متی 26:15میں نسلی تعصب؟

متی 26:15 -”ایک غیر یہودی کو کتا کہنا،کیا یہ کھلے عام نسلی تعصب نہیں؟“

یہودی باربار غیرقوموں کوآوارہ کتے کہتے ہوئے اُن کی توہین کرتے تھے،جو قدیم فلستین میں جنگلی،بے گھر گندگی کھانے والے کتے ہوتے تھے۔ لیکن جو الفاظ حضرت عیسیٰ مسیح یہاں استعمال کرتے ہیں (کنیریون،پپّی puppy)وہ گھریلو جانوروں کے لئے استعمال کی جانے والی مناسب اصطلاح کا اظہار ہے۔حضرت عیسیٰ مسیح عورت کی توہین نہیں کر رہے تھے بلکہ یہ واضح کرنے کے لئے کہ کس طرح اُن کی بنیادی زمینی خدمت صرف اسرائیل کے لوگوں کے لئے تھی،گھروں میں تقسیم کی ایک گھریلو تشبیہ استعمال کررہے تھے۔ہم اِس کا ثبوت اِس حقیقت میں دیکھ سکتے ہیں کہ یہ عورت کسی طرح بھی اِ س تشبیہ سے پریشان نہیں ہوئی بلکہ حضر ت عیسیٰ مسیح کی مدد کی متلاشی رہی۔حضرت عیسیٰ مسیح نے بالآخر اُس کے ایمان کی تعریف کرتے ہوئے اُسے ایک عظیم جواب دیا۔

قرآن خود بھی شریروں کو بیان کرنے کے لئے ایسے ہی استعارے استعمال کرتا ہے۔ہمیں قرآن میں ملتا ہے کہ بدکاروں کو کتے (175:7-177)،جانور(25,22:8)،گدھے(5:62)اورحتیٰ کہ سؤروں میں تبدیل ہونے کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔یہ اصطلاحات یہ دکھانے کے لئے مجازی معنوں میں استعمال ہوئی ہیں کہ لوگ کس طرح خُدا تعالیٰ کے فضل و کرم کے بغیر تباہ اور بگڑے ہوئے ہیں۔خُداتعالیٰ کی راہنمائی کے بغیر،آدمی مکمل طور پر بگڑا ہوا ہے اور ایسے کام کرتا ہے جو جانور بھی نہیں کرتے ہوں گے۔

مرقس 15:11-16 ہیکل کی صفائی کرنا

مرقس 15:11-16 -”جذباتی جوش میں آکرہیکل میں چوکیوں کو کیوں اُلٹا گیا؟“

”پھر وہ یروشلیم میں آئے اور یسوع ہیکل میں داخل ہو کر اُن کو جو ہیکل میں خرید و فروخت کر رہے تھے باہر نکالنے لگا او رصرّافوں کے تختوں
اور کبوتر فروشوں کی چوکیوں کو اُلٹ دیا۔اور اُس نے کسی کو ہیکل میں سے ہو کر کوئی برتن لے جانے نہ دیا۔اور اپنی تعلیم میں اُن سے کہا کیا یہ نہیں لکھا ہے کہ میرا گھر سب قوموں کے لئے دعا کا گھر کہلائے گا مگر تم نے اُسے ڈاکوؤں کی کھوہ بنا دیا ہے۔“(مرقس15:11-17)

اِس ”جذباتی جوش“یا ”جھنجھلاہٹ“کو ملامت کرنے کے لئے متن میں ایسا کچھ موجود نہیں ہے جہاں صرف حضرت عیسیٰ مسیح کے کام اور الفاظ درج ہیں۔اگر ہم فرض کر لیں کہ حضرت عیسیٰ مسیح کے کام درست تھے تو پھر جوش اور انصاف کے لئے جذبات کسی طرح بھی غلط نہیں ہوں گے۔

اگر حضرت عیسیٰ مسیح ایک عام شہری ہوتے تو ظاہر ہے کہ اُن کے پاس ہیکل میں کاروبار کرنے والوں کو نکالنے کا بہت تھوڑا اختیار ہوتا۔لیکن اگر ہم تھوڑا سا یہ بھی فرض کر لیں کہ حضرت عیسیٰ مسیح اسرائیل کے لئے خُدا تعالیٰ کے نبی تھے تو پھر اُن کے پاس ہیکل کے احاطے کو درست عبادت میں بحال کرنے کے لئے اُسے صاف کرنے کا پورا اختیار ہو گا۔

اِس لئے ہیکل کو صاف کرنے میں حضرت عیسیٰ مسیح کے انصاف یا جذبے کی مذمت کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

مرقس11باب-انجیر کے درخت پر لعنت کرنا

مرقس12:11-14 – ”حضرت عیسیٰ مسیح کیوں انجیر کے درخت پر جذباتی ہوکر برس پڑے۔ کیا وہ وہاں صرف انجیر پیدا نہیں کر سکتے تھے؟“

یہ اعتراض کسی حد تک حضرت عیسیٰ مسیح میں غلطی تلاش کرنے کی مایوس کُن کوشش ہے۔جیسے کہ حضرت عیسیٰ مسیح اکثر کیا کرتے ہیں،وہ اپنے شاگردوں کو روحانی نکتہ سمجھانے کے لئے روزمرہ اشیا اور تصاویر کو بطور استعارہ استعمال کرتے ہیں۔انجیر کا شاگردوں کے لئے ایک شے سے سکھایا ہوا سبق تھا،کہ وہ انسانی زندگیاں جو اُس وقت پھل نہیں لاتیں جب اُنہیں پھل لانا چاہئے،وہ لعنت کئے جانے اور کاٹ ڈالے جانے کے خطرے میں ہیں (لوقا6:13،یوحنا7,6:15)۔انجیر کے درخت پر لعنت کرنا دعا کی طاقت کے بارے میں بھی ایک سبق تھا۔ متی 32:24میں اُنہوں نے اپنی تعلیم میں دوبارہ اِسی انجیر کے درخت کی طرف اشارہ کیا۔اِس لئے یہ واضح ہے کہ یہ کوئی جذباتی جوش نہیں تھا بلکہ اُن کے شاگردوں کے لئے محتاط طریقے سے ایک شے سے سبق سکھایا گیا تھا۔

انبیائے کرام چور یا ڈاکو؟

یوحنا 8:10 -”حضرت عیسیٰ مسیح یہ تعلیم کیسے دے سکتے تھے کہ اُن سے پہلے تمام انبیائے کرام چور اور ڈاکو تھے؟“

یہ کلام کے خلاف حد سے زیادہ احمقانہ حملوں میں سے ایک ہے۔یہ کسی پر بھی حد سے زیادہ واضح ہے جو انجیل شریف سے واقف ہے کہ حضرت عیسیٰ مسیح سابقہ انبیائے کرام کے لئے اپنے دل میں بہت عزت رکھتے تھے (متی 17:5؛متی 3:12؛لوقا28:13؛یوحنا40,39:8)۔ متن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اِس آیت کا اشارہ انبیائے کرام کی طرف نہیں ہے بلکہ جھوٹے مسیحاؤں اور قائدین کی طرف ہے جو انبیا ئے کرام کے دنوں سے ہی سر اُٹھا چکے تھے۔حضرت عیسیٰ مسیح کے یہودی سامعین یہ جانتے ہو ں گے کہ حضرت عیسیٰ مسیح حزقی ایل کی جھوٹے اور اپنی خدمت کرنے والوں (حکمرانوں)پر تنقید کی طرف اشارہ کر رہے تھے اور اِس کے ساتھ ساتھ اُس شخص کے بارے میں حزقی ایل کی حتمی نبوت کی طرف اشارہ کررہے تھے جو حضرت داؤد کی نسل سے آنے والا تھا اور جو حقیقی چرواہا ہو گا (حزقی ایل 23:34)۔حزقی ایل کی نبوت کے بعد چھ سو سال تک،اسرائیل میں اپنے آپ کو مسیحا ظاہر کرنے والے اور گمراہ کرنے والے بہت سے افراد اُٹھ چکے تھے جنہوں نے اپنے پیروکاروں کو آزادی دلانے کا وعدہ کیا مگر اِس کے بجائے وہ اُنہیں جنگی جھگڑوں اورتباہی کی جانب لے گئے۔حضرت عیسیٰ مسیح کا چور کا لفظ استعمال کرنا شاید اُن کے بزدلانہ طریقے سے اندر داخل ہونے (دیکھئے آیت 1)اور ڈاکو اُن کے تشدد استعمال کرنے پر توجہ دلانے کے لئے ہو گا۔

کنواری کی نہ پوری ہونے والی نبوت؟

یسعیاہ 14:7 – ”حضرت عیسیٰ میں یہ نبوت تکمیل نہیں پاتی،کیونکہ ”علمہ“ کا مطلب ’کنواری‘ نہیں بلکہ ’جوان عورت‘ ہے اور حضرت عیسیٰ کو کتاب مقدس میں کہیں بھی عمانوایل نہیں کہا گیا۔“

پہلا اعتراض -یہ کہ ”علمہ“کا صرف مطلب ’جوان عورت‘ غلط ہے۔یہ دراصل خاص طور پر ’دوشیزہ‘ کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی وہ جوان عورت جو غیر شادی شدہ ہے اور جنسی طور پر پاک ہے اور اِس طرح وہ اپنی خصوصیات میں سے ایک کی طرح اپنے اندر کنوارپن رکھتی ہے۔اِس لئے جب حضرت یسوع مسیح کی پیدایش سے 200برس پہلے سپٹواجنٹ کے مترجمین نے ”علمہ“ ترجمہ یونانی لفظ پارتھینوس(’کنواری‘کے لئے ایک خاص اصطلاح)کیا تو اُنہوں نے عبرانی اصطلاح کا درست مطلب سمجھا۔
دونوں طرح سے، مقدسہ مریم ”جوان عورت“ بھی تھیں اور ایک ”کنواری“ بھی۔

نبوت کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ یہ بچہ عمانوایل کہلائے گاجس کا سادہ مطلب ”خدا ہمارے ساتھ“ ہے۔
[ عبرانی سے یہ غیر واضح ہے کہ یہ اِس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حضرت مریم اپنے بچے کو یہ کہیں گے یا دوسرے اُس بچے کو یہ کہیں گے ]۔اِس حقیقت کے ساتھ ساتھ کہ انجیل شریف میں یہ لقب خاص طور پر حضرت عیسیٰ کو دیا گیا (متی 23:1) پوری تاریخ میں لاکھوں مسیحی حضرت مسیح کو”عمانوایل“ مانتے رہے ہیں۔
اِس لئے یہ کس لحاظ سے نامکمل نبوت ہو سکتی ہے؟?…

کیا یرمیاہ 30:36 پوری نہ ہونے والی نبوت ہے؟

رمیاہ 30:36 – ”یہ آیت نبوت کرتی ہے کہ یہویقیم کا کوئی بھی داؤد کے تخت پر کبھی بھی نہ بیٹھے گا،لیکن 2 -سلاطین 6:24 میں لکھاء ہے کہ یہویقیم کے بعد اُس کا بیٹا یہویاکین اُس کی جگہ بادشاہ ہوا۔یہ ایک پوری نہ ہونے والی نبوت ہے۔“

یہاں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا،یہ محض عبرانی اصطلاح ”یوشب“ کو نہ سمجھنا ہے۔ عبرانی فعل ”یوشب“ کا ترجمہ ”بیٹھ“ کیا گیا ہے جو واضح طور پر ”رہنا“،”قائم رہنا“،”بسنا“،”مقیم ہونا“کے معنوں میں لاگو ہوتا ہے۔اِس لحاظ سے اِس کا مطلب کم مستقل طور پر تخت نشین ہونے کے ہیں۔یہویقیم کا بیٹا یہو یاکین کسی بھی لحاظ سے تخت پر نہیں بیٹھا،کیونکہ صرف اُس کی حکومت کے تین ماہ بعداُس کے شہر کی دیواریں نبوکد نضر کی فوجوں کے سامنے گر گئیں اور یہویاکین کو اسیر کر لیا گیا۔
نقاد کے الزامات کے برعکس یہ نبوت کہ یہویاکین کی اُ س کے نام سے کوئی بادشاہی سلسلہ نہ ہو گا پوری ہوئی۔

قرآن میں قدرے اِس سے زیادہ پیچیدہ نبوت موجود ہے:”اہل ِ روم مغلوب ہو گئے۔نزدیک کے ملک میں۔اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آ جائیں گے،چند ہی سال میں“(سورۃ ا لروم 2:30-4)۔قرآن کے نامور عالم یوسف علی کے مطابق،
لفظ ”چند“کے لئے عربی لفظ (بِضع تین سے نو سال کے عرصہ کی طرف اشارہ کرتا ہے؛یا اسلامک فاؤنڈیشن قرآن کے ذیلی نوٹ نمبر 1330کے مطابق یہ تین سے دس سال کی طرف اشارہ کرتا ہے؛ محمدؐ نے خود فرمایا’چھوٹا عدد‘ تین سے نو سالوں کے درمیانی عرصہ کی پیشین گوئی کرتا ہے (البیضاوی)۔فارسیوں نے 615/614عیسوی میں باز نطینیو ں کو شکست دی اور یروشلیم پر قبضہ کر لیا۔
پھر بھی نامور مسلمان مؤرّخ الطبری اور عالم البیضاوی نے اِس شکست کو 13-14سال بعد 628عیسوی میں رکھتے ہیں۔ایسا دکھائی دیتاہے کہ یہ حوالہ پیدایش 12:4کی طرح ہی مسئلے والا ہے۔

قوس ِ قزح سیلاب کے بعد تخلیق ہوئی؟

پیدایش 13:9 – ”یہ کہنا سائنسی طور پر غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قوس ِ قزح سیلاب کے بعد خلق کی۔“

اِس اقتباس میں کوئی ایسی نشان دہی نہیں ہے کہ قوس ِ قزح حضرت نو ح کے زمانے میں خلق ہوئی۔یہ محض ایک یاد دہانی کے نشان کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اب مزید بڑے سیلاب نہیں آئیں گے۔13آیت میں خُدا تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ”میں َ اپنی کمان کو بادل میں رکھتا ہوں۔
وہ میرے اور زمین کے درمیان عہد کانشان ہو گی ..“نقاد…

سارہ کی بابت ابراہام کا جھوٹ،

پیدایش 20 – ”کتاب مُقدس کیسے کہہ سکتی ہے کہ ابراہام نبی نے اپنی بیوی کی بابت جھوٹ بولا اور ایک اَور آدمی کو اُسے لے جانے کی اجازت دی؟“

دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ واقعہ نہ صرف بائبل مُقدس میں موجود ہے بلکہ صحیح بخاری میں بھی لکھا ہے:

ابوہریرہ نے بیان کیا کہ ابراہیم علیہ السلام نے تین مرتبہ جھوٹ بولا تھا۔ دو اُن میں سے خالص اللہ عز و جل کی رضا کے لئے تھے۔ ایک تو اُن کا فرمانا کہ ”میں بیمار ہوں“ اور دوسرا اُن کا یہ فرمانا کہ ”بلکہ یہ کام تو اُن کے بڑے (بت) نے کیا ہے۔“ اور بیان کیا کہ ایک مرتبہ ابراہیم علیہ السلام اور سارہ علیہا السلام ایک ظالم بادشاہ کی حدود سلطنت سے گزر رہے تھے۔ بادشاہ کو خبر ملی کہ یہاں ایک شخص آیا ہوا ہے اور اُس کے ساتھ دُنیا کی ایک خوبصورت ترین عورت ہے۔ بادشاہ نے ابراہیم علیہ السلام کے پاس اپنا آدمی بھیج کر اُنہیں بلوایا اور سارہ علیہا السلام کے متعلق پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ میری بہن ہے۔ پھر آپ سارہ علیہا السلام کے پاس آئے اور فرمایا کہ اے سارہ!

باپ دادا کے گناہوں کے لئے مجرم ٹھہرانا

خروج 5:20-6 – ”باپ دادا کے گناہوں کے بدلے مجرم ٹھہرانا لوگوں کے ساتھ بے انصافی ہے۔“

یہ آیت اِس بات پر زور دینے کے لئے مبالغہ آمیز زبان استعمال کرتی ہے کہ خدا کی نافرمانی کے بدلے سزا ملے گی اور وفاداری کے بدلے برکت ملے گی۔یہ کوئی قانونی اعلان نہیں ہے۔درحقیقت ہم توریت کے قانون میں اِس کے بالکل برعکس پاتے ہیں:

”بیٹوں کے بدلے باپ مارے نہ جائیں نہ باپ کے بدلے بیٹے مارے جائیں۔ہر ایک اپنے ہی گناہ کے سبب سے مارا جائے۔“
(استثنا 16:24)۔

چین جیسی بہت سی قدیم تہذیبوں میں بچوں کو اپنے باپوں یا دیگر افرادکے گناہوں کے بدلے مارا جاتا تھا،اِس لئے اُس زمانے میں یہ ایک
بنیادی تعلیم تھی۔

پھر بھی یہ نا قابل ِ انکار حد تک سچ ہے کہ ایک نسل کے گناہ کا پھل اکثر دوسری نسل کو بطور ”سزا“ کی صورت میں برداشت کرنا پڑتا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ اکثر کسی ایک شخص کے گناہوں کا اثر اُس کے بچوں کی زندگیوں پر ہوتا ہے،چاہے لوگ بے انصافی کی وجہ سے بدلہ لینا چاہیں یا گناہ آلودہ طرزِ زندگی کا انتخاب کرنے میں اُس کے نتائج کا سامنا کریں۔اگر باپ میں شراب نوشی یا تشدد کرنے کی عادات پائی جاتی ہیں،تو بچے بھی اِن تباہ کُن عادات کی طرف مائل ہوں گے۔یہ بات بڑی اچھی طرح حضرت داؤد بادشاہ کی زندگی میں نظر آتی ہے۔اُس کے گناہ اُس کے بچوں کی زندگیوں میں کام کرتے رہے۔ اُس کے ایک معصوم شخص (اوریّاہ)کو تلوار سے قتل کرنے کے گناہ کی وجہ سے خُدا تعالیٰ حضرت داؤد سے فرماتے ہیں کہ ’تیرے گھرسے تلوار کبھی الگ نہیں ہو گی‘ (قب 2 – سموئیل 10:12)۔جب ہم اگلے ابواب (2 -سموئیل 13ذیلی آیت) پڑھتے ہیں توہم اِسے حضرت داؤد کے بڑے بیٹے کی زندگی میں اور اُس کے بعد کی آنے والی نسلوں میں پورا ہوتے دیکھتے ہیں۔

کیا حضرت عیسیٰ اللہ کا ایک انوکھاکلام ہیں؟

”قرآن کے مطابق حضرت عیسیٰ اللہ کا ایک انوکھاکلام نہیں ہیں،کیونکہ آل عمران 39:3ذِکر کرتی ہے کہ یوحنا بپتسمہ دینے والے
(حضرت یحیٰی)کو بھی اللہ کا کلام کہا گیا ہے۔“

ذاکر نائیک نے الزام لگایا ہے کہ ٓال عمران 39:3یوحنا بپتسمہ دینے والے (حضرت یحیٰی)کو بھی اللہ کاکلام کہتی ہے،اِس لئے یہ لقب
حضرت عیسیٰ کے انوکھے کردار کی طرف اشارہ نہیں کرتا۔اگر ہم آیت کو پڑھیں،تویہ واضح ہے کہ یہ آیت ذِکر کرتی ہے کہ حضرت یحیٰی حضرت
عیسیٰ کے اللہ کے کلام ہونے کی تصدیق کرتے ہیں:

”…خدا تمہیں یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو خدا کے کلمہ (یعنی عیسیٰ)کی تصدیق کریں گے اور سردار ہوں گے اور عورتوں سے رغبت نہ رکھنے
والے اور (خدا کے) پیغمبر(یعنی)نیکو کاروں میں ہوں گے۔“(سورۃ آل عمران 39:3)

ابتدائی مفسرین تقریبا ً پورے وثوق سے اِس کی تصدیق کرتے ہیں کہ اللہ کا”کلام“ حضرت عیسیٰ ہیں۔اِ س آیت پر ابن ِ عباس کی تفسیر کچھ یوں ہے:

(اور فرشتہ)یعنی جبرائیل فرشتہ (اُس سے مخاطب ہوا جب وہ مقدس مقام میں کھڑا دعا کر رہا تھا)مسجد میں:

(اللہ نے تمہیں حضرت یحیٰی کی خوشخبری دی ہے)ایک بیٹے کی جس کا نام یوحنا ہے (جو آتا ہے)جو اللہ کی طرف سے بخشے گئے کلام کی تصدیق کرتا ہے،حضرت مریم کا بیٹا حضرت عیسیٰ کیونکہ وہ اللہ کی طرف سے کلام ہو گا،جسے بِن باپ (خداکی طرف سے)کے پیدا کیا گیا
جو جب غلطی کرتا ہے تو حلیم ہو جاتا ہے(پرہیزگار)جس کے اندر عورت کی خواہش نہیں،(راست بازی کا ایک نبی)پیغمبروں میں۔(تنویر المقباس من تفسیر ابن ِ عباس)2

اور اِس آیت کی عمدہ وضاحت تفسیر الجلالین میں یوں ہے:

”اور فرشتہ نے جس کا نام جبرائیل ہے،اُس سے مخاطب ہوا جب وہ مقدس مقام میں کھڑا دعا کر رہا تھا،ہیکل میں عبادت کررہا تھا
(اَنَّ کا مطلب ہے اَنَّ، ایک مختلف قراٗت میں اِنَّ ہے،جو براہ ِ راست کلام کرنے کو بیان کرتا ہے)،خدا تمہیں
خوشخبری (یُبشَّرُِک َپڑھاجاتاہے) دیتا ہے،یوحنا حضرت یحیٰی)کی،جو اللہ کی طرف سے عطاکردہ کلام کی تصدیق کرے گا،جس کا نام حضرت عیسیٰ ہے، کہ وہ خدا کا روح ہے؛اُسے ]خدا کا[ کلام بھی کہا گیا ہے،کیونکہ وہ لفظ ”کُن“ ’ہوجا‘
سے خلق کیا گیا؛ایک خدا،کی پیروی کرتے ہوئے،جو پاک دامن ہے،عورتوں سے دُور رہنے والا،اور راست بازی کا ایک نبی ہو گا؛یہ کہا
جاتا ہے کہ اُس نے کبھی گناہ نہیں کیا اور نہ اُس کا کبھی ارادہ کیا۔3

دوسرے علما ئے کرام جیسے کہ الزمخشری اور طبری متفق ہیں اور بے شک انجیل شریف میں حضرت یحیٰی کی زندگی کے تاریخی واقعات یہ بتاتے ہیں کہ اُن کا بنیادی کردار لوگوں کو حضرت عیسیٰ کی طرف آنے کی ہدایت کرنا تھا:

”ایک آدمی یوحنا نام آ موجود ہوا جو خدا کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔یہ گواہی کے لئے آیا کہ نور کی گواہی دے تاکہ سب اُس کے وسیلے سے ایمان لائیں۔“(یوحنا 7:1؛یوحنا 14:1بھی دیکھئے)۔

حضرت یحیٰی جو حضرت عیسیٰ مسیح کے رشتہ دار تھے،جیسے کہ انجیل شریف کئی اقتباسات میں ذِکر کرتی ہے اُنہوں نے حضرت عیسیٰ مسیح کی راہ تیار کی جو کلام تھا اور لوگوں کو اُس کی طرف آنے کی ہدایت کی۔

  1. Zakir Naik, Da’wah Training Programme, retrieved from: www.irf.net/irf/dtp/dawah_tech/t18/t18a/pg1.htm