یہوداہ -اُس کی موت کیسے واقع ہوئی اور کھیت کس نے خرید ا؟

اعمال 18:1-19 – ”یہوداہ -اُس کی موت کیسے واقع ہوئی اور کھیت کس نے خرید ا؟“

جب ہم متی 3:27-8 کا موازنہ اعمال 18:1-19 سے کرتے ہیں تو دو پریشان کرنے والے سوالات ہیں جو یہوداہ کی موت سے متعلق ہیں:

یہوداہ کی موت کیسے واقع ہوئی؟

متی کہتا ہے کہ یہوداہ نے ”جا کر اپنے آپ کو پھانسی دی“جبکہ اعما ل کی کتاب کہتی ہے،”کہ وہ سر کے بل گرا او راُس کا پیٹ پھٹ گیا
اور اُس کی سب انتڑیاں نکل پڑیں۔“اِس کی روایتی تشریح یہ ہے کہ یہوداہ نے اپنے آپ کو درخت کی اُونچی شاخ سے لٹکا لیا،اور نتیجتاًشاخ ٹوٹ گئی اور وہ سر کے بل گرا او راُس کا پیٹ پھٹ گیا۔واقعی اعمال کی کسی اور طرح تشریح کرنا مشکل ہو گا،کیونکہ پیٹ تب تک نہیں پھٹ سکتا جب تک وہ اچھی خاصی اُونچائی سے پہاڑی خطے(جو یروشلیم کے اِرد گرد کا خطہ تھا) میں نہ گرے۔ہم یہ قیاس کر سکتے ہیں کہ جسم کچھ وقت
تک لٹکا،کیوں یہوداہ نے سبت سے تھوڑی دیر پہلے اپنے آپ کو پھانسی دی اور سبت سے پہلے لاش کو ہاتھ لگانا منع تھا۔

دیگر مبصّرین نے ذِکر کیا ہے کہ ”اپنے آپ کو پھانسی دی“کے لئے یونانی اصطلاح (اپینگخومائے) کا مطلب جذبات سے بھر جانا یا غم سے نڈھال ہو جانا بھی ہو سکتا ہے،جیسے کہ انگریزی زبان کا جزوِ جملہ ہے، ”All choked up (سب بھر گئے)۔“

چاندی کے سکوں سے کھیت کس نے خریدا؟

ہم درج ذیل طریقے سے دونوں واقعات کو اکٹھا کر سکتے ہیں:یہوداہ نے ہیکل میں کاہنوں کو چاندی (خون کا کھیت) واپس کرنے کی کوشش کی لیکن اُنہوں نے لینے سے انکا رکر دیا،اِس لئے اُ س نے اُسے اُدھر ہی چھوڑا اور چلا گیا اور شہر کے باہر زمین کے ایک خالی خطے میں جا کر اپنے آپ کو پھانسی دے دی۔اب کاہن تذبذب میں مبتلا ہو ئے،اب اُن کے پاس مُردہ یہوداہ اسکریوتی کی رقم تھی جو وہ ہیکل میں نہیں ڈال سکتے تھے۔چونکہ یہ داغ دار خون کا روپیہ تھا،اِس لئے وہ نہیں جانتے تھے کہ اُس کے ساتھ کیا کریں۔اِس وجہ سے،وہ شخص جس کا یہ خطہ تھا جہاں یہوداہ نے اپنے آپ کو پھانسی دی،وہ اِس حقیقت کی وجہ سے خوفزدہ تھا کہ ایک مجرم شخص کی ایسی خوف ناک موت اُس کی شخصی
جائیداد پر ہوئی ہے،اِس لئے شاید وہ اِس جائیداد سے جان چھڑانا چاہتا تھا۔زمین کے مالک اور کاہنوں نے آپس میں سودا کیا جس سے
دونوں فریقوں کو سکون ملا یعنی ’ناپاک‘ روپے سے پردیسیوں کے لئے قبرستان کے طور پر ’ناپاک‘ زمین خریدی گئی،اِس لئے داغ دار روپے سے ناپاک زمین کے ذریعے چھٹکا را پالیا گیا۔چونکہ زمین یہوداہ کے روپے سے خریدی گئی تھی،اِس لئے کاہنوں نے قدرتی طور پر اِسے اُس کے نام کی لکھ دیا ہو گا جیسے کہ وقف یا ٹرسٹ۔یہی وجہ ہے کہ لوقا اعمال میں لکھتا ہے کہ ”اُس نے بدکاری کی کمائی سے یہ کھیت حاصل کیا،“کیونکہ وہ کھیت اُس کے نام سے حاصل کیاگیا۔ لوقا یہ کہتے ہوئے شروع کر تا ہے کہ یہوداہ نے بالآخر روپے سے ایک کھیت حاصل کیا؛پھر وہ بیان کرتا ہے کہ کس طرح اُس نے یہ زمین حاصل کی -اور پھر دہشت ناک خود کشی سے اُسے گندا کیااورزمین کے مالک کے لئے اُسے نفرت انگیز بنا دیا۔

  1. یہاں استعمال کی گئی اصطلاح (کٹاما) ترجمہ ”خریدا“ یا ” حاصل کیا گیا“ بھی کیا جا سکتا ہے۔

کیا کتاب مقدس محض زیادہ تر درست ہے؟

” کتاب مُقدس زیادہ تر درست ہے، صرف کچھ آیات ایسی تھی جن کا اضافہ کیا گیا یا جو نکالی گئیں جنہوں نے اِس کے پیغام کو بگاڑ دیا۔”

چونکہ کتاب مُقدس کی مجموعی صحت سے متعلق بہت زیادہ ثبوت موجود ہے، اِس لئے بہت سے متشکک الزام لگاتے ہیں کہ مجموعی طور پر بائبل قابل اعتبار ہے لیکن کچھ آیات کا اضافہ کیا گیا تھا یا اُنہیں بدل دیا گیا جس سے اِس کا پیغام بگڑ گیا۔ مثلاً کئی مسلمان دعویٰ کرتے ہیں کہ یسوع کی موت اور جی اُٹھنا اور صرف یسوع میں ایمان سے نجات کی تعلیم “معمولی اضافے” تھے جو بعد ازاں شامل کئے گئے۔ اِن نام نہاد “اضافوں” والی تعلیم (جسے مسیحی انجیلی پیغام کے طور پر جانتے ہیں) کا خلاصہ یوں پیش کیا جا سکتا ہے:

انسانیت فقط شریعت کی تعمیل کرنے سے نجات نہیں پا سکتی کیونکہ لوگ اِس کی مکمل طور پر تعمیل نہیں کر سکتے ہیں، لیکن خدا نے اپنے فضل میں نجات کے لئے ایک ذریعہ مہیا کیا، یعنی لاثانی بے گناہ “مسح شدہ نجات دہندہ” یسوع کو بھیجا گیا جس نے صلیب پر ہمارے گناہوں کو سزا کو اپنے اوپر اُٹھا لیااور کفارہ دیا اور یوں خدا سے انسانوں کا میل ملاپ ہو گیا۔نجات کی یہ بخشش جس کے ہم مستحق نہیں، مذہبی وابستگی یا عقیدہ سے ممکن نہیں بلکہ توبہ کرنے اور یسوع کے ایک شاگرد بن جانے سے حاصل ہوتی ہے۔

اِن نقادوں کے مطابق، مندرجہ بالا عقیدہ کا لازماً بعد میں اضافہ کیا گیا ہے کیونکہ یہ ا ُن کے اپنے مذہبی نظریات سے میل نہیں کھاتا۔ اِن نقادوں کے مطابق وہ تمام آیات جن میں غلط سمجھے گئے “بیٹا” اور “خداوند” کے القاب استعمال کئے گئے ہیں بعد کے اضافے ہیں۔

ہر وہ فرد جس نے حقیقت میں پورے نئے عہدنامہ کا مطالعہ کیا ہے، اُس کے نزدیک یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے کیونکہ یہ پیغام واضح طور پر بار بار نئے عہدنامہ کی تمام ستائیس کتابوں میں پایا جاتا ہے۔ اِس بات کا اشارہ نئے عہدنامہ کی کم از کم آدھی کے قریب تعلیم میں بھی ملتا ہے۔ اِس کے بغیر انجیل مُقدس کی کوئی سمجھ نہیں آ سکتی۔

یہ نظریہ کہ “صرف چند آیات” کا بعد میں اضافہ کیا گیا تھا، ہر اُس فرد کے نزدیک مضحکہ خیز ہے جس نے حقیقت میں پورے نئے عہدنامہ کا مطالعہ کیا ہے، کیونکہ یہ پیغام واضح طور پر بار بار نئے عہدنامہ کی تمام ستائیس کتابوں میں پایا جاتا ہے اور اِس بات کا اشارہ نئے عہدنامہ کی کم از کم آدھی کے قریب تعلیم میں بھی موجود ہے۔ یہی خوشخبری تمام انجیلی بیانات میں موجود ہے جسے یسوع نے کئی مرتبہ بیان کیا: متی 26: 28 ;یوحنا 3: 15 ; متی 20: 28 ;مرقس 10: 45 ; یوحنا 10: 9 ; 14: 6 ;یوحنا6: 44،47، 48، 51 ; 10: 11 ،28 ; 11: 25 ; 17: 1-2 ،3 ;لوقا 4: 43 ; 24: 26 – 27 ;یوحنا 6: 29 ،33،35 ; 4 : 14; 5: 21 ;متی 18: 21-35 ۔ یہ وہی خوشخبری ہے جس کی منادی پطرس رسول نے کی ، یعقوب نے کی اور یوحنا رسول نے کی۔ مزید برآں نئے عہدنامہ کی تمام ستائیس کتابوں میں اِس حقیقت کی گواہی ملتی ہے۔

باالفاظ دیگر، یہ پیغام مکمل طور پر نئے عہدنامہ سے ناقابل جدا ہے اور انجیل مُقدس کا مرکزی “خوشخبری” کا پیغام ہے۔ یہ تحریر جامع نہیں ہے۔ یہاں ہر عنوان کے تحت حضرت عیسیٰ کے بارے میں قرآن میں پائے جانے والے تمام حوالہ جات کا احاطہ نہیں کیا گیا۔ اور اِس کے لئے ایک بڑی کتاب لکھنے کی ضرورت ہو گی۔ تاہم یہاں حضرت عیسیٰ کے لئے استعمال ہونے والے مختلف ناموں اور بیانوں کی ایک یا دو مثالیں دی گئیں ہیں تا کہ قاری تک اُس نکتہ نظر کو درست طور پر پیش کیا جائے جسے قرآن ہر عنوان کے تحت بیان کرتا ہے۔ اِن میں سے کئی باتیں صرف حضرت عیسیٰ کے لئے ہی استعمال ہوئی ہیں اور کسی دوسرے کے لئے استعمال نہیں ہوئیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ اِس مختصر تحریر کو پڑھنے کے بعد قاری کو تحریک ملے گی کہ وہ خود قرآن کا مطالعہ کرے اور دیکھے کہ یہ حضرت عیسیٰ اور کئی اَور اہم موضوعات کے بارے میں کیا بتاتا ہے۔

کیا حضرت عیسیٰ کو “خدا کا بیٹا” کہا جا سکتا ہے؟

حضرت عیسیٰ کو “خدا کا بیٹا” نہیں کہا جا سکتا؟
انجیل مُقدس پر سب سے زیادہ عام اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ حضرت عیسیٰ کے لئے بار بار “خدا کے بیٹے” کی اصطلاح استعمال کرتی ہے۔ جیسا کہ ہم مندرجہ ذیل سطور میں دیکھیں گے کہ انجیل مُقدس میں مذکور یہ اصطلاح ایک جسمانی تعلق (نعوذ باللہ) کی طرف نہ اشارہ کرتی ہے اور نہ کر سکتی ہے بلکہ یہ خالص طور پر ایک مجازی بیان ہے۔ اِس مضمون کے اختتام پر ہم دیکھیں گے کہ جب ہم عربی الفاظ کو درست سمجھ جائیں تو کیسے قرآنی تعلیم جو بظاہر حضرت عیسیٰ کے “خدا کے بیٹا” ہونے کا انکار کرتی ہے،حقیقت میں مُقدس انجیل کے ساتھ متفق ہے۔

مجازی علامتی زبان کو نہ سمجھنا
یہودی، مسیحی اور مسلمان سب نے کبھی کبھار اِس انداز میں خدا کے کلام کے کچھ الفاظ کو غلط طور پر سمجھا ہے۔ مثلاً ایک وقت ایسا تھا جب اسلام میں مشبہ اور زاہریہ کا یہ اعتقاد تھا کہ اللہ ایک جسم رکھتا ہے۔ اُنہوں نے محسوس کیا کہ اللہ جسمانی پہلوﺅں کا حامل ہے جیسے ہاتھ اور چہرہ۔ قرآن و حدیث میں سے ایسے حوالہ جات کی جو اللہ کو اپنے تخت پر بیٹھے یا محمد عربی کے کندھے پر اپنے ہاتھ کو رکھنے کو بیان کرتے ہیں لفظی تشریح کی گئی اور اُنہوں اِس اعتقاد کے ثبوت کے لئے پیش کیا گیا۔

تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ علمائے اسلام نے بتدریج محسوس کیا کہ ایسے حوالہ جات کو لفظی طور پر نہیں لینا چاہئے۔ دیگر واضح تر حوالہ جات کی گواہی سے یہ سمجھا گیا کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی جسم نہیں یا اُس کی کوئی جسمانی محدودیت نہیں ہے۔ تب یہ سمجھ آئی کہ ایسے حوالہ جات جیسے اوپر مذکور حوالہ ہے اِنہیں تشبیہاتی طور پر لینا چاہئے۔ اور ایک بار جب یہ بات سمجھ آ گئی کہ مخصوص حوالہ جات کو لازماً تشبیہاتی طور پر لینا ہے تو یہ واضح ہو گیا کہ کیسے دوسرے مشکل حوالہ جات کی تشریح و توضیح کرنی ہے۔ سو، حدیثوں کو جیسے ذیل میں تین مثالیں موجود ہیں، ایک لفظی تشریح کرتے ہوئے سمجھنا ناممکن تھا۔

نبی اسلام نے کہا:
حدیث 1 : کعبہ کا حجر اسود اللہ کا ہاتھ ہے۔
حدیث2 : ایک مسلمان کے دِل میں اللہ کی انگلیاں موجود ہیں۔
حدیث 3 : مجھے یمن سے اللہ کی خوشبو آتی ہے۔
(اسلامی درشن، ص 169)

لفظی تشریح کے ساتھ مندرجہ بالا حدیث کوسمجھنا مشکل ہے، تاہم اِسے ایک بالواسطہ ، تشبیہاتی تشریح کو مدنظر رکھتے ہوئے سمجھا جا سکتا ہے۔ ایسا کرنے سے دشواریاں ختم ہو جاتی ہیں اور حقیقی معنٰی فوراً سامنے آ جاتے ہیں۔

مندرجہ بالا نوعیت کی مذہبی غلط فہمیاں صرف قرآن اور حدیث تک محدود نہیں ہیں۔ تاریخ میں توریت، زبور اور انجیل کو بھی تشریح کے ایسے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اور غلط تشریح کی وجہ سے کئی غلط فہمیاں سامنے آئی ہیں۔

“خدا کا بیٹا” کے تشبیہاتی / مجازی معنٰی
بلاشک و شبہ ایسی سب سے زیادہ مشہور اور سنجیدہ غلط فہمی انجیل مُقدس میں اکثر استعمال ہونے والے الفاظ “خدا کا بیٹا” سے متعلقہ ہے۔ کچھ مثالوں میں یہ اصطلاح تمام یہودی قوم کی طرف اشارہ کرتی ہے، جبکہ کچھ مثالوں میں یہ سب ایمانداروں کے لئے استعمال ہوئی ہے، اور کچھ جگہوں پر یہ عیسیٰ مسیح کے لئے مستعمل ہے۔ آئیے کچھ لمحے اِس اصطلاح کا جائزہ لیں اور یہ جاننے کی سعی کریں کہ یہ کیسے استعمال ہوئی ہے اور حقیقت میں اِس سے کیا مراد ہے۔

اِس اصطلاح پر اعتراض کرنے والے افراد نے اِسے اِس کے لفظی معنٰی میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ایسا کرنے سے بہت سی سنجیدہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر اِسے لفظی طور پر لیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ خدا کی ایک بیوی تھی جو جسمانی طور پر بچے جنتی ہے (نعوذ باللہ)۔ تاہم، ایسی کفرگوئی پر مبنی سوچ انجیل مُقدس کی واضح تعلیم سے تضاد رکھتی ہے۔ انجیل مُقدس میں یسوع مسیح نے سکھایا کہ خدا ایک ہے اور اُس کا کوئی شریک نہیں۔ اِسی طرح انجیل مُقدس میں واضح طور پر سکھایا گیا ہے کہ خدا کا کوئی جسمانی بدن نہیں ہے بلکہ وہ ایک رُوح ہے۔ خدا کا ایک بیٹے کو جسمانی طور پر جنم دینے کا تصور کفرہے اور ناممکن ہے۔ اِس لئے جنہوں نے اِس اصطلاح کو لفظی طور پرسمجھنے کی کوشش کی ہے اُنہیں ویسی ہے ناقابل عبور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے جو اُن لوگوں کو پیش آتی ہیں جو قرآن و حدیث سے مندرجہ بالا حوالہ جات کی لفظی طور پر تشریح کرتے ہیں۔

دراصل، انجیل مُقدس کے پیروکاروں کا عالمگیر ایمان یہ ہے کہ اصطلاح “خدا کا بیٹا” کی تشریح مجازی معنٰی میں کرنی چاہئے۔ نہ صرف ایسی مجازی تشبیہاتی تشریح لفظی سمجھ کے مسائل و مشکلات سے بچاتی ہے، بلکہ اِس کی تائید کئی دوسرے عوامل سے بھی ہوتی ہے۔ آئیے اِس اصطلاح کے تشبیہاتی و علامتی معنٰی کو قبول کرنے کے لئے کچھ عوامل کا جائزہ لیں۔

“خدا کا بیٹا” زبور میں
سب سے پہلے، داﺅد کے مزامیر جو یسوع کے زمانے سے سینکڑوں برس پہلے لکھے گئے آنے والے “مسیح” کا اعلان کرتے ہیں اور یسوع مسیح کو “خدا کا بیٹا” بتاتے ہیں جسے خدا قوموں پر اختیار بخشے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ عبرانی زبان و ثقافت میں ایک بڑا بادشاہ اپنے نائب یا صوبائی نمائندے کو اپنا “بیٹا” کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔ سو، جب یسوع نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہا تو جو صحائف مُقدسہ کی درست سمجھ رکھتے تھے اُنہوں نے اِس بات پر اعتراض نہ کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مسیح کو “خدا کا بیٹا” کہا جائے گا کیونکہ وہ پہلے ہی اِس کے درست تشبیہاتی معنٰی “نائب” سے واقف تھے۔

“خدا کا بیٹا” یسوع کے لئے استعمال ہونے والا واحد تشبیہاتی لقب نہیں ہے ، بلکہ قرآن اور انجیل دونوں یسوع کو خدا کا “کلمہ” کہتے ہیں۔ یہاں واضح طور پر اِس لقب کو لفظی معنٰی میں ایک آواز، حرف یا لفظ کے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔ بلکہ اِس اصطلاح کو لازماً مجازی طور پر سمجھنا چاہئے۔ ایک لفظ لازمی طور پر رابطہ کا ذریعہ یا وسیلہ ہوتا ہے جو ایک فرد کے خیالات و خواہشات کو دوسرے سے پہنچاتا ہے۔ بالکل اِسی طرح یسوع خدا کا کلمہ تھے، نسل انسانی کے لئے خدا کے رابطہ کا ذریعہ۔ یسوع کے وسیلہ سے خدا اپنی سوچیں اور ارادے انسان پر ظاہر کرنے کے قابل تھا۔اب جبکہ یہ واضح ہے کہ یسوع کے ایک نام “خدا کا کلمہ” کو لازماً تشبیہاتی مجازی طور پر سمجھنا چاہئے، تو یہ سوچنا ہرگز غلط نہیں ہے کہ آپ کا ایک اَور نام “خدا کا بیٹا” بھی ویسے ہی لازماً مجازی طور پر سمجھا جانا چاہئے۔ ایسے خیال کی بھرپور تائید اَور جگہوں سے بھی ہوتی ہے۔

“باپ” اور “بیٹا” کے دیگر تشبیہاتی مجازی استعمال
یہ زباندانی کی ایک بنیادی حقیقت ہے کہ کسی کا “بیٹا” اور “باپ” کے الفاظ اکثر بالکل ویسے ہی مجازی معنٰی کے حامل ہوتے ہیں جیسے ہم نے بیان کیا ہے۔آئیں، سب سے پہلے ہم لفظ “باپ” کا جائزہ لیں اور اِس کے مختلف مجازی استعمال پر نگاہ ڈالیں۔ عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص قوم کا “باپ” ہے۔ اب کوئی بھی شخص اتنا احمق نہیں ہو گا کہ یہ سوچے کہ ایسے فرد کو “باپ” اِس لئے کہا گیا ہے کہ اُ س نے حقیقت میں اُس سرزمین کے ہر ایک شہری کو حقیقت میں جنا ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے ، اِس کے حقیقی و منطقی معنٰی مجازی ہیں۔ قوم کی آزادی و ترقی میں اُس فرد کے ادا کئے گئے نمایاں کردار کی بنا پر اُسے عزت و احترام کا یہ بڑا لقب دیا جاتا ہے کہ قوم کا باپ۔ اِس کا سادہ طور پر اشارہ اُس قریبی تعلق کی طرف ہوتا ہے جو ایسا فرد اپنے ملک کے ساتھ رکھتا ہے۔

اصطلاح “باپ” کا ایسا مجازی استعمال صرف انسانوں تک محدود نہیں ہے۔ ہمیں اِس کا استعمال خدا کے لئے بھی ملتا ہے۔ آخرکار، خدا سب چیزوں کاخالق، پروردگار اور بحال کرنے والا ہے۔ قرآن کی پہلی سورہ، سورہ فاتحہ الفاظ “‏ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَلَمِينَ” سے شروع ہوتی ہے۔اِس سورہ کی تفسیر کرتے ہوئے محمد عبدالحکیم اور محمد علی حسین لکھتے ہیں: کچھ مفسروں کا ماننا ہے کہ لفظ “رب” عربی زبان کے لفظ “اب” سے ماخوذ ہے جو لفظ “باپ” کا مادہ ہے۔ سو، “رب” کے حقیقی معنٰی باپ کے ہیں۔ ایک بار پھر یہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ کوئی بھی فرد اتنا احمق نہیں ہو گا کہ جیسے لفظ “رب” یہاں خدا کے لئے استعمال ہوا ہے اُسے لفظی و جسمانی طور پر باپ کے معنٰی میں سمجھے۔ جیسا کہ یہ خدا کی طرف اشارہ کرتا ہے تو اِس کے لازماً ایک مجازی روحانی معنٰی ہیں۔ خدا اپنی تمام مخلوق کا جسمانی باپ نہیں ہے۔ تاہم، اُس کی قوت و قدرت کے بغیر کچھ بھی خلق نہیں ہو سکتا تھا۔ اِس دنیا میں پیدا شدہ ہر مخلوق کے پیچھے وہی حقیقی تخلیقی قوت و قدرت ہے۔ وہ تمام دُنیا کا “رب” ، مجازی معنٰی میں باپ اور تخلیق کرنے والی قوت ہے۔

اگر ہم اِس حقیقت کو مزید شخصی سطح پر دیکھیں تو ہم لازمی نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اِس دُنیا میں پیدا ہونے والا ہر بچہ برا ہ راست خدا کی تخلیقی سرگرمی کا نتیجہ ہے۔ اولاد سے محروم کئی جوڑے ایسے ہیں جو یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے کہ جب تک خدا اپنی تخلیقی قوت کے ساتھ ہمیں اِس قابل نہیں بناتا بچہ حاصل کرنے کی ہماری اپنی کوششیں بیکار ہیں۔ ہم فخریہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک بچہ کے باپ یا خالق ہیں لیکن آخرکار ہمیں لازماً یہ اقرار کرنا ہے کہ ایسے القاب درست طور پر صرف خدا کو ہی دیئے جا سکتے ہیں۔ یہاں ہم لفظی یا جسمانی پدریت کی بات نہیں کر رہے بلکہ تخلیقی قوت اور قابلیت کی بات کر رہے ہیں۔ یوں جیسے اوپر مذکور قرآنی مفسروں کا نتیجہ ہے ویسے حقیقی طور پر خداتمام مخلوق بشمول انسانوں کا باپ ہے۔

آئیے، اب اصطلاح “بیٹا” کے مجازی و علامتی استعمال کا جائزہ لیں۔ ایسا ہی ایک استعمال قرآن میں سورہ البقرہ 2: 215 میں موجود ہے۔ اِس حوالہ میں ایک مسلسل سفر کرنے والے فرد کو “ابنِ السبیل” (راستہ کا بیٹا) کہا گیا ہے۔ ہم ایک بار پھر دیکھتے ہیں کہ ایک لفظی تشریح منطقی طور پر غلط ہو گی۔ ایک لفظی تشریح واضح طور پر ناممکن ہے۔ اِس کے حقیقی معنٰی مجازی ہیں۔ ایک فرد کا سڑک کے ساتھ اتنا قریبی تعلق ہے کہ اُسے اُس کا بیٹا کہا گیا ہے۔ ہم ایک بار پھر دیکھتے ہیں کہ “بیٹے” یا “باپ” کے مجازی استعمال میں قربت یا نزدیکی بنیادی بات ہے۔

انجیل مُقدس سے علامتی و مجازی معنٰی کا مزید ثبوت
مندرجہ بالا نتیجہ کی گواہی انجیل مُقدس بھی دیتی ہے۔ ایک حوالہ میں ہم پڑھتے ہیں کہ یسوع مسیح کچھ یہودی راہنماﺅں سے بات چیت کر رہے ہیں۔ وہ یہودی راہنما بڑے فخر سے یسوع کے سامنے یہ کہتے ہیں کہ وہ ابرہام کے فرزند ہیں۔ یسوع اُنہیں جھڑکتے ہیں کہ اگر وہ ابرہام کے فرزند ہوتے تو خدا کی مرضی پر ویسے ہی عمل پیرا ہوتے جیسے ابرہام نے اُس کی فرمانبرداری کی تھی۔بلکہ اِس کے برعکس وہ بدی کرنے کی کوشش میں تھے۔ اِس لئے یسوع نے یہ نتیجہ نکالا “تم اپنے باپ ابلیس سے ہو اور اپنے باپ کی خواہشوں کو پورا کرنا چاہتے ہو۔”

ایک جسمانی اور لفظی معنٰی میں وہ یہود ی یقیناً یہ کہنے میں درست تھے۔ وہ ابرہام کے جسمانی فرزند تھے۔تاہم، یسوع نے لفظی معنٰی سے ہٹ کر اِن الفاظ کے پیچھے چھپی گہری او ر بڑی اہمیت کو دیکھا۔ اُن یہودی لوگوں کے کاموں نے واضح طور پر دکھایا کہ روحانی طور پر وہ یہودی مرد ِ خدا ابرہام کے ساتھ قریبی تعلق اور وفاداری کے حامل نہ تھے بلکہ وہ شیطان اور اُس کی مغرورانہ باغی فطرت سے تعلق رکھتے تھے۔ اِس لئے اُنہیں “شیطان کے فرزند” کہہ کر مخاطب کرنا مکمل طور پر درست اور مناسب تھا۔

“باپ” اور “بیٹے” کی اصطلاحات کے اوپر مذکور عام مجازی و علامتی استعمال کا جائزہ لینے کے بعد ہم ایک ایسے درجہ پر ہیں جہاں ہم “خدا کا بیٹا” کے انجیلی استعمال کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر مثالوں میں ہے، بلاشبہ اِس کے ایک علامتی و روحانی معنٰی ہیں۔ یہ ایک فرد کے خدا کے ساتھ قریبی تعلق کو واضح کرنے کے لئے استعمال ہوئی ہے۔ جیسے شیطان کی راہنمائی میں چلنے والے فرد کو “شیطان کافرزند” کہا گیا ہے ویسے ہی جو خدا کے ساتھ ایک قریبی اور گہرا روحانی تعلق رکھتا ہے اور اُس کی راہنمائی میں چلتا ہے اُسے “خدا کا فرزند” یا “خدا کا بیٹا” کہا گیا ہے۔ اِس کی ایک مثال انجیل مُقدس میں موجود یہ حوالہ ہے: “کیونکہ اگر تم جسم کے مطابق زندگی گزارو گے تو ضرور مرو گے اور اگر رُوح سے بدن کے کاموں کو نیست و نابود کرو گے تو جیتے رہو گے۔ اِس لئے کہ جتنے خدا کے روح کی ہدایت سے چلتے ہیں وہی خدا کے بیٹے ہیں” (رومیوں 8: 13-14)۔

اِس لئے، اصطلاح “خدا کا بیٹا” کی انجیل مُقدس میں کوئی بھی جسمانی اہمیت نہیں ہے۔ یہودی قوم کو اُن کے ابتدائی ایام میں تب “خدا کا بیٹا” کہا گیا ہے جب یہ خدا کی فرمانبرداری میں زندگی بسر کر رہی تھی۔ تاہم اِس کے برعکس وہ یہودی جو بعد میں غرور و بغاوت میں خدا کی راہوں سے پھر گئے اُنہیں “ابلیس کے فرزند” کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے۔ تاہم ، انجیل مُقدس کے مطابق ایک فرد چاہے وہ یہودی ہے یا غیر یہودی، اگر وہ اپنی اندرونی خود غرض خواہشات کو مصلوب کرتا ہے اور خدا کی پیروی کرتا ہے تو وہ “خدا کا بیٹا” ہے۔

یوں ہم بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ کیوں یہ اصطلاح اکثر یسوع کے لئے استعمال ہوئی ہے، جو خدا کی فرمانبرداری اور اُس پر انحصار اور اُس کے ساتھ قریبی تعلق کے لحاظ سے ہمارے تجربہ سے کہیں بڑھ کر ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ یہ لقب اُن الزمات سے قطعی پاک ہے جو اِس کے خلاف پیش کئے جاتے ہیں۔ یقیناً اِس کا مطلب خدا کے ساتھ کسی بھی طرح کا جسمانی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی اِس سے مراد خدا کی کوئی جسمانی صفات ہیں۔ بلکہ اِس سے مراد سب چیزوں کے واحد خالق اور سنبھالنے والے کے ساتھ ایک گہرے روحانی تعلق میں زندگی بسر کرنا ہے۔

کیا قرآن “خدا کا بیٹا” کا انکار کرتا ہے؟
یہاں، بہت سے لوگ سوال کر سکتے ہیں کہ کیا “خدا کا بیٹا” کے خلاف قرآنی بیانات کی اِس اصطلاح کے انجیلی استعمال کے ساتھ کوئی وضاحت ہو سکتی ہے۔ آئیں، ہم قرآن میں اِن بیانات کا جائزہ لیں۔ لیکن سب سے پہلے ہمیں بیٹے کے لئے دو عربی الفاظ میں تمیز کرنا ہو گی: “ابن” اور “ولد”۔

“ابن” ایک وسیع اصطلاح ہے جو اکثر ایک علامتی، غیر طبعی معنٰی کی حامل ہو سکتی ہے جیسے “ابنِ السبیل” (راستہ کا بیٹا، سورہ بقرہ 2: 215)۔ جیسے بائبل مُقدس میں یسوع کے لئے “بیٹا” (ہُیاس) کا لفظ استعمال ہوا ہے اُس کا درست عربی ترجمہ “ابن” ہے جو عبرانی کے لفظ “بن” سے تعلق رکھتا ہے۔

“ولد” کی اصطلاح ایک ایسے بیٹے کی طرف اشارہ کرتی ہے جو جنسی تعلق کے نتیجہ میں پیدا ہوا۔ خدا کے ساتھ یسوع کے تعلق کو بیان کرنے کے لئے یہ اصطلاح انتہائی نامناسب ہے۔

اب آئیے اُن قرآنی آیات کو دیکھیں جو اِس موضوع سے متعلق ہیں:

“اور یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے (فرشتوں کو ) اولاد (ولد)بنا رکھی ہے، وہ (اللہ) اِس سے پاک ہے، بلکہ (وہ فرشتے اُس کے ) بندے ہیں۔” (سورہ الانبیا 21: 26)
“اگر اللہ کسی کو اپنا بیٹا(ولد) بنانا چاہتا تو اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا منتخب کر لیتا۔ وہ پاک ہے وہی ہے اللہ جو اکیلا ہے بڑا زبردست ہے۔ ” (سورہ الزمر 39: 4)

“اور یہ کہ ہمارے پروردگار کی شان بہت بلند ہے وہ نہ بیوی رکھتا ہے نہ اولاد (ولد)۔ ” (سورہ الجن 72: 3)

“وہی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، اُس کے اولاد (ولد)کہاں سے ہو جبکہ اُس کی بیوی ہی نہیں اور اُس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے۔” (سورہ الانعام 6: 101 ; 2: 116 ; 10: 68 ; 17: 11 ; 18: 4 ; 19: 35، 88، 91-92 ; 23: 91 ; 25: 2)

مندرجہ بالا آیات سے واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن “بیٹے” کے اُس تصور سے فرق بات کر رہا ہے جسے انجیل مُقدس بیان کرتی ہے۔ قرآ ن “بیٹے” کو لفظی، جسمانی فرزند کے طور پر بیان کرتا ہے جو ایک بیوی سے جسمانی تعلق سے پیدا ہو۔ قرآن لازماً عرب میں رہنے والے اُن بھٹکے ہوئے نام نہاد مسیحیوں کو ملامت کر رہا تھا جوغلط فہمی کا شکار تھے اور کہتے تھے کہ عیسیٰ خدا کا “ولد” تھے جو خدا کے مریم کے ساتھ جسمانی تعلق کی وجہ سے پیدا ہوئے (نعوذ باللہ)۔ ایسے بدعتی خیال کو نقایہ کی کونسل میں یسوع پر ایمان رکھنے والوں سے بڑی سختی سے رد کیا۔ یسوع پر حقیقی ایمان رکھنے والے سب افراد قرآن کے ساتھ متفق ہیں کہ “وہ نہ بیوی رکھتا ہے اور نہ ولد” اور یہ کہ ایسا تصور گمراہ کن تصور ہے۔

بیان کی گئی حقیقت کہ قرآن انجیلی سچائی کی تصدیق کرتا ہے اور انجیل مُقدس بار بار “خدا کا بیٹا” کے علامتی و تشبیہی تصور کو استعمال کرتی ہے،واحد بیان کردہ ایسی یکساں وضاحت ہے جو قرآن و انجیل دونوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اخذ کی گئی ہے۔

عیسیٰ مسیح کی ایک انجیل یا آپ کے شاگردوں کی چار انجیلیں؟

“قرآن صرف ایک انجیل کا ذِکر کرتا ہے جو عیسیٰ کو دی گئی، لیکن آج کی انجیل آپ کے شاگردوں نے لکھی۔”
اگرچہ بہت سے لوگ اِس تصوراتی خیال کو مانتے ہیں تاہم نہ ہی نبی اسلام اور نہ ہی جناب عیسیٰ نے کوئی کتاب تحریر کی۔ اُن کی کتابیں سب سے پہلے اُن کی وفات کے بعد لکھی گئیں۔
مگر دوسری کتابوں کے مقابلہ میں انجیل ایک فرق طرح سے دی گئی۔ اگر زیادہ تر نبیوں کو دیکھا جائے جیسے یسعیاہ ا ور یرمیاہ، تو خدا تعالیٰ نے اُنہیں ایک خاص پیغام عنایت کیا جسے “خدا کا کلام” کہا جاتا ہے ، سو نبی کی کتاب وہ خاص “کلام خدا” تھی۔ تاہم، انجیل اور قرآن دونوں میں یسوع کو لاثانی طور پر “کلمتہ اللہ”1 کہا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ بذات خود بنیادی کلام ہے۔دوسرے نبی تو ایک تحریری “کلام خدا” لانے کے لئے آئے مگر عیسیٰ مسیح کے معاملہ میں یہ بات بالکل اُلٹ تھی۔ وہ بذات خود خدا کا زندہ کلام تھے،سو تحریری صورت میں موجود انجیل بنیادی مطمع نظر نہیں تھی بلکہ عیسیٰ مسیح مرکز نگاہ ہیں۔ انجیل مقدس تو سادہ طور پر الہامی گواہی پر مشتمل بیان ہے جس میں زندہ کلام خدا کی زندگی اور تعلیمات مرقوم ہیں۔ عیسیٰ مسیح نے اپنے شاگردوں کو یہ کام تفویض کیا کہ وہ دُنیا کے سامنے آپ کی تمام تعلیمات کی گواہی دیں (متی 28: 18-20)۔آپ نے اُن سے یہ بھی وعدہ کیا کہ روح القد س اُنہیں اِن سب باتوں کی یاد دِلائے گا (یوحنا 14: 26)۔خدا کے زندہ کلام کی بابت اِس مقدس پیغام کو محفوظ کرنے کے لئے آپ کے شاگردوں اور اُن کے ساتھیوں نے الہامی تحریک سے عیسیٰ مسیح کے حالات زندگی اور تعلیمات کو انجیل مقدس میں تحریر کیا۔
قرآن میں مذکور انجیل کی بابت کیا کہا جائے؟ قرآنی علما اِس بات پرمتفق ہیں کہ عربی لفظ “انجیل” درحقیقت ایک عربی لفظ نہیں ہے بلکہ یونانی لفظ “εὐαγγέλ” (evangel) کا ترجمہ ہے جیسے کہ انگریزی زبان کا لفظ “gospel” ہے۔ سو، لفظ انجیل کے معنٰی کو جاننے کے لئے ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اِس لفظ کا اُن لوگوں کے نزدیک کیا مفہوم تھا جنہیں نے اِسے استعمال کیا۔انجیل ایک ایسی اصطلاح ہے جسے عربی، فارسی، اُردو اور ترکی بولنے والے مسیحی اپنے صحائف کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ لفظ “evangel” کے تین متوازی معانی ہیں جنہیں ابتدائی مسیحیوں اور قرآن دونوں نے استعمال کیا ہے:

  • عیسیٰ مسیح کا پیغام: لفظی معنٰی کے لحاظ سے “انجیل” کا مطلب “خوشخبری” کا پیغام ہے۔ عیسیٰ مسیح کے تعلق سے اِ س کا مطلب مسیح کی نجات اور خدا کی بادشاہی کے بارے میں تعلیم ہے۔
  • عیسیٰ مسیح کی زندگی کا بیان: “evangel” کا مطلب عیسیٰ مسیح کی زندگی کا ایک بیان بھی ہے جیسے متی ، مرقس، لوقا اور یوحنا کی معرفت لکھے گئے انجیلی بیان، جنہیں شروع میں سادہ طور پر اکھٹے “the evangel” کہا جانے لگا۔
  • مسیحی صحائف : تیسرا معنٰی یہ ہے کہ عمومی طور پر اِس سے مراد 27 کتابوں پرمشتمل مسیحی صحائف ہیں جنہیں نیا عہدنامہ بھی کہا جاتا ہے۔
    • جیسے” کُھلنا” ایک شہر، ضلع اور ڈویژن کا نام ہے، ویسے ہی “انجیل” سے ایک ہی وقت میں مراد (1) یسوع کا بنیادی پیغام، (2) اُس پیغام کا بیان یا (3) اُس پیغام سے متعلق صحائف ہیں۔ جب قرآن کہتا ہے کہ عیسیٰ مسیح کو انجیل دی گئی تو یہ بات بالکل درست ہے، کیونکہ آپ کا کام انسانیت کو نجات اور خدا کی بادشاہی کی خوشخبری کا پیغام دینا تھا۔انجیلی پیغام کے اِس عمومی مفہوم میں عیسیٰ مسیح کو انجیل ویسے ہی عطا ہوئی جیسے آپ کو حکمت عطا ہوئی (مائدہ 3: 48)۔ جب قرآن کہتا ہے کہ انجیل ایک کتاب ہے تو یہ”evangel” (انجیل) کے ابتدائی معنٰی کے عین مطابق ہے۔ تاریخی ریکارڈ سے یہ واضح ہے کہ ابتدائی مسلمان انجیل سے مراد موجودمسیحی صحائف لیتے تھے، اور تاریخ کثرت سے ثابت کرتی ہے کہ یہ صحائف کس قدر قابل بھروسا ہیں۔
      دوسری صدی عیسوی کے آغاز سے اصطلاح “evangel” کو مسیحیوں نے متی، مرقس، لوقا اور یوحنا کے چاروں انجیلی بیانات کے لئے استعمال کرنا شروع کیا۔ عالم ایف۔ ایف۔ بروس اِس کی وضاحت یوں کرتا ہے:
      انتہائی شروع کے وقت سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ چاروں انجیلیں ایک مجموعہ میں اکھٹی موجود تھیں۔ یوحنا کی معرفت لکھی گئی انجیل کے فوراً بعد اُنہیں ایک جگہ اکھٹا کیا گیا۔ اِن چار کتابوں کے مجموعہ کو اصل میں “انجیل” کہا جاتا تھا نہ کہ “انجیلیں”۔اصل میں ایک ہی انجیل تھی جس کو چاروں بیانات میں بیان کیا گیا تھا جس کا اظہار اِن الفاظ سے ہوتا ہے: “متی کی معرفت” ، “مرقس کی معرفت”، “لوقا کی معرفت” اور “یوحنا کی معرفت”۔ تقریباً 115ءمیں انطاکیہ کا بشپ اگنیشئس “انجیل” کو مستند و معتبر تحریر کہتاہے ، اور وہ چاروں انجیلوں سے واقف تھاتو یہ کہا جا سکتا ہے کہ “انجیل” سے صاف کھلے لفظوں میں اُس کی مراد چاروں کتابوں کا ایک مجموعہ تھا جسے اُس وقت اِس نام سے پکارا جاتا تھا۔
      سو، نبی اسلام کے زمانے میں رہنے والے ایک فرد کے لئے “انجیل” کا مطلب چاروں انجیلی بیانات (متی، مرقس، لوقا اور یوحنا) یا عمومی طور پر مسیحی صحائف تھے۔ پطرس رسول لکھتے ہیں:
      “کیونکہ جب ہم نے تمہیں اپنے خداوند یسوع مسیح کی قدرت اور آمد سے واقف کیا تھا تو دغا بازی کی گھڑی ہوئی کہانیوں کی پیروی نہیں کی تھی بلکہ خود اُس کی عظمت کو دیکھا تھا۔… اور پہلے یہ جان لو کہ کتاب مقدس کی کسی نبوت کی بات کی تاویل کسی کے ذاتی اختیار پر موقوف نہیں۔ کیونکہ نبوت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ آدمی روح القدس کی تحریک کے سبب سے خدا کی طرف سے بولتے تھے۔” (2-پطرس 1: 16 ، 20-21)
      نئے عہدنامہ میں یہ بھی لکھا ہے:
      “ہر ایک صحیفہ جو خدا کے الہام سے ہے تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کے لئے فائدہ مند بھی ہے۔ تا کہ مردِ خدا کامل بنے اور ہر ایک نیک کام کے لئے بالکل تیار ہو جائے۔” (2-تیمتھیس 3: 16-17)
      “پس جو نہیں مانتا وہ آدمی کو نہیں بلکہ خدا کو نہیں مانتا جو تم کو اپنا پاک رُوح دیتا ہے۔” (1-تھسلنیکیوں4: 8)
      1.

    قرآن میں حضرت عیسیٰ کے نام

    قرآن عربی زبان میں ایک بڑی کتاب ہے۔ یہ زبان دُنیا کے زیادہ تر لوگوں کے لئے ایک اجنبی زبان ہے۔ اِسی وجہ سے بہت کم لوگ قرآن میں بیان کئے گئے مختلف قسم کے موضوعات کا درست فہم رکھتے ہیں۔ اِس کے اہم ترین موضوعات میں سے ایک مختلف نبیوں سے متعلق ہے جنہیں اللہ نے دُنیا میں مختلف زمانوں میں بھیجا۔ اُن نبیوں میں سے ایک کے بارے میں قرآن میں بہت تفصیل سے بتایا گیا ہے جو عیسیٰ ابن مریم ہیں۔ بہت سے لوگوں نے اُن کا نام سُن رکھا ہے اور اُن کی زندگی اور کام کے بارے میں کچھ نہ کچھ جانتے ہیں۔ تاہم جیسے قرآن میں آپ کو بیان کیا گیا ہے اُس کے بارے میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو درست آگہی رکھتے ہیں۔ اِسی وجہ سے اِس مضمون کو لکھا گیا ہے۔ اِس مختصر تحریر کا مقصد قارئین کے سامنے قرآنی بیان کے مطابق حضرت عیسیٰ کی ایک واضح اور درست تصویر کشی کرنی ہے۔ اِ س ضمن میں مختلف قرآنی آیات کوبیان کیا گیا ہے اور مطمع نظر یہ ہے کہ قارئین عیسیٰ نبی کے بارے میں قرآنی بیان کی زیادہ بہتر سمجھ کو حاصل کر سکیں۔

    عیسیٰ
    “پھر جب عیسیٰ نے اُن کی طرف سے انکار اور نافرمانی ہی دیکھی تو کہنے لگے کہ کوئی ہے جو اللہ کا طرفدار اور میرا مددگار ہو۔ حواری بولے کہ ہم اللہ کے طرفدار اور آ پ کے مددگار ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہیں کہ ہم فرمانبردار ہیں۔” (سورہ آل عمران 3: 52)

    “(مسلمانو) کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور جو کتاب ہم پر اُتری اُس پر اور جو صحیفے ابراہیم اور اسمعیل اور اسحق اور یعقوب اور اُن کی اولاد پر نازل ہوئے اُن پر اور جو کتابیں موسیٰ اور عیسیٰ کو عطا ہوئیں اُن پر اور جو دوسرے پیغمبروں کو اُن کے پروردگار کی طرف سے ملیں اُن پر سب پر ایمان لائے، ہم ان پیغمبروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور ہم اسی معبود واحد کے فرمانبردار ہیں۔” (سورہ البقرہ 2: 136)

    “اور جب عیسیٰ نشانیاں لے کر آئے تو فرمایا کہ میں تمہارے پاس دانائی کی کتاب لے کر آیا ہوں۔ نیز اِس لئے کہ بعض جن میں تم اختلاف کرتے ہو تم کو سمجھا دوں۔ سو اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو۔” (سورہ الزخرف 43: 63)

    المسیح
    … “مسیح یہود سے یہ کہا کرتے تھے کہ اے بنی اسرائیل اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی اور جان رکھو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے گا۔ اللہ اُس پر بہشت کو حرام کر دے گا۔ اور اُس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہو گا۔” (سورہ المائدة 5: 72)

    مسیح اِس بات سے عار نہیں رکھتے کہ اللہ کے بندے ہوں اور نہ مُقرب فرشتے عار رکھتے ہیں اور جو شخص اللہ کا بندہ ہونے کو موجب عار سمجھے اور سرکشی کرے تو اللہ سب لوگوں کو اپنے پاس جمع کر لے گا۔” (سورہ النسا 4: 172)

    زکیاً (پاکیزہ)
    “فرشتے نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کی بھیجا ہوا یعنی فرشتہ ہوں اور اِس لئے آیا ہوں کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں۔” (سورہ مریم 19: 19)

    کلمتہ اللہ
    … “مسیح یعنی مریم کے بیٹے عیسیٰ اللہ کے رسول تھے اور اُس کا کلمہ تھا جو اُس نے مریم کی طرف بھیجا اور اُس کی طرف سے ایک روح تھے۔ ” (سورہ النسا 4: 171)

    ” فرشتوں نے مریم سے کہا کہ مریم اللہ تم کو اپنی طرف سے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح اور مشہور عیسیٰ ابن مریم ہو گا اور جو دُنیا اور آخرت میں آبرومند اور مقربین میں سے ہو گا۔” (سورہ آل عمران 3: 45)

    روح منہ (اُس کی طرف سے رُوح)
    … “مسیح یعنی مریم کے بیٹے عیسیٰ اللہ کے رسول تھے اور اُس کا کلمہ تھا جو اُس نے مریم کی طرف بھیجا اور اُس کی طرف سے ایک روح تھے۔ ” (سورہ النسا 4: 171)

    “اور اُن خاتون یعنی مریم کوبھی یاد کرو جنہوں نے اپنی عفت کو محفوظ رکھا۔ تو ہم نے اُن میں اپنی رُوح پھونک دی اور اُن کو اور اُن کے بیٹے کو اہل عالم کے لئے نشانی بنا دیا۔ ” (سورہ الانبیا 21: 91)

    “اور دوسری مثال عمران کی بیٹی مریم کی جنہوں نے اپنی عزت و ناموس کو محفوظ رکھا۔ تو ہم نے اُس میں اپنی رُوح پھونک دی اور وہ اپنے پروردگار کے کلام اور اُس کی کتابوں کو برحق سمجھتی تھیں اور وہ فرمانبرداروں میں سے تھیں۔” (سورہ التحریم 66: 12)

    ابنِ مریم
    “تب عیسیٰ ابن مریم نے دُعا کی کہ اے ہمارے پروردگار ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما کہ ہمارے لئے وہ دِن عید قرار پائے یعنی ہمارے اگلوں اور پچھلوں سب کے لئے۔ اور وہ تیری طرف سے نشانی ہو اور ہمیں رزق دے اور تُو بہترین رزق دینے والا ہے۔” (سورہ المائدہ 5: 114)

    “اور اُن پیغمبروں کے بعد اُنہیں کے قدموں پر ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا جو اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتے تھے اور اُن کو انجیل عنایت کی جس میں ہدایت اور نور ہے اور تورات کی جو اِس سے پہلی کتاب ہے تصدیق کرتی ہے اور پرہیزگاروں کی راہ بتاتی اور نصیحت کرتی ہے۔” (سورہ المائدہ 5: 46)

    عبد اللہ (اللہ کا بندہ)
    “اُس (عیسیٰ) نے کہا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں، اُس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے۔” (سورہ مریم 19: 30)

    “مسیح اِس بات سے عار نہیں رکھتے کہ اللہ کے بندے ہوں اور نہ مُقرب فرشتے عار رکھتے ہیں اور جو شخص اللہ کا بندہ ہونے کو موجب عار سمجھے اور سرکشی کرے تو اللہ سب لوگوں کو اپنے پاس جمع کر لے گا۔” (سورہ النسا 4: 172)

    نبی
    “اُس (عیسیٰ) نے کہا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں، اُس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے۔” (سورہ مریم 19: 30)

    رسول اللہ
    … “مسیح یعنی مریم کے بیٹے عیسیٰ اللہ کے رسول تھے اور اُس کا کلمہ تھا جو اُس نے مریم کی طرف بھیجا اور اُس کی طرف سے ایک روح تھے۔ ” (سورہ النسا 4: 171)

    “یہ پیغمبر جو ہم وقتاً فوقتاً بھیجتے رہے ہیں اُن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ بعض ایسے ہیں جن سے اللہ نے گفتگو کی اور بعض کے دوسرے امور میں مرتبے بلند کئے۔ اور عیسیٰ ابن مریم کو ہم نے کھلی نشانیاں عطا کیں۔ اور رُوح القدس سے اُن کو مدد دی۔” (سورہ البقرہ 2: 253)

    ” اور عیسیٰ بنی اسرائیل کی طرف پیغمبر ہو کر جائیں گے اور کہیں گے کہ میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں۔ وہ یہ کہ تمہارے سامنے مٹی سے پرندے کی صورت بناتا ہوں پھر اِس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے سچ مچ پرندہ ہو جاتا ہے۔ اور پیدائشی اندھے اور ابرص کو تندرست کر دیتا ہوں۔ اور اللہ کے حکم سے مُردوں کو زندہ کر دیتا ہوں۔ اور جو کچھ تم کھا کر آتے ہو اور جو کچھ اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو، سب تم کو بتا دیتا ہوں اگر تم صاحب ایمان ہو تو اِن باتوں میں تمہارے لئے نشانی ہے۔” (سورہ آل عمران 3: 49)

    “اے پروردگار جو کتاب تُو نے نازل فرمائی ہے ہم اُس پر ایمان لے آئے اور تیرے پیغمبر کے متبع ہو چکے ، تُو ہم کو ماننے والوں میں لکھ رکھ۔” (سورہ آل عمران 3: 53)

    مفضل (فضیلت بخشا ہوا)
    “یہ پیغمبر جو ہم وقتاً فوقتاً بھیجتے رہے ہیں اُن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ بعض ایسے ہیں جن سے اللہ نے گفتگو کی اور بعض کے دوسرے امور میں مرتبے بلند کئے۔ اور عیسیٰ ابن مریم کو ہم نے کھلی نشانیاں عطا کیں۔ اور رُوح القدس سے اُن کو مدد دی۔” (سورہ البقرہ 2: 253)

    الصالح (نیکوکار)
    “اور (عیسیٰ) ماں کی گود میں اور بڑی عمر کا ہو کر دونوں حالتوں میں لوگوں سے یکساں گفتگو کرے گا اور نیکوکاروں میں ہو گا۔ ” (سورہ آل عمران 3: 46)

    “اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کوبھی۔ یہ سب نیکوکار تھے۔” (سورہ الانعام 6: 85)

    مبارک
    “اور میں جہاں ہوں اور جس حال میں ہوں اُس نے مجھے صاحبِ برکت بنایا ہے اور جب تک زندہ ہوں مجھ کونماز اور زکوٰة کا ارشاد فرمایا ہے۔” (سورہ مریم 19: 31)

    آیت(ایک معجزہ یا نشان)
    “اور اُن خاتون یعنی مریم کوبھی یاد کرو جنہوں نے اپنی عفت کو محفوظ رکھا۔ تو ہم نے اُن میں اپنی رُوح پھونک دی اور اُن کو اور اُن کے بیٹے کو اہل عالم کے لئے نشانی بنا دیا۔ ” (سورہ الانبیا 21: 91)

    “فرشتے نے کہا کہ یونہی ہو گا تمہارے پروردگار نے فرمایا کہ یہ مجھے آسان ہے اور میں اِسے اِسی طریق پر پیدا کروں گا تا کہ ہم اِس کو لوگوں کے لئے اپنی طرف سے نشانی اور ذریعہ رحمت بنائیں اور یہ کام مقرر ہو چکا ہے۔ ” (سورہ مریم 19: 21)

    مُقرب (خدا کے نزدیک)
    ” فرشتوں نے مریم سے کہا کہ مریم اللہ تم کو اپنی طرف سے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح اور مشہور عیسیٰ ابن مریم ہو گا اور جو دُنیا اور آخرت میں آبرومند اور مقربین میں سے ہو گا۔” (سورہ آل عمران 3: 45)

    فِی کَمثَلِ آدَمَ (آدم کی مانند)
    “عیسیٰ کا حال اللہ کے نزدیک آدم کا سا ہے کہ اُس نے پہلے مٹی سے اُن کو بنایا پھر فرمایا باشعور انسان ہو جا تو وہ ویسے ہی گئے۔” (سورہ آل عمران 3: 59)

    شہید (گواہ)
    “میں نے اُن سے کچھ نہیں کہا بجز اِس کے جس کا تُو نے مجھے حکم دیا وہ یہ کہ تم اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہے۔ اور جب تک میں اُن میں رہا اُن کے حالات کی خبر رکھتا رہا پھر جب تُو نے مجھے دُنیا سے اُٹھا لیا تو تُو ہی اُن کا نگران تھا اور تُو ہر چیز سے خبردار ہے۔ ” (سورہ المائدہ 5: 117)

    “اور اہل کتاب میں سے کوئی نہیں ہو گا ، مگر اُن کی موت سے پہلے اُن پر ایمان لے آئے گا اور وہ قیامت کے دِن اُن پر گواہ ہوں گے۔ ” (سورہ النسا 4: 159)

    مُعیّد بِرُوح القُدُس (روح القدس سے مدد پہنچایا ہوا)
    “اور ہم نے موسیٰ کو کتاب عنایت کی اور اُن کے پیچھے یکے بعد دیگرے پیغمبر بھیجتے رہے اور عیسیٰ ابن مریم کو کھلے نشانات بخشے اور رُوح القدس سے اُن کو مدد دی۔ تو کیا ایسا ہے کہ جب کوئی پیغمبر تمہارے پاس ایسی باتیں لے کر آئے جن کو تمہارا جی نہیں چاہتا تھا تو تم سرکش ہو جاتے رہے اور ایک گروہ انبیا کو تو جھٹلاتے رہے اور ایک گروہ کو قتل کرتے رہے۔ ” (سورہ البقرہ 2: 87)

    “یہ پیغمبر جو ہم وقتاً فوقتاً بھیجتے رہے ہیں اُن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ بعض ایسے ہیں جن سے اللہ نے گفتگو کی اور بعض کے دوسرے امور میں مرتبے بلند کئے۔ اور عیسیٰ ابن مریم کو ہم نے کھلی نشانیاں عطا کیں۔ اور رُوح القدس سے اُن کو مدد دی۔” (سورہ البقرہ 2: 253)

    “جب اللہ عیسیٰ سے فرمائے گا کہ اے عیسیٰ ابن مریم!…

    نجات فضل سے یا اعمال سے؟

    بہت سے مسلمان نیک کام اِس غلط مقصد سے کرتے ہیں کہ اپنی نجات خود حاصل کر سکیں، لیکن قر آن اور حدیث میں مضبوط اشارے پائے جاتے ہیں کہ نجات بنیادی طور پر خدا کی شفقت کا نتیجہ ہے، نہ کہ ہمارے بہت سے نیک اعمال کا نتیجہ:

     مومنو!

    کیسے یسوع کے پیروکار دُعا مانگتے تھے؟

    کیسے یسوع کے پیروکار دُعا مانگتے تھے؟

    یسوع کے حقیقی شاگرد دُعا کرنے والے لوگ تھے۔ یسوع نے اپنے شاگردوں کو کوئی رسمی نماز نہیں سکھائی، بلکہ اُس نے خدا کے ساتھ دُعا میں وقت کے طویل دورانیے گزارے۔ دُعا پر یسوع کی بنیادی تعلیم میں اِس بات پر زور دیا گیا ہے کہ دُعا دِل سے کی جانی چاہئے:

    مسیحیت میں دُعا کیسے کی جاتی ہے؟ — سی۔ ایس۔ ، شام

    میرے شامی دوست، آپ نے ایک اہم سوال پوچھا ہے۔ سب سے پہلے، میں کہنا چاہوں گا کہ میں نے ہمیشہ دُعا میں مسلمانو ں کی سپردگی کو سراہا ہے۔ سچے مسیحی بھی یقیناً دُعا کرنے والے لوگ ہیں۔

    عیسیٰ مسیح کے بارے میں انجیل مُقدس جس ایک انتہائی اہم بات کاذکر کرتی ہے وہ اُن کی دعائیہ زندگی ہے۔ اُنہوں نے اکثر اللہ کے ساتھ دُعا کرنے میں طویل وقت گزارا۔ شاگردوں نے اِسے دیکھا۔ اُس کی مثال کی پیروی کرنے کے لئے ایک دن اُنہوں نے اُس سے کہا ”اے خداوند ہمیں دُعا کرنا سکھا۔“

    عیسیٰ مسیح نے تب اُنہیں سچی دُعا کرنے کا ایک نمونہ دیا۔

    آپ نے فرمایا ”پس تم اِس طرح دُعا کیا کرو کہ اے ہمارے باپ!

    بکاؤلے ازم سے ہٹ کر: سائنس،صحائف اور ایمان

    سائنس،صحائف اور ایمان

    درج ذیل مضمون اُن مختلف طریقوں کا تجزیہ کرتا ہے جن سے ایمان دار وں نے سائنس او رصحائف کے درمیان تعلق کو سمجھا ہے۔

    خاکہ:

    حصہ اوّل: ”بکاؤ لے ازم“کو سمجھنا
    بکاؤ لے ازم کے لئے مسلم مخالفت
    بکاؤ لے ازم کے مسائل
    بکاؤ لے ازم کی تاریخ
    ویدوں اور دیگر ادب میں ”سائنسی معجزات“
    چند دعویٰ کئے گئے معجزات کا تجزیہ
    نبوت نمبر۱: چاند کی روشنی منعکس شدہ روشنی ہے
    نبوت نمبر۲: جنین (embryo)کے مراحل
    نبوت نمبر ۳: چینٹیو ں کا رابطہ

    حصہ دوم: کیا سائنس اور صحائف ایک دوسرے سے مربوط ہیں؟
    تخلیق او رسائنس
    پیدایش کے دنوں کی ترتیب
    سورج کی روشنی سے پہلے نباتات؟
    کائنات کا علم: چپٹی یا گول زمین؟
    کیا زمین چپٹی ہے یا گول؟
    آسمان کو تھامے ہوئے ستون
    زمین کے نیچے کے ستون
    سورج،چاند،ستارے،دمدارتارے اورآسمان

    حصہ سوم: سائنس کی تاریخ
    سائنس کس نے ’ایجاد‘ کی؟
    سنہرا دور کیوں ختم ہوا؟


     

    حصہ اوّل

    ”بکاو لے ازم“کو سمجھنا

    ”بکاؤ لے ازم“قرآن مجید میں ”سائنسی معجزات“ کی بنیاد ی کی جستجو ہے یعنی جدید سائنسی دریافتیں جنہیں بڑے مخفی انداز میں قرآن میں بیان کیا گیا ہے۔یہاں ذاکر نائیک سے ایک عام مثال پیش کی گئی ہے:

    چاند کی روشنی منعکس روشنی ہے: ابتدائی تہذیبوں کا یہ ایمان تھا کہ چاند خود اپنی روشنی دیتا ہے۔اب سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ چاند کی روشنی منعکس روشنی ہے۔تا ہم 1400 سال پہلے قرآن مجید میں اِس حقیقت کا ذکردرج ذیل آیت میں آیا ہے:

      ”بڑی برکت والا ہے جس نے آسمانوں میں بُرج بنائے اور اُنہیں چراغ او رچمکتا ہوا چاند بھی بنایا۔“(القرآن 61:25)

    قرآن میں عربی میں سورج کے لئے لفظ شمس ہے۔اِسے سِرٰجاً بھی کہا گیا ہے … چاند کے لئے عربی لفظ قَمَرً ہے اور قرآن میں اِسے مُنّیراً کہا گیا ہے جو ایک ایسا عنصر ہے جو نور دیتا ہے یعنی منعکس شدہ روشنی … اِس کا مطلب ہے کہ قرآن سورج اور چاند کی روشنی کے درمیان فرق کو بیان کرتا ہے۔ 1

    اِسی طرح دعوے کئے گئے ہیں کہ بلیک ہولز،علم حیاتیات،علم ارضیات اور علم نجوم کے بارے میں قرآن میں پیشین گوئیاں موجود ہیں۔

    بکاولیازم کے لئے مسلمانوں کی مخالفت

    قرآن مجید میں ”سائنس کے معجزات“ کی مخفی جستجو اسلامی تاریخ کاحال ہی میں سامنے آنے والا ایک خبط ہے۔یہ بنیاد پرستوں میں بہت مقبول ہے لیکن اِسے چند مسلم مفکرین کی حمایت حاصل نہیں ہے۔نامور بھارتی اسلامی علم ِ الہٰی کے ماہر جناب مولانا اشرف علی تھانوی
    (بہشتی زیور کے مصنف)چار نکات کی وجہ سے اِس طریقہ کار کی مخالفت کرتے ہیں۔ 2 اِسی طرح مغرب اور عرب کی یونیورسٹیوں کے بہت سے نامور اسلامی سائنس دان بکاؤ لے ازم کی وجہ سے پریشان ہیں۔ضیاالدین شاکر اپنے کتاب ”اسلامی سائنس میں دریافتیں
    ”Exploration in Islamic science“میں سائنسی معجزات کو مناظرہ کا’بُری قسم کااعتزار“ کہتا ہے۔پین سٹیٹ یونیورسٹی کے مسلم مؤرخ نعمان الحق بکاؤ لے ازم کے نقادوں میں سب سے آگے ہیں جو بکاؤ لے ازم کے سامنے آنے کی وجہ مسلمانوں میں پائے جانے والے گہرے احساس ِکمتری کو قرار دیتا ہے جنہیں آبادیا تی نظام نے تضحیک کا نشانہ بنایا اور جو اسلامی سائنس کی کھوئی ہوئی شان و شوکت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے ہیں۔ایک او رنقاد مظفر اقبال ہیں جو البرٹا کینیڈا میں اسلام اور سائنس کے مرکز کے صدر ہیں۔


    پاکستان کے نامور مسلم ماہر طبیعات پرویز ہود بائے لکھتے ہیں:

    ”ایسے دعوے کرنے والوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اُن میں اِس بات کی وضاحت کرنے کی کمی ہوتی ہے کہ کیوں مقداری نظریہ،مالیکیولز کی ساخت وغیر ہ کو کہیں اَور دریافت ہونے کے لئے انتظار کرناپڑا۔اور نہ ہی کبھی کسی قسم کی مُستند پیشین گوئیاں کی گئیں۔اُن کے پاس اِس بات کی بھی کوئی دلیل موجود نہیں کہ اینٹی بائیٹکس،ایسپرین،بھاپ کے انجن،بجلی،ہوائی جہاز،یا کمپیوٹر پہلے مسلمانوں نے کیوں ایجاد نہیں کئے۔بلکہ ایسے سوالات پوچھنا توہین آمیز سمجھا جا تا ہے۔“ 4

    ترکی مسلمان فلسفی اور ماہر طبیعات ٹینر ادیس لکھتے ہیں:

    ”قرآن -سائنس( بکاؤ لے ازم)رقت انگیز ہے لیکن بہت سے مسلمانوں نے بھی اِس بات کو تسلیم کیا ہے۔جتنی انسٹیٹیوٹ فار کریشین ریسرچ مسیحیت کی ترجمانی کرتا ہے اُسی طرح یہ اُس سے زیادہ اسلام کا اظہار نہیں کرتی۔تاہم وہ احمقانہ شدت جو میں نے اُوپر بیان کی ہے وہ سائنس او رقدامت پسند اسلام کے درمیان مبہم تعلق کی وضاحت کرسکتی ہے۔جبکہ بہت سے ایمان دار
    اِس مسئلے کے نظر انداز کرنے کو تیار ہیں اور قرآن مجید کے ساتھ مکمل سائنسی ہم آہنگی کا اظہار کرتے ہیں،کچھ ماہرین اَدراکی کا متعلقہ راستہ اپناتے ہیں،یا اِس بات پر زور دیتے ہیں کہ سائنس اسلام کی ساخت کردہ ہے،اِس لئے ہمیں فطر ت کی اسلامی نظریے کو تسلیم کرنا ہے۔“ 5

    ابو عمر یوسف قاضی جو ایک معروف واعظ اور ییل Yaleکے فارغ التحصیل ہیں،اُنہوں نے اپنی کتاب،”An Introduction
    to the Sciences of the Quran"میں لکھا:

    ”دوسرے الفاظ میں قرآن مجید کی ہر تیسری آیت میں کوئی سائنسی سراب موجود نہیں ہیں جو اِس بات کے منتظر ہوں کہ چند پُر جوش،اعلیٰ تصوراتی مسلمان اُنہیں صفحہ ِ ہستی پر لے کر آئیں گے۔“ 6

    ”اِسلامی سائنس“ کے حوالے سے،پاکستانی نوبل انعام یافتہ اور ماہر طبیعات جناب ڈاکٹر عبدالسلام لکھتے ہیں:

    ”صرف ایک عالمگیر سائنس ہے؛اِس کے مسائل اور اِس کے طریقے بین الاقوامی ہیں اور اسلامی سائنس جیسی کوئی چیز نہیں ہے جیسے کہ ہندو سائنس یا یہودی سائنس،یاکنفیو شین سائنس اور نہ ہی مسیحی سائنس ہے۔“

    بکاؤ لے ازم کے مسائل

    بکاؤ لے ازم کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کو کمزور پیش کرتا ہے جو ناقابل اعتراض حد تک واضح ہونے کے قابل نہیں ہے۔مثلاًاگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ صرف زمین کی شکل ہی بیان کرنا تھا تو پھر اُس نے ایک ہی آیت کیوں نہ رکھی جو یہ کہتی کہ ”کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ہم نے زمین کو چپٹا نہیں بلکہ گول بنایا ہے جو سورج کے گرد گھومتی ہے؟“یا اگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ ٹیلی وژن کی پیشین گوئی کرنا ہوتا تو،وہ واضح طور پر یہ کہہ سکتا تھا کہ،”ایک دن لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کر ڈبوں میں تصویریں دیکھیں گے۔“ دوسری جگہوں پر خدا بڑی وضاحت سے بولتا ہے!…

    کیا حضرت عیسی المسیح صلیب پر مصلوب ہوئے؟

    کیا حضرت عیسی المسیح صلیب پر مصلوب ہوئے؟

    وہابیوں کے تعاون سے چلایا جانے والے ”peace TV“ ٹیلی وژن چینل کے ذریعے ڈاکٹر ذاکر نائیک اور احمد دیدات کی نظریات حال ہی میں پورے بھارت میں بڑی تیزی سے پھیلے ہیں۔اُس کے بہت سے پروگرامز اچھی تعلیمات دیتے ہیں جیسے کہ میانہ روی کو فروغ دینا،خدا کا خوف رکھنا،اور صحائف کا مطالعہ کرنا۔تاہم،یہ پروگرامز کچھ غلط قادیانی اور وہابی نظریات بھی پھیلارہے ہیں جو صحائف کو درست طریقے سے اُس طر ح پیش نہیں کر رہے جیسے کہ حقیقت میں جو کچھ صحا ئف بیان کرتے ہیں۔

    مثال کے طور پر ذاکر نائیک اور احمد دیدات سیدنا عیسیٰ المسیح کی موت کے بارے میں ایک قادیانی نظریہ پیش کرتے ہیں جسے ”بے ہوش ہونے کا نظریہ“کہا گیاجو سب سے پہلے مغربی لادینوں نے ایجاد کیا اور بعد میں قادیانیوں کے ذریعے مسلمانوں میں متعارف ہوا۔تقریباً تمام علما حتیٰ کہ مسیحیت کے نقادوں نے بھی اِس نظریے کو ملامت کیا ہے،اور اِس نے صحائف کی سچائی کوچھپانے کی کوشش کی ہے۔

    اِس مضمون میں ہم یہ دیکھیں گے کہ اِس اہم سوال کے بارے میں قرآن مجید،انجیل شریف اور تاریخ دراصل کیا کہتی ہے کہ کیا سید نا
    عیسیٰ المسیح مصلوب ہوئے تھے؟ہم درج ذیل سوالات کی ترتیب سے بات کریں گے:

    1. کیا قرآن شریف اِس بات سے انکار کرتا ہے کہ سید نا عیسیٰ المسیح صلیب پر مؤئے تھے؟
    2. کیا قادیانیوں کا بے ہوشی کانظریہ درست ہو سکتا ہے؟
    3. کیا انجیل شریف حقیقت میں یہ کہتی ہے کہ حضرت عیسیٰ المسیح مصلوب ہوئے تھے؟
    4. کیا مصلوبیت توریت شریف اور انجیل شریف کے مطابق درست ثابت ہوتی ہے؟
    5. کیا ذاکر نائیک کے دلائل سچے ہیں؟
    6. تاریخی شہادت کیا کہتی ہے؟

    خاکہ:

    حِصّہ اوّل: اسلا م اور قر آن کیا کہتا ہے؟
    حضرت عیسیٰ المسیح کی موت کا اسلامی نظریہ
    کیا قرآن شر یف واقعی سید نا عیسیٰ المسیح کی مصلوبیت کا انکار کرتا ہے؟
    سوان نظریہ (المسیح کے بے ہوش ہونے کا نظریہ)

    حِصّہ دوم: انجیل شریف کیا کہتی ہے؟
    انجیل شریف میں بارہ ناقابل ِ انکار بیانات کہ حضرت عیسیٰ المسیح صلیب پر مرے تھے
    ذاکر نائیک کی ناقابل ِ چیلنج گستاخی

    حِصّہ سوم:توریت شریف اور زبور شریف کیا کہتی ہیں؟
    توریت شریف اورزبور شریف میں پہلے سے مذکور مصلوبیت
    کفارہ اور قربانی
    آخری قربانی
    صحائف میں حضرت عیسیٰ المسیح کی موت کی پیشین گوئیاں
    سید نا عیسیٰ المسیح کی اپنی موت کے بارے میں پیشیں گوئیاں

    حِصّہ چہارم:ذاکر نائیک کوباطل ثابت کیا
    یسوع المسیح کے شاگردوں کی مصلوبیت کے بارے گواہی
    ایک جی اُٹھا بدن
    پہلا نشان: تباہ شدہ ہیکل
    دوسرا نشان: یوناہ کا نشان
    تاریخی اندراج

    نتیجہ


     

    حِصّہ اوّل

    اسلام اور قرآن مجید کیا کہتا ہے؟

    حضرت عیسیٰ المسیح کی موت کا اسلامی نظریہ

    ذاکر نائیک کچھ یوں دکھانے کی کوشش کرتا ہے کہ اسلام اور قرآن شریف دونوں مصلوبیت کا انکار کرتے ہیں مگر ایسا نہیں ہے۔ ذاکر نائیک کی وضاحت دراصل ایک غلط نظریہ ہے جو مغربی لا دینوں نے حال ہی میں ایجاد کیا اور قادیانیوں کے ایک بدعتی گروہ کے ذریعے اسلام میں متعارف ہوا۔جدید دور کے بہت سے مسلمان یہ سوچتے ہیں کہ اسلام یہ سکھاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ المسیح مرے نہیں تھے بلکہ اُن کا جسم ِمبارک زندہ آسمان پر اُٹھالیا گیا تھا۔دراصل بڑے بڑے مفسرین (اسلامی مبصّرین)جیسے کہ ا لطبر ی اور الرازی کہتے ہیں کہ سید نا عیسیٰ المسیح کی موت کو قبول کرنا دراصل قرآن شریف کی ایک متواتر وضاحت ہے :

    ””عیسیٰ!

    کیا کتا ب مقدس کے مُستند ہونے کے کافی ثبوت موجود ہیں؟

    کیا کتاب مقدس کے مُستند ہونے کے کافی ثبوت موجود ہیں؟

    1۔ مسوّدوں کا ریکارڈ

    لاطینی یا یونانی قدیم ترین ادب میں سے کسی سے بھی کہیں زیادہ کتاب مقدس کے مُستند ہونے کے شاندار اور قلمی نسخوں کے ثبوت موجود ہیں۔ انتہائی قدیم اور شروع کے قلمی نسخے موجود ہیں۔اوسطاً کسی بھی ادبی مصنف کے کام کے قلمی نسخوں کی نسبت انجیل شریف(نئے عہد نامے) کے ایک ہزار سے زیادہ قلمی نسخے موجود ہیں۔دوسرے الفاظ میں،اگر ہم انجیل شریف(نئے عہد نامے)کے مُستند ہونے سے انکار کرتے ہیں تو پھر ہمیں کہیں زیادہ مضبوطی سے قدیم تہذیب کے تاریخی ریکارڈ کا انکار کرنا چاہئے۔آج بھی یونانی میں لکھے گئے نئے عہد نامے کے پانچ ہزار سات سو قلمی نسخے موجود ہیں۔

    اب تک موجود ادبی تصانیف کا موازنہ

    تصنیف ابتدائی قلمی نسخوں کے درمیان کا وقت موجودقلمی نسخوں کی تعداد
    افلاطون 1300 سال 7
    ہومر کا ایلیڈ 400 سال 643
    قیصر کی گیلک جنگیں 1000 سال 10
    لیوی کی روم کی سوانح عمر ی 400 سال 27
    ٹیکٹس انالز 1000 سال 20
    تھوسی ڈائڈز کی تاریخ 1300 سال 8
    ہیرودوتس کی تاریخ 1350 سال 8
    انجیل شریف 50 سال 5700

    5700 کا اشارہ صرف یونانی زبان میں لکھے گئے اصلی مسودوں کی طرف ہے جب کہ نئے عہد نامے کے سُریانی،قبطی،لاطینی،آرمینی،
    جارجین اور گوتھک زبانوں میں 20,000سے لے کر 25,000ابتدائی تراجم کے قدیم قلمی نسخے موجود ہیں۔حضرت محمد کے زمانے سے سینکڑوں سال پہلے نئے عہد نامے کے تین بنیادی یونانی قلمی نسخے موجود ہیں:

    کوڈیکس الیگزنڈرینس: یہ متن لندن کے برٹش میوزیم میں محفوظ ہے جو پانچویں صدی عیسوی میں ہاتھ سے لکھا گیا تھا اور چند صفحات کے علاوہ تمام کتاب مقدس موجود ہے۔

    Codex Alexandrinus

    Codex Alexandrinus

    کوڈیکس سینا ٹیکس: یہ مسودہ بھی برٹش میوزیم میں نمائش کے لئے رکھا گیا ہے جس کی تاریخ چوتھی صدی عیسوی کے اواخر کی ہے اور جو پوری انجیل شریف (نیا عہد نامہ)پر مشتمل ہے۔

    Codex Sinaiticus

    Codex Sinaiticus

    کوڈیکس ویٹیکینس: یہ جلدروم میں ویٹکین لائبریری میں محفوظ ہے جو چوتھی صدی عیسوی میں ہاتھ سے لکھا گیا۔

    Codex Vaticanus

    Codex Vaticanus

    یہ دو مختلف اقسام کے متن سے مل کر بنے ہیں (اِس کا مطلب ہے کہ جلدوں کے مختلف خاندانوں سے جن کا حقیقی ماخذ ایک ہی ہے)پھر بھی مجموعی طور پر وہ ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں۔

    اِن مکمل جلدوں کے علاوہ انجیل شریف کے بہت سے حصے ہیں جو انجیل شریف کی کتب کے لکھے جانے کے 60-40سالوں بعد منظر عام پر آئے۔مثلاًپیائرس صفحہ نمبر 52تقریباً 135عیسوی کا لکھا ہوا مقدس یوحنا رسول کی انجیل کے 18ویں باب کا ایک ٹکڑا ہے۔یہ قلمی نسخہ دریائے نیل کے ساحلی کنارے سے دریافت ہوا جو یہ ثبوت فراہم کرتا ہے کہ مقدس یوحنا کی انجیل افسس کے مقام سے جہاں یہ مرتب ہوئی بہت دوردراز کے علاقے میں پائی جاتی تھی۔جہاں ایک اوسط ادبی مصنف کا پہلے پانچ سو سالوں کا کوئی قلمی نسخہ موجود نہیں ہے وہاں نئے عہد نامے کی تکمیل کے پہلے 100سال سے 10سے15 نسخے اور ابتدائی تین سو سالوں کے 99قلمی نسخے موجود ہیں۔3

    2.کاتب