کیا کتاب مقدس محض زیادہ تر درست ہے؟

” کتاب مُقدس زیادہ تر درست ہے، صرف کچھ آیات ایسی تھی جن کا اضافہ کیا گیا یا جو نکالی گئیں جنہوں نے اِس کے پیغام کو بگاڑ دیا۔”

چونکہ کتاب مُقدس کی مجموعی صحت سے متعلق بہت زیادہ ثبوت موجود ہے، اِس لئے بہت سے متشکک الزام لگاتے ہیں کہ مجموعی طور پر بائبل قابل اعتبار ہے لیکن کچھ آیات کا اضافہ کیا گیا تھا یا اُنہیں بدل دیا گیا جس سے اِس کا پیغام بگڑ گیا۔ مثلاً کئی مسلمان دعویٰ کرتے ہیں کہ یسوع کی موت اور جی اُٹھنا اور صرف یسوع میں ایمان سے نجات کی تعلیم “معمولی اضافے” تھے جو بعد ازاں شامل کئے گئے۔ اِن نام نہاد “اضافوں” والی تعلیم (جسے مسیحی انجیلی پیغام کے طور پر جانتے ہیں) کا خلاصہ یوں پیش کیا جا سکتا ہے:

انسانیت فقط شریعت کی تعمیل کرنے سے نجات نہیں پا سکتی کیونکہ لوگ اِس کی مکمل طور پر تعمیل نہیں کر سکتے ہیں، لیکن خدا نے اپنے فضل میں نجات کے لئے ایک ذریعہ مہیا کیا، یعنی لاثانی بے گناہ “مسح شدہ نجات دہندہ” یسوع کو بھیجا گیا جس نے صلیب پر ہمارے گناہوں کو سزا کو اپنے اوپر اُٹھا لیااور کفارہ دیا اور یوں خدا سے انسانوں کا میل ملاپ ہو گیا۔نجات کی یہ بخشش جس کے ہم مستحق نہیں، مذہبی وابستگی یا عقیدہ سے ممکن نہیں بلکہ توبہ کرنے اور یسوع کے ایک شاگرد بن جانے سے حاصل ہوتی ہے۔

اِن نقادوں کے مطابق، مندرجہ بالا عقیدہ کا لازماً بعد میں اضافہ کیا گیا ہے کیونکہ یہ ا ُن کے اپنے مذہبی نظریات سے میل نہیں کھاتا۔ اِن نقادوں کے مطابق وہ تمام آیات جن میں غلط سمجھے گئے “بیٹا” اور “خداوند” کے القاب استعمال کئے گئے ہیں بعد کے اضافے ہیں۔

ہر وہ فرد جس نے حقیقت میں پورے نئے عہدنامہ کا مطالعہ کیا ہے، اُس کے نزدیک یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے کیونکہ یہ پیغام واضح طور پر بار بار نئے عہدنامہ کی تمام ستائیس کتابوں میں پایا جاتا ہے۔ اِس بات کا اشارہ نئے عہدنامہ کی کم از کم آدھی کے قریب تعلیم میں بھی ملتا ہے۔ اِس کے بغیر انجیل مُقدس کی کوئی سمجھ نہیں آ سکتی۔

یہ نظریہ کہ “صرف چند آیات” کا بعد میں اضافہ کیا گیا تھا، ہر اُس فرد کے نزدیک مضحکہ خیز ہے جس نے حقیقت میں پورے نئے عہدنامہ کا مطالعہ کیا ہے، کیونکہ یہ پیغام واضح طور پر بار بار نئے عہدنامہ کی تمام ستائیس کتابوں میں پایا جاتا ہے اور اِس بات کا اشارہ نئے عہدنامہ کی کم از کم آدھی کے قریب تعلیم میں بھی موجود ہے۔ یہی خوشخبری تمام انجیلی بیانات میں موجود ہے جسے یسوع نے کئی مرتبہ بیان کیا: متی 26: 28 ;یوحنا 3: 15 ; متی 20: 28 ;مرقس 10: 45 ; یوحنا 10: 9 ; 14: 6 ;یوحنا6: 44،47، 48، 51 ; 10: 11 ،28 ; 11: 25 ; 17: 1-2 ،3 ;لوقا 4: 43 ; 24: 26 – 27 ;یوحنا 6: 29 ،33،35 ; 4 : 14; 5: 21 ;متی 18: 21-35 ۔ یہ وہی خوشخبری ہے جس کی منادی پطرس رسول نے کی ، یعقوب نے کی اور یوحنا رسول نے کی۔ مزید برآں نئے عہدنامہ کی تمام ستائیس کتابوں میں اِس حقیقت کی گواہی ملتی ہے۔

باالفاظ دیگر، یہ پیغام مکمل طور پر نئے عہدنامہ سے ناقابل جدا ہے اور انجیل مُقدس کا مرکزی “خوشخبری” کا پیغام ہے۔ یہ تحریر جامع نہیں ہے۔ یہاں ہر عنوان کے تحت حضرت عیسیٰ کے بارے میں قرآن میں پائے جانے والے تمام حوالہ جات کا احاطہ نہیں کیا گیا۔ اور اِس کے لئے ایک بڑی کتاب لکھنے کی ضرورت ہو گی۔ تاہم یہاں حضرت عیسیٰ کے لئے استعمال ہونے والے مختلف ناموں اور بیانوں کی ایک یا دو مثالیں دی گئیں ہیں تا کہ قاری تک اُس نکتہ نظر کو درست طور پر پیش کیا جائے جسے قرآن ہر عنوان کے تحت بیان کرتا ہے۔ اِن میں سے کئی باتیں صرف حضرت عیسیٰ کے لئے ہی استعمال ہوئی ہیں اور کسی دوسرے کے لئے استعمال نہیں ہوئیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ اِس مختصر تحریر کو پڑھنے کے بعد قاری کو تحریک ملے گی کہ وہ خود قرآن کا مطالعہ کرے اور دیکھے کہ یہ حضرت عیسیٰ اور کئی اَور اہم موضوعات کے بارے میں کیا بتاتا ہے۔

برنباس کی انجیل کے بارے میں کیا خیال ہے؟

برنباس کی انجیل کے بارے میں کیا خیال ہے؟

اناجیل کے چند نقاد یہ الزام لگاتے ہیں کہ ”برنباس کی انجیل“ کا مسودہ حضرت عیسیٰ کی اصلی انجیل ہے اور وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مسیحیوں نے جان بوجھ کر اُسے چھپایا جب تک یہ 18 ویں صدی میں خود سے اچانک سامنے نہیں آ گئی۔ متی،مرقس،لوقا او ریوحنا کی اناجیل کے سینکڑوں ابتدائی نسخے موجود ہیں، لیکن حضرت عیسیٰ کے ایک ہزار پانچ سو سال بعد تک برنباس کی انجیل کے نسخے کی کوئی نقول موجود نہیں ہیں۔نیچے ہم دیکھیں گے کہ یہ مسودہ جنوبی یورپ میں 1500 اور 1590 کے درمیانی عرصے میں مرتب ہوا۔
بد قسمتی سے جعلساز کی کتاب مقدس،قرآن اور قدیم فلستین کی غیر واضح سمجھ اِس بات کو عیاں کرتی ہے کہ وہ فلستین سے ناوا قف اور قرون لکھنے کی تاریخ وسطیٰ کی ہے۔

سولہویں صدی کے آغاز کے ثبوت

”برنباس کی انجیل“میں سولہویں صدی کی تصنیف کی چند ناقابل ِ انکار نشانیاں شامل ہیں۔توریت شریف نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ
ّآرا م کرنے اور قرض اُتارنے کے لئے ہرپچاسواں سال ”یوبلی“ سال کے طور پر منایا کریں،مگر ”برنباس کی انجیل“کا مصنف اِس وقفے
کے سو سال دیتا ہے۔حضرت عیسیٰ کے زمانے کے کسی بھی یہودی نے ایسی بڑی غلطی نہیں کی ہو گی۔مصنف نے ایک سو کا عدد کہاں سے لیا؟
تقریباً 1300 عیسوی کے قریب پوپ بونیفس ہشتم نے اِس رہائی کے ”جوبلی“ سال کو دوبارہ متعارف کروایاجس پر صدیوں سے عمل نہیں ہو رہا تھالیکن اِسے کلیسیا کو 100 سال کے بعد منا نے کا حکم دیا۔بعد میں پوپ صاحبان نے اِسے واپس 50 سال پر کردیا اور پھر مزید گھٹا کر 25 سال کر دیا۔بظاہر ”برنباس کی انجیل“کے مصنف نے پوپ بونیفس کے حکم کے متعلق سنا ہو گا اور سمجھا ہو گا کہ یہ حضرت عیسیٰ ؑ نے دیا تھا۔

اُس نے بغیر سوچے سمجھے قرون ِ وسطیٰ کے مصنف دانتے کے چند اقوال او رخیالات بھی شامل کر دئیے جو نہ تو کتاب مقدس میں اور نہ ہی
قرآن میں شامل ہیں۔دانتے 13 ویں صدی کا اٹلی کا رہنے والا ایک شخص تھا جس نے جہنم او رجنت کے بارے میں ایک تخیلاتی
ادب لکھا جسے ”الہٰی مزاح“(The Divine Comedy)کے نام سے جانا جاتا ہے۔دانتے کے بہت سے اقوال نے ”برنباس کی انجیل“میں اپنی جگہ بنالی جیسے کہ یہ ایک جملہ،”dei falsi e lugiadi“(”نقلی اور جھوٹے دیوتا“) (Inferno 1:72, Gospel of Barnabas para 23)جو نہ تو کتاب مقدس میں اور نہ ہی قرآن میں موجود ہے۔

”برنباس کی انجیل“مے کو لکڑی کے مٹکوں میں ذخیرہ کرنے کے بارے میں لکھتی ہے (پیرا 152)،یہ دستور قرون ِوسطیٰ میں عام تھا لیکن
فلستین میں پہلی صدی میں نامعلوم تھا جہاں مے کو مشکوں میں ذخیرہ کرتے تھے۔مزید یہ کہ مصنف یسوع کو یہ فرماتے ہوئے لکھتا ہے کہ
گرمیوں کے موسم میں دنیا کتنی خوبصورت لگتی ہے جب فصل اور پھل وافر مقدار میں ہوتے ہیں (پیرا 169)۔یہ اٹلی میں موسم گرما کا ایک
اچھا تذکرہ ہے،لیکن فلستین کا نہیں جہاں اِس وقت بارش ہوتی ہے اور فصلیں موسم سرما میں اُگتی ہیں لیکن کھیت گرمیوں کے دنوں میں پکتے ہیں۔

مصنف فلستین کے جغرافیہ سے بھی ناواقف تھا کیونکہ وہ ناصرت کو گلیل کی جھیل پر ایک ساحلی شہر قرار دیتا ہے(پیرا 21,20) جبکہ ناصرت کا شہر سطح سمندر سے 1300 فٹ بلند ہے اورسمندر سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ 99 باب میں صور کو دریائے یردن کے قریب بیان کیا گیا ہے جب کہ حقیقت میں یہ موجود ہ لبنان سے کوئی 50 کلومیٹر دُور ہے۔”برنباس کی انجیل“حضرت عیسیٰ مسیح کو
ہیکل کے کُنگرے سے تعلیم دیتے ہوئے بیان کرتی ہے۔اگر اُس نے ہیکل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوتا تو وہ یہ جان گیا ہوتا کہ وہ کُنگرہ 150 فٹ بلند تھا جہاں سے منادی کرنا ناممکن ہے۔مصنف حضرت عیسیٰ مسیح کی الوہیت کے مسئلے پرتین فوجوں کی بھیڑ بھی بیان کرتا ہے اورہر ایک میں 200,000 آدمی جنگ میں شریک تھے۔ یٹینیکا کے انسائیکلوپیڈیا کے مطابق اُس وقت رومیوں کی باقاعدہ فوج کی تعداد
کوئی 300,000 تھی جب کہ اِس کی نصف پیچھے محفوظ تھی۔70عیسوی میں رومیوں کے ہاتھوں یروشلیم کی تباہی تک یہودیہ میں صرف ایک چھوٹی سی چھاؤنی موجود تھی۔1

بہت سی نشاند ہیوں میں سے یہ صرف ایک مختصر سی فہرست ہے کہ یہ مسودہ قرون ِ وسطی کے بُرے یورپی نے لکھا تھا۔اِس کے مزید ثبوت درج ذیل ویب سائٹ پر موجود ہیں: www.unchangingword.com

قسطنطین اور 325 کی دینی کتب کی مُسلّمہ فہرست

”نئے عہد نامے کی کتب کا تب تک فیصلہ نہیں ہو ا تھا جب تک رومی شہنشاہ قسطنطین نے اپنی تثلیث کی تعلیم کو بچانے کے لئے 325 میں
کتاب مقدس کی مُسلّمہ فہرست مرتب نہ کر لی۔“

325 کی نقایہ کی کونسل یہ فیصلہ کرنے کے لئے منعقد نہیں ہوئی تھی کہ کون سی کتابیں الہامی ہیں بلکہ کچھ ایسی باتوں کی تصدیق کرنے کے لئے تھی جو ہر جگہ مسیحیوں نے طویل عرصہ سے پہلے ہی قبول کر لی تھیں۔نقایہ کی کونسل صرف ایشیا،افریقہ اور یورپ کے مسیحیوں کے لئے پہلا موقع تھا کہ وہ اکٹھے ہوں اور ہم آہنگی سے یہ کہیں،”یہ وہ الہامی کتب ہیں جنہیں ہم نے 150 سالوں سے قبول کیا ہوا ہے۔“پروپیگنڈہ کرنے والوں نے جیسے کہ جمال بیضا وی نے سینکڑوں اناجیل کے چناؤ کے بارے میں احمقانہ کہانیاں گھڑ لیں،ایسی کہانیاں جن کا کوئی ثبوت نہیں تھا اور جن کا بالکل کوئی حوالہ نہیں تھا۔کانفرنس میں موجود تمام بشپ صاحبان نے صرف چار اناجیل (متی،مرقس،لوقا اور یوحنا)کو ہی قبول کیا اور اُ س کے کافی عرصہ پہلے مُسلّمہ فہرست مرتب ہوئی تھی۔نئے عہد نامے سے پورے 125 سال پہلے ایک مسودہ جسے
”میوریتو رین کینن“(Muratorian Canon)کہا جاتا ہے اُس میں الہامی کتب کی مسلمہ فہرست ایک ثبوت کے طور پر موجود ہے۔
اِس کے علاوہ 180 عیسوی میں بھی ارینیس نے چاروں اناجیل (متی،مرقس،لوقا اور یوحنا)کے بارے میں لکھا ہے:

یہ ممکن نہیں ہے کہ اناجیل تعداد میں جتنی ہیں اُس سے کم یا زیادہ ہو سکتی ہیں۔چونکہ جس دنیا میں ہم رہتے ہیں اُس کے چار حصے ہیں اور چار
اہم ہوائیں ہیں،اورجب کہ کلیسیا پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے،اورکلیسیا کے ”ستون او رزمین“ انجیل اور زندگی کا روح ہیں،یہ مناسب بات ہے کہ زمین کے چار ستون ہونے چاہیئں،بداخلاقی ہر سمت سے باہر نکل جائے اور انسانوں میں نئی جان ڈال دے … کیونکہ زندہ جاندار چار رُخوں والے ہیں اور انجیل چار رُخوں والی ہے کیونکہ یہ انداز خداوند نے بھی اپنایا تھا۔ 1

ارینیس کو پولی کارپ نے تربیت دی تھی جسے خود یوحنا نے تربیت دی تھی اِ س طرح ارینیس حضرت عیسیٰ کے پیارے شاگرد او ریوحنا کی انجیل کے مصنف کا ”روحانی بیٹا“ تھا۔

درحقیقت مسلمہ فہرست کی تصدیق کرنا کونسل کا ایک معمولی سا کام تھا جب اُن کو زیادہ فکرآریوسی کا مباحثہ تھا جوآریوس کے اِس غیر معمولی خیال کے گرد گھومتا تھا کہ حضرت عیسیٰ کون تھے۔بنیادی طور پر جھگڑا اِس بات پر تھا کہ ”خدا کا بیٹا“ کی تشریح استعاراتی طور پر کی جائے یا لفظی (جیسے کہ آریوس نے کیا)۔آریوس نے اپنی دلیل کی بنیاد یہ کہتے ہوئے مقدس یوحنا رسول کی انجیل 16:3 پر رکھی کہ چونکہ یہ آیت حضرت عیسیٰ کو ”خدا کا اکلوتابیٹا“ کہتی ہے اِس لئے وہ حقیقت میں کہیں تخلیق سے پہلے خدا باپ سے ایک بچے کی طرح ”پیدا ہوا“(نعوذ باللہ)۔آریوس نے سب سے پہلے یہ مباحثہ تب شروع کیا جب اُس نے مندرجہ ذیل نتیجہ اَخذ کیا جسے قسطنطینہ کے مؤرخ سقراط نے درج کیا:

”اگر ایک باپ اپنے بیٹے کو جنتا ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ اُس متولّد کی موجودگی کا کوئی آغاز بھی تھا۔“

یا پھر آریوس اپنی نظم تھیلیا میں حضرت عیسیٰ کے متعلق بیان کرتا ہے:

اُس (خدا)نے اُسے (حضرت عیسیٰ)اپنے لئے بیٹے کے طور پر جنم دے کر پیدا کیا۔

یہ کافرانہ خیال 99 فیصد بشپ صاحبان نے رد کر دیا۔چونکہ یہ تعلیم واضح طور پر صحائف کی تعلیم کے برعکس تھی اورنفرت انگیز ہے۔باپ بیٹے کے رشتے کو لفظی معنوں میں نہیں لینا چاہئے۔یہ فرماں برداری اور حضرت عیسیٰ کے خدا کے ماتحت ہونے کا ایک مجازی اِستعارہ ہے۔
یوحنا 16:3 میں موجود ”اکلوتے“(مونو گینی) کی اصطلاح کا مطلب واحد (انوکھا،منفرد)بھی ہو سکتا ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ کا بطور ”خدا کا کلام“دوسروں لوگوں سے ہٹ کر خدا کے ساتھ ایک مختلف خاص رشتہ ہے۔

اِس بحث میں آریوس اور اُس کے مخالفین دونوں نے ایک جیسے صحائف کو ایک جیسے بنیادی پیغام کو قبول کیا کہ یسوع زمانے سے پہلے وجود رکھتا ہے،جسے اللہ تعالیٰ نے انسان او رخدا کے درمیان ایک منفرد درمیانی بنا کر بھیجا تاکہ صلیب پر اپنی موت کے وسیلے سے لوگوں کو اُن گناہوں سے بچائے۔

بالآخر آریوس نے اپنے مخالفین کے اعتراضات کے جواب میں یسوع مسیح کے بارے میں اپنے خیالات تبدیل کر لئے۔

مسلمان مبلغین قسطنطین کو ایک جابر راہنما کے طور پر پیش کرنا پسند کرتے ہیں جس نے بشپ صاحبان کو آریوس کے بارے میں اپنی مرضی تبدیل کرنے پر دباؤ ڈالا۔دراصل جب آریوس نے اپنے مخالفین کو مطمئن کرنے کے لئے اپنے خیالات پر نظر ثانی کی
تو قسطنطین نے بشپ اتھنیسیسAthanasiusکو آریوس کو کلیسیا میں دوبارہ شامل کرنے کی ہدایت کی۔اتھنیسیس نے انکار کر دیا
او راِس لئے قسطنطین نے اُسے Trierجلاوطن کر دیا۔پھر قسطنطین نے بشپ الیگزنڈر کو ہدایت کی کہ وہ آریوس کو اُس کے اعتراضات کے باوجود کلیسیا میں دوبارہ شامل کرے لیکن اِس سے پہلے کہ آریوس کلیسیا میں شامل کیا جاتا اُس کی اچانک موت واقع ہو گئی۔اِس تمام کارروائی سے پتا چلتا ہے کہ قسطنطین بشپ صاحبان کی نسبت آریوس کے حق میں زیادہ تھا۔

  1. Irenaeus, Against Heresies 3.11

کیا قرآن کتاب مقدس کا ذِکر کرتا ہے؟

”قرآن ہر گز بائبل مقدس کا ذِکر نہیں کرتا،صرف توریت شریف،زبور شریف او رانجیل شریف کا ذِکر کرتا ہے۔“

دراصل انگریزی کا لفظ ”بائبل“ ایک یونانی اصطلاح ”ببلیا“ کا ترجمہ ہے جس کا مطلب ہے،”کتابیں“۔جب یہودیوں اور مسیحیوں کے صحائف ایک ہی سمجھے گئے، تو اِس کے لئے لاطینی اصطلاح نے ”کتاب“ کا اشارہ دینا شروع کیا۔عربی میں یہ الکتاب یا الکتاب
المقدس ہے کیونکہ بائبل کو ہمیشہ عربی زبان میں یہی کہا گیا ہے۔حضرت محمد سے پہلے او ربعد میں بھی عربی مسیحیوں نے ہمیشہ وہی اصطلاح استعمال کی جو قرآن استعمال کرتا ہے۔قرآن مسیحیوں او ریہودیوں کو اہل ِ کتاب کہتا ہے جس کا مطلب ہے،”کتاب کے لوگ“اوریہ فرماتا ہے کہ وہ الکتاب پڑھتے ہیں۔

”اور یہودی کہتے ہیں کہ عیسائی رستے پر نہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہودی رستے پر نہیں۔حالانکہ وہ کتاب (الکتاب)پڑھتے ہیں۔“
(سورۃ البقرۃ 113:2)

”اے اہل ِ کتاب (خدا)تم (علمائے)ربانی ہو جاؤ کیوں کہ تم کتاب ِ (خدا)پڑھتے پڑھاتے رہتے ہو۔“(سورۃ آل عمران79:3)

الکتاب کی نسبت اَور کوئی قریب ترین لفظ عربی میں نہیں ہے جو بائبل کے لئے استعمال کیا جا سکتاہو۔تورات،توراۃ ہے،زبور شریف مزامیر ہے اور انجیل شریف ایونجل(eungel)جو ایک ایسی اصطلاح ہے جو مجموعی طور پرچار اناجیل یا پورے نئے عہد نامے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔اگر قرآن کا مطلب کچھ اَور ہوتاتو پھر وہ یقینا اُس کا ذِکر کرتا،اِس لئے اُس وقت اِن عربی الفاظ کامطلب یہی تھا۔

ابتدائی مبصرّین کی رائے

ذاکر نائیک جیسے نقادوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ اُن ابتدائی مبصّرین سے تضاد رکھتا ہے جو یہودیوں او رمسیحیوں کے صحائف کو بڑی قدر سے دیکھتے تھے۔اِس بات کا ذکر سعید عبداللہ نے اپنے اخبار یہودیوں او رمسیحیوں کے صحائف پر تحریف کا الزا م میں کیا ہے۔وہ یہ نتیجہ اَخذ کرتا ہے:

چونکہ یہودیوں اور مسیحیوں کے مُستند صحائف آج بھی بالکل اُسی طرح موجود ہیں جس طرح حضور اکرم کے زمانے میں موجود تھے تو اِس بات پر بحث کرنا مشکل ہے کہ انجیل شریف او رتوریت شریف کے لئے قرآن میں موجود حوالہ جات صرف اُس خالص انجیل شریف یا توریت انجیل کی طرف تھا جو بالترتیب حضرت موسیٰ،حضرت عیسیٰ مسیح کے زمانے میں موجود تھی۔اگر متن کسی حد تک اُسی حالت میں موجود ہے جس طرح ساتویں صدی عیسوی میں تھا،تو اُس وقت جو تعظیم قرآن نے اُنہیں دی وہ آج بھی ویسے ہی قائم رہنی چاہئے۔قرآن کے بہت سے مفسر طبری سے لے کر رازی تک اور ابن تیمیہ،حتیٰ کہ قطب تک یہی نظریہ بیان کرتے نظر آتے ہیں۔
مجموعی طور پر جدید دَور میں بہت سے مسلمانوں کا یہودیت او رمسیحیت کے صحائف کے لئے نفرت انگیز رویہ رکھنے کی نہ تو قرآن اور نہ ہی
تفسیر کے بڑے علماء کی تحریروں میں حمایت دکھائی دیتی ہے۔2

عبداللہ ابن ِ عباس

ابن ِ عباس نے کہا کہ،

”لفظ ”تحریف“(بگاڑ)کسی چیز کی اپنی اصلی حالت سے تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے؛اور پھر یہ کہ کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دئیے گئے کلام میں سے ایک بھی لفظ کو بگاڑ سکے،اِس لئے یہودی او رمسیحی صرف اللہ کے کلام کے الفاظ کے مطلب کو غلط پیش کر سکتے تھے۔“3

ایک دوسری کتاب میں ابن ِ عباس کا بیان دہرایا گیا ہے:

”وہ الفاظ کو بگاڑتے ہیں“ اِس کا مطلب ہے،”وہ اِس کے مطلب کو ختم کر دیتے یا تبدیل کرتے ہیں۔“تاہم کوئی بھی شخص اِس قابل نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں ایک بھی لفظ کو تبدیل کرے۔اِس کا مطلب ہے کہ وہ لفظ کی تشریح غلط کرتے ہیں۔4

ابن ِ کثیر نے بھی ابن ِ عباس کے اِس بیان کو لکھا ہے:

”جہاں تک اللہ تعالیٰ کی کُتب کا تعلق ہے،وہ اب تک محفوظ ہیں اور تبدیل نہیں ہو سکتیں۔“5

یہ تفسیر عبداللہ ابن ِ عباس کی ہے جو حضور اکرم کے چچا زاد بھائی اور اُن کے صحابہ کرام میں سے ایک تھے۔چونکہ وہ ایک صحابی ہیں اِس لئے اُن کی آراء دیگراُن تمام اشخاص کی آراء اور تبصروں سے بالا تر ہے جو صحابی نہیں ہیں۔ ذاکر نائیک کیا سوچتا ہے کہ وہ کون ہے جو بڑے اعتمادسے ابن ِ عباس جیسی شخصیت سے تضاد رکھتا ہے؟

طبری (وفات 855عیسوی)

معروف مفسر علی طبری بڑا واضح یقین رکھتے تھے کہ یہودی اور مسیحی اب تک وہی اصلی صحائف رکھتے تھے جو اُنہیں اللہ تعالیٰ نے عطا کئے تھے۔

”..سب

صحائف پرانے ہو چکے ہیں؟

”قرآن کے آنے سے اُسے توریت شریف اور انجیل پر سبقت مل گئی ہے اور وہ غیر متعلقہ ہو گئی ہیں۔“

مسلمانوں کے درمیان یہ ایک وسیع خیال موجود ہے کہ”قرآن کے آنے سے اُسے توریت شریف اور انجیل پر سبقت مل گئی ہے اور وہ غیرمتعلقہ ہو گئی ہیں“۔یہ شاندار الزام قرآن یا حدیث میں کوئی بنیاد نہیں رکھتا یہ محض ایک رائے ہے جو قرآن سے تضاد رکھتی ہے۔

اگر یہ الزامات درست ہوتے تو پھر قرآن یہودیوں او رمسیحیوں کو یہ ہدایت نہ کر رہا ہوتا:”جب تک تم تورات اور انجیل کو اور جو (اَور کتابیں)تمہارے پروردگار کی طرف سے تم لوگوں پر نازل ہوئیں اُن کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہو سکتے۔“(سورۃالما ئدہ 68:5)،
اِس کی بجائے یہ بھی کہا جا سکتا تھا،”تمہاری کوئی بنیاد نہیں ہو سکتی جب تک تم توریت شریف اور انجیل شریف کو قرآن ِ کے حق میں ختم نہیں کر دیتے۔“قرآن یہ نہیں کہتا:”اور اہل ِ انجیل کو چاہئے کہ جو احکام خدا نے اِس میں نازل فرمائے ہیں اُس کے مطابق حکم دیا کریں۔“(سورۃ المائدہ 47:5)بلکہ یہ کہتا کہ،”اہل ِ انجیل کو انجیل کو بھول جانا چاہئے اور قرآن کے مطابق حکم دیں۔“
اِس سے یہ بات واضح ہے کہ قرآن نے کبھی بھی پچھلے مکاشفات کی تبدیلی کا الزام نہیں لگایابلکہ اِس کے بجائے ”صاف عربی زبان“
(195:26)میں اُن کے اب تک مُستند ہونے (48:5)کی تصدیق کرتا ہے۔اگر ہر ایک صحیفہ حقیقت میں اپنے پچھلے صحیفے کو ترک کرتا ہے تو پھر ہم حضرت مسیح سے توقع کریں گے کہ اُنہوں نے توریت شریف کو ردّ کیا ہو گامگر اِس کے برعکس اُنہوں نے اِس کی اب تک قائم اور مُستند ہونے کی تصدیق کی اور خدا تعالیٰ کی اگلی کہانی انجیل شریف کا اضافہ کیا۔ 

منسوخ؟ ”ہم جس آیت کو منسوخ کر دیتے یا اُسے فراموش کرا دیتے ہیں تو اُس سے بہتر یا ویسی ہی اَو رآیت بھیج دیتے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ خدا ہر بات پر قادر ہے؟“(سورۃ البقرۃ 106:2)
تاہم یہ آیت بالکل واضح ہے کہ منسوخ کا اشارہ کس طرح ہے یعنی انفرادی طورپر لکھی گئی قرآنی آیات نہ کہ کتابیں۔جب ہم تمام سیکڑوں احادیث کا جائزہ لیتے ہیں جو اِس منسوخ کے نظریے کی طرف اشارہ کرتی ہیں تو یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ یہ آیت قرآنی آیات کی طرف اشارہ کر رہی ہے نہ کہ کسی کتاب کی طرف۔

غلَط مماثلتیں – وہ جو توریت شریف او رانجیل شریف کو متروک سمجھتے ہیں وہ اکثر مشابہتوں سے بحث کرتے ہیں جیسے کس طرح پرانے کمپیوٹر پروسیسرز کی جگہ نئے کمپیوٹرز نے لے لی ہے، یا نئی حکومتیں نئے آئین لے کر آتی ہیں۔تاہم،ایسی مشابہتیں اِس لئے پیش نہیں کی جا سکتیں کیونکہ پروسیسرز اور آئین اِس لئے بدلے جاتے ہیں کیونکہ وہ کامل نہیں ہوتے۔یہ خدا تعالیٰ کی توہین ہے کہ یہ کہا جائے کہ اُس باری تعالیٰ کا کلام نامکمل ہے۔کیا خدا ایسا پیغام دے گا جو غیر مناسب یا عیب والا ہو؟یہ کہنا کہ صحائف یا کلام غیر مناسب ہیں، خدا تعالیٰ کی توہین ہو گی،کیونکہ یہ اُس کے ساتھ انسانی حدود منسوب کرناہے۔جب خدا تعالیٰ کوئی کلام دیتا ہے تو یہ کامل ہوتا ہے اُس کے ”بدلنے“ کی کبھی ضرورت نہیں پڑتی۔ 

درست مماثلتیں – ایک ایسی مماثلت جو خدا تعالیٰ کے کلام کی بالکل مناسب عزت و تعظیم کرتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ بعد کا آنے والا صحیفہ کسی اَن کہی کہانی کے ابواب یا جلدوں کی صورت میں کام کرتا ہے جن کا ہر ایک حصہ خدا تعالیٰ کے سارے منصوبے کو سمجھنے کے لئے بہت اہم ہے۔
کلام کے صحائف کو کسی عمارت کی منزلوں یا درجوں کے ساتھ بھی مماثلت دی جا سکتی ہے۔اگر آپ بنیاد کی عمارت کو ہٹا دیں تو باقی تمام منزلیں بھی گِر جائیں گی۔اس کا ذکر سورۃ المائدۃ 68:5میں کیا گیا ہے:

”کہو کہ اے اہل ِ کتاب جب تک تم تورات اور انجیل کو اور جو (اور کتابیں)تمہارے پروردگار کی طرف سے تم لوگوں پر نازل ہوئی اُن کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہو سکتے۔“(سورۃ المائدۃ 68:5)

صحائف یا کلام متضاد نہیں ہو سکتےیہ ممکن ہو سکتا ہے کہ ایک زمانے میں خدا تعالیٰ نے ایک قبیلے کوایک خاص قانون کی پیروی کرنی کی ہدایت کی ہے اور بعد میں ایک اَور قوم کو ایک مختلف قانون کی پیروی کی ہدایت کی ہو،یہ دلیل قابل ِ قبول ہے۔لیکن اگر ایک صحیفہ یہ سکھاتا ہے کہ
نجات شریعت کے وسیلے سے حاصل نہیں کی جاسکتی بلکہ خدا تعالیٰ کے واحد اور ایک ہی نجات کے ابدی انتظام کے وسیلے سے حاصل ہوسکتی ہے تو خدا تعالیٰ کا کلام ہوتے ہوئے یہ بیان کبھی بھی تبدیل نہیں ہو سکتا۔ہر صحیفے کی اپنی اہمیت ہے۔ انجیل شریف کا مرکزی نکتہ یہ بات ہے کہ نجات کیسے حاصل کی جائے جبکہ قرآن کا بنیادی نکتہ بت پرستوں کو روزِعدالت کی تنبیہ ہے۔

کیا ہر مسیحی گروہ کے پاس اپنی کتاب مقدس نہیں ہے؟

”کیا ہر مسیحی گروہ کے پاس اپنی کتاب مقدس نہیں ہے؟“

مسیحیت کی تمام شاخیں -کیتھولک،پروٹسٹنٹ،آرتھوڈو کس،لوتھرن،اینگلیکن،پینتی کاسٹل وغیرہ کے پاس بالکل ایسی ایک جیسی توریت شریف (تورہ)،زبور شریف (مزامیر)،اور انجیل شریف (نیا عہد نامہ)ہیں۔حتیٰ کہ اگر آپ یہودیوں کی توریت شریف یا زبور شریف کا
مسیحیوں کی کتابوں سے موازنہ کریں تو یہ بالکل ویسی ہی ہیں (اگرچہ اُن کی ترتیب مختلف ہے)۔اِس لئے تمام تینوں متون جنہیں قرآن اختیار مانتا ہے،وہ پوری مسیحی اور یہودی دنیا میں بالکل یکساں ہیں۔

پروٹسٹنٹ اور غیر پروٹسٹنٹ میں واحد فرق یہی ہے کہ کیا اُن میں انبیا کی کتب (کتاب الانبیاء)میں ’اپاکرفا‘ بھی شامل ہیں یا نہیں۔ یہ ’اپاکرفا‘ کتابوں کا ایسا مجموعہ ہے،جسے کیتھولک بھی کتاب مقدس کی فہرست میں ”ثانوی“ درجہ دیتے ہیں۔بالکل ایسا ہی جھگڑا اسلام میں بھی دیکھا جا سکتا ہے،جہاں چند شیعہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن میں دو اَور سورتیں بھی ہیں جنہیں سُنیوں نے نکال دیا ہے۔ایسے مسائل قبول شدہ کلام اللہ کے مُستند ہونے کو ردّ نہیں کرتے۔