1,700یا 7,000سوار

2 -سموئیل 4:8 – ”کیا حضرت داؤد نے ضوباہ کے بادشاہ کے رتھوں کے 1,700(2 -سموئیل 4:8)سوار پکڑے یا یہ 7,000تھے (1 – تواریخ 4:18)؟“

یہ بالکل صاف واضح ہے کہ 2 -سموئیل 4:8کا اصلی متن سات ہزار ہے؛(ایک ہزار رتھ اور اور سات ہزار سوار“)،جیسے کہ تواریخ کی کتاب میں لکھا ہے۔جب ابتدائی لکھاریوں کی نقل کی وجہ سے رتھ (راکیب)کا لفظ حادثاتی طور پر حذف ہو گیا تھا تو پھر یہ بے تُکا جملہ رہ گیا،”ایک ہزار سات ہزار سوار،“جسے بعد کے لکھاری نے ”ایک ہزار سات سو“ لکھ کر ٹھیک کر دیا ہو گا۔

یہ بات بھی جاننے کے لئے گراں قدر ہے کہ قدیم مُستند نسخہ جات میں آج بھی دونوں آیات میں درست عدد(7,000)موجود ہے؛ لکھاری کی اِس غلطی نے موجود متن پر کوئی اثر نہیں ڈالا۔ قرآن اور کتاب مقدس میں کاتبوں کی نقل نویسی کی اِن معمولی غلطیوں کی پوری وضاحت کے لئے دیکھئے قرآن او رکتاب مقدس میں اختلافات پر مضمون۔

پانچ بیٹے یا کوئی بیٹے نہیں؟

2 -سموئیل 8:21 – ”کیا میکل کے پانچ بیٹے تھے یا کوئی بیٹے نہیں تھے (2 – سموئیل 23:6)؟“

دو قدیم عبرانی نسخہ جات اور سپٹواجنٹ کے چند نسخہ جات اور سر یانی میں ”میرب“ ہے جبکہ دوسرے نسخہ جات ”میکل“ پڑھتے ہیں۔یہ صاف واضح ہے کہ حقیقت میں متن میں ”میرب“ لکھا ہے جیسے کہ سابقہ نسخہ جات میں لکھا ہے اور دوسرے نسخہ جات میں نقل نویسی کی غلطی ہے کیونکہ میرب بہنوں میں سے ایک تھی جو دوبارہ عدری ایل سے بیاہی گئی (1 -سموئیل 19:18)۔ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ وہ کاتب جو نقل نویسی کے ذمہ دار تھے وہ کتابِ مقدس کے متن کو سنبھالنے میں بہت محتاط انداز میں دیانت دار تھے۔بظاہر نظر آنے والی غلطیوں کو بھی تبدیل کئے بغیرجو بے شک چند ہیں،اُنہوں نے اُنہیں ویسے ہی پیش کیا جیسے اُنہیں ملے تھے۔

خُدا تعالیٰ نے یا شیطان نے حضرت داؤد کو اُبھارا؟

2 – سموئیل 1:24 -“کیا خُداتعالیٰ نے حضرت داؤدکو اپنے لوگوں کی مردم شماری کے لئے اُبھارا(2 -سموئیل 1:24) یا شیطان نے (1 -تواریخ1:21) اُبھارا؟”

کوئی بھی شخص گولی مارنے کے واقعہ میں پوچھ سکتا ہے کہ کیا مارنے والے نے اپنے شکار کو مارا یا بندوق نے شکار کو مارا۔دونوں درست ہیں۔
اِسی طرح اِس اقتباس میں بھی،خُدا تعالیٰ نے ارادتاً شیطان کو حضرت داؤد کے ذہن میں یہ خیال پیدا کرنے کی اجازت دی۔اگرہم اِن اقتباسات کے سیاق و سباق کا جائزہ لیں تو حضرت داؤد بادشاہ ایک طاقتور بادشاہ بن چکے تھے اورخُدا پر انحصار کے متعلق سوچنے کے بجائے اپنی وسیع فوج کی وجہ سے تھوڑے سے مغرور بھی ہو گئے تھے۔شیطان نے سوچا کہ وہ حضرت داؤد کو مردم شماری کے ذریعے گرا سکتا ہے،لیکن خُدا تعالیٰ جو سب کچھ جانتا ہے اُس نے سمجھا کہ یہ گناہ حضرت داؤد کو توبہ کی طرف مائل کر سکتا ہے اور اِس میں حضرت داؤد کی بھلائی ہے۔ یہ حالت حضرت ایوب کی طرح ہے جہاں خُدا تعالیٰ ارادتاً شیطان کو اجازت دیتاہے کہ وہ حضرت ایوب پر شاطرانہ حملے کرے۔شیطان نے سوچا کہ حضرت ایوب کے ایمان کو تباہ و برباد کر دے گا لیکن یہ بالآخر خُدا تعالیٰ کے علم ِسابق کے مطابق برعکس ثابت ہو ا۔
اِسی طرح خُدا تعالیٰ نے حضرت مسیح کی موت میں شیطان کو دخل دینے کی اجازت دی (یوحنا 27:13)،لیکن خُدا تعالیٰ نے یہ سب حضرت
مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے جلال میں تبدیل ہونے دیا۔ہر ایک معاملے میں شیطان کے منصوبے محدود اور ناپائدار تھے، لیکن
خُدا تعالیٰ نے اپنے علم ِسابق میں بالآخر اِسے اپنی فتح کے لئے استعمال کیا۔شیطان نے منصوبہ بنایا لیکن خدا نے بھی منصوبہ بنایا۔خُدا تعالیٰ
بہتر تدبیر کرنے والاہے(دیکھئے سورۃ انفعال 30:8)۔

قرآن میں بھی ہم بالکل ایسا ہی ایک واقعہ دیکھتے ہیں۔ایک آیت میں فرشتوں (جن کی عبادت بت پرست کرتے ہیں،آل عمران 80:3)کے بار ے میں لکھاہے کہ ”نہ مرنا اُن کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور نہ مر کر اُٹھ کھڑے ہونا“، تاہم قرآن میں ایک اَور جگہ فرشتوں کو ”روحیں قبض کرنے والے“ کہا گیا ہے (11:32؛32,28:16)۔یہ الزام لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں دوباتوں میں اختلاف ہے۔ لیکن ہمیں یہ قبول کرنا چاہئے کہ فرشتے بنیادی سبب اور اللہ تعالیٰ حاکم ِاعلیٰ ہیں۔بالکل اِسی طرح ہمیں یہ قبول کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے علیم ِ کُل ہونے کی وجہ سے ارادتاً حضرت داؤدکو آزمانے کے لئے شیطان کو استعمال کیا۔

800یا 300آدمی؟

2 -سموئیل 8:23 -”حضرت داؤد کے سوماؤں کے سردارنے اپنا بھالاچلایا تو 800(2 -سموئیل 8:23)آدمیوں کو ہلاک کیایا 300(1 -تواریخ 11:11)آدمیوں کو ہلاک کیا؟“

یہ بہت ممکن ہے کہ دونوں اقتباسات نے ایک ہی شخص کے دو الگ الگ واقعات بیان کئے ہیں یا پھر ایک اقتباس نے شاید ایک حصہ بیان کیا ہے جب کہ دوسرا اقتباس پورا واقعہ بیان کرتاہے۔

قرآن میں بھی ایسے ہی عددی اختلافات موجود ہیں۔سورۃ آل عمران بیان کرتی ہے کہ حضرت عیسیٰ کی پیدایش کی خبر حضرت مریم کو بہت سے فرشتگان بتاتے ہیں،جب کہ سورۃ مریم 17:19-21میں صرف ایک فرشتے کا ذِکر کیا گیا ہے۔سورۃ قمر 19:54فرماتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ہی دن میں عاد کے لوگوں کو تباہ کر دیا لیکن سورۃ حآقہ 6:69-7میں لکھا ہے کہ وہ آٹھ طویل دن تھے۔

یہوداہ میں جنگی مرد(2 -سموئیل 9:24)-

یہوداہ میں جنگی مرد(2 -سموئیل 9:24)-(سوال نمبر2)”یہ اقتباس یہوداہ میں جنگی مردوں کی تعداد 500,000 دیتا ہے،جو کہ 1 -تواریخ کے5:21 بیان شدہ واقعات کی نسبت 30,000زیادہ ہے۔“

1 -تواریخ 6:21صاف بیان کرتی ہے کہ یوآب نے، اِس حقیقت کی وجہ سے گنتی مکمل نہیں کی تھی،کہ حضرت داؤد مردم شماری مکمل کرانے کے حق میں تھے، اُس نے بنیامین کے قبیلے اور نہ ہی لاوی کے قبیلے کی مردم شماری ابھی تک کی تھی۔ اِس طرح مختلف تعداد قوم میں خاص غیرمذکور شدہ گروہوں کی شمولیت یا اخراج کی طرف اشارہ کرتی ہے۔اِس کا ہمیں ایک اَو رحوالہ 1 -تواریخ 23:27-24
میں ملتا ہے جہاں حوالہ بیان کرتا ہے کہ حضرت داؤد نے بیس سال کی عمر یا اِس سے چھوٹی عمر والوں کو شمار نہیں کیا تھا اور یہ بھی کہ یوآب نے مردم شماری ختم نہیں کی تھی اِس لئے کُل تعداد حضرت داؤد بادشاہ کی تواریخ میں درج نہیں ہوئی تھی۔

بنگالی عقلیت پسند عروج علی متوبر نے قرآن کے وراثت کے قانون سے متعلق سورۃ نساء 11:4-12اور 176میں بالکل اِسی طرح کے تعداد سے متعلق پیچیدہ مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے:جب ایک آدمی مرتا ہے اور اپنے پیچھے تین بیٹیاں،اپنے د ووالدین اور اپنی بیوی پیچھے چھوڑ رہا ہے،وہاں بالترتیب تین بیٹیوں کو 2/3،والدین کو اکٹھا 1/3 [ آیت 11کے مطابق دونوں کے لئے ] اور بیوی کو1/8حصہ ملے گا
[ 12:4 ] جو جمع کرنے پر دستیاب وراثت سے زیادہ بنتاہے۔دوسری مثال: ایک شخص اپنے پیچھے صرف اپنی ماں،اپنی بیوی اور دو بہنیں چھوڑتا ہے،تب اُنہیں 1/3 [ ماں،11:4 ]، 1/4 [ بیوی،12:4 ] اور2/3 [ دو بہنیں،176:4 ]،ملے گا،جس کو جمع کرنے پر دستیاب جائیداد کا 15/12بنتا ہے۔اِس پر معاملات طے کرنے کے راستے ہو سکتے ہیں مگر یہ تعداد کی ایک پیچیدگی ہے۔

سات یا تین سال؟

2 -سموئیل 13:24 -”یہ حوالہ ذِکر کرتا ہے کہ قحط کے سات سال ہو گے جب کہ 1 -تواریخ 12:21 میں صرف تین سالوں کا ذِکر ہے۔“

ہم یہ فرض کر سکتے ہیں کہ 1 -تواریخ کا مصنف تین سالوں پر زور دیتا ہے جس میں قحط بہت شدید نوعیت کا تھا،جب کہ 2 -سموئیل کا مصنف اِس عرصے سے پہلے کے دو سال اور بعد کے دو سال بھی اِس میں شامل کرتا ہے جس عرصے میں قحط بالترتیب بڑھا او رکم ہوا ۔
ایسا ہی مسئلہ اُس طوفان کی طوالت کے حوالے سے ہمیں قرآن میں ملتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے عاد کے لوگوں پر عذاب بنا کر بھیجا؛ سورۃ قمر
19:54فرماتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ہی دن میں عاد کے لوگوں کو نیست کر دیا لیکن سورۃ حآقہ 6:69-7میں لکھا ہے کہ وہ آٹھ طویل دن تھے۔ہم یہ قیاس کر سکتے ہیں کہ ایک حوالہ آزمائش کے کڑے وقت کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دوسرا کُل تعداد کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

دوسرا حل ہر اقتباس میں الفاظ کے استعمال کا مشاہدہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔جب آپ دو اقتباسات کا موازنہ کرتے ہیں تو آپ دیکھیں گے کہ 1 -تواریخ 21باب میں پائے جانے والے الفاظ 2 -سموئیل 24باب میں پائے جانے والے الفاظ سے خاص طورپر مختلف ہیں۔ 2 -سموئیل 13:24میں یہ سوال ہے،”کیا تیرے ملک میں سات برس تک قحط رہے؟“1 -تواریخ 12:21میں ہم ایک متبادل بیان پاتے ہیں،”یا تو قحط کے تین بر س … چُن لے“اِن باتوں سے ہم جواز کے ساتھ یہ نتیجہ اَخذ کر سکتے ہیں کہ 2 -سموئیل حضرت داؤد کے پاس پہلی مرتبہ جاد نبی کے جانے کا واقعہ درج کرتاہے جس میں متبادل لائحہ عمل سات سال تھا،جبکہ تواریخ کی رُوداد ہمیں بادشاہ کے پاس ناتن نبی کی دوسری اور آخری رسائی کا ذِکر کرتی ہے جس میں خداوند تعالیٰ (بلاشبہ حضرت داؤد کی تنہائی میں دعا میں پُر خلوص التجا کے جواب میں)اُس دہشت کی شدت کو کم کرتے ہوئے سات سال کے پورے عرصے کے بجائے تین سال کر دیتا ہے۔
پھر اِس بات کے ہوجانے کے بعد حضرت داؤدنے خُدا تعالیٰ کی تیسری ترجیح کا انتخاب کیااور اِس لئے تین دن کی شدید مری کا سامنا کیا
جس کے نتیجے میں اسرائیل میں 70,000آدمی مارے گئے۔1

چند مترجم اِسے نقل نویسی کی غلطی قرار دیتے ہیں کہ نقل نویسوں نے اِسے گنتی کے ابتدائی ابجدی نظام کی وجہ سے غلط پڑھا کہ عبرانی ”گیمل“ (تین) کو”زین“ (سات) کے طورپر پڑھا۔اِس قسم کی غلطی حروف کے ایک جیسے ہونے کی وجہ سے بڑی آسانی سے ہو سکتی تھی۔.…

4,000یا 40,000تھان؟

1 -سلاطین 26:4 – ”کیا حضرت سلیمان کے پاس اپنے رتھوں کے لئے 40,000 تھان تھے(1 -سلاطین 26:4)یا 4,000(2 -تواریخ 25:9)تھان تھے؟“

1 -سلاطین 26:4 – ”کیا حضرت سلیمان کے پاس اپنے رتھوں کے لئے 40,000 تھان تھے(1 -سلاطین 26:4)یا 4,000(2 -تواریخ 25:9)تھان تھے؟“
یہ واضح طور پر نقل نویس کی غلطی ہے؛دونوں عبارتوں کے اصل متن میں 4,000ہے۔عبرانی میں چالیس(اَربعیم)اور چار(اَربعیت)تقریبا ً ایک جیسے دکھائی دیتے ہیں۔اصل متن میں کوئی غلطی نہیں ہے،یہ محض نقل نویسی کی ایک معمولی سی غلطی ہے جس کی وجہ سے لکھاری کو ایک مسخ نمبر کا سامنا کرنا پڑا۔قرآن او رکتاب مقدس میں کاتبوں کی معمولی نقل کی غلطیوں کی پوری وضاحت کے لئے دیکھئے مضمون، توریت شریف،
زبور شریف،انجیل شریف اور قرآن میں نقل نویسی کی غلطیوں کے معمولی اختلافات۔
.…

2,000یا3,000بت؟

Bath Shape

1 -سلاطین 25:7 ”حضرت سلیمان کے حوض میں 2,000بت یا 3,000بت کی سمائی تھی جیسے کہ2 -تواریخ 5:4میں درج ہے؟“

1 -سلاطین میں درج ہے کہ حوض میں عام طور پر 2,000بت پانی ٹھہرتا(کول) تھا جب کہ 2 -تواریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اگر اِس میں
لبالب پانی بھر دیا جاتا تو اِس میں 3,000بت پانی سما سکتا تھا (خازیق)۔ یہ گڑ بڑ عبرانی میں دو مختلف افعال کا ایک اَور زبان کے ملتے جلتے افعال سے ترجمہ کرنے کا نتیجہ ہے۔

بعشا کا انتقال کب ہوا؟

1 -سلاطین33:15 – ”یہاں لکھا ہے کہ بعشا نے آسا بادشاہ کے سلطنت کے 26ویں سال میں وفات پائی لیکن 2 -تواریخ 1:16
میں لکھا ہے کہ وہ 36ویں سال میں بھی ابھی تک زندہ تھا۔“

جس عبرانی لفظ کا ترجمہ ”سلطنت“ کیا گیاہے وہ”ملکوت“ ہے جو ”سلطنت“ کی بجائے ”قلمرو“ یا ”بادشاہت“کے عام معنوں کے لئے استعمال ہوا ہے۔1.…

یہویاکین کا دور ِ حکومت

2 – سلاطین8:24 -”کیا یہویاکین بادشاہ نے یروشلیم پر تین ماہ (2 – سلاطین 8:24)یا تین ماہ دس دن حکومت کی (2 -تواریخ 9:36
)؟“

تواریخ میں دیئے گئے اعداد و شمار زیادہ واضح ہیں جب کہ سلاطین کے اعداد مہینوں کی تعداد پر ختم ہوتے ہیں،یہ تصور کرتے ہوئے کہ اضافی دس دنوں کا ذِکر کرنا کوئی خاص ضروری نہیں۔وقتوں کا اندراج ہمیشہ موزوں طریق پر ہوتا ہے ورنہ ہمیں ہمیشہ گھنٹوں،منٹوں اور سیکنڈوں کو بھی پڑھنے پرزور دینا ہو گا جو ذرا احمقانہ بات ہے۔تین ماہ اور دس دن کے لئے تین ماہ بیان کرنا مکمل طور پر اظہار کا عام طریقہ ہے۔

قرآن میں دو اقتباسات میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے ہمیں موزوں طریق پر اعداد وشمار کو قبول کرنا چاہئے۔سورۃ لقمان 14اور
سورۃ البقرہ 233ہمیں بتاتی ہے کہ دو سال کے عرصے میں دودھ چھڑایا جاتا ہے جب کہ سورۃ الاحقاف15:46ہمیں بتاتی ہے کہ رحم میں بچے کو رکھنے(زمانہء حمل) اور دودھ چھڑانے کا کُل عرصہ تیس ماہ بنتا ہے۔اگر ہم تیس میں سے 24ماہ نکال دیں تو ہمارے پاس زمانہء حمل کے صرف چھ ماہ بچ جاتے ہیں جو دراصل دس قمری مہینے بنتے ہیں۔

بالکل اِسی طرح ابن ِ عباس نے مکہ میں حضور اکرم کے سالوں کو موزوں طریق(round figure)میں کیا،جس میں وہ ایک جگہ 13سال1 اور دوسری جگہ 10سال بیان کرتے ہیں۔ 2 قرآن میں بھی ایسے ہی اعداد و شمارکے اختلافات پائے جاتے ہیں۔سورۃ آل عمران
حضرت مریم کوحضرت عیسیٰ کی پیدایش کا بتانے میں بہت سے فرشتوں کا ذِکر کرتی ہے،جب کہ سورۃ مریم21:19-17میں صرف ایک فرشتے کا ذِکر کیا گیا ہے۔سورۃ قمر19:54فرماتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ہی دن میں عاد کے لوگوں کو نیست کر دیا لیکن سورۃ حآقہ 6:69-7میں لکھا ہے کہ وہ آٹھ طویل دن تھے۔

  1. Sahih al-Bukhari, Vol 5, p.242.