گواہیاں نبيل قريشي

گواہیاں فوزي ارزوني

خدا کس سے محبت کرتا ہے؟

قرآن: خدا کس سے محبت کرتا ہے؟

خدا کی برکات سب کے لئے ہیں، اُس کی محبت اُن کے لئے ہے جنہیں اُس نے پہلے ہی سے نیک اعمال کے لئے مقرر کیا ہے:

”…اللہ تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔“ (8:60)
”اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔“ (9:49)
”اور جو ایمان لائے اور عمل نیک کئے رحمن اُن کی محبت مخلوقات کے دل میں پیدا کر دے گا۔“ (96:19)
”اللہ پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔“ (108:9)
”بیشک اللہ بھروسہ رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔“ (159:3)
اِسی طرح، قرآن کے مطابق خدا بے ایمانوں سے محبت نہیں کرتا:

”کہدو کہ اللہ اور اُس کے رسول کا حکم مانو۔ پس اگر وہ نہ مانیں تو اللہ بھی کافروں کو دوست نہیں رکھتا“(32:3)

”اللہ کسی ناشکرے گناہگار کو دوست نہیں رکھتا۔“ (276:2)

”اللہ کسی خیانت کرنے والے ناشکرے کو دوست نہیں رکھتا۔“ (38:22)
”اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔“ (57:3)
”اللہ تکبر کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔“ (36:3)
”اللہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔“ (87:5)
”اللہ بیجا اُڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔“ (141:6)
”اللہ دغا بازوں کو دوست نہیں رکھتا۔“ (58:8)
”کافروں کا اللہ دشمن ہے۔“ (98:2)

”جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا اُن کو ہم عنقریب آگ میں داخل کریں گے۔ جب کبھی اُن کی کھالیں گل جائیں گی تو ہم اُن کو اور کھالیں بدل کر دیں گے تا کہ ہمیشہ عذاب کا مزہ چکھتے رہیں۔ بیشک اللہ غالب ہے حکمت والا ہے۔“ (56:4)

بائبل: خدا کی غیر مشروط محبت

خدا کی محبت صرف متقی یا ایمانداروں کے لئے نہیں بلکہ سب لوگوں کے لئے ہے –یہ ایک سرگرم، ڈھونڈنے والی، پاس آنے والی محبت ہے جو گناہگاروں کو گناہ کے قبضے سے چھڑانے کی کوشش کرتی ہے اور اُنہیں توبہ اور ایمان کی طرف لے کر آتی ہے تا کہ خدا کے ساتھ اُن کی صلح صفائی ہو سکے:

”خدا …تحمل کرتا ہے اِس لئے کہ کسی ہلاکت نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے“ ( 2-پطرس 9:3)

”خدا اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گنہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر موا۔“   (رومیوں 8:5)

”…یسوع مسیح راستباز۔ اور وہی ہمارے گناہوں کا کفارہ ہے اور نہ صرف ہمارے ہی گناہوں کا بلکہ تمام دُنیا کے گناہوں کا بھی۔“ (1-یوحنا 2:1-2)

”…خداکسی کی جان نہیں لیتا بلکہ ایسے وسائل نکالتا ہے کہ جلاوطن اُس کے ہاں سے نکالا ہوا نہ رہے۔“ (2-سموئیل 14:14)

”فریسی اور فقیہ اُس کے شاگردوں سے یہ کہہ کر بڑبڑانے لگے کہ تم کیوں محصول لینے والوں اور گنہگاروں کے ساتھ کھاتے پیتے ہو؟ یسوع نے جواب میں اُن سے کہا کہ تندرستوں کو طبیب کی ضرورت نہیں بلکہ بیماروں کو۔ میں راستبازوں کو نہیں بلکہ گنہگاروں کو توبہ کے لئے بلانے آیا ہوں۔“ (لوقا 30:5-32)

”پس ہم اِن باتوں کی بابت کیا کہیں؟ اگر خدا ہماری طرف ہے تو کون ہمارا مخالف ہے؟ …کون ہم کو مسیح کی محبت سے جدا کرے گا؟ مصیبت یا ننگی یا ظلم یا کال یا ننگاپن یا خطرہ یا تلوار؟“ (رومیوں 35،31:8)

خدا کی یہ محبت اُس کی فطرت کے مطابق ہے:

”جو محبت نہیں رکھتا وہ خدا کو نہیں جانتا کیونکہ خدا محبت ہے۔… محبت اِس میں نہیں کہ ہم نے خدا سے محبت کی بلکہ اِس میں ہے کہ اُس نے ہم سے محبت کی“ (1-یوحنا 10،8:4)

”میر حکم یہ ہے کہ جیسے میں نے تم سے محبت رکھی تم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھو۔ اِس سے زیادہ محبت کوئی شخص نہیں کرتا کہ اپنی جان اپنے دوستوں کے لئے دیدے۔“ (یوحنا 13،12:15)

خدا نے ہیرودیس کو معصوم بچوں کو قتل کرنے کی اجازت کیوں دی؟

متی 16:2 – ”جب یسوع بچ گیا اور ہیردویس بادشاہ نے دوسروں کو قتل کروایا، تو خدا نے معصوم بچوں کو کیوں نہ بچایا؟“

ہم یہ بھی پوچھ سکتے ہیں کہ کیوں خدا نے ہٹلر، پول پاٹ، سٹالن یا دوسروں کو کیوں نہ روکاجنہوں نے بہت سے معصوم لوگوں کو جن میں بچے بھی شامل تھیقتل کیا؟ دُنیا ہماری ثقافت کے گناہ کے اثرات منعکس کر رہی ہیں، اور ہم میں سے کوئی بھی گناہ سے مبرا نہیں۔ خدا گناہ کے فطری اثرات کی اجازت دیتا ہے تا کہ ہم اُنہیں محسوس کر کے اِس بات سے آگاہی حاصل کر سکیں کہ انسانیت کے ساتھ بنیادی طور پر کچھ غلط ہے، اور ہم اپنی غلط راہ کا احساس کر سکیں، توبہ کریں، اور خدا کو اجازت دیں کہ وہ ہمیں بدلے۔ اگر خدا سادہ طور پر تمام تکلیف(گناہ کا نتیجہ) کو مٹا دیتا، تو ہم کبھی بھی یہ احساس نہ کر سکتے کہ گناہ کس قدر بھیانک ہے اور کبھی بھی اُس کے حل کے طالب نہ ہوتے۔

کیا حضرت یحییٰ بپتسمہ سے پہلے حضرت عیسیٰ کو جانتے تھے؟

متی 13:3-14 – ”کیاحضرت یحییٰ حضر ت عیسیٰ کے بپتسمہ سے پہلے اُنہیں جانتے تھے یا نہیں (یوحنا 33:1)؟“

جناب مسیح کے بپتسمہ تک،حضرت یحییٰ، مسیح کو ایک دُور کے رشتہ دار کے طور پر جانتے تھے جو ایک اَور شہر میں پلے بڑھے تھے۔
اُن کے دل میں اِس بات کے چند شکوک ہو سکتے تھے کہ آیا حضرت عیسیٰ مسیحا ہیں یا نہیں لیکن جب رُوح القدس کبوتر کی مانند اُن پر اُترا تو یہ واضح تصدیق تھی کہ اس سے حضرت یحییٰ کو یقین ہو گیا کہ واقعی حضر ت عیسیٰ ہی خُدا تعالیٰ کے موعودہ مسیحا ہیں۔

چپٹی زمین؟

متی 8:4 -”یہاں لکھا ہے کہ زمین چپٹی ہے جو کہ درست نہیں ہے۔“

اگر نقاد نے غور سے پڑھا ہوتا تو وہ دیکھتا کہ یہ ایک معجزانہ اورفوری رویا تھی جسے لوقا 5:4واضح کرتی ہے:”پھر ابلیس نے اُسے اُونچے پر لے جا کر دُنیا کی سب سلطنتیں پل بھر میں دکھائیں۔“یہ سمجھ لینا احمقانہ بات ہے کہ لوقا ا ورمتی نے روم کے بارے میں یہ تصور دیا کہ اُسے ایک اُونچے پہاڑ پر سے دیکھا جا سکتاتھا۔وہ ایک معجزانہ رویا درج کر رہے تھے۔کوئی معراج کے بارے میں سوال پوچھ سکتا ہے،کہ کوئی نبی کس طرح ایک ہی رات میں پروں والے گھوڑے پر سوار ہو کر یروشلیم تک اور آسمان تک گیا ہو اور پھر واپس آیا ہو۔

قرآن میں بھی ایسی آیات ملتی ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ زمین چپٹی ہے:

”اورآسمان کی طرف کہ کیسا بلند کیا گیاہے اور پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح کھڑے کئے گئے ہیں اورزمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئی
(سورۃ الغاشیہ 18:88-20)

اِس آیت پر نامور مفسِّر الجلالین کی تفسیرمیں لکھا ہے،

جہاں تک اُس کے لفظ سُطِحتَ ہموار بچھا دیا‘ کا تعلق ہے اِس کی لغوی قرأت تجویز کرتی ہے کہ زمین چپٹی ہے جو شریعت کے زیادہ تر علمائے کرام کی رائے ہے نہ کہ گول جیسی کہ علم ِ نجوم والے کہتے ہیں …“1

اِسی طرح مصر کے علم ِ الہٰی کے ماہر امام سیوطی نے بھی یہ کہا کہ زمین چپٹی ہے۔

  1. Available online from http://altafsir.com

یردن یا گلیل؟

متی 18:4-22 – ”کیا حضرت عیسیٰ پطرس اور اندریاس کوپہلے گلیل کی جھیل کے کنارے ملے یا دریائے یردن کے کنارے (یوحنا42:1-43)؟“

کوئی بھی حوالہ یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ یہ پہلا موقع تھا کہ حضرت عیسیٰ شمعون او راندریاس سے ملے،مگر ہم یہ نتیجہ اَخذ کر سکتے ہیں کہ یوحنا
اُن کی پہلی ملاقات حضرت یحییٰ کے علاقے میں لکھتے ہیں اور متی دوسری ملاقات واپس گلیل میں بیت صیدا میں گھر پر بیان کرتا ہے۔ ورنہ شمعون او راندریاس کے لئے یہ واقعی حیرت کی بات ہوتی کہ ایک مکمل اجنبی شخص کے محض یہ کہنے پر کہ ”میرے پیچھے ہو لے“ اُس کی پیروی کرتے، جب تک کہ اُن کا اُس کے ساتھ ماضی میں کوئی تجربہ نہ ہوا ہوتا۔حضرت عیسیٰ پہلے ہی اُن پر اپنے معصوم کردار،معجزات اور تعلیم کو یردن میں ثابت کر چکے تھے۔یہی وجہ ہے کہ وہ بغیر کوئی سوال کئے گلیل میں اُن کے پیچھے ہو لئے۔

دوسرا گال پھیرنا

متی 38:5-39 -”بے انصافی کے سامنے دوسرا گا ل پھیرنا حماقت اور غیر منصفانہ عمل ہے۔“

کچھ نے یہ بحث کی کہ وہ امن پسندی جس کا حضرت عیسیٰ مسیح دعویٰ کرتے ہیں وہ قابل ِ مذمت ہے۔یہ ایک دلچسپ دعویٰ ہے،خاص طور پرجیسے کہ پچھلے چند سالوں میں دنیانے جنگ او ردہشت گردی کے تباہ کُن نتائج کو دیکھا ہے۔ہم اِس حقیقت کے گواہ رہ چکے ہیں کہ مذہب کے نام پر جنگ،عسکری قوت،دہشت گردی اور بڑھتی ہوئی قومیت نے صرف دنیا کو دُکھ اور تکلیف،غم اور مصیبت ہی دی ہے۔جو مسائل دنیا کو درپیش ہیں جنگ اُن کا حل نہیں نکالتی۔اگر جنگ دنیا کے حالات کو بہتر نہیں بنا رہی تو کیا ہم دوسرے متبادل ذرائع پر غور نہیں کر سکتے؟

یہ آیات جن کا ذِکر اوپر کیا گیا ہے اِن سے پہلے،حضرت عیسیٰ مسیح نے فرمایا،”مبارک ہیں وہ جو صُلح کراتے ہیں کیو نکہ وہ خدا کے بیٹے کہلائیں گے“(متی 9:5)۔صلح کرانے والوں کو ”خدا کے بیٹے“ کیوں کہا گیا ہے؟کیوں کہ خُدا تعالیٰ ہی تمام امن کا وسیلہ ہیں اور وہ جو امن لانے کے لئے کام کرتے ہیں وہ اپنے کردار میں خُدا تعالیٰ کی مانند ہیں۔

انجیل مقدس یہ تعلیم دیتی ہے کہ عدالت کے روز خُدا تعالیٰ واقعی بے انصافی کا بدلہ لے گا لیکن گناہ آلودہ،خطا کار بنی نوعِ انسان ہوتے ہوئے،ہمیں بدلے کو خُدا تعالیٰ کے ہاتھ میں چھوڑ دینا چاہئے۔ انصاف کو یقینی بنانا حکومت کا کام ہے لیکن ایمان داروں کو بِنا تشددکے مزاحمت،سچائی اور مضبوط دلیری سے بُرائی کی مخالفت کرنے کو کہا گیا ہے نہ کہ بم دھماکوں اور دہشت گردی سے۔ہم آدمیوں کے ضمیر سے اپنے مضبوط اور بے خوف ایمان کے ساتھ درخواست کرتے ہیں کہ طاقت سے زیادہ مضبوط سچائی ہے،جوبدی کے آگے، موت کے سامنے بے خوف رہنا ہے۔حضرت عیسیٰ مسیح کے پیروکاروں میں امن پسند شہادت کی روایت قائم ہے جو اپنے دشمنوں کی محبت سے بھری ہوئی ہے جس نے بے شمار لاکھوں زندگیوں کو مسیح کی راہ اختیار کرنے کی جانب مائل کیا۔

حضرت عیسیٰ مسیح نے فرمایا،”اپنا اطمینان تمہیں دیتا ہوں۔جس طرح دنیا دیتی ہے مَیں تمہیں اُس طرح نہیں دیتا۔“انسانوں کے قائدین نے طاقت کے ایک خونریز انقلاب کے بعدایک پُرامن ریاست قائم کرنے کا وعدہ کیا مگر اُنہوں نے خونریزی کے علاوہ کچھ حاصل نہ کیا۔حضرت عیسیٰ مسیح یہاں او رابھی ایک مختلف قسم کا امن پیش کرتے ہیں۔موت اور تباہی فتح تو لاسکتی ہیں مگر وہ انصاف یا امن کبھی نہیں لائیں گی۔

یہ دُنیا جس نے مذہب کے نام پر جنگ کا پھل دیکھا ہے؛ہم جانتے ہیں کہ صرف حضرت عیسیٰ مسیح کی باتیں ہی بے انصافی اور تباہی کے سلسلے کو ختم کرنے کا مناسب جواب ہیں۔ حضرت عیسیٰ مسیح کی قیمتی تعلیمات نے بے شمار لوگوں کو آپ کا شاگرد بننے کی طرف مائل کیا۔

کُتے اور سؤر؟

متی 6:7 – ”انجیل شریف کس طرح غیر ایمان داروں کے لئے ”کتوں“اور ”سؤروں“ کے ناشائستہ الفاظ استعمال کر سکتی ہے؟انبیا کو
دوسروں کے لئے ایسی اصطلاحات استعمال نہیں کرنی چاہیے تھیں۔“

یہ حوالہ بتا رہا ہے کہ حقیقی ایمان داروں کو اُن کو انجیل کی منادی غیر معینہ مدت تک جاری نہیں رکھنی چاہئے جو سختی سے اِسے ردّ کرتے ہیں
تاکہ وہ آگے بڑھ سکیں اور زیادہ قبول کرنے والوں میں انجیل کی منادی کرسکیں (دیکھئے 14:10)۔یہ آیت براہ ِ راست کسی شخص کو بھی کتا یا سؤر نہیں کہتی،یہ روزمرہ زندگی میں سے یہ بیان کرنے کے لئے صرف ایک استعارہ استعمال کرتی ہے کہ کسی شخص کو اُن لوگوں پر قیمتی باتیں ضائع نہیں کرنی چاہئیں جن کو اُن کی قدر نہیں ہے۔

قرآن نے خود شریروں کو بیان کرنے کے لئے ایسے ہی استعارے استعمال کئے ہیں۔ہمیں قرآن میں ملتا ہے کہ بدکاروں کو کتے (175:7-177)،جانور(25,22:8)،گدھے(5:62)اورحتیٰ کہ سؤروں میں تبدیل ہونے کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔یہ اصطلاحات یہ دکھانے کے لئے مجازی معنوں میں استعمال ہوئی ہیں کہ لوگ کس طرح خُدا تعالیٰ کے فضل و کرم کے بغیر تباہ اور بگڑے ہوئے ہیں۔خُدا تعالیٰ کی راہنمائی کے بغیر،آدمی مکمل طور پر بگڑا ہوا ہے اور ایسے کام کرتا ہے جو جانور بھی نہیں کرتے ہوں گے۔

کیا حضرت عیسیٰ مسیح نے سؤر چُرائے؟

متی 28:8-34 – ”حضرت عیسیٰ مسیح نے سؤروں کا ایک غول چُرایا اور اُنہیں ہلاک کر دیا اِس لئے وہ ایک چور ہیں۔“

صاف ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ مسیح نے سؤروں کا غول نہیں ”چُرایا“ حتیٰ کہ اُنہوں نے ہاتھ بھی نہیں لگایا؛سؤروں کو کسی چیز میں بھیج دینا مشکل ہی سے ”چوری“ سمجھا جا سکتا ہے۔

حقیقت میں کھوئے ہوئے سؤروں پر دھیان دینابالکل گناہ آلودہ سوچ ہے جو حضرت عیسیٰ مسیح اِس واقعہ کے ساتھ دکھانے کی کوشش کررہے تھے۔دنیاوی سوچ لالچ کے ساتھ املاک اور ملکیت کے حقوق پر لگی رہتی ہے جو کہ بدروح گرفتہ آدمی کی طرح کے لوگوں کے دُکھوں کو نظر انداز کرتی ہے۔حضرت عیسیٰ مسیح گاؤں والوں کی اِس ڈرامائی واقعہ کے ساتھ غلط ترجیحات کو چیلنج کرتے ہیں اور اِ س رُوح میں کہتے ہیں،”یہ آدمی جو دُکھ اور مصیبت سے آزاد کیا گیا وہ اُ س بات سے کہیں زیادہ اہم ہے جس پر آپ توجہ دیتے ہیں اور وہ ہے آپ کا مال و اسباب۔“