جعلی اناجیل

”ایسی بہت سے ابتدائی اناجیل اور خطوط تھے جو نئے عہد نامے میں شامل نہیں کئے گئے کیونکہ وہ حضرت عیسیٰ المسیح کے متعلق ایک مختلف کہانی بیان کرتے تھے جیسے کہ تھامس کی انجیل،ایبیونائٹ کی انجیل،عبرانیوں کی انجیل اورمصریوں کی کاپٹک انجیل۔

چند ایسی اناجیل بھی ہیں جو متی،مرقس،لوقا او ریوحنا کے بعد مرتب ہوئیں مگر ابتدائی مسیحی جماعت نے اُنہیں رد کر دیا۔ابتدائی کلیسیا نے یہ
جعلی اناجیل رد کردیں،بالکل اُنہی وجوہات کی بنِا پر جن پر آج کوئی بھی مسلمان کرے گا:

یہ اناجیل تقریباً اُس مذہبی تحریک نے لکھی تھیں جنہیں غناسطیت کہا جاتا تھااور جس کی مخالفت ابتدائی رسولوں نے بھی کی تھی۔غناسطیت
مسیحیت سے پہلے بھی موجود تھی اور بے شک یہ ایک الگ تحریک تھی اگر چہ اُنہوں نے حضرت عیسیٰ کو غناسطیت کے ایک اُستاد کے طور پر
دوبارہ اختراع دینے کی کوشش کی۔بنیادی طور پر غناسطیت کی یہ تعلیم ہے کہ خدا نے دنیا کو خلق نہیں کیا مگر ایک نامکمل بدی نے دنیا کو خلق کیا ہے۔وہ ثنویت تعلیم رکھتے تھے،مطلب ہے کہ وہ یہ یقین رکھتے تھے کہ ساری طبعی دنیا بدی ہے۔وہ یہ تعلیم دیتے تھے کہ حضرت عیسیٰ کا کوئی جسمانی رُوپ نہیں تھا جس کی وجہ سے اُن میں سے چند نے یہ فیصلہ کیا کہ پھر حضرت عیسیٰ کی طبعی موت بھی نہیں ہو سکتی تھی۔وہ عبادت گزار تھے اور اکثر سبزیاں کھایا کرتے تھے اورکچھ جنسی طریقے سے عبادت کیا کرتے تھے۔پولُس رسول کے اعمال،تھامس کی انجیل اور مصریوں کی انجیل جیسے کتابوں کی یہ تعلیم تھی کہ شادی کے باوجود جنسی تعلقات ایک غلط بات تھی۔وہ اِس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ نجات ایمان یا راست بازی سے حاصل نہیں ہو سکتی بلکہ ایک خاص خفیہ علم کے ذریعے حاصل ہو سکتی تھی جیسے کہ آج کل چند ہندو گروہوں میں بھی یہی تعلیم پائی جاتی ہے۔رسولوں کے خلاف اپنے خیالات کی حمایت کے لئے،وہ حضرت عیسیٰ کی بہت سے واقعات کو دوبارہ گھڑ لیتے تھے۔مثلا ً یہوداہ کی انجیل یہ تعلیم دیتی ہے کہ حضرت عیسیٰ نے یہوداہ سے کہا کہ وہ اُسے دھوکا دے کر صلیب دلوائے جس سے اُس کی روح اِس انسانی جسم کی قید سے رہائی پا سکتی تھی۔یہ خیالات تھامس کی انجیل،مریم کی انجیل،یہوداہ کی انجیل اورمصریوں کی کاپٹک انجیل میں بھی سرایت کر گئے ہیں۔

ماسوائے عبرانیوں کی انجیل کے کیونکہ اُس میں غناسطی تعلیم موجود نہ تھی۔علما یقین رکھتے ہیں کہ یہ متی کی انجیل کی بعد کی تزئین و آرائش ہے
جو بڑے محتاط انداز میں وضاحتیں دیتی ہے جیسے کہ دعائے ربانی میں ”روز کی روٹی“ کی جگہ ”کل کی روٹی“ کو بدل دینا۔تزئین و آرائش عموماً
اِس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ متن اصلی نہیں ہے کیونکہ یہ ویسا نہیں ہے جیسے کہ بعد کا ترجمہ متن کو زیادہ غیر واضح بنا دے گا۔چوتھی صدی کا
کتاب مقدس کے عالم جیروم نے اِس متن میں بہت دلچسپی لی جسے وہ محض متی کی انجیل کا عبرانی ترجمہ سمجھتا تھا۔وہ لکھتا ہے:

”وہ انجیل جو ناضرین اور ا یبیونائٹس استعمال کرتے ہیں جسے ہم نے حال ہی میں عبرانی سے یونانی میں ترجمہ کیا ہے اور جسے زیادہ تر لوگ
مُستند متی کی انجیل سمجھتے ہیں …“

جیروم کے مطابق اِس میں متی کی انجیل سے متن میں صرف چند معمولی اختلافات تھے۔اِس متن میں سے چند اختلافات میں سے ایک بدعتی ہے،کیونکہ یہ روح القدس کو حضر ت عیسیٰ کی ماں سمجھتا ہے(خدا معاف کرے!)۔جیروم او راپیفینیس جیسی قدیم بااختیار ہستیوں کے مطابق
ایبیونائٹ کی انجیل اِس انجیل کا ایک دوسرا نام ہے۔

تھامس کی انجیل،یہوداہ کی انجیل اورمصریوں کی قبطی انجیل جیسی کُتب پہلی صدی میں نہیں لکھی گئیں (جیسے کہ متی،مرقس،لوقا او ریوحنا)،
بلکہ بعد کی صدیوں میں مرتب ہوئیں۔وہ غناسطی تعلیمات جو اُن اناجیل میں سرایت کرگئیں وہ اُس یہودی دنیا کے تناظر کو پیش نہیں کرتیں جو عیسیٰ مسیح کا ہوتا ہو گا بلکہ ایک یونانی دنیاوی تناظر ہے جو دوسری صدی میں پروان چڑھا۔

ظاہر ہے ہماری نسبت ابتدائی مسیحی جماعت اِس بات سے زیادہ آگاہ تھی کہ کون سی کتابیں مستند ہیں اور کون سی نہیں ہیں۔یہ تمام کتب
”دینی کُتب کی مُسلّمہ فہرست“ میں سے خارج کر دی گئیں،علم ِ الہٰی کی وجوہات کی بنا پر نہیں بلکہ اِس لئے کہ وہ رسولوں کی جماعت نے نہیں لکھی تھیں۔کلیسیا نے اِس بات کا انتخاب نہیں کیا کہ دینی کُتب کی مُسلّمہ فہرست میں کیا کیا چاہئے تھا بلکہ اُنہوں نے اپنے آپ میں یہ اختیار پایا کہ وہ صرف اُسی کو حاصل کریں اور تسلیم کریں جنہیں رسولوں اور اُن کے نزدیکی ساتھیوں کے ہاتھوں خدا نے اُن کتب میں دیا تھا۔ 1 پطرس کا الہام فہرست کا حصہ نہیں ہے کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ یہ پطرس نے نہیں لکھا تھا او رنہ ہی یہ رسولوں کے دورِحیات کے دوران لکھا گیا۔یہ ایسدرس 4کے باب نمبر 3کے استعمال سے پتا چلتا ہے جو تقریباً 100 عیسوی کے لگ بھگ لکھا گیا۔یہی وجہ ہے کہ 240 عیسوی میں فلستین کے اور غین Origen نے اِسے بطور جعلی ہونے کے رد کر دیا تھا۔دینی کُتب کی مُسلّمہ فہرست پر ایک ہی بات پر جھگڑا تھا اور وہ تھا حاشیہ کی کتب جیسے کہ مکاشفہ،2 – پطرس،کلیمنٹ،ہر مس کا چرواہا،جن کے شامل کرنے یا خارج کرنے سے کلیسیا کی بنیادی تعلیم اور انجیل کے پیغام پر کوئی اثرنہ پڑتا۔

اِن دو حقائق کی روشنی میں، ذاکر نائیک جیسے نقادوں کے لئے اِن اناجیل کی موجودگی بطور چند خیالی اناجیل کے ثبوت کے طور پر گمراہ کُن ہے جو اُس کے وہابی خیالات کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں۔

  1. See Irenaeus, Against Heresies 3.preface; 3.1.1-2; as quoted in “The Canon of Scripture” ESV Study Bible, (Crossway, Wheaton, 2008) p.2580.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *