صحائف کے لئے خالص زبان عربی ہے؟

”صحائف کے لئے خالص زبان عربی ہے۔“

چند لوگوں کے نزدیک،صحائف اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جو دُنیا کی تخلیق سے بھی پہلے کی ابدی کتاب کی نقل ہے۔یہی بطور جادوئی تعویذ،منتر
کے عربی میں قرآنی آیات کے استعمال کی بنیاد ہے،کیونکہ یہ یقین کیا جاتا ہے کہ یہ آیات اللہ تعالیٰ کی باتیں ہیں۔ اِس بات کی بنیاد پر موازنہ کیا جاتاہے جو کتاب مقدس کو بدنام کرتا ہے۔پھر بھی بڑی آسانی سے یہ نظر آتا ہے کہ قرآن کے بارے میں یہ نقطہء نظر احمقانہ اور نامعقول ہے۔

قرآن کی عربی مسلسل مرتب اور تبدیل ہونے والی زبان کی فوری تصویرپیش کرتی ہے(تاریخی زبانیں واضح طور پر یہی ثبوت دیتی ہیں کہ زبانیں مسلسل بدلتی ہیں،خاص طور پر زبانی ثقافتوں میں جیسے کہ اسلام سے پہلے کا عرب)۔اِس زبان کو اللہ تعالیٰ کی ابدی زبان سمجھنے کا نقطہء نظر اللہ تعالیٰ کو حقیر سمجھنا ہے (نعوذ بااللہ)؛یہ اُسے کم تر کر دیتا ہے۔اللہ تعالیٰ انسان کی مانند نہیں ہے کہ وہ چند عارضی انسانی زبانوں کے ذریعے اپنے خیالات کو الفاظ،زبان اور دانتوں سے بیان کرے،نعوذ بااللہ! خُدا تعالیٰ کی طرف سے دی گئی ہر ایک خبر ضروری ترجمہ ہے: خُدا تعالیٰ کے خیالات کامل او رافضل ہیں،جو انسانی زبانوں کے ناقابل ِ انکار محدود ذخیرہ الفاظ اور گنجائش کے ہوتے ہوئے معمولی بندشوں سے رُکتے نہیں۔کسی انسانی کو خُدا تعالیٰ سے منسوب کرنا خدا کو کم تر اورانسان کو مرکز ِ کائنات گرداننے کے برابر ہے۔فرض کریں کہ ایک ماہر حیوانات ناگزیر تباہی سے خبردارکرنے کے لئے بن مانسوں کی غُر غُر کی زبان سیکھے۔ ایک خاص انسانی لہجے کو خُدا تعالیٰ سے منسوب کرنا گویا یہ کہنے کے مترادف ہے کہ اِس ماہر حیوانات کی مادری زبان بن مانس کی غُر غُر جیسی زبان ہے؛یہ توہین آمیز اور شرم ناک ہے۔
قرآن خود کہتا ہے کہ اِسے عربی میں نازل کیا گیا تاکہ عرب سمجھ سکیں (سورۃ یوسف 2:12)۔

مزید یہ کہ ایسا خیال کسی ایک خاص ثقافت کی زبان کو بطور ”زیادہ الہامی“قرار دیتا ہے جو تاریخی اعتبار سے ایک خطرناک خیال ہے اور دوسری ثقافتوں اور زبانوں کو کمتر کرتاہے۔زبانوں کے لئے علماء اِس بات پر زور دیتے ہیں کہ مجموعی طور پر تمام زبانیں واضح طور پر انسانی تجربے کا پوری حد تک اظہار کرنے اور پیغام رسانی کی برابر کی اہلیت رکھتی ہیں۔اگر جبرائیل فرشتہ واقعی کہتا ہے،”الوینل؟ الربل؟“
حضرت عیسیٰ مسیح اور حضرت موسیٰ پریشان ہو گئے ہوں گے کیونکہ وہ عربی نہیں جانتے تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *