یوحنا 16:14کا ”پیراکلیتاس“

”اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو گے۔اور میَں باپ سے درخواست کروں گا تووہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک
تمہارے ساتھ رہے۔یعنی رُوح ِ حق جسے دنیا حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ نہ اُسے دیکھتی او رنہ جانتی ہے۔تم اُسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تمہارے اندر ہو گا۔میَں تمہیں یتیم نہیں چھوڑوں گا۔ میَں تمہارے پاس آؤں گا۔“(یوحنا 15:14-18)

”میَں نے یہ باتیں تمہارے ساتھ رہ کر تم سے کہیں۔لیکن مددگار یعنی رُوح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا او رجو کچھ میَں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلائے گا۔“(یوحنا 25:14-26)

”لیکن جب وہ مددگار آئے گا جس کو میَں تمہارے پاس باپ کی طر ف سے بھیجوں گا یعنی رُوح ِ حق جو باپ سے صادر ہوتا ہے تو وہ میری گواہی دے گا۔اور تم بھی گواہ ہو کیونکہ شروع سے میرے ساتھ ہو۔“(یوحنا 26:15-27)

عجیب بات ہے کہ چند لوگ اِن حوالوں کو حضرت محمد ؐ کے آنے کے بارے میں پیشین گوئیوں کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ذاکر نائیکجیسے
مبلغین یہاں بیان شدہ ”مددگار“ کو حضرت محمد ؐ تصور کرتے ہیں۔آئیے! یہاں نبوت شدہ مددگار کی خصوصیات کی ایک فہرست مرتب کرتے ہیں اور پھر ہر ایک کا جائزہ لیتے ہیں:

1. ” دوسرا مددگار “ (25،15:14؛26:15)

2. ابد تک تمہارے(شاگردوں کے) ساتھ رہے گا (آیت16)

3. رُوح ِ حق(17:14؛26:15)

4. دنیا اُسینہیں دیکھتی؛ناقابلِ دیدہے (17:14)

5. دنیا نہیں جانتی مگر حضرت یسوع المسیح کے پیروکار اُسے جانتے ہیں (17:14)

6. وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تمہارے اندر ہو گا(17:14)

7. وہ رُوح القدس ہے (25:14)

8. جسے یسوع نے بھیجا(26:15)

ْدوسرا مددگار : یہاں استعمال ہونے والا یونانی لفظ”پیراکلیتو“(paraKleto)ہے جس کا ترجمہ،’مشیر‘،تسلی دینے والا‘،’مددگار‘یا’وکیل‘ہو سکتا ہے۔وہ لوگ جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ حضرت محمد ؐ میں پورا ہوتا ہے،کہتے ہیں کہ حضرت محمد ؐ ”مددگار‘‘تھا۔کچھ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ یہاں استعمال ہونے والا اصلی لفظ”پیریکلوتاس“(periklutos)ہے جس کا مطلب ہے ’جس کی حمد کی گئی ہو،‘جس کا عربی زبان میں ترجمہ ’احمد‘ ہو سکتا ہے(وہ نام جو حضرت محمد ؐ نے اختیار کیا)۔ایسے ہزاروں یونانی نسخے جو
حضرت محمدؐسے بھی پہلے کے ہیں اُن میں سے ایک میں بھی یہ اِملا نہیں ہے۔مزید برآں اِس طرح آیت کا ترجمہ کچھ یوں ہو تا،”…وہ تمہیں ایک دوسرا(آلوس)احمد دے گا جو ابد تک تمہارے ساتھ رہے گا۔“ایک اَور احمد؟پہلا احمد کون تھا؟ مقابلتاً ’دوسرامددگار‘ اِس بات کی اچھی وضاحت ہے کہ کس طرح حضرت یسوع المسیح کے آسمان پر چلے جانے کے بعد رُوح القدس ایمان داروں کی راہنمائی کرتا اور اُنہیں قائل کرتا ہے۔

ابد تک : یہ حضرت محمدؐ اپنے پیروکاروں کے ساتھ ابد تک نہیں رہے،جبکہ رُوح القدس کے تعلق سے یہ بات یقینا سچ ہے۔

رُوح ِ حق : ایک مرتبہ پھر محمدؐ کو ’رُوح‘ کہنا انتہائی مشکل ہے لیکن رُوح القدس تعریف کے لحاظ سے ایک رُوح ہے۔

دنیا اُسے نہیں دیکھتی : حضرت محمد ؐ دکھائی دیتے تھے،مگر رُوح القدس یقینا نادیدنی ہے اِسی لئے دنیا اِسے قبول نہیں کرتی۔

دنیا نہیں جانتی مگر حضرت یسوع المسیح کے پیروکار اُسے جانتے ہیں : حضرت یسوع المسیح کے بارہ شاگردوں نے کبھی بھی حضرت محمدؐ کو نہیں دیکھا تھا لیکن حضرت یسوع المسیح کی پیشین گوئی کے چند ہی ہفتوں بعد اُنہوں نے ڈرامائی انداز میں رُوح القدس حاصل کیا جیسا کہ اعمال 2 باب میں درج ہے اور جس کے ہزاروں لوگ گواہ تھے۔

تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تمہارے اندر ہو گا : تصور کو وسیع کرتے ہوئے بھی کسی طرح محمد ؐ کو ایمان دارکے اندر رہنے والا سمجھا نہیں جا سکتا جو کہ رُوح القدس پر انجیل شریف کی حقیقی تعلیم ہے۔

رُوح القدس : کوئی بھی شخص یہ بحث کر سکتا ہے کہ محمد ؐ ہی ”رُوح القدس“ ہے مگر یہ قرآن کی تعلیمات کے برعکس ہو گا۔

جسے حضرت یسوع المسیح نے بھیجا : کسی بھی طرح ثابت نہیں ہوتا کہ محمد ؐ کو حضرت یسوع المسیح نے بھیجا مگر جو کچھ یسوع نے رُوح القدس کے بارے میں کہا تھایہ اُس کے مطا بق ہے۔

وہ لوگ جو حضرت محمد ؐ کے اِن آیات میں مذکور ہونے پر زور دیتے ہیں،اُن کے نزدیک یہ نبوت رُوح القدس پر کسی طرح بھی پوری نہیں اُترتی،کیونکہ:

1۔ رُوح القدس پہلے ہی سے یسوع المسیح کے بپتسمہ کے وقت آ چکا تھا۔یہ پہلا اعتراض ہر اُس شخص کو حیران کرتا ہے جس نے درحقیقت نیا عہد نامہ پڑھ رکھا ہے۔کیونکہ رُوح القدس پہلے ہی سے اپنا آپ کئی موقعوں پر ظاہر کرچکا تھا۔ حضرت یسوع المسیح کی موت کے بعد پینتیکوست کے موقع پر وہ صرف حیرت انگیز طریقے سے ایمان داروں میں بسنا شروع ہوا۔

2۔ اِسم ِ ضمیر’وہ‘ پیش گوئی کئے گئے تسلی دینے والے کے لئے استعمال ہوا ہے جو ایک انسان (محمد ؐ)پر تو پورا اُترتا ہے مگر غیر شخصی
رُوح کے لئے نہیں ہے
۔یہ دلیل یونانی قواعدزبان کو غلط پیش کرتی ہے۔یونانی میں جرمن زبان کی طرح اسمِ ضمیر کی جنس ہر لفظ کی خاص جنس پر مبنی ہوتی ہے نہ کہ اُس پر جس کی طرف لفظ اشارہ کر تا ہے۔مثلا ً جرمن میں ’عورت‘ کے لئے بے صنف الفاظ ”وِ ائب“(weib)اور ”فر ئیلائن“(fraeulein) استعمال ہوتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں چونکہ اِسم صفت پیراکلیتاس مذکر ہے تو اِس کے لئے بے جنس ”یہ“ استعمال کرنا قواعد کے خلاف ہو گا۔مزید یہ کہ مندرجہ بالا یونانی پیشین گوئیوں میں ”وہ“ اور ”یہ“ کے دونوں اسمائے جنس (مثلاً 16:14 میں ”To“)استعمال ہوئے ہیں، اِس لئے ایک شخص اِس بات پر زور دے سکتا ہے کہ جس کی پیشین گوئی کی گئی ہے وہ مذکر ”وہ“ نہیں ہو سکتا!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *