چار ٹانگوں والے حشرات؟

احبار21:11-23 – ”ٹڈیوں کی حشرات کی چھ ٹانگیں ہوتی ہیں،نہ کہ چار۔“

یہ ایک سادہ سی غلط فہمی ہے جس کا تعلق ترجمہ سے ہے۔اوّل تو یہ کہ جتنے بھی ٹڈوں کا ذکر ہے اُن سب کی عام چار ٹانگیں ہیں جن کے ساتھ مختلف سی پیچھے کی طرف دو بڑی ٹانگیں ہوتی ہیں جوچھلانگیں لگانے کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ قدیم زمانے میں یہ ٹانگیں یقینا چلنے والی ٹانگوں کے طور پر شمار نہیں کی جاتی تھیں اور اِس طرح اُنہیں ”چار ٹانگوں“ والے جانداروں کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔مزید یہ کہ ”چار ٹانگوں پر چلنے“ کی اصطلاح ایک ایسا اظہار ہے جس میں چار یا زیادہ ٹانگوں والی کوئی بھی مخلوق شامل ہے،جیسے ہزار پا اورکنکھجورا۔

یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ ایک ”کیڑے“ کو کیسے چار ٹانگوں والا بیان کیا جا سکتا ہے جبکہ اِس کی تعریف چھ پاؤں والے کے طور پر ہوتی ہے۔اِس کا جواب سادہ ہے – عبرانی اصطلاح جس کا ترجمہ ’رینگنے والے جاندار‘کیا گیا ہے ” شِرتض“ہے جس کا محض مطلب ”چھوٹی پر دار رینگنے والی مخلوق،“ہے،بالکل اُسی طرح جیسے ہماری روزمرہ کی اصطلاح میں لفظ ’کیڑا‘ ہے۔”حشرہ“ کے لئے بطور چھ ٹانگوں والے کیڑے کی جدید درجہ بندی جدید تکنیکی انگریزی سے تعلق رکھتی ہے نہ کہ عبرانی روزمرہ کی اصطلاح سے۔

مادہ نُطفہ؟

احبار 2:12 – ”یہ اقتباس غلط کہتا ہے کہ عورت نُطفہ پیدا کرتی ہے۔“

نقادوں نے الزام لگایا ہے کہ ”حاملہ ہو“ کا عبرانی فقرہ جب اِس آیت میں عورت کے لئے استعمال ہوا ہے تو اِس کا اشارہ نُطفہ کی پیداوار کی طرف ہے۔سوال میں استعمال شدہ لفظ ” تَزریعا “ہے جس کا لغوی مطلب ”بیج بنانا“ ہے۔یہ بالکل درست ہے کیونکہ جب عورت کا جسم بچہ دانی میں انڈہ بناتا ہے تو یہ ”بیج“ہی ہے جیسے کہ مرد کانُطفہ ہوتا ہے۔اِس اقتباس کو غیر سائنسی سمجھنے کی بالکل کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ مردوں اور عورتوں دونوں میں ایک طرح کا ”بیج“ (تولیدی مادہ اور انڈہ)ہوتا ہے جو حمل میں اپنا اپنا کردار ادا کرتا ہے۔

کوئی بھی شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ کیوں قرآن میں یہ ذِکر آتا ہے کہ انسان ”اُچھلتے ہوئے پانی سے پیدا ہوا ہے جو پیٹھ اور سینے کے بیچ میں سے نکلتا ہے۔“یخرج من بین الصلب والترائب، سورۃ الطارق- 7:86)۔

تمام تسلیم شدہ تراجم اور تفاسیر اِس پریشان کرنے والے تجزیے سے متفق ہیں لیکن حمایتیوں نے جدید سائنس کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے کے لئے اِس آیت کے سات مختلف نئی وضاحتیں کی ہیں۔بے شک ہم اِس بات پر اتفاق کر سکتے ہیں کہ ہم صحائف کے پریشان کُن اقتباسات کو دلیری سے پر کھ نہیں سکتے۔

عورتوں کو حقیر سمجھنا؟

ا حبار 1:12-5 – ” یہاں دیا گیا ایک ایسی عورت کے لئے رسمی طہارت کا عرصہ جس کی لڑکی پیدا ہو،لڑکے کے عرصے سے دُگنا ہے۔یہ اقتباس عورت کی حقارت کرتا ہے۔“

لڑکیوں کے لئے گوشہ نشینی کے طویل عرصہ ہونے کی دوو جوہات ہیں۔اوّل یہ کہ بیٹوں کا آٹھویں دن ہیکل میں ختنہ کیا جاتا تھا،اِس لئے اُنہیں جلدی باہر جانے دیا جا تا تھا۔دوم یہ کہ قدیم ثقافتوں میں جہاں لڑکیوں کی وقعت نہیں ہوتی تھی،یہ قانون اُن پراُن کی ماؤں کے ذریعے بچیوں کی نشوونما کے لئے ایک اضافی طویل عرصہ لاگو کرتا تھا۔ جدید دَور میں بہت سی دائیاں ماں اور بچے کی صحت کے اِس عرصے کی اہمیت کی تصدیق کرتی ہیں۔

یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ سیاق و سباق واضح طور پر عورتوں کی کم تری کی بات نہیں کرتا۔بعد کی آیات (8-6)یہ بیان کرتی ہیں کہ لڑکے یا لڑکی کے لئے چڑھائی جانے والی قربانیاں یکساں تھیں جو اِس بات کی حمایت کرتی ہیں کہ تمام لڑکے یا لڑکیاں،اور اِس کے ساتھ ساتھ تمام مرد یا عورتیں عموماًخدا کی نظر میں برابر کا درجہ رکھتی ہیں۔

نقادوں کو یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ سنت میں لڑکیوں او رلڑکوں کے درمیان طہارت کی ایسی ہی امتیازی باتیں پائی جاتی ہیں:

”حضرت علی سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا:لڑکے کے پیشاب پر ضروری ہے کہ اُس پر پانی چھڑکا جائے۔لڑکی کے پیشاب کو دھونا چاہئے۔قتادہ فرماتے ہیں،’یہ ایسے لڑکے کی طرف اشارہ ہے جس نے ابھی کھانا شروع نہیں کیا۔اگر وہ پہلے ہی سے کھاتا ہے،تو پھر کپڑا دھویا جائے۔‘1

اگر یہ لڑکیوں کے خلاف غیر ضروری امتیاز نہیں ہے تو پھر احبار کے اقتباس میں بھی نہیں ہے۔

  1. This hadith is related by Ahmad, Abu Dawud, at-Tirmidhi and Ibn Majah.

کیا کتاب مقدس غیر سائنسی نہیں ہے؟”;?>

“کیا کتاب مقدس غیر سائنسی نہیں ہے؟”

کچھ مسلمان اور مسیحی اِس بات پر بحث کرنا پسند کرتے ہیں کہ کون سا کلام جدید سائنس پر پورا اُترتا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ جس نے فطرت کے قوانین اور ترتیب خلق کی،وہی خُدا تعالیٰ ہے جس نے کلام کو نازل کیا،سو اِن دونوں کے درمیان یکسانیت ہونی چاہئے۔ تاہم،کتاب مقدس او ر قرآن میں چند اقتباسات ایسے ملتے ہیں جن میں عدم استقامت نظر آسکتی ہے۔طنز یہ ہے کہ زیادہ تر سائنسی مسائل والے اقتباسات قرآن او رکتاب مقدس میں ملتے ہیں:

کتاب مقدس اور قرآن میں ملنے والے معجزات:

  1. نوح 950برس زندہ رہا
  2. حضرت عیسیٰ مسیح کی ایک کنواری سے پیدایش
  3. حضرت عیسیٰ مسیح کا مُردوں میں سے زندہ ہونا
  4. حضرت عیسیٰ مسیح کا اندھے کو شفا دینا

مخلص ایمان دار اِن مشکلات کا تنگ نظری سے انکار نہیں کرتے بلکہ اِس کے برعکس دانش مندی کی وضاحتیں تلاش کرتے ہیں اور ب ڑی عاجزی سے اِن پر غور کرتے ہیں۔اگر ہم دیانت دار ہیں تو ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ یہ پریشان کرنے والے سوالات ہیں۔

اِس سوال کا پورا جواب حاصل کرنے کے لئے اِس ویب سائٹ پر یہ مضمون دیکھئے، کیا سائنس صحائف کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے؟”

اوریاہ کی بیوی بت سبع کے خلاف داؤد نبی کا گناہ

2- سموئیل 12،11 – بائبل مُقدس کیسے کہہ سکتی ہے کہ داؤد نبی نے اوریاہ کی بیوی بت سبع کے خلاف زنا کیا اور پھر اُسے چھپایا؟

دلچسپ امر یہ ہے کہ اِس واقعہ کا کچھ حصہ قرآن میں بھی ہے (21:38-24، 30)، اور بہترین مسلمان مفسر ہمیں بتاتے ہیں کہ اِن قرآنی آیات کی درست تشریح داؤد کا اوریاہ کی بیوی کو ناروا طور پر لے لینا تھا۔ مثلاً ابن عباس سورہ 23:38-24، 26 کے بارے میں لکھتے ہیں:

(ایک دُنبی) یعنی ایک بیوی، (سو یہ کہتا ہے کہ وہ بھی مجھے دے دے اور بات چیت میں دباتا ہے) یہ ایک تشبیہ ہے جس کی وجہ یہ تھی کہ داؤد کو سمجھ آ جائے اُنہوں نے اوریاہ کے ساتھ کیا کیا تھا (تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس)۔ source)

اسلامی ذرائع سے مزید ثبوت کے لئے یہاں کلک کریں

گو کہ یہ واقعہ واضح طور پر ایک بھیانک گناہ تھا، خدا تعالیٰ نے داؤد کی توبہ کو ہم تک انتہائی خوبصورت بائبلی حوالہ جات پہنچانے کے لئے استعمال کیا جو حقیقی توبہ اور ندامت کا اظہار کرتے ہیں:

میر مغنی کے لئے داؤد کا مزمور۔ اُس کے بت سبع کے پاس جانے کے بعد جب ناتن نبی اُس کے پاس آیا۔

اے خدا!