جعلی اناجیل

”ایسی بہت سے ابتدائی اناجیل اور خطوط تھے جو نئے عہد نامے میں شامل نہیں کئے گئے کیونکہ وہ حضرت عیسیٰ المسیح کے متعلق ایک مختلف کہانی بیان کرتے تھے جیسے کہ تھامس کی انجیل،ایبیونائٹ کی انجیل،عبرانیوں کی انجیل اورمصریوں کی کاپٹک انجیل۔

چند ایسی اناجیل بھی ہیں جو متی،مرقس،لوقا او ریوحنا کے بعد مرتب ہوئیں مگر ابتدائی مسیحی جماعت نے اُنہیں رد کر دیا۔ابتدائی کلیسیا نے یہ
جعلی اناجیل رد کردیں،بالکل اُنہی وجوہات کی بنِا پر جن پر آج کوئی بھی مسلمان کرے گا:

یہ اناجیل تقریباً اُس مذہبی تحریک نے لکھی تھیں جنہیں غناسطیت کہا جاتا تھااور جس کی مخالفت ابتدائی رسولوں نے بھی کی تھی۔غناسطیت
مسیحیت سے پہلے بھی موجود تھی اور بے شک یہ ایک الگ تحریک تھی اگر چہ اُنہوں نے حضرت عیسیٰ کو غناسطیت کے ایک اُستاد کے طور پر
دوبارہ اختراع دینے کی کوشش کی۔بنیادی طور پر غناسطیت کی یہ تعلیم ہے کہ خدا نے دنیا کو خلق نہیں کیا مگر ایک نامکمل بدی نے دنیا کو خلق کیا ہے۔وہ ثنویت تعلیم رکھتے تھے،مطلب ہے کہ وہ یہ یقین رکھتے تھے کہ ساری طبعی دنیا بدی ہے۔وہ یہ تعلیم دیتے تھے کہ حضرت عیسیٰ کا کوئی جسمانی رُوپ نہیں تھا جس کی وجہ سے اُن میں سے چند نے یہ فیصلہ کیا کہ پھر حضرت عیسیٰ کی طبعی موت بھی نہیں ہو سکتی تھی۔وہ عبادت گزار تھے اور اکثر سبزیاں کھایا کرتے تھے اورکچھ جنسی طریقے سے عبادت کیا کرتے تھے۔پولُس رسول کے اعمال،تھامس کی انجیل اور مصریوں کی انجیل جیسے کتابوں کی یہ تعلیم تھی کہ شادی کے باوجود جنسی تعلقات ایک غلط بات تھی۔وہ اِس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ نجات ایمان یا راست بازی سے حاصل نہیں ہو سکتی بلکہ ایک خاص خفیہ علم کے ذریعے حاصل ہو سکتی تھی جیسے کہ آج کل چند ہندو گروہوں میں بھی یہی تعلیم پائی جاتی ہے۔رسولوں کے خلاف اپنے خیالات کی حمایت کے لئے،وہ حضرت عیسیٰ کی بہت سے واقعات کو دوبارہ گھڑ لیتے تھے۔مثلا ً یہوداہ کی انجیل یہ تعلیم دیتی ہے کہ حضرت عیسیٰ نے یہوداہ سے کہا کہ وہ اُسے دھوکا دے کر صلیب دلوائے جس سے اُس کی روح اِس انسانی جسم کی قید سے رہائی پا سکتی تھی۔یہ خیالات تھامس کی انجیل،مریم کی انجیل،یہوداہ کی انجیل اورمصریوں کی کاپٹک انجیل میں بھی سرایت کر گئے ہیں۔

ماسوائے عبرانیوں کی انجیل کے کیونکہ اُس میں غناسطی تعلیم موجود نہ تھی۔علما یقین رکھتے ہیں کہ یہ متی کی انجیل کی بعد کی تزئین و آرائش ہے
جو بڑے محتاط انداز میں وضاحتیں دیتی ہے جیسے کہ دعائے ربانی میں ”روز کی روٹی“ کی جگہ ”کل کی روٹی“ کو بدل دینا۔تزئین و آرائش عموماً
اِس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ متن اصلی نہیں ہے کیونکہ یہ ویسا نہیں ہے جیسے کہ بعد کا ترجمہ متن کو زیادہ غیر واضح بنا دے گا۔چوتھی صدی کا
کتاب مقدس کے عالم جیروم نے اِس متن میں بہت دلچسپی لی جسے وہ محض متی کی انجیل کا عبرانی ترجمہ سمجھتا تھا۔وہ لکھتا ہے:

”وہ انجیل جو ناضرین اور ا یبیونائٹس استعمال کرتے ہیں جسے ہم نے حال ہی میں عبرانی سے یونانی میں ترجمہ کیا ہے اور جسے زیادہ تر لوگ
مُستند متی کی انجیل سمجھتے ہیں …“

جیروم کے مطابق اِس میں متی کی انجیل سے متن میں صرف چند معمولی اختلافات تھے۔اِس متن میں سے چند اختلافات میں سے ایک بدعتی ہے،کیونکہ یہ روح القدس کو حضر ت عیسیٰ کی ماں سمجھتا ہے(خدا معاف کرے!)۔جیروم…

برنباس کی انجیل کے بارے میں کیا خیال ہے؟

برنباس کی انجیل کے بارے میں کیا خیال ہے؟

اناجیل کے چند نقاد یہ الزام لگاتے ہیں کہ ”برنباس کی انجیل“ کا مسودہ حضرت عیسیٰ کی اصلی انجیل ہے اور وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مسیحیوں نے جان بوجھ کر اُسے چھپایا جب تک یہ 18 ویں صدی میں خود سے اچانک سامنے نہیں آ گئی۔ متی،مرقس،لوقا او ریوحنا کی اناجیل کے سینکڑوں ابتدائی نسخے موجود ہیں، لیکن حضرت عیسیٰ کے ایک ہزار پانچ سو سال بعد تک برنباس کی انجیل کے نسخے کی کوئی نقول موجود نہیں ہیں۔نیچے ہم دیکھیں گے کہ یہ مسودہ جنوبی یورپ میں 1500 اور 1590 کے درمیانی عرصے میں مرتب ہوا۔
بد قسمتی سے جعلساز کی کتاب مقدس،قرآن اور قدیم فلستین کی غیر واضح سمجھ اِس بات کو عیاں کرتی ہے کہ وہ فلستین سے ناوا قف اور قرون لکھنے کی تاریخ وسطیٰ کی ہے۔

سولہویں صدی کے آغاز کے ثبوت

”برنباس کی انجیل“میں سولہویں صدی کی تصنیف کی چند ناقابل ِ انکار نشانیاں شامل ہیں۔توریت شریف نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ
ّآرا م کرنے اور قرض اُتارنے کے لئے ہرپچاسواں سال ”یوبلی“ سال کے طور پر منایا کریں،مگر ”برنباس کی انجیل“کا مصنف اِس وقفے
کے سو سال دیتا ہے۔حضرت عیسیٰ کے زمانے کے کسی بھی یہودی نے ایسی بڑی غلطی نہیں کی ہو گی۔مصنف نے ایک سو کا عدد کہاں سے لیا؟
تقریباً 1300 عیسوی کے قریب پوپ بونیفس ہشتم نے اِس رہائی کے ”جوبلی“ سال کو دوبارہ متعارف کروایاجس پر صدیوں سے عمل نہیں ہو رہا تھالیکن اِسے کلیسیا کو 100 سال کے بعد منا نے کا حکم دیا۔بعد میں پوپ صاحبان نے اِسے واپس 50 سال پر کردیا اور پھر مزید گھٹا کر 25 سال کر دیا۔بظاہر ”برنباس کی انجیل“کے مصنف نے پوپ بونیفس کے حکم کے متعلق سنا ہو گا اور سمجھا ہو گا کہ یہ حضرت عیسیٰ ؑ نے دیا تھا۔

اُس نے بغیر سوچے سمجھے قرون ِ وسطیٰ کے مصنف دانتے کے چند اقوال او رخیالات بھی شامل کر دئیے جو نہ تو کتاب مقدس میں اور نہ ہی
قرآن میں شامل ہیں۔دانتے 13 ویں صدی کا اٹلی کا رہنے والا ایک شخص تھا جس نے جہنم او رجنت کے بارے میں ایک تخیلاتی
ادب لکھا جسے ”الہٰی مزاح“(The Divine Comedy)کے نام سے جانا جاتا ہے۔دانتے کے بہت سے اقوال نے ”برنباس کی انجیل“میں اپنی جگہ بنالی جیسے کہ یہ ایک جملہ،”dei falsi e lugiadi“(”نقلی اور جھوٹے دیوتا“) (Inferno 1:72, Gospel of Barnabas para 23)جو نہ تو کتاب مقدس میں اور نہ ہی قرآن میں موجود ہے۔

”برنباس کی انجیل“مے کو لکڑی کے مٹکوں میں ذخیرہ کرنے کے بارے میں لکھتی ہے (پیرا 152)،یہ دستور قرون ِوسطیٰ میں عام تھا لیکن
فلستین میں پہلی صدی میں نامعلوم تھا جہاں مے کو مشکوں میں ذخیرہ کرتے تھے۔مزید یہ کہ مصنف یسوع کو یہ فرماتے ہوئے لکھتا ہے کہ
گرمیوں کے موسم میں دنیا کتنی خوبصورت لگتی ہے جب فصل اور پھل وافر مقدار میں ہوتے ہیں (پیرا 169)۔یہ اٹلی میں موسم گرما کا ایک
اچھا تذکرہ ہے،لیکن فلستین کا نہیں جہاں اِس وقت بارش ہوتی ہے اور فصلیں موسم سرما میں اُگتی ہیں لیکن کھیت گرمیوں کے دنوں میں پکتے ہیں۔

مصنف فلستین کے جغرافیہ سے بھی ناواقف تھا کیونکہ وہ ناصرت کو گلیل کی جھیل پر ایک ساحلی شہر قرار دیتا ہے(پیرا 21,20) جبکہ ناصرت کا شہر سطح سمندر سے 1300 فٹ بلند ہے اورسمندر سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ 99 باب میں صور کو دریائے یردن کے قریب بیان کیا گیا ہے جب کہ حقیقت میں یہ موجود ہ لبنان سے کوئی 50 کلومیٹر دُور ہے۔”برنباس کی انجیل“حضرت عیسیٰ مسیح کو
ہیکل کے کُنگرے سے تعلیم دیتے ہوئے بیان کرتی ہے۔اگر اُس نے ہیکل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوتا تو وہ یہ جان گیا ہوتا کہ وہ کُنگرہ 150 فٹ بلند تھا جہاں سے منادی کرنا ناممکن ہے۔مصنف حضرت عیسیٰ مسیح کی الوہیت کے مسئلے پرتین فوجوں کی بھیڑ بھی بیان کرتا ہے اورہر ایک میں 200,000 آدمی جنگ میں شریک تھے۔ یٹینیکا کے انسائیکلوپیڈیا کے مطابق اُس وقت رومیوں کی باقاعدہ فوج کی تعداد
کوئی 300,000 تھی جب کہ اِس کی نصف پیچھے محفوظ تھی۔70عیسوی میں رومیوں کے ہاتھوں یروشلیم کی تباہی تک یہودیہ میں صرف ایک چھوٹی سی چھاؤنی موجود تھی۔1

بہت سی نشاند ہیوں میں سے یہ صرف ایک مختصر سی فہرست ہے کہ یہ مسودہ قرون ِ وسطی کے بُرے یورپی نے لکھا تھا۔اِس کے مزید ثبوت درج ذیل ویب سائٹ پر موجود ہیں: www.unchangingword.com

قسطنطین اور 325 کی دینی کتب کی مُسلّمہ فہرست

”نئے عہد نامے کی کتب کا تب تک فیصلہ نہیں ہو ا تھا جب تک رومی شہنشاہ قسطنطین نے اپنی تثلیث کی تعلیم کو بچانے کے لئے 325 میں
کتاب مقدس کی مُسلّمہ فہرست مرتب نہ کر لی۔“

325 کی نقایہ کی کونسل یہ فیصلہ کرنے کے لئے منعقد نہیں ہوئی تھی کہ کون سی کتابیں الہامی ہیں بلکہ کچھ ایسی باتوں کی تصدیق کرنے کے لئے تھی جو ہر جگہ مسیحیوں نے طویل عرصہ سے پہلے ہی قبول کر لی تھیں۔نقایہ کی کونسل صرف ایشیا،افریقہ اور یورپ کے مسیحیوں کے لئے پہلا موقع تھا کہ وہ اکٹھے ہوں اور ہم آہنگی سے یہ کہیں،”یہ وہ الہامی کتب ہیں جنہیں ہم نے 150 سالوں سے قبول کیا ہوا ہے۔“پروپیگنڈہ کرنے والوں نے جیسے کہ جمال بیضا وی نے سینکڑوں اناجیل کے چناؤ کے بارے میں احمقانہ کہانیاں گھڑ لیں،ایسی کہانیاں جن کا کوئی ثبوت نہیں تھا اور جن کا بالکل کوئی حوالہ نہیں تھا۔کانفرنس میں موجود تمام بشپ صاحبان نے صرف چار اناجیل (متی،مرقس،لوقا اور یوحنا)کو ہی قبول کیا اور اُ س کے کافی عرصہ پہلے مُسلّمہ فہرست مرتب ہوئی تھی۔نئے عہد نامے سے پورے 125 سال پہلے ایک مسودہ جسے
”میوریتو رین کینن“(Muratorian Canon)کہا جاتا ہے اُس میں الہامی کتب کی مسلمہ فہرست ایک ثبوت کے طور پر موجود ہے۔
اِس کے علاوہ 180 عیسوی میں بھی ارینیس نے چاروں اناجیل (متی،مرقس،لوقا اور یوحنا)کے بارے میں لکھا ہے:

یہ ممکن نہیں ہے کہ اناجیل تعداد میں جتنی ہیں اُس سے کم یا زیادہ ہو سکتی ہیں۔چونکہ جس دنیا میں ہم رہتے ہیں اُس کے چار حصے ہیں اور چار
اہم ہوائیں ہیں،اورجب کہ کلیسیا پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے،اورکلیسیا کے ”ستون او رزمین“ انجیل اور زندگی کا روح ہیں،یہ مناسب بات ہے کہ زمین کے چار ستون ہونے چاہیئں،بداخلاقی ہر سمت سے باہر نکل جائے اور انسانوں میں نئی جان ڈال دے … کیونکہ زندہ جاندار چار رُخوں والے ہیں اور انجیل چار رُخوں والی ہے کیونکہ یہ انداز خداوند نے بھی اپنایا تھا۔ 1

ارینیس کو پولی کارپ نے تربیت دی تھی جسے خود یوحنا نے تربیت دی تھی اِ س طرح ارینیس حضرت عیسیٰ کے پیارے شاگرد او ریوحنا کی انجیل کے مصنف کا ”روحانی بیٹا“ تھا۔

درحقیقت مسلمہ فہرست کی تصدیق کرنا کونسل کا ایک معمولی سا کام تھا جب اُن کو زیادہ فکرآریوسی کا مباحثہ تھا جوآریوس کے اِس غیر معمولی خیال کے گرد گھومتا تھا کہ حضرت عیسیٰ کون تھے۔بنیادی طور پر جھگڑا اِس بات پر تھا کہ ”خدا کا بیٹا“ کی تشریح استعاراتی طور پر کی جائے یا لفظی (جیسے کہ آریوس نے کیا)۔آریوس نے اپنی دلیل کی بنیاد یہ کہتے ہوئے مقدس یوحنا رسول کی انجیل 16:3 پر رکھی کہ چونکہ یہ آیت حضرت عیسیٰ کو ”خدا کا اکلوتابیٹا“ کہتی ہے اِس لئے وہ حقیقت میں کہیں تخلیق سے پہلے خدا باپ سے ایک بچے کی طرح ”پیدا ہوا“(نعوذ باللہ)۔آریوس نے سب سے پہلے یہ مباحثہ تب شروع کیا جب اُس نے مندرجہ ذیل نتیجہ اَخذ کیا جسے قسطنطینہ کے مؤرخ سقراط نے درج کیا:

”اگر ایک باپ اپنے بیٹے کو جنتا ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ اُس متولّد کی موجودگی کا کوئی آغاز بھی تھا۔“

یا پھر آریوس اپنی نظم تھیلیا میں حضرت عیسیٰ کے متعلق بیان کرتا ہے:

اُس (خدا)نے اُسے (حضرت عیسیٰ)اپنے لئے بیٹے کے طور پر جنم دے کر پیدا کیا۔

یہ کافرانہ خیال 99 فیصد بشپ صاحبان نے رد کر دیا۔چونکہ یہ تعلیم واضح طور پر صحائف کی تعلیم کے برعکس تھی اورنفرت انگیز ہے۔باپ بیٹے کے رشتے کو لفظی معنوں میں نہیں لینا چاہئے۔یہ فرماں برداری اور حضرت عیسیٰ کے خدا کے ماتحت ہونے کا ایک مجازی اِستعارہ ہے۔
یوحنا 16:3 میں موجود ”اکلوتے“(مونو گینی) کی اصطلاح کا مطلب واحد (انوکھا،منفرد)بھی ہو سکتا ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ کا بطور ”خدا کا کلام“دوسروں لوگوں سے ہٹ کر خدا کے ساتھ ایک مختلف خاص رشتہ ہے۔

اِس بحث میں آریوس اور اُس کے مخالفین دونوں نے ایک جیسے صحائف کو ایک جیسے بنیادی پیغام کو قبول کیا کہ یسوع زمانے سے پہلے وجود رکھتا ہے،جسے اللہ تعالیٰ نے انسان او رخدا کے درمیان ایک منفرد درمیانی بنا کر بھیجا تاکہ صلیب پر اپنی موت کے وسیلے سے لوگوں کو اُن گناہوں سے بچائے۔

بالآخر آریوس نے اپنے مخالفین کے اعتراضات کے جواب میں یسوع مسیح کے بارے میں اپنے خیالات تبدیل کر لئے۔

مسلمان مبلغین قسطنطین کو ایک جابر راہنما کے طور پر پیش کرنا پسند کرتے ہیں جس نے بشپ صاحبان کو آریوس کے بارے میں اپنی مرضی تبدیل کرنے پر دباؤ ڈالا۔دراصل جب آریوس نے اپنے مخالفین کو مطمئن کرنے کے لئے اپنے خیالات پر نظر ثانی کی
تو قسطنطین نے بشپ اتھنیسیسAthanasiusکو آریوس کو کلیسیا میں دوبارہ شامل کرنے کی ہدایت کی۔اتھنیسیس نے انکار کر دیا
او راِس لئے قسطنطین نے اُسے Trierجلاوطن کر دیا۔پھر قسطنطین نے بشپ الیگزنڈر کو ہدایت کی کہ وہ آریوس کو اُس کے اعتراضات کے باوجود کلیسیا میں دوبارہ شامل کرے لیکن اِس سے پہلے کہ آریوس کلیسیا میں شامل کیا جاتا اُس کی اچانک موت واقع ہو گئی۔اِس تمام کارروائی سے پتا چلتا ہے کہ قسطنطین بشپ صاحبان کی نسبت آریوس کے حق میں زیادہ تھا۔

  1. Irenaeus, Against Heresies 3.11

مسیحی علما اور کتاب مقدس کا معتبر ہونا

”حتیٰ کہ مسیحی علما بھی کہتے ہیں کہ کتاب مقدس معتبر نہیں ہے“

توریت شریف اور انجیل شریف کے بارے میں اپنے کم تر نظریے کا دفاع کرنے کے لئے حضرت عیسیٰ کی ”Abysmal failure theory“یورپین سکالرز آف ہائر کرٹیسزم کا حوالہ دینا پسند کرتی ہے۔پچھلی صدی کے اِن مادہ پرست مکتبہ فکر نے یہ رائے قائم کی کہ
کتاب مقدس غلط او ردیومالائی ہے کیونکہ یہ معجزات کی کہانیوں پر مشتمل ہے۔حتیٰ کہ اِن علما میں سے بہت سے مسیحی ہونے کا لیبل لگائے ہوئے تھے مگر پھر بھی اُن کا دنیا کے بارے میں نظریہ مادہ پرستی کی بنیادی روشن خیالی تھا۔

وہ یہ قیاس کرتے تھے کہ کائنات ایک بند
مشین ہے اِس لئے معجزات ناممکن تھے،نبوتی پیشین گوئیاں ناممکن تھیں اور اِس لئے کتاب مقدس کو خیالی کتاب ہونا چاہئے۔اِس قسم کے علما میں سے ایک نے اپنے تعصب کو کھلم کھلا تسلیم کیا: 1

ایک تاریخی حقیقت جس میں مُردوں میں سے جی اُٹھنا شامل ہے،یہ بالکل ناقابل ِ یقین ہے۔
تمام سچے مسلمان او رمسیحی اِس مقدمے سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مُردوں میں سے زندہ کرنے اور کنواری سے جنم دلانے کے معجزات کئے ہیں۔ 2 اِس نے لچک بنیادی قیاس کی بنیاد پر اُنہوں نے کتاب مقدس کے دَور کا دوبارہ تعین کیا اورمسوداتی مفروضے اور بیئت پر تنقید کے ساتھ اِس کی تاریخ کی دوبارہ تشریح کی۔اُن کے بہت سے نتائج نے تعلیمی حلقوں میں مقبولیت کھو دی۔اِس لئے یہ ایک المیہ ہے کہ نائیک او ردیدات کتاب مقدس پر اُن کی تاریخوں اور نظر ثانی کی گئی تاریخ کا استعمال کر سکتے ہیں (جو مکمل طور پر معجزات اور نبوتوں کی ممانعت پر مبنی ہیں)اور وہ اُسی تشریحی طریقہ کار کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں جو قرآن پر لاگو ہوتا ہے۔
چلئے!…

قرآن مجید او رکتاب مقدس کی تاریخ مقرر کرنا

”مسیحی صحائف حضرت عیسیٰ کے ایک صدی بعد مرتب ہوئے،جب قرآن کے حوالے سے ایسا نہیں ہے وہ حضر ت محمدؐ کی زندگی میں لکھا گیا۔“

دراصل قرآن مجید اور کتاب مقدس کی ترسیل کسی حد تک ملتی جلتی تاریخ ہے جیسا کہ ہم دیکھیں گے۔جیسے کہ بہت سے لوگ اِس بات پر یقین رکھتے ہیں،اِن میں سے کوئی بھی کتاب کی شکل میں براہ ِراست آسمان سے نازل نہیں کی گئی،بلکہ دونوں صحائف کی زبانی مرحلے سے لے کر آج تک کے اصلی نسخوں کے مرحلے تک مرحلہ وار ترقی کرنے کی تاریخ موجود ہے جو جزوی نسخوں کے ثبوت سے لے کر موجود مکمل تحریری مجموعوں پر مشتمل ہے جو دیئے جانے کے سو سال بعد سے تعلق رکھتے ہیں۔

1.

انجیل شریف اور قرآن کے نسخوں میں اختلافات

”کتاب مقدس کے ابتدائی نسخوں میں اختلافات ہیں،جبکہ قرآن کے تمام ابتدائی نسخے مماثل ہیں۔“

یہ ایک آسان نظریہ ہے لیکن یہ سب خیالی ہے اورجیسے کہ ہم درج ذیل باتوں میں دیکھیں گے یہ تاریخی اور متنی اندراج کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا۔

توریت شریف،زبور شریف،انجیل شریف
اور قرآن میں نقل نویسی کی معمولی اغلاط اور اختلافات

ہم سب اِس بات سے متفق ہیں کہ خدا کا کلام تبدیل نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ کتاب مقدس او رقرآن دونوں کی واضح گواہی ہے۔لیکن جب ہم کسی نسخے میں اختلاف دیکھتے ہیں تو کیا یہ بات اُس صحیفہ کو ردّ کرتی ہے؟یقینا نہیں،کیونکہ قرآن اور کتاب مقدس دونوں میں ایسی سینکڑوں نقل نویسی کی اغلاط موجود ہیں۔ پچھلے ہی ماہ میں اپنے اسلامی فاؤنڈیشن بنگالی قرآن میں یہ پڑھ کر حیران رہ تھا کہ ”ایمان دار او رراست باز اپنے لئے ”جہنم“ کمائیں گے“(”دوزخ“جو جنت،آسمان کی جگہ چھپ گیا)!…

کسی اَور کا بوجھ اُٹھانا؟

”حضرت عیسیٰ ہمارے گناہوں کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتے،کیونکہ قرآن فرماتا ہے:’کوئی شخص دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا،
(38:53)“

ْْْقرآن کو اکثر اُن لوگوں نے جو اِس کے معنی سے واقف نہیں ہیں حضرت عیسیٰ مسیح کے عوضی کفارے کا اِنکار کرنے کیلئے غلط اِستعمال کیا ہے،

”جو باتیں موسیٰ کے صحیفوں میں ہیں اُن کی اس کو خبر نہیں پہنچی اور ابراہیم کی جنہوں نے (حق طاعت و رسالت)پورا کیا،’کوئی شخص دوسرے (کے گناہ)کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا‘(36:53)“

جو کوئی بُرا کام کرتا ہے تو اُس کا ضرر اُسی کو ہوتا ہے اور کوئی شخص کسی دوسرے کا گناہ کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا،(قرآن 164:6)


جیسے کہ قرآن یہ فرماتا ہے تو یہ توریت شریف (عبرانی صحائف)سے ہی اقتباس کرتا ہے:

”بیٹا باپ کے گناہ کا بوجھ نہ اُٹھائے گا اور نہ باپ بیٹے کے گناہ کا بوجھ۔صادق کی صداقت اُسی کے لئے ہو گی اور شریر کی شرارت شریر کے لئے۔“(حزقی ایل،20:18)


جب ہم اِس آیت کے سیاق و سباق کا جائزہ لیتے ہیں تو اِس بیان کا مقصد واضح ہو تا ہیں – یہ براہ ِ راست فرزندانہ ذمہ داری سے منع کرتا ہے،جو کہ ایک قدیم قانونی نظریہ ہے کہ ایک شخص کواپنے باپ یا بیٹے کے گناہ کی خاطر سزا دی جا سکتی ہے۔وسیع النظری میں یہ کسی شخص کو زبردستی کسی اَور شخص کے گناہ کے نتائج بھگتنے سے بھی منع کرتا ہے (حضرت عیسیٰ مسیح کے رضاکارانہ عوضی ہونے کے برعکس)۔


واقعی،ہم اِسے ایک عالمگیر اور حتمی اُصول کے طور پر نہیں لے سکتے:


1۔ قرآن خود اِس خاص اُصول کے عالمگیرانہ اطلاق سے تضاد رکھتا ہے۔ایسے شریر لوگوں کی بات کرتے ہوئے جو ناواقف لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں،قرآن فرماتا ہے:

”یہ قیامت کے دن اپنے (اعمال کے)پورے بوجھ بھی اُٹھائیں گے اور جن کو یہ بے تحقیق گمراہ کرتے ہیں اُن کے بوجھ بھی (اُٹھائیں گے) سن رکھو کہ جو بوجھ یہ اُٹھا رہے ہیں بُرے ہیں۔“(25:16)


اگر ہم (جھوٹ موٹ)اُصول کوعام اُصول کی بجائے حتمی قرار دیں تویہ براہ ِ راست 13:17-15 اور 38:53-42 سے تضاد رکھتا ہے
اِسی طرح تنویر المقباس من تفسیرابن عباس میں سورۃ 24:8-25 کی تفسیر میں لکھاہے:

(اور اس فتنہ سے ڈرو)کسی بھی فتنہ سے جو واقع ہو سکتا ہے (جو خصوصیت کے ساتھ اُنہی لوگوں پر واقع نہ ہو گا جو تم میں گناہ گار ہیں)بلکہ اِس کی بجائے وہ گناہ گاروں او رجس کے ساتھ بے اِنصافی ہوئی دونوں پر واقع ہو گا (او رجان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے)جب وہ سزا دیتا ہے۔


اگر ہم اِس اُصول کی پیروی کرتے ہیں کہ قرآن کے مختلف حصے ایک دوسرے کی وضاحت کرتے ہیں،تو ہمیں اِس نتیجے پر پہنچنا ہو گا کہ یہ اُصول حتمی نہیں ہے لیکن وسعت میں محدود ضرور ہے۔


2۔ مزید یہ کہ یہ اُصول حضرت آدم پہلے ہی توڑ چکے ہیں۔ قرآن اور کتاب مقدس دونوں یہ بتاتے ہیں کہ حضرت آدم کے گناہ کے نتیجے میں پوری نسل ِ انسانی اب مزید کامل جنت میں نہیں رہ سکتی تھی مگر زمین پر زندگی بسر کرنے اور مرنے کے لئے سزاوار ٹھہری۔دوسرے الفاظ میں،ہم سب کو بھی کسی اَور کے گناہ کے نتائج بھگتنے تھے جسے ہم جنت سے بے دخل کئے جانے اور موت کا نام دیتے ہیں۔


حضرت آدم کے خدا کے اِس عام اُصول سے مُستشنیٰ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ خدا تعالیٰ نے حضرت آدم کو مقرر کیا کہ اِنسانیت کے تعلق سے ایک منفرد کردار رکھیں۔ حضرت آدم کی مانند حضرت عیسیٰ خدا تعالیٰ کی مرضی سے انسانیت سے ایک منفرد تعلق رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جیسے قرآن بیان کرتا ہے، کتاب مقدس بھی اُسے دوسرا آدم کہتی ہے (”عیسیٰ کا حال خدا کے نزدیک آدم کا سا ہے“(قرآن 59:3)۔
انجیل شریف کچھ یو ں بیان کرتی ہے:

”جیسے آدم میں سب مرتے ہیں ویسے ہی مسیح میں سب زندہ کئے جائیں گے“(۱-کر نتھیوں 22:15 اور 45:15 بھی دیکھئے)۔


جیسا کہ ہمارا حضرت آدم کے ساتھ ایک منفرد تعلق ہے،اُسی طرح ہم حضرت عیسیٰ مسیح کے ساتھ بھی ایک منفرد تعلق رکھ سکتے ہیں۔

اِس بات کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد کے لئے کہ کس طرح انصاف کے ایک اچھے اُصول کو محض نظر انداز کیا جا سکتا ہے،ہم اِس کا ایک اَور الہٰی اُصول کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں -”قتل نہ کرنا“۔یہ حکم کہ قتل نہ کرنا ایسے نظر انداز ہوسکتا ہے کہ جب ایک اعلیٰ ترین منصف کسی شخص (جلاّد) کو موت کی سزا دینے کے لئے مقرر کرے۔یہی بات کسی اَو رکا بوجھ نہ اُٹھانے کے اُصول پر صادق آتی ہے –
یہ صرف اُسی وقت مُستشنیٰ قرار دیا جا سکتا ہے جب اعلیٰ منصف (خدا تعالیٰ)کسی کو اُس خاص کام کے لئے مقرر کرے(عیسیٰ مسیح)

ایک اَور وجہ کہ حضرت عیسیٰ یہ عام طریقہ کار کیوں توڑتے یہ ہیں کہ تمام نسل ِ انسانی میں صرف و ہی بے گناہ ہیں۔خدا کے انصاف میں گناہ
دوسرے گناہ گار پیروں،مقدسین یا پاک لوگوں سے دعا کرنے سے معاف نہیں ہوسکتے،چاہے وہ کتنے ہی پاک باز اشخاص کیوں نہ ہوں،وہ تب بھی گناہ سے داغ دار ہیں۔چونکہ صرف حضرت عیسیٰ مسیح ہی کامل طور پر گناہ سے مبّرا ہیں اِس لئے صرف وہی خدا کی مرضی سے رضاکارانہ طورپر دوسرے کے گناہ کا بوجھ اُٹھانے کا حق رکھتے ہیں۔

آخر ی بات یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ مسیح کا عوضی کفارہ کتابِ مقدس کی نا قابل ِ انکارگواہی ہے جو باربار نہ صرف انجیل شریف میں بلکہ توریت شریف میں بھی دہرائی گئی ہے۔ہم اِس بات کا انکار کرنے کا چناؤکر سکتے ہیں کہ کوئی بھی دوسرے شخص کے گناہ کا بوجھ اُٹھا سکتا ہے لیکن اِس سے ہم جہنم کے سزاوار اور خدا کے رحم اورمعافی کے ذریعے کو ردّ کرنے والے ٹھہرتے ہیں۔ ہمیں خدا کے نجات کے انعام کو اچھے طریقے سے قبول کرنا ہو گا۔

کیا یعقوب او رپولُس ایک دوسرے سے تضاد رکھتے ہیں؟

کیا ایمان او راعمال کے بارے میں یعقوب اور پولُس ایک دوسرے کے ساتھ تضاد نہیں رکھتے؟“

بہت سے نقادیہ ظاہر کرنے کے لئے پولُس اور یعقوب کی تحریروں میں سے مخصوص آیات کا انتخاب کرنا پسند کرتے ہیں کہ یہ ابتدائی مسیحی قائدین آپس میں اختلاف رکھتے تھے۔تاہم،اگر آپ پورے نئے عہد نامے سے واقف ہیں تو یہ دلیل ردّ ہوجاتی ہے۔یعقوب اور پولُس
ایک سی انجیل پر ایمان رکھتے تھے اور اُسی کا اُنہوں نے پرچار کیا،اُنہوں نے محض اُن لوگوں کی ضرورت کے مطابق مختلف حصوں پر زوردیا جنہیں وہ لکھ رہے تھے۔ یہ وہ باتیں ہیں جن پر وہ دونوں ایمان رکھتے تھے:
شریعت اچھی ہے مگر اِس سے ہم نجات حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ لوگ کُلّی طور پر اِس کی فرماں برداری نہیں کر سکتے۔تاہم،خدا نے نجات کے اپنے ذریعے کو ظاہر کیا جو یسوع کے وسیلے کفارے اور صلح صفائی ہے۔ ہمیں ایمان اور توبہ کے ذریعے اور ایک شاگرد بننے سے خُدا کی طرف سے نجات کی بخشش کو قبول کرنا ہے۔ بھلائی کے کام حقیقی ایمان کی ایک ضروری علامت یا نشان ہیں۔اگر کسی شخص کا ایمان بھلائی کے کام پیدا نہیں کرتا تو اِس کا مطلب یہ ہے
کہ وہ ایک حقیقی ایمان نہیں تھا(اور اُسے نہیں بچائے گا)۔اِس لئے ایمان او رکام دونوں ضروری ہیں مگر ایمان بنیادی چیز ہے۔چونکہ نجات
حضرت عیسیٰ مسیح کی ہماری خاطر کفارے سے ملتی ہے،اِس لئے نجات کو شریعت کے ذریعے سے حاصل کرنے کی کوشش کرنا بنیادی طور پر حضرت عیسیٰ مسیح کی مفت بخشش کا اِنکار کرناہے۔

پولُس اور یعقوب دونوں کی تحریریں اِس بات سے مطابقت رکھتی ہیں۔جس طرح نقاد الزام لگاتے ہیں کیا واقعی پولُس شریعت سے نفرت کرتا ہے؟آئیے!…

کیا مسیحی صحائف تبدیل ہو چکے ہیں؟

”قرآن یہ بتاتا ہے کہ یہودی اور مسیحی صحائف تبدیل ہو گئے تھے۔“

کئی مقامات پر قرآن یہودیوں (مسیحیوں پر نہیں) پر اپنے صحائف غلط استعمال کرنے پر تنقید کرتا ہے اور اُن پر تحریف کرنے ( حُيَرِّفُونَهُ) 75:2، چھپانے (61:6،140:2) ،پڑھتے ہوئے اپنی زبانوں کو مروڑنے ( يَلْؤنَ السِنَتَهُم ) 78:3 ، اور حتیٰ کہ الفاظ کو اُن کی اصلی جگہ سے تبدیل کردینے ( حُيَرِّفُونَ الكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ – 12:5-14) کا الزام لگاتا ہے۔مثلاً

”اور اِن (اہل ِ کتاب) میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب (توریت) کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں تاکہ تم سمجھو کہ جو کچھ وہ پڑھتے ہیں کتاب میں سے ہے حالانکہ وہ کتاب سے نہیں ہوتا اور کہتے ہیں کہ وہ خدا کی طرف سے (نازل ہوا) ہے حالانکہ وہ کتاب میں سے نہیں ہوتا او رخدا پر جھوٹ بولتے ہیں اور (یہ بات)جانتے بھی ہیں۔ (آل عمران 78:3)

تاہم،قرآن ایک مرتبہ بھی نہیں کہتا کہ تحریری متن تبدیل ہوا ہے،نہ ہی یہ کہتا ہے کہ اصلی صحائف اُس وقت کی نسبت مختلف ہیں،
بلکہ اِس کی بجائے قرآن یہودیوں او رمسیحی صحائف کے بارے میں بہت سی مثبت باتیں کہتا ہے:

”اہل ِانجیل کو چاہئے کہ جو احکام خدا نے اُس میں نازل فرمائے ہیں اُس کے مطابق حکم دیا کریں اور جو خدا کے نازل کئے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے گا تو ایسے لوگ نافرمان ہیں“ (سورۃ المائدۃ 47:5)

”کہو کہ اے اہل ِ کتاب جب تک تم تورات اور انجیل کو اور جو (اور کتابیں) تمہارے پروردگار کی طرف سے تم لوگوں پر نازل ہوئی اُن کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہو سکتے۔“ (سورۃ المائدۃ 68:5)

”اگر تم کو اِس کتاب کے بارے میں جو ہم نے تم پر نازل کی ہے،کچھ شک ہو تو جو لوگ تم سے پہلے کی (اُتری ہوئی) کتابیں پڑھتے ہیں اُن سے پوچھ لو۔“ (سورۃ یونس 94:10)

”اُس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں“ (سورۃ الانعام 115:6)

قرآن کے اِن دونوں مختلف رویوں کے درمیان ہم آہنگی کا واحد درست راستہ دراصل قرآن ہی میں موجود ہے،بار بار دہرایا گیا دعویٰ کہ الہٰی کتاب کے دو مختلف فریق یا حصے ہیں،اچھے اور بُرے۔نیک حصہ اپنے مقدس صحائف سنبھال کر رکھتا ہے اور بڑی وفاداری سے اُس کی پیروی کرتا ہے،جب کہ بُرا حصہ غیر الہامی نظریات سکھاتا ہے اور اپنے مفاد کی خاطر اُن کے معنوں کو مروڑتاہے:

”یہ بھی سب ایک جیسے نہیں ہیں اِن اہل ِ کتاب میں کچھ لوگ (حکم خدا پر)قائم بھی ہیں۔“ (سورۃ آل عمران 113:3)

”اور بعض اہل ِ کتاب ایسے بھی ہیں جو خدا پر اور اُس (کتاب)پر جو تم پر نازل ہوئی اور اُس پر جو اُن پر نازل ہوئی ایمان رکھتے ہیں اور خدا کے آگے عاجزی کرتے ہیں اور خدا کی آیتوں کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہیں لیتے۔یہی لوگ ہیں جن کا صِلہ اُن کے پروردگار کے ہاں (تیار)ہے۔“ (آل عمران 199:3)

”ہم نے اُن کا اَجر دیا۔او راُن میں سے بہت سے نافرمان ہیں۔“ (27:57)

اِس قرآنی جدول کو استعمال کرتے ہوئے ہم اِن دو گروہوں کی خصوصیات میں فرق کر سکتے ہیں:

نیک،اچھا فرقہ بدعتی بُرافرقہ اخلاق
-تکبرسے آزاد(83:5)

-دئیے گئے سونے کے بارے میں قابل بھروسا (74:3)

-انصاف کا ساتھ دیتے ہیں،بُرائی سے منع کرتے ہیں (113:3)

-نیکیاں کرنے میں ایک دوسرے کا مقابلہ کر نا (113:3)

-راست باز (113:3)

اخلاق

-ناقابلِ بھروسہ، کنجوس(74:3)

-شرم ناک حد تک کمزور ایمان (75:3)

-بُرائی کرنے والے (111:3)

-بغاوت اور ظلم کرنے والے (112:3)

-غصہ کرنے والے (120:3)

علم ِ الہٰی اور تعلیم
-اللہ تعالیٰ اور قیامت پر یقین (113:3)
– وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور بعض اوقات تمام رات وہ تین الگ الگ خدا ؤں پر ایمان رکھتے ہیں:حضرت عیسیٰ،حضرت عبادت کرتے ہیں (113:3)

-وہ نیک ارادوے سے رہبانی نظام قائم کرتے ہیں،لیکن اُنہوں نے وفاداری سے اِس پر عمل نہیں کیا (27:57)۔

اُنہیں خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں (69:5)
اُنہیں روز ِقیامت اَجر ملے گا (113:3)

علم ِ الہٰی اور تعلیم
-اللہ تعالیٰ پر یقین جس کی بیوی تھی اور اِس طرح جسمانی بیٹا پیدا ہوا (سورۃ 101:6،3:72)؛وہ کہتے ہیں ”اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے“ (68:10)

وہ تین الگ الگ خدا ؤں پر ایمان رکھتے ہیں:حضرت مریم اور اللہ تعالیٰ پر (116:5)۔وہ کہتے ہیں اللہ تین میں کا تیسرا ہے۔ (73:5)
وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو اپنے قابو میں کر سکتے ہیں (29:57)

وہ حضرت ابراہیم،حضرت اسماعیل،حضرت اسحاق،حضرت یعقوب ،حضرت موسیٰ او ریہودیوں میں امتیاز کرتے ہیں۔

صحائف کے لئے رویہ
اپنے صحائف کی تلاوت کرتے ہیں (113:3)
اِس کی درست طریقے سے تلاوت کرتے ہیں (121:2)
اُن پر یقین رکھتے ہیں (121:2)
کلام کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں (47:5)

صحائف کے لئے رویہ
وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کو ایسے پس ِ پشت ڈال دیتے ہیں کہ جیسے وہ اُسے جانتے تک نہ تھے (101:2)
جانتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے بارے میں باطل باتیں کہتے ہیں (76:3)
جان بوجھ کر سچائی کو چھپاتے ہیں (146:2)
کلام سے واقف نہیں ہے،وہ سوائے خواہش کئے گئے تصورات اور غیرواضح قیاس کے کچھ نہیں جانتے۔(79:2)

حضرت عیسیٰ کا نظریہ
وہ کہتے ہیں کہ مسیح اللہ تعالیٰ کا خادم تھا (172:4)
وہ کہتے ہیں کہ مسیح کلمتہ اللہ تھا ۔

حضرت عیسیٰ کا نظریہ

وہ حضرت عیسیٰ کے انسان ہونے کا انکار کرتے ہیں (75:5) اور دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ نے کہا،”خدا کی بجائے میری عبادت کرو“ (79:3) اور”فرشتوں او رپیغمبروں کو خدا بنالو“

مسلمانوں کے لئے رویہ
”تم دیکھو گے ..کہ…

قربانی

قربانی

سُنی شریعت کے مطابق قربانی دینا واجب ہے فرض یا لازمی نہیں ہے۔جبکہ شعیہ فرقے میں قربانی صرف اُن لوگوں پر واجب ہے جو
مکہ میں حج کرتے ہیں اور محض چند لوگ اِس کی سے کر اِس کی مشق کرتے ہیں۔سو قربانی سے متعلق مختلف آراء پائی جاتی ہیں:

قرآن میں ہم کچھ یوں پڑھتے ہیں:

”ہم نے اُن کو(حضرت ابراہیم)ایک نرم دل لڑکے کی خوشخبری دی جب وہ اُن کے ساتھ دوڑنے کی (عمر)کو پہنچا تو ابراہیم نے کہا کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ (گویا)تم کو ذبح کر رہا ہوں تو تم سوچو کہ تمہارا کیا خیال ہے۔اُنہوں نے کہا کہ ابّاجو آپ کو حکم ہوا ہے وہی کیجیے
خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائیے گا۔جب دونوں نے حکم مان لیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹا دیا تو ہم نے اُن کو پکارا کہ
اے ابراہیم تم نے خوا ب کو سچا کر دکھایا۔ہم نیکو کاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔بلا شبہ یہ صریح آزمایش تھی اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو اُن کا فدیہ دیا۔“(سورۃ الصّفّت 101:37-107)

اب اگر آپ کا بھتیجا سنے کہ اُس کا باپ کہتا ہے،”میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ مجھے تمہیں ذبح کرنا ہے“،تو اُس کا بیٹا کیا کہے گا۔اُسے اپنی ماں کو کہنا چاہئے کہ ابو جان پاگل ہو گئے ہیں،اُن کے سر پر ٹھنڈا پانی ڈالیں!آئیے!…