سورۃ البقرۃ 79:2

”سورۃ البقرۃ79:2واضح طور پر کہتی ہے کہ یہودیوں او رمسیحیوں نے اپنے صحائف دوبارہ لکھے۔“

قرآن میں ایک آیت (79:2)شامل ہے جو متن کے حوالے سے بگاڑ کو ظاہر کرتی دکھائی دیتی ہے اور وہ لوگ اِس کا زیادہ استعمال
کرتے ہیں جو پچھلے صحائف کی مخالفت کرتے ہیں::

”(مومنو)کیا تم اُمید رکھتے ہو کہ یہ لوگ تمہارے (دین کے)قائل ہو جائیں گے (حالانکہ)اُن میں سے کچھ لوگ کلام ِخدا (یعنی تورات)کو سنتے پھر اُس کے سمجھ لینے کے بعد اُس کوجان بوجھ کر بدل دیتے رہے ہیں … اور بعض اُن میں اَن پڑھ ہیں کہ اپنے خیالات ِ باطل کے سوا (خدا کی)کتاب سے واقف ہی نہیں او روہ صرف ظن سے کام لیتے ہیں،تو اُن لوگوں پر افسوس ہے جو اپنے ہاتھ سے تو کتاب
لکھتے ہیں اورکہتے یہ ہیں کہ یہ خدا کے پاس سے (آئی)ہے تاکہ اِس کے عوض تھوڑی سی قیمت (یعنی دنیوی منفعت)حاصل کریں۔اُن پر
افسوس ہے اِس لئے کہ (بے اصل باتیں)اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور (پھر)اُن پر افسوس ہے اِس لئے کہ ایسے کام کرتے ہیں۔
(سورۃ 75:2, 78-79)

75 ویں آیت سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ جو ’کلام‘ زیر بحث ہے وہ قرآن ہے (نہ کہ پچھلے صحائف)جسے یہودیوں نے غلط پیش کیا۔
یہ اقتباس مدینہ منورہ کے یہودیوں کوحضوراکرم ؐ کے الفاظ کو لینے اوراُنہیں اپنے فائدے کے لئے تبدیل کرنے پر ملامت کرتا ہے۔

آیات 78-79کہتی ہیں کہ چند ”اَن پڑھ“لوگ جو یہودیوں کے درمیان رہتے تھے اُنہوں نے جھوٹے صحائف ”لکھے“اور اُنہیں منافع کی خاطر بیچا۔پہلی جھلک میں،یہ براہ ِ راست تضاد دکھائی دیتا ہے،کیونکہ اَن پڑھ کا مطلب ہے،جو لکھنے پڑھنے کے قابل نہ ہو!لیکن ”اَن پڑھ“ کا لفظ ”اُمِیُّوّن“ ہے جس کا ترجمہ ابن عباس اوردیگر با اختیار لوگوں کے نزدیک غیر قوم (غیر یہودی،بت پرست)بھی ہوسکتاہے۔
جو اُن بت پرست عربوں کے لحاظ سے ہو گا جو نہ تو یہودی تھے اور نہ ہی مسیحی۔چو نکہ یہ جھوٹے صحائف لکھنے والے واضح طور پر پڑھے لکھے تھے اِس لئے ہمیں یہ فرض کرنا چاہئے کہ ا ُمِیُّوّن کا مطلب ہے کہ صحائف کی تبدیلی کرنے والے یہ لوگ غیر قوموں میں سے تھے نہ کہ یہودیوں میں سے۔

یہ بات مناسب لگتی ہے کیونکہ ایسے بے شمار عربی شاعر تھے جنہوں نے ذاتی فائدے کے لئے جھوٹے ”مکاشفات“ لکھے۔خود حضوراکرم کے زمانے میں ایک عربی شاعر جس کا نام نذر ابن حارث تھا (وفات،624عیسوی)حضور اکرم کی محفلوں کا ترجمہ و تشریح کرتا اوربالکل قرآن کے لب و لہجے میں کہانیاں کہتا جو اُس نے غیر عربی لوگوں سے سن رکھی تھیں،جس کا مقصدحضور اکرم سے بہتر کام کرنا تھا۔مسیلمہ حضور اکرم کے زمانے میں ایک اَور عربی تھا جس نے اپنے بارے میں نبی او راللہ کا پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا اور قرآن کی طرح کی آیا ت لکھیں جسے اُس نے مکاشفات کے طور پر پیش کیا۔یمامہ کی مشہور مسلم جنگ اُس کے پیروکاروں کے خلاف لڑی گئی۔امام رازی کے مطابق،مسیلمہ سورۃ 93:6کا موضوع ہے۔
”اُس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو خدا پر جھوٹ افترا کرے یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی آئی ہے حالانکہ اُس پر کچھ بھی وحی نہ آئی ہو“
(سورۃ الانعام93:6)

نبی ہونے کا ایک ایسا ہی دعویٰ اصنعا میں رہنے والے ایک اَو رعربی نے بھی کیا جس کا نام العنسی تھا،جس کے پیروکار یہ ٹھوس یقین رکھتے تھے کہ اُس پر وحی نازل ہوئی تھی۔
ہم دوسرے کئی لوگوں جیسے کہ مانی،مزدک،المقنع او ربہاء اُللہ کی تاریخ سے یہ جانتے ہیں،جو تمام مشرق ِوسطیٰ کے غیر یہودی لوگ تھے جنہوں نے یہ کہتے ہوئے اپنے جھوٹے کلام لکھے کہ وہ اُنہیں اُسی خدا سے ملے ہیں۔فطری طور پر یہودی او رمسیحیوں نے وہ تمام صحائف ردّ کر دئیے کیونکہ اُن کے پاس اصلی صحائف موجود تھے۔

نبی ہونے کا ایک ایسا ہی دعویٰ اصنعا میں رہنے والے ایک اَو رعربی نے بھی کیا جس کا نام العنسی تھا،جس کے پیروکار یہ ٹھوس یقین رکھتے تھے کہ اُس پر وحی نازل ہوئی تھی۔
ہم دوسرے کئی لوگوں جیسے کہ مانی،مزدک،المقنع او ربہاء اُللہ کی تاریخ سے یہ جانتے ہیں،جو تمام مشرق ِوسطیٰ کے غیر یہودی لوگ تھے جنہوں نے یہ کہتے ہوئے اپنے جھوٹے کلام لکھے کہ وہ اُنہیں اُسی خدا سے ملے ہیں۔فطری طور پر یہودی او رمسیحیوں نے وہ تمام صحائف ردّ کر دئیے کیونکہ اُن کے پاس اصلی صحائف موجود تھے۔

اگر ہم اِس آیت کو یہودیوں کی اپنی توریت شریف(مسیحیوں کی انجیل شریف نہیں) کو بگاڑنے کے طور پر بیان کریں،تو ابتدائی علماء جیسے کہ طبری بھی اِس کی تشریح اِس طرح نہیں کرتے کہ اِس کا مطلب متن کو تبدیل کرنا ہے۔قرآن کے عالم سعید عبداللہ سورۃ البقرۃ 79:2کی طبری کی تشریح یوں بیان کرتے ہیں:

جس قسم کا بگاڑ طبری اِس مثال میں بطور اشارہ دیکھتے ہیں وہ چند خاص تشریحات کو لکھنا اور اُنہیں اللہ تعالیٰ سے منسوب کر دینا ہے نہ کہ لکھے ہوئے متن (خدا کا کلام)کو تبدیل کرنا ہے۔2

یہ ابنِ خازم (وفات. 1064عیسوی)کے زمانے تک نہیں تھا کہ مسلمانوں نے مسیحیوں او ریہودیوں پراپنی کتاب مقدس میں ناقابل ِ واپسی بگاڑجو متن میں تبدیلی ہے،اُس کا الزام لگانا شروع کیا۔ایسا جو حضر ت محمدکے صدیوں بعد ہوا اور ابن عباس جیسے صاحبان اختیار سے تضاد رکھتا ہے۔

یہ دعویٰ محض مضحکہ خیز ہے کہ خد اترس مسیحیوں او ریہودیوں نے اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہوئے اپنی مقدس کُتب کو تبدیل کرنے کی اجاز ت دی۔یہودیوں او رمسیحیوں کو حضوراکرم کی یہ نصیحت نہیں تھی کہ وہ اپنے صحائف کو مسترد کریں اور قرآن کی پیروی کریں بلکہ اِس کی بجائے یہ تھی کہ اپنے صحائف کے مطابق حکم دیں (سورۃ المائدۃ 47:5)۔ ذاکر نائیک جیسے نقاد جھوٹے طریقے سے مسیحیوں پر اپنے صحائف کی تبدیلی کا الزام لگانے کے لئے اِس آیت کا استعمال کرتے ہیں،جب کہ یہ اقتباس نہ تو مسیحیوں اور نہ ہی انجیل شریف کی بات کر رہا ہے بلکہ ایسے کینہ پرور یہودیوں کی بات کر رہا ہے جو حضور اکرم کی باتوں کا تمسخر اُڑاتے ہیں اور غیر اقوام کے وہ جھوٹے نبی جو اپنا کلام خود لکھتے ہیں۔

  1. The account of Nadr Ibn Harith is found in Ibn Ishaq’s Sirat Rasulullah.
  2. Saeed Abdullah, The Charge of Distortion of the Jewish and Christian Scriptures, The Muslim World, Vol. 92, Fall 2002, p.426

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *