یسعیاہ 11:29-13میں ”اَن پڑھ نبی“

ذاکر نائیک بائبل میں حضرت محمد ؐ کے بارے میں نبوت کے بیان کے لئے اپنے الفاظ میں یہ حوالہ دینا پسند کرتا ہے،”یسعیاہ کی کتاب،باب نمبر 12،آیت نمبر29“(دراصل یہ باب نمبر29اور آیت نمبر12ہے!)۔جیسے ڈاکٹر ذاکر نائیک اِسے بیان کرتا ہے یہ ایک متاثر کُن نبوت معلوم ہوتی ہے:

”کتاب کسی نبی کو دی گئی جو پڑھا لکھا نہیں ہے“۔

تاہم اگر ہم حقیقت میں کتاب مُقدس کے کسی بھی نسخے کو کھولیں اور خود اِس آیت کو دیکھیں تو ہم سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ نائیک نے دھوکے سے لفظ ”نبی“ کا اضافہ کیا ہے جو اصلی عبرانی متن میں دکھائی نہیں دیتا:

”پھر وہ کتاب کسی ناخواندہ کو دیں اور کہیں اِس کو پڑھ اور وہ کہے کہ میَں تو پڑھنا نہیں جانتا۔“(یسعیاہ 12:29)

اگر ہم اِس متن کو وسیع تناظر میں دیکھیں،تو یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ کس طرح اسرائیلی یسعیاہ نبی کے مکاشفہ کو نظر انداز کرنے کے لئے جھوٹے بہانے بنا تے ہیں:

”اور ساری رُؤیا تمہارے نزدیک سربمہر کتاب کے مضمون کی مانند ہو گی جسے لوگ کسی پڑھے لکھے کو دیں اور کہیں اِس کو پڑھ اور وہ کہے میَں پڑھ نہیں سکتا کیونکہ یہ سر بمہر ہے۔اورپھر وہ کتاب کسی ناخواندہ کو دیں اور کہیں اِس کو پڑھ اور وہ کہے کہ میَں تو پڑھنا نہیں جانتا۔پس خداوند فرماتا ہے چونکہ یہ لوگ زبان سے میری نزدیکی چاہتے ہیں اور ہونٹوں سے میری تعظیم کرتے ہیں لیکن اِن کے دل مجھ سے دُور ہیں۔“
(یسعیاہ 11:29-13)

اگر یہ ایک نبوت ہوتی (جسے وسیع متن سیاق وسباق سے خارج ازامکان قرار دیتاہے)تو یہ زمین پر موجود پوری انسانی تاریخ میں ہر پڑھے لکھے شخص (آیت 11)اوراَن پڑھ شخص (آیت 12) میں پوری ہوسکتی تھی!یہ…

یوحنا 16:14کا ”پیراکلیتاس“

”اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو گے۔اور میَں باپ سے درخواست کروں گا تووہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک
تمہارے ساتھ رہے۔یعنی رُوح ِ حق جسے دنیا حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ نہ اُسے دیکھتی او رنہ جانتی ہے۔تم اُسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تمہارے اندر ہو گا۔میَں تمہیں یتیم نہیں چھوڑوں گا۔ میَں تمہارے پاس آؤں گا۔“(یوحنا 15:14-18)

”میَں نے یہ باتیں تمہارے ساتھ رہ کر تم سے کہیں۔لیکن مددگار یعنی رُوح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا او رجو کچھ میَں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلائے گا۔“(یوحنا 25:14-26)

”لیکن جب وہ مددگار آئے گا جس کو میَں تمہارے پاس باپ کی طر ف سے بھیجوں گا یعنی رُوح ِ حق جو باپ سے صادر ہوتا ہے تو وہ میری گواہی دے گا۔اور تم بھی گواہ ہو کیونکہ شروع سے میرے ساتھ ہو۔“(یوحنا 26:15-27)

عجیب بات ہے کہ چند لوگ اِن حوالوں کو حضرت محمد ؐ کے آنے کے بارے میں پیشین گوئیوں کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ذاکر نائیکجیسے
مبلغین یہاں بیان شدہ ”مددگار“ کو حضرت محمد ؐ تصور کرتے ہیں۔آئیے!…

غزل الغزلات 16:5 کا”مَخمَد“

نائیک بائبل میں غزل الغزلات 16:5 کے حوالے میں حضرت محمد ؐ کے بارے میں نبوت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے:

”اُس کا منہ ازبس شیرین ہے۔ہاں وہ سراپا عشق انگیز ہے؛

اے یروشلیم کی بیٹیو!یہ ہے میرا محبوب۔یہ ہے میرا پیارا۔“(غزل الغزلات 16:5)
بڑی احتیاط سے مندرجہ بالا متن کو ختم کرتے ہوئے وہ دلیل دیتا ہے کہ چونکہ عبرانی میں ”عشق انگیز“ کے لئے ”مَخمَد“،(عربی محمد) آیا ہے۔ اِس لئے یہ محمد ؐکے لئے نبوت ہے۔لیکن مندرجہ بالا آیت ایک ایسے باب کا حصہ ہے جس میں ایک دُلہن اپنے شوہر کے بارے میں تفصیل بیان کررہی ہے۔مزید یہ کہ نائیک کا ترجمہ ایک اسمِ صفت کی جگہ محض اسم قرار دیتاہے جو کہ مناسب نہیں ہے:

’اُس کا منہ ازبس شیرین ہے

وہ سراپا محمد ہے‘ ( וכלו מחמדים )

یہ بے حد واضح ہے کہ یہاں ’عشق انگیز‘ درست لفظ ہے۔لفظ کا سیاق وسباق واضح طور پر یہ بتاتا ہے کہ یہ نہ تو کوئی نبوت ہے اور نہ ہی حضرت محمدؐ کی طرف کوئی اشارہ ہے اور اِس بات کا دعویٰ کرنا دھوکا دینے کی ایک کوشش ہے۔اِس طرح ہم دوسرے لوگوں کے بارے میں بھی اِس قسم کی نبوتیں ایجاد کر سکتے ہیں۔حضرت محمدؐ سے پہلے اور بعد میں،دودیگر غیر اسلامی انبیا بنام مانی اور مرزا حسین علی (بہا ء اُللہ)نے صحائف کا حوالہ دیتے ہوئے دوسرے انبیا کے سلسلے میں اگلانبی ہونے کا دعویٰ کیا۔نائیک کے مبہم طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے ہمیں زبور 8:89 میں بہاء اُللہ (حَسِین)کے نام سے نبوت اور مانی (منّی)کا ذکر خاص طور پر اٹھارہ مقامات پر ملتا ہے!کیا…

کیاحضرت محمد ؐ کی نبوتیں ہٹا دی گئی ہیں؟

مندرجہ بالا نبوتوں میں حضرت محمد ؐ کے بارے میں کوئی ذکر نہیں، پھر بھی چند نقاد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مسیحیوں یا یہودیوں نے حضرت محمد ؐ کی یہ نبوتیں بڑی چالاکی سے ہٹا دی ہیں۔ لیکن یہ ناممکن ہے اور اِس کی تین وجوہات ہیں:

  1. ۔ یہودیت حضرت یسوع المسیح کو بطور نبی یا بطور مسیح کے قبول نہیں کرتی جس کی وجہ سے صدیوں سے یہودیوں او رمسیحیوں میں کشمکش چلی آر ہی ہے۔ تا ہم جیسا کہ ہم نے اُوپر دیکھا ہے، یہودیوں کے صحائف میں حضرت یسوع المسیح کے بارے میں بہت سی واضح نبوتیں موجود ہیں۔اگر یہودی نبوتوں کو ہٹانے کی عادت میں ملوث ہوتے تو پھر اُنہوں نے حضرت یسوع المسیح کے بارے میں تمام نبوتوں کو کیوں نہیں ہٹایا؟ آج بھی اگر آپ یہودی صحائف (توریت،زبوراور دیگر نبوتی کتب)کا مسیحی پرانے عہد نامے کے ساتھ موازنہ کریں تو یہ بالکل ایک جیسا ہے اور اِس میں ایک جیسی ہی نبوتیں شامل ہیں۔اگر اُنہوں نے مسیح کی نبوتوں کو نہیں ہٹایا(جن کی وہ مخالفت کرتے ہیں)تو پھر اُنہوں نے حضرت محمد ؐ کی نبوتوں کو کیوں ہٹایا ہو گا؟
  2. ۔ حضرت محمد ؐ کے حوالہ جات کو صرف اُن کی زندگی کے بعد ہٹایا گیا ہو گا۔ لیکن حضرت محمد ؐ کے زمانے سے پہلے کے ہزاروں ایسے یونانی اور عبرانی نسخے صدیوں سے موجود ہیں جو ہماری موجودہ توریت،زبور اور انجیل سے کسی بھی طرح خاص اختلافات نہیں رکھتے اور نہ ہی اُن میں محمدؐکے بارے میں کو ئی نبوت موجود ہے۔اِس سے واضح ہوتا ہے کہ ایسی نبوتیں کبھی موجود ہی نہیں تھیں۔
  3. ۔ قرآن مجید یہ سکھاتا ہے کہ ”خدا کی باتوں کوکوئی بھی بدلنے والا نہیں“(سورۃ الانعام 34:6)اوریہ کہ ”اے اہل ِ کتاب جب تک تم تورات اور انجیل کو اور جو (اور کتابیں)تمہارے پروردگار کی طرف سے تم لوگوں پر نازل ہوئیں اُن کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہو سکتے“(سورۃ المائدہ 68:5)۔خدا کا کلام کس طرح تبدیل ہو سکتا ہے؟

دنیا کا ساتواں بڑا مذہب’بہائی مذہب‘ ہے جو یہ سکھاتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ،موسیٰ ؑ،حضرت یسوع المسیح او رمحمد ؐ کے بعد اگلا نبی بہاء اُللہ ہے۔اگر بہائی مذہب کے لوگ یہ الزام لگائیں کہ قرآن مجید میں بہا ء اُللہ سے متعلق نبوتیں موجود تھیں جو ہٹا دی گئی ہیں تو ردّعمل کیا ہوگا؟ہم یہ کہیں گے کہ یہ احمقانہ سوچ ہے۔

کیونکہ ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ اور پھر یہ کہ نیک لوگ جان بوجھ کر اپنے صحائف کو کبھی بھی تبدیل نہیں کریں گے۔حضرت محمد ؐ کے بارے میں متصورمٹائی گئی نبوتوں کے تعلق سے توریت شریف،زبورشریف اور انجیل شریف کے بارے میں بھی ایسا ہی ہے۔

استثنا 18 موسیٰ کی مانند نبی

مناظرین جیسے کہ نائیک اور دیدات نے یہ بحث کی ہے کہ استثنا 18 باب حضرت عیسیٰ کی طرف نہیں بلکہ حضرت محمد ؐ کی طرف اشارہ کرتا ہے:

”خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔تم اُس کی سننا۔یہ
اُس درخواست کے مطابق ہو گا جو تُو نے خداوند اپنے خدا سے مجمع کے دن حورب میں کی تھی کہ مجھ کو نہ تو خداوند اپنے خدا کی آواز سننی پڑے اور نہ ایسی بڑی آگ ہی کا نظارہ ہو تاکہ میَں مر نہ جاؤں“۔

”اور خداوند نے مجھ سے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں سو ٹھیک کہتے ہیں۔میَں اُن کے لئے اُن ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا او راپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گا او رجو کچھ میَں اُسے حکم دوں گا وہی وہ اُن سے کہے گا۔اور جو کوئی میری اُن باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے تو میَں اُن کا حساب اُس سے لوں گا۔“

(استثنا 15:18-19)

حضرت عیسیٰ المسیح سے صدیوں پہلے یہودیوں نے اِ س نبوت کوالمسیح کی آمد سے منسوب کیا۔تاہم حال ہی میں چند مسلمانوں نے یہ الزام لگایا ہے کہ یہ نبوت عیسیٰ المسیح کی طرف نہیں بلکہ حضرت محمد ؐ کی طرف اشار ہ کرتی ہے۔یہ نبوت نبی کی شناخت کے لئے تین بنیادی معیار پیش کرتی ہے:

  1. تیرے لئے (جس کا مطلب ہے کہ اسرائیلی جن سے موسیٰ خطاب کر رہا ہے))
  2. تیرے ہی بھائیوں میں سے
  3. موسیٰ کی مانند

پہلا معیار: ”تیرے لئے“

”خداوند تیرا خدا تیرے لئے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔“(استثنا 15:18)

یہاں موسیٰ بڑے واضح طور پر بیابان میں سفر کرنے والی اسرائیلی جماعت سے خطاب کر رہا تھا۔جبکہ حضرت عیسیٰ المسیح او رحضرت محمد ؐ نے پوری انسانیت کے لئے نبی ہونے کا دعویٰ کیا، لیکن حضرت عیسیٰ کی بنیادی خدمت کا محور اسرائیل کے لوگ تھے جبکہ حضرت محمد ؐ کی بنیادی خدمت کا محور عرب کے لوگ تھے۔

دوسرا معیار: ”تیرے ہی بھائیوں میں سے“

”خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔“(استثنا 15:18)

یہاں موسیٰ موآب میں جمع اسرائیلیوں کو مصر میں سے نکال لانے اور چالیس سال بیابان میں اُن کی راہنمائی کرنے کے بعد اُن سے خطاب کر رہا تھا۔اِس لئے ہم توقع کریں گے کہ ”تیرے ہی بھائیوں میں سے“کا مطلب ہو گا کہ تیری ہی قوم اور برادری میں سے۔تاہم مناظرین جیسے کہ دیدات اور نائیک نے ابرہام کی نسل سے د یگر سامی لوگوں اور حضرت محمد ؐ کوشامل کرنے کے لئے اِس لفظ ”بھائیوں /قوم“ کو پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ و ضاحت یہاں بھائی کے لئے استعمال کئے گئے، (عبرانی اور عربی،اَخ)کے بنیادی معنی سے تضاد رکھتی ہے۔یہ لفظ اُسی قبیلے کے فرد کی طرف اشارہ کرتا ہے اور اُس وقت تک اسماعیل کی نسل پانچ صدیوں تک ایک الگ قبیلہ بن چکی تھی۔قرآن مجید کا ایک ممتاز مسلم مترجم محمد حامد اللہ لکھتا ہے:”عربی لفظ اَخ بھائی اور قبیلے کے فرد دونوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔“
1

ایسی وضاحت کی پچھلے 17باب کی آیت15 کے ساتھ موازنہ کرنے کے بعد تصدیق ہوتی ہے،جہاں ہم پڑھتے ہیں:

”تُو اپنے بھائیوں میں سے ہی کسی کو اپنا بادشاہ بنانا اور پردیسی کو جو تیرا بھائی (اَخ) نہیں اپنے اُوپر حاکم نہ کر لینا۔“(استثنا 15:17)

یہ آیت واضح طور پر یہ بتاتی ہے کہ ”تیرے بھائیوں (اَخ)میں سے“کا مطلب صرف ایک اسرائیلی ہی ہو سکتا ہے۔
دراصل اسرائیل کے اِرد گرد پھیلی ہوئی بہت سی قومیں عربوں کی طرح ابرہام کی سامی نسل سے تعلق رکھتی تھیں (جیسے کہ موآبی،
ادومی،وغیرہ)۔کیا محض اِس وجہ سے ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ نبی کسی بھی ایک سامی قوم میں سے ظاہر ہوسکتا تھا؟اِس نبوت کے وقت اسماعیل اور اضحاق کی نسلیں تقریباً پانچ صدیوں سے مختلف براعظموں پر زندگی بسر کررہی تھیں اور مختلف بولیاں بول رہی تھیں۔ایک جدید موازنہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح بنگالی اور افغانی دونوں آریائی نسل سے ہیں لیکن ایک بنگالی کے لئے ”قبیلے کا بھائی“ کا ہر گز مطلب ایک افغانی نہیں ہو گا۔

اِس لئے ہم لازماًیہ نتیجہ اخذ کریں گے کہ جس نبی کی نبوت کی گئی تھی اُسے اسرائیل کے بارہ قبیلوں میں سے آنا تھا جن سے موسیٰ خطاب کر رہا تھا نہ کہ کسی دُور سے تعلق رکھنے والی قوم میں سے۔چونکہ محمد ؐ اسرائیلی نہیں تھے اِس لئے استثنا 18:18 قطعی طور پر اُن کے لئے پیشین گوئی نہیں ہو سکتی۔

تیسرا معیار: ”موسیٰ کی مانند ایک نبی“

”خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔“(استثنا 15:18)

نائیک اور دیدات نے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ یہ نبوت محمد ؐ کے بارے میں ہے نہ کہ حضرت عیسیٰ کے بارے میں محمد ؐ اور موسیٰ ؑکے درمیان یکساں باتوں کی ایک فہرست مرتب کی ہے:

  1. حضرت عیسیٰ المسیح کے برعکس، محمد ؐ او رموسیٰ ؑ دونوں ایک جامع قانونی ضابطہ لے کر آئے۔
  2. حضرت عیسیٰ کے برعکس، محمد ؐ او رموسیٰ ؑدونوں ایک فطری باپ سے پیدا ہوئے۔
  3. حضرت عیسیٰ کے برعکس، محمد ؐ او رموسیٰ ؑدونوں شادی شدہ تھے۔
  4. حضرت عیسیٰ کے برعکس محمد ؐ او رموسیٰ ؑ دونوں اپنے لوگوں کے سیاسی راہنما تھے۔
  5. محمد ؐ او رموسیٰ ؑدونوں سے کہا گیا کہ وہ اُس وقت سے مہینوں کا حساب رکھیں۔
  6. محمد ؐ او رموسیٰ دونوں کو اپنے دشمنوں کی وجہ سے بھاگنا پڑا اور اپنے سُسرکے ہاں پناہ لینی پڑی۔
  7. محمد ؐ او رموسیٰ ؑدونوں نے عام انسانوں کی مانند وفات پائی۔

کچھ مناظرین نے مزید باتیں موازنہ کے طور پر استعمال کی ہیں جوکہ درحقیقت غلط ہیں:

سیدنا المسیح کے برعکس محمد ؐ او رموسیٰ ؑ دونوں نے ایک قطعہ زمین پر قبضہ کیا (جھوٹ:موسیٰ ؑتو ملک ِ کنعان میں داخل بھی نہیں ہوا تھا۔
وہ صرف اُنہیں سرحد تک لایا تھااور یشوع نے اُسے فتح کیا تھا)۔

حضرت محمد ؐ اور اور موسیٰ ؑدونوں نے مدیان کے ملک میں پناہ لی تھی،جسے بعد میں یثرب اور پھر مدینہ کا نام دیا گیا(جھوٹ؛مدیان یثرب سے 400 میل کے فاصلے پر ہے)۔

سید نا عیسٰی المسیح کے برعکس، محمد ؐ او رموسیٰ دونوں نے مدیان /مدینہ میں دس سال تک منادی کی (جھوٹ؛موسیٰ ؑنے مدیان کے بیابانی علاقے میں چالیس سال تک بھیڑیں چرائی تھیں نہ کہ دس سال تک۔اُس کی منادی کی بلاہٹ بعد میں ہوئی تھی)۔

اِس طرح موسیٰ ؑاو رحضرت محمد ؐ کے درمیان سات باتوں میں مماثلت ہے۔ ذرا ملاحظہ کیجئے کہ یہ مماثلت کسی بھی انسانی قائد کی خوبی سے پوری ہو جاتی ہیں یعنی عام پیدائش،شادی شدہ،اپنے لوگوں کا راہنما،شریعت دینے والا،سرزمین پر قبضہ کیا،عام انسان کی طرح مرا۔ہم اِس سے بھی زیادہ حضرت داؤدؑ اور موسیٰؑ کے درمیان مماثلت دیکھ سکتے ہیں:

  1. دونوں سیاسی راہنما تھے
  2. عام پیدائش تھی
  3. کئی عورتوں سے شادی کی تھی
  4. اُن کے بچے تھے
  5. اسرائیلی تھے
  6. کنعانی سرزمین پر قبضہ کیا تھا
  7. صحائف لے کر آئے
  8. ایک عہد ملا
  9. عام موت مرے

حضرت سلیمان اور موسیٰ ؑ:

  1. دونوں سیاسی راہنما تھے
  2. عام پیدائش ہوئی تھی
  3. بہت سی عورتوں سے شادی کی تھی
  4. اُن کے بچے تھے
  5. اسرائیلی تھے
  6. کنعانی سرزمین پر قبضہ کیا تھا
  7. صحائف لے کر آئے
  8. ایک عہد ملا
  9. عام موت مرے

حتیٰ کہ جدید قائدین میں سے جیسے کہ بنگلہ دیش کی عارضی حکومت کے سابقہ چیف ایڈوائزر ڈاکٹر فخرالدین احمد کو بھی اِن حوالوں سے موسیٰ
کی مانند کہا جا سکتا ہے۔اُس کی ایک عام پیدائش ہوئی،شادی شدہ ہے،بچے ہیں، اُس کے لوگ اُسے پسند کرتے تھے اور وہ ایک قوم کا راہنما تھا۔مگر اِس سے کچھ ثابت نہیں ہوتا۔

اِس کے برعکس ہمیں ”موسیٰ علیہ السلام کی مانند ایک نبی“ کی شناخت کے لئے موسیٰ کے کردار او رخدمت کے بنیا دی او رمنفرد پہلوؤں کو دیکھنا ہو گا۔ اگر ہم توریت میں موسیٰ ؑ کے بارے میں مکمل طور پر پڑھیں تو وہاں ہمیں تین ایسی منفرد خصوصیات ملتی ہیں جوحضرت داؤد ؑ،حضرت سلیمان ؑیا محمد ؐ میں نہیں ہیں بلکہ وہ خاص طور پرعیسیٰ المسیح میں کامل طور پر پوری ہوئیں:

  1. خدمت کا بنیادی نکتہ نمبر 1: حضرت موسیٰ ؑخدا کے لوگوں کے لئے طبعی طور پر غلامی سے نجات لے کر آئے او رطبعی لحاظ سے اُن کی سلامتی اورفراوانی کے ملک ِ موعودہ کی طرف رہنمائی کی۔حضرت سیدنا مسیح خدا کے لئے لوگوں کے روحانی غلامی سے نجات لے کر آئے اور اُنہیں سلامتی او رفر اوانی کے روحانی ملک ِ موعودہ فردوس کی راہ دکھائی۔لیکن محمدؐ کی خدمت کا نتیجہ اللہ تعالیٰ کے لوگوں کے لئے نجات لے کر نہ آیا۔
  2. خدمت کا بنیادی نکتہ نمبر : موسیٰ ؑبڑے منفرد انداز میں خدا کے قہر کو باز رکھتے ہوئے، اُن کی شفاعت کرتے ہوئے اور خدا وند تعالیٰ اور اُن کے درمیان کھڑے ہوتے ہوئے خدا وند تعالیٰ او رخداوند تعالیٰ کے لوگوں کے مابین درمیانی تھے(گنتی 7:21؛42:16-50 ؛خروج 23:15-25؛19 باب)۔یہ حضرت یسوع المسیح کی خدمت کا بھی بنیادی حصہ ہے یعنی خدا کے لوگوں کی خاطر شفاعت کرنا (-1تیم5:2؛عبر25:7)اور خدا کے قہر کو باز رکھنا۔
  3. خدمت کا بنیادی نکتہ نمبر : موسیٰ ؑاسرائیلیوں کے لئے ایک نیا عہد لے کر آئے۔ موسیٰ او رحضرت یسوع المسیح ہی واحد و ہ دو افراد تھے جنہوں نے خدا تعالیٰ اور اُس کے لوگوں کے مابین ایک درمیانی عہد باندھا۔حضرت یسوع المسیح کے نئے عہد کے بارے میں یرمیاہ نبی نے نبوت کی تھی۔
  4. ”دیکھ وہ دن آتے ہیں خداوند فرماتا ہے جب میَں اسرائیل کے گھرانے اور یہوداہ کے گھرانے کے ساتھ نیا عہد باندھوں گا۔اُس عہد کے مطابق نہیں جو میَں نے اُن کے باپ دادا سے کیا جب میَں نے اُن کی دست گیری کی تاکہ اُن کو ملک ِ مصر سے نکال لاؤں اور اُنہو ں نے میرے اُس عہد کو توڑا اگرچہ میَں اُن کا مالک تھا خداوند فرماتا ہے۔بلکہ یہ وہ عہد ہے جو میَں اُن دنوں کے بعد اسرائیل کے گھرانے سے باندھوں گا۔خداوند فرماتا ہے میَں اپنی شریعت اُن کے باطن میں رکھوں گا اور اُن کے دل پر اُسے لکھوں گا او رمیَں اُن کا خدا ہوں گا او روہ میرے لوگ ہوں گے“(یرمیاہ 31:31-33)۔

    حضرت یسوع المسیح نے بڑے اختیار سے اِس نئے عہد (متی5-7ابواب)کے حصے کے طور پر ایک نیا باطنی قانون سکھایا۔محمد ؐ نے کبھی بھی کوئی نیا عہد متعارف کروانے کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ اِس کے برعکس جیسے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دنوں میں نظام جاری تھا اُسی کو بحال کرنے کا ارادہ کیا۔

    دراصل موسیٰ ؑ ؑ کی جو لاثانی خصوصیات ہیں توریت شریف اور قرآن مجید اُنہیں صاف صاف بیان کرتے ہیں:

    ”اور اُس وقت سے اب تک بنی اسرائیل میں کوئی نبی موسیٰ کی مانند جس سے خداوند نے رُوبرو باتیں کیں نہیں اُٹھااور اُس کو خداوند نے ملک ِ مصر میں فرعون اور اُس کے سب خادموں اور اُس کے سارے ملک کے سامنے سب نشانوں اور عجیب کاموں کے دکھانے کو بھیجا تھا“
    (استثنا 10:34-11)۔

    ”اگر تم میں کوئی نبی ہو تو میَں خداوند ہوں اُسے رُو ئیا میں دکھائی دوں گا اور خواب میں اُس سے باتیں کروں گا۔پر میرا خادم موسیٰ ایسا نہیں ہے میَں اُس سے مُعموں میں نہیں بلکہ رُوبرو او رصریح طور پر باتیں کرتا ہوں …“(گنتی6:12-8)۔

    ”جیسے کوئی شخص اپنے دوست سے بات کرتا ہے ویسے ہی خداوند رُوبرو ہو کر موسیٰ سے باتیں کرتا تھا“۔(خروج 11:33)

    اِس طرح ہم اب اپنی فہرست میں مزید دو خوبیوں کا اضافہ کر سکتے ہیں:

  5. ۔ خدمت کا بنیادی نکتہ نمبر :درمیانی فرشتوں یا خوابوں کے ذریعے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ساتھ براہ ِ راست باتیں کرنا۔

    محمد ؐکے برعکس بلکہ ُرؤیاؤں یا درمیانی فرشتوں کے بجائے یسوع المسیح اور موسیٰ ؑدونوں باقاعدگی سے خدا تعالیٰ کی آواز کو براہ ِ راست سنتے تھے (گنتی6:12-8؛خر11:33)۔قرآن مجید اِس بات سے اتفاق کرتا ہے:سورۃ النسا ء 163:4-164 میں قرآن مجید فرماتا ہے کہ محمد ؐ او ر دیگر تمام انبیا محض الہام یافتہ تھے لیکن موسیٰ سے تو خدا تعالیٰ نے باتیں بھی کیں (براہ ِ راست) (تَکلیمَا)“۔موسیٰ ؑ فہرست میں الگ ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے اُس سے براہ ِ راست بات کی۔

    محمدؐ کو جبرائیل فرشتے کے ذریعے وحی ملتی تھی (سورۃ البقرہ97:2)۔ جبکہ حضرت یسوع المسیح کو خداتعالیٰ کے ساتھ براہ ِ راست،حتیٰ کہ رُوبرو باتیں کرنے والا بتایا گیا ہے۔پہاڑ کے اُوپر اُس کی صورت کے بدل جانے میں (متی 17،مرقس9،لوقا9)خدا تعالیٰ نے پہاڑ کی چوٹی پرحضرت یسوع المسیح سے براہ ِ راست بات کی،جیسے کہ اُس نے موسیٰ ؑسے بات کی تھی۔یہ ساری اناجیل میں واضح ہے کہ حضرت یسوع المسیح نے بِنا کسی فرشتے کے درمیانی ہوئے اللہ تعالیٰ کی آواز کو براہ ِ راست سنا۔

  6. خدمت کا بنیادی نکتہ نمبر : قدرت والے عجیب معجزاتی کام کئے۔

    قرآن مجید کے مطابق،حضرت یسوع المسیح نے بہت سے مافوق الفطرت معجزات کئے (سورۃ آل عمران49:3؛سورۃالنساء365:2)لیکن قرآن مجید کے مطابق محمدؐ کا واحد معجزہ قرآن مجید تھا (51:48:29)۔حضرت یسوع المسیح اور موسیٰ ؑ دونوں نے بے شمار قدرت والے معجزات کئے جو اُن کے صحائف میں اچھی طرح بیان کئے گئے ہیں۔

    اگر ہم مزید سطحی مماثلت کو دیکھنا چاہتے ہیں تو نائیک اور دیدات کی پیش کردہ مماثلتوں سے دُگنی تلاش کر سکتے ہیں:

  7. محمدؐکے برعکس، حضرت یسوع المسیح او رموسیٰ ؑدونوں اسرائیلی تھے۔
  8. محمد ؐ کے برعکس حضرت یسوع المسیح او رموسیٰ ؑدونوں غریب،غیر معروف خاندانوں میں پیدا ہوئے مگر محمد ؐ ایک نامی گرامی خاندان میں پیدا ہوئے۔
  9. حضرت یسوع المسیح او ر موسیٰ ؑدونوں نے اپنی ماؤں کے زیر سایہ پرورش پائی جب کہ محمدؐ نے صحرا میں ایک بدو دائی بنام حلیمہ سے پرورش پائی۔
  10. محمدؐ کے برعکس حضرت یسوع المسیح اور موسیٰ دونوں کو حکمران کے فرمان سے شیرخوارگی ہی میں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔
  11. محمد کے برعکس حضرت یسوع المسیح اور موسیٰ دونوں کو شیر خوارگی ہی میں الہٰی مداخلت کے ذریعے بچا لیا گیاتھا۔(خروج2: 2-10 ؛متی13:2)۔
  12. محمد ؐ کے برعکس حضرت یسوع المسیح اور موسیٰ ؑ دونوں نے مصر سے فلسطین کو سفر کیا جہاں اُنہوں نے اپنی خدمت مکمل کی۔
  13. محمد ؐ کے برعکس حضرت یسوع المسیح اور موسیٰ ؑدونوں نے ایک پہاڑ پر خدا کے ساتھ ”رُوبرو“ بات کی (خروج 11:33؛متی3:17) جس کے بعد اُن کے چہرے چمک گئے (خروج 29:34؛متی 2:17)۔
  14. محمد ؐ کے برعکس حضرت یسوع المسیح او رموسیٰ ؑ دونوں نے مافوق الفطرت طور پر پانیوں پر اختیار رکھا؛موسیٰ نے بحرِ قلزم کو دو ٹکڑے کیا اورحضرت یسوع المسیح نے طوفان کو تھمایا۔
  15. موسیٰ ؑ کی بیابان میں چالیس برس تک تیاری ہوئی جب کہ حضرت یسوع المسیح کی چالیس دن تک (اعمال 23:7کے ساتھ خروج7:7؛متی1:4)۔
  16. محمد ؐ کے برعکس حضرت یسوع المسیح اور موسیٰ ؑ دونوں نے ایسے واقعات کی نبوت کی جو پورے ہوئے (استثنا 15:18-22؛
    15:28-67:29؛متی24)
  17. دونوں کو صحائف میں ”وفادار خادم“ کہا گیا ہے (گنتی 7:12؛عبرانیوں 2:3-5)۔

نقاد:”لیکن استثنا کے اختتام میں پتا چلتا ہے کہ اسرائیل میں موسیٰ جیسا کوئی نبی نہیں اُٹھا،اِس لئے کوئی ایسا ہونا چاہئے جو اسرائیل سے باہر ہو“۔

پہلی بات یہ کہ یہ حوالہ صرف یہ بیان کر رہا ہے کہ اُس وقت تک اسرائیل میں موسیٰ ؑکی مانند کوئی نبی برپا نہیں ہوا تھا۔اگر یہ جملہ غیر واضح مستقبل کی طرف اشارہ کرتا تو ہم کچھ یوں پڑھتے،”اور اُس وقت سے بنی اسرائیل میں کوئی نبی موسیٰ کی مانند نہیں اُٹھے گا…“
اِس کی بجائے یہ کہتا ہے،”اُٹھا“،توریت کے زمانے میں جو ماضی تھا۔ یقینا،یہ حوالہ موسیٰ ؑاور محمد ؐ کے درمیان فرق کو واضح کرتا ہے جیسے کہ ہم نے پہلے کہا …وہ خداوند کو رُوبرو جانتا تھا اور اُس نے قدرت کے نشان اور عجیب کام دکھائے:

”اور اُس وقت سے اب تک بنی اسرائیل میں کوئی نبی موسیٰ کی مانند جس سے خداوند نے رُوبرو باتیں کیں نہیں اُٹھااور اُس کو خداوند نے ملک ِ مصر میں فرعون اور اُس کے سب خادموں اور اُس کے سارے ملک کے سامنے سب نشانوں اور عجیب کاموں کے دکھانے کو بھیجا تھا۔“
(استثنا 10:34-11)

صحائف کیا کہتے ہیں؟

خداوند تعالیٰ کا کلام،انجیل شریف خاص طور پر یہ کہتی ہے کہ استثنا 18 باب کی نبوت کا تعلق حضرت یسوع المسیح کے ساتھ ہے:

پطرس شاگرد تصدیق کرتا ہے:”ہمارے باپ دادا کے خدا نے اپنے خادم یسوع کو جلال دیا …جن کا ذکر خدا نے اپنے پاک نبیوں کی زبانی کیا ہے جو دنیا کے شروع سے ہوتے آئے ہیں۔چنانچہ موسیٰ نے کہا،’خداوند خدا تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے مجھ سا ایک نبی پیدا کرے گا …بلکہ سموئیل لے کر پچھلوں تک جتنے نبیوں نے کلام کیا اُن سب نے اِن دنوں کی خبر دی ہے۔“(اعما ل 21،13:3-24،22،عبرانیوں 1:3-3بھی دیکھئے)

یسوع نے کہا:”اگر تم موسیٰ کا یقین کرتے تو میرا بھی یقین کرتے اِس لئے کہ اُس نے میرے حق میں لکھا ہے۔“(یوحنا 46:5)

انجیل شریف خاص طور پر اِس استثنا ۸۱ باب کی نبوت کا حوالہ دیتی ہے اور بیان کرتی ہے کہ حضرت یسوع المسیح نے اِسے پورا کیا۔ قرآن مجیدصرف مشکوک انداز میں یہ الزام لگاتا ہے کہ پچھلے صحائف میں کہیں محمد ؐ کا ذکر کیا گیا ہے (157:7)۔قرآن مجید کہیں پر بھی وضاحت سے یہ نہیں کہتا کہ استثنا 18 باب محمد ؐ کی طرف اشارہ کرتا ہے جبکہ انجیل شریف واضح طور پر کہتی ہے کہ استثنا ۸۱ باب حضرت یسوع المسیح کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

  1. الاعراف 73،65:7 کے فرانسیسی ترجمے کے ذیلی نوٹ سے لیا گیا ہے؛Le Coran,Le Francais du Livre, 1959۔