کیا کلیسیا کتاب مقدس کو سیاسی مقاصد کے لئے تبدیل نہیں کر سکتی تھی؟

"کیا کلیسیا کتاب مقدس کو سیاسی مقاصد کے لئے تبدیل نہیں کر سکتی تھی؟"

نقاد یہ الزام لگاتے ہیں کہ جب سے یورپی کلیسیا سیاسی قوت کی جدوجہد او رسیاسی مفادات کے ساتھ منسلک ہو ئی ہے،اِنہوں نے اپنی تعلیمات او رصحائف کی بنیاد سیاسی طور پر تحریک یافتہ مسائل پر رکھ دی ہے۔یہ یقینا درست ہے کہ سیاسی قوت مذہبی انتظام کو خراب کرتی ہے مگر یہ الزام سراسرکلیسیا کی تاریخ کی غلط فہمی پر مبنی ہے۔حضر ت یسوع المسیح کے بعد تین صدیوں تک (311عیسوی تک)مسیحیت ایک غیر قانونی مذہب تھا جس پر مشرکانہ سلطنت کی طرف سے پابندی عائد تھی۔یہ ایک زیر زمین ستایا ہوا نیٹ ورک تھا جس کی کوئی سیاسی طاقت نہ تھی۔311عیسوی میں رومی حکمران قسطنطین نے مسیحیت کو قانونی مذہب قرار دے دیا اور رفتہ رفتہ کلیسیا ایک سیاسی طاقت والی تنظیم بن گئی۔325عیسوی میں نقایہ کی کونسل کلیسیا میں سیاسی روابط کا شروعات سمجھی جاتی ہے۔

تب بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہمارے پاس نقایہ سے پہلے اور 311عیسوی کے سیاسی کلیسیا ئی دَور سے پہلے کے لاتعداد نسخوں کے ثبوت موجود ہیں کہ صحائف اور انجیل کا پیغام کلیسیائی سیاست سے پہلے بھی بالکل وہی صحائف اور انجیل شریف تھا جو آج ہمارے پاس ہے۔ مثلاً ہمارے پاس لوقا،یوحنا او ر200عیسوی صدی سے پولُس رسول کے دس خطوط پیائرس پر نقول کی صورت میں موجود ہیں اور ابتدائی افریقی کلیسیا کے رہنما طرطلیان نے اپنی ساری تحریروں میں (200عیسو ی سے)3,800مرتبہ اناجیل کا حوالہ دیا ہے۔

اِسی طرح 311عیسوی سے پہلے کی بے شمار فہرستوں کو بھی ہم جانتے ہیں جب اِس بات پر کوئی جھگڑا نہیں تھا کہ نئے عہد نامے میں کتنی اناجیل تھیں۔311عیسوی سے پہلے اور بعد میں ہر فہرست میں چار اناجیل شامل ہیں اوراِس کے علاوہ کوئی اَور نہیں ہے۔اِس لئے اِس بات کے بے شمار ثبوت موجود ہیں کہ کلیسیا کے سیاسی ہونے سے پہلے انجیل اور نیا عہد نامہ وہی تھا جو آج ہمارے پاس ہے۔ابتدائی ایذا رسانی کے دور میں یہ یقین کرنا احمقانہ بات ہے کہ ایمان داروں نے اپنی الہٰی رہنمائی کو تبدیل کرنے سے خود کو دھوکا دیا ہو گا جب کہ اُن کے عقائد کے بدلے دنیاوی فائدہ کچھ بھی نہیں تھا۔اُنہیں جو فائدہ مل سکتا تھا وہ خدا تعالیٰ کے کلام کی وفاداری سے پیروی کرنے پر موت کے بعد اُس کی طرف سے ابدی اَجر ملنے کی اُمید تھی۔

حضرت عیسیٰ مسیح کے ابتدائی شاگردوں کی جماعت مکمل طور پر اسلامی تاریخ کی پہلی دو صدیوں سے تضاد رکھتی ہے جب خلیفہ کے اعلیٰ ترین مذہبی اختیار نے بڑی سیاسی مملکت پر بھی حکمرانی کی۔اِس دور میں لڑی جانے والی زیادہ تر جنگیں مذہبی معاملات پر لڑی گئیں (جیسے کہ ردا(Ridda)کی جنگیں)۔اِس مرحلے پر "بہت سی" جھوٹی احادیث خاص سیاسی گروہ یا بادشاہ کی حمایت میں ارادتاً لکھی گئی تھیں۔ ۲؎ ایک وقت میں حضرت محمد کے قریب ترین رشتے داروں اور ساتھیوں نے اپنا اقتدار سیاسی مذہبی حکومت کے ہاتھوں کھو دیا، کہ جب حضرت محمد کے جائز خونی رشتے دار نے کربلا کے میدان میں غیرمذہبی خلیفہ یزید کے خلاف جنگ ہار دی،یا جب حضرت عثمان ؓ کے سرکاری قرآن مجید نے اورابنِ مسعود اور أ بی ابن ِ کعب جنہیں حضرت محمد نے بہترین قاری قرار دیا تھا ۴؎ اور جنہوں نے حضرت عثمان ؓ کی قرآن کی جلد کی مخالفت کی تھی،کے قرآن کو ختم کر ڈالا۔ ۵؎ ابن ِ مسعودکا قرآن مجید حضرت عثمان ؓ نے زبردستی لے لیا اور حضرت عثمان ؓ نے اپنے ایک خادم سے کہا کہ وہ ابن ِ مسعود کو اُس کی پسلیاں توڑتے ہوئے مسجد سے باہر نکال دے۔ ۶؎ ہم یہ الزام نہیں لگاتے کہ قر آن کو خاص طور پر تبدیل کیا گیا تھا۔بلکہ یہ اُس موازنہ کو پیش کرتی ہے جو ابتدائی مسیحیت میں سیاسی اثرات کی معاون عدم موجودگی وضاحت سے بیان کرتی ہے۔ عیسیٰ مسیح کے شاگردوں کے پاس پہلی تین صدیوں میں کوئی طاقتور سیاسی قائدین نہیں تھے جو نقایہ کی کونسل سے پہلے اپنے نظریات دوسروں تک زبردستی یا دباؤ دے کر پہنچاتے۔دراصل اِس عرصے کے دوران ایمان داروں کی بنیادی توقعات حد درجہ تک بڑھتا ہوا تشدد اور ظلم وستم تھا۔


  • For example the canon of Origen (A.D.185–254), Irenaeus, c. 160, and the Muratorian fragment of A.D.170.
  • Prof. Ali Haydar Choudhuri, Hadise Rasul (Jhinuk Pustika: Dhaka 1975) p.47.
  • Uthmān “ordered that all other Qur’ānic materials, whether written in fragmentary manuscripts or whole copies, be burnt.” Sahih Al-Bukhari, Vol. 6, p.479.
  • Sahih Al-Bukhari, Vol. 5, p.96.
  • Abdullah Ibn Masood said if Uthmān’s decree, “Ya ahl al-Araaq, Aktumu al-Masahif al-lati indakum waghulquha, O people of Iraq, hide your Qur’āns and shut them up under lock and key.” (Ibn al-Athir, Kamil, Vol. III, 86-87, as cited by Khurshid, Hazrat Usman ke Surkari Khatoot.
  • Khurshid Ahmad Khurshid, Hazrat Usman ke Surkari Khatoot, p.106.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *