کو یہ کہیں گے یا دوسرے اُس بچے کو یہ کہیں گے ]۔اِس حقیقت کے ساتھ ساتھ کہ انجیل شریف میں یہ لقب خاص طور پر حضرت عیسیٰ کو دیا گیا (متی 23:1) پوری تاریخ میں لاکھوں مسیحی حضرت مسیح کو”عمانوایل“ مانتے رہے ہیں۔
اِس لئے یہ کس لحاظ سے نامکمل نبوت ہو سکتی ہے؟?…

کیا یرمیاہ 30:36 پوری نہ ہونے والی نبوت ہے؟

رمیاہ 30:36 – ”یہ آیت نبوت کرتی ہے کہ یہویقیم کا کوئی بھی داؤد کے تخت پر کبھی بھی نہ بیٹھے گا،لیکن 2 -سلاطین 6:24 میں لکھاء ہے کہ یہویقیم کے بعد اُس کا بیٹا یہویاکین اُس کی جگہ بادشاہ ہوا۔یہ ایک پوری نہ ہونے والی نبوت ہے۔“

یہاں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا،یہ محض عبرانی اصطلاح ”یوشب“ کو نہ سمجھنا ہے۔ عبرانی فعل ”یوشب“ کا ترجمہ ”بیٹھ“ کیا گیا ہے جو واضح طور پر ”رہنا“،”قائم رہنا“،”بسنا“،”مقیم ہونا“کے معنوں میں لاگو ہوتا ہے۔اِس لحاظ سے اِس کا مطلب کم مستقل طور پر تخت نشین ہونے کے ہیں۔یہویقیم کا بیٹا یہو یاکین کسی بھی لحاظ سے تخت پر نہیں بیٹھا،کیونکہ صرف اُس کی حکومت کے تین ماہ بعداُس کے شہر کی دیواریں نبوکد نضر کی فوجوں کے سامنے گر گئیں اور یہویاکین کو اسیر کر لیا گیا۔
نقاد کے الزامات کے برعکس یہ نبوت کہ یہویاکین کی اُ س کے نام سے کوئی بادشاہی سلسلہ نہ ہو گا پوری ہوئی۔

قرآن میں قدرے اِس سے زیادہ پیچیدہ نبوت موجود ہے:”اہل ِ روم مغلوب ہو گئے۔نزدیک کے ملک میں۔اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آ جائیں گے،چند ہی سال میں“(سورۃ ا لروم 2:30-4)۔قرآن کے نامور عالم یوسف علی کے مطابق،
لفظ ”چند“کے لئے عربی لفظ (بِضع تین سے نو سال کے عرصہ کی طرف اشارہ کرتا ہے؛یا اسلامک فاؤنڈیشن قرآن کے ذیلی نوٹ نمبر 1330کے مطابق یہ تین سے دس سال کی طرف اشارہ کرتا ہے؛ محمدؐ نے خود فرمایا’چھوٹا عدد‘ تین سے نو سالوں کے درمیانی عرصہ کی پیشین گوئی کرتا ہے (البیضاوی)۔فارسیوں نے 615/614عیسوی میں باز نطینیو ں کو شکست دی اور یروشلیم پر قبضہ کر لیا۔
پھر بھی نامور مسلمان مؤرّخ الطبری اور عالم البیضاوی نے اِس شکست کو 13-14سال بعد 628عیسوی میں رکھتے ہیں۔ایسا دکھائی دیتاہے کہ یہ حوالہ پیدایش 12:4کی طرح ہی مسئلے والا ہے۔