کیا یعقوب اور پولُس ایک دوسرے سے تضاد رکھتے ہیں؟

“متی 9:9 -کیا متی نے متی کی انجیل لکھی؟”

نقادوں نے بحث کی ہے کہ چونکہ متی یہاں اپنی طرف واحد غائب کے طور پر اشارہ کرتا ہے اِس لئے وہ اِس انجیل کا مصنف نہیں ہو سکتا:

”یسوع نے وہاں سے آگے بڑھ کر متی نام ایک شخص کو محصول کی چوکی پر بیٹھے دیکھااور اُس سے کہا میرے پیچھے ہولے۔وہ اُٹھ کر اُس کے پیچھے ہو لیا۔“(متی 9:9)

یہ بہت کھوکھلی سی دلیل ہے۔جب کثیر سامعین و قارئین ایک وسیع سامع کے لئے تاریخی واقعات لکھنا ہو تو مصنفین کے نزدیک یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں کہ وہ اپنے لئے واحد غائب کا صیغہ استعمال کریں۔اِسی کمزور دلیل کی وجہ سے پھر قرآن بھی اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اِس میں اُس کی طرف مسلسل واحد غائب کے صیغہ میں اشارہ کیا گیا ہے:

هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ
”وہی خدا ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔“(سورۃ22:59)

اگر مقدس متی یا مقدس یوحنا کااپنے لئے صیغہ واحد غائب استعمال کرنا اُنہیں کتابوں کے مصنفین ہونے کا اہل قرار نہیں دیتا تو پھر یہی بات
قرآن کے بارے میں بھی کہنا چاہئے۔ 

ابتدائی تمام مسیحی اندراج اِس بات میں کوئی شک نہیں رکھتے کہ متی کی انجیل مقدس متی رسول ہی نے لکھی ہے۔اِس کے بر عکس کوئی بھی بیان نہیں ملتا۔انجیل شریف کے خلاف یہ بیان بالکل کھوکھلا ہے جو خالص اندازے پر مبنی ہے اور اِس کی منطق قرآن کو بھی کمتر کر دیتی ہے ۔

کلیسیا میں اندرونی کشمکش

"ابتدائی مسیحی کلیسیا کے اندر جھگڑے پھیلے ہوئے تھے اِس لئے ہم یہ نہیں جان سکتے کہ بالآخر کس کی انجیل شامل کی گئی۔"

اسلامی تاریخ کے مقابلے میں ابتدائی کلیسیا کہیں زیادہ متحد تھی۔حضرت محمد کی وفات کے بعد مسلم گروہوں کے درمیان مسلسل جنگیں ہوتی ر ہیں۔نبی کریم کی بیوہ حضرت عائشہ نے نبی کریم کی موت کے بعد25سال سے بھی کم عرصے میں حضرت علی سے لڑنے کے لئے ایک فوج تیار کی اور اُنہیں جنگ جمل میں شکست ہوئی۔۳۲ ہجری میں ایک فارسی غلا م فیروز نے خلیفہ حضرت عمر کو قتل کر دیا۔35ہجری میں ناخوش مسلمانوں نے حضرت عثمان کو قتل کر دیا۔خودحضرت علی کو40 ہجری میں ایک دوسرے مسلمان گروہوں نے قتل کر دیا۔61ہجری میں یزید کی قیادت میں مسلم فوجوں نے حضرت محمد کے خاندان کی مزاحمت کرنے والی نمائندہ مسلم فوجوں کو کُچل دیا۔اور بھی بہت سے دوسرے گروہوں کے خلاف جنگیں جاری رہیں جیسے کہ مُسیلمہ جس نے حضرت محمد کے نبی ہونے کو قبول کیا تھا لیکن اُس نے اپنے بھی نئے مکاشفات شامل کر لئے۔کہ مُسیلمہ کے ایک لاکھ مضبوط پیروکاروں نے 633ہجری میں الیمامہ کی جنگ میں حضرت محمد کی فوجوں کو تقریبا ً شکست دے دی تھی۔

مقابلتاًیسوع کے پیروکاروں کے ابتدائی گروہ نے کم از کم ڈھائی صدیوں تک ایک بھی جنگ یا ایک بھی مسلح جھگڑانہ کیا،اور نہ ہی رسولوں کے دَور میں اُن کے درمیان کسی قسم کے گھمبیر جھگڑ ے کا ذکر ملتا ہے۔ جیسے کہ تاریخی اِندارج وسیع پیمانے پر ظاہر کرتا ہے وہ ایک ہی انجیلی پیغام پر متفق تھے۔

کیسے یسوع کے پیروکار دُعا مانگتے تھے؟

یسوع کے حقیقی شاگرد دُعا کرنے والے لوگ تھے۔ یسوع نے اپنے شاگردوں کو کوئی رسمی نماز نہیں سکھائی، بلکہ اُس نے خدا کے ساتھ دُعا میں وقت کے طویل دورانیے گزارے۔ دُعا پر یسوع کی بنیادی تعلیم میں اِس بات پر زور دیا گیا ہے کہ دُعا دِل سے کی جانی چاہئے:

مسیحیت میں دُعا کیسے کی جاتی ہے؟ — سی۔ ایس۔ ، شام

میرے شامی دوست، آپ نے ایک اہم سوال پوچھا ہے۔ سب سے پہلے، میں کہنا چاہوں گا کہ میں نے ہمیشہ دُعا میں مسلمانو ں کی سپردگی کو سراہا ہے۔ سچے مسیحی بھی یقیناً دُعا کرنے والے لوگ ہیں۔

عیسیٰ مسیح کے بارے میں انجیل مُقدس جس ایک انتہائی اہم بات کاذکر کرتی ہے وہ اُن کی دعائیہ زندگی ہے۔ اُنہوں نے اکثر اللہ کے ساتھ دُعا کرنے میں طویل وقت گزارا۔ شاگردوں نے اِسے دیکھا۔ اُس کی مثال کی پیروی کرنے کے لئے ایک دن اُنہوں نے اُس سے کہا ”اے خداوند ہمیں دُعا کرنا سکھا۔“

عیسیٰ مسیح نے تب اُنہیں سچی دُعا کرنے کا ایک نمونہ دیا۔

آپ نے فرمایا ”پس تم اِس طرح دُعا کیا کرو کہ اے ہمارے باپ!…