کیا کتاب مقدس محض زیادہ تر درست ہے؟

” کتاب مُقدس زیادہ تر درست ہے، صرف کچھ آیات ایسی تھی جن کا اضافہ کیا گیا یا جو نکالی گئیں جنہوں نے اِس کے پیغام کو بگاڑ دیا۔”

چونکہ کتاب مُقدس کی مجموعی صحت سے متعلق بہت زیادہ ثبوت موجود ہے، اِس لئے بہت سے متشکک الزام لگاتے ہیں کہ مجموعی طور پر بائبل قابل اعتبار ہے لیکن کچھ آیات کا اضافہ کیا گیا تھا یا اُنہیں بدل دیا گیا جس سے اِس کا پیغام بگڑ گیا۔ مثلاً کئی مسلمان دعویٰ کرتے ہیں کہ یسوع کی موت اور جی اُٹھنا اور صرف یسوع میں ایمان سے نجات کی تعلیم “معمولی اضافے” تھے جو بعد ازاں شامل کئے گئے۔ اِن نام نہاد “اضافوں” والی تعلیم (جسے مسیحی انجیلی پیغام کے طور پر جانتے ہیں) کا خلاصہ یوں پیش کیا جا سکتا ہے:

انسانیت فقط شریعت کی تعمیل کرنے سے نجات نہیں پا سکتی کیونکہ لوگ اِس کی مکمل طور پر تعمیل نہیں کر سکتے ہیں، لیکن خدا نے اپنے فضل میں نجات کے لئے ایک ذریعہ مہیا کیا، یعنی لاثانی بے گناہ “مسح شدہ نجات دہندہ” یسوع کو بھیجا گیا جس نے صلیب پر ہمارے گناہوں کو سزا کو اپنے اوپر اُٹھا لیااور کفارہ دیا اور یوں خدا سے انسانوں کا میل ملاپ ہو گیا۔نجات کی یہ بخشش جس کے ہم مستحق نہیں، مذہبی وابستگی یا عقیدہ سے ممکن نہیں بلکہ توبہ کرنے اور یسوع کے ایک شاگرد بن جانے سے حاصل ہوتی ہے۔

اِن نقادوں کے مطابق، مندرجہ بالا عقیدہ کا لازماً بعد میں اضافہ کیا گیا ہے کیونکہ یہ ا ُن کے اپنے مذہبی نظریات سے میل نہیں کھاتا۔ اِن نقادوں کے مطابق وہ تمام آیات جن میں غلط سمجھے گئے “بیٹا” اور “خداوند” کے القاب استعمال کئے گئے ہیں بعد کے اضافے ہیں۔

ہر وہ فرد جس نے حقیقت میں پورے نئے عہدنامہ کا مطالعہ کیا ہے، اُس کے نزدیک یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے کیونکہ یہ پیغام واضح طور پر بار بار نئے عہدنامہ کی تمام ستائیس کتابوں میں پایا جاتا ہے۔ اِس بات کا اشارہ نئے عہدنامہ کی کم از کم آدھی کے قریب تعلیم میں بھی ملتا ہے۔ اِس کے بغیر انجیل مُقدس کی کوئی سمجھ نہیں آ سکتی۔

یہ نظریہ کہ “صرف چند آیات” کا بعد میں اضافہ کیا گیا تھا، ہر اُس فرد کے نزدیک مضحکہ خیز ہے جس نے حقیقت میں پورے نئے عہدنامہ کا مطالعہ کیا ہے، کیونکہ یہ پیغام واضح طور پر بار بار نئے عہدنامہ کی تمام ستائیس کتابوں میں پایا جاتا ہے اور اِس بات کا اشارہ نئے عہدنامہ کی کم از کم آدھی کے قریب تعلیم میں بھی موجود ہے۔ یہی خوشخبری تمام انجیلی بیانات میں موجود ہے جسے یسوع نے کئی مرتبہ بیان کیا: متی 26: 28 ;یوحنا 3: 15 ; متی 20: 28 ;مرقس 10: 45 ; یوحنا 10: 9 ; 14: 6 ;یوحنا6: 44،47، 48، 51 ; 10: 11 ،28 ; 11: 25 ; 17: 1-2 ،3 ;لوقا 4: 43 ; 24: 26 – 27 ;یوحنا 6: 29 ،33،35 ; 4 : 14; 5: 21 ;متی 18: 21-35 ۔ یہ وہی خوشخبری ہے جس کی منادی پطرس رسول نے کی ، یعقوب نے کی اور یوحنا رسول نے کی۔ مزید برآں نئے عہدنامہ کی تمام ستائیس کتابوں میں اِس حقیقت کی گواہی ملتی ہے۔

باالفاظ دیگر، یہ پیغام مکمل طور پر نئے عہدنامہ سے ناقابل جدا ہے اور انجیل مُقدس کا مرکزی “خوشخبری” کا پیغام ہے۔ یہ تحریر جامع نہیں ہے۔ یہاں ہر عنوان کے تحت حضرت عیسیٰ کے بارے میں قرآن میں پائے جانے والے تمام حوالہ جات کا احاطہ نہیں کیا گیا۔ اور اِس کے لئے ایک بڑی کتاب لکھنے کی ضرورت ہو گی۔ تاہم یہاں حضرت عیسیٰ کے لئے استعمال ہونے والے مختلف ناموں اور بیانوں کی ایک یا دو مثالیں دی گئیں ہیں تا کہ قاری تک اُس نکتہ نظر کو درست طور پر پیش کیا جائے جسے قرآن ہر عنوان کے تحت بیان کرتا ہے۔ اِن میں سے کئی باتیں صرف حضرت عیسیٰ کے لئے ہی استعمال ہوئی ہیں اور کسی دوسرے کے لئے استعمال نہیں ہوئیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ اِس مختصر تحریر کو پڑھنے کے بعد قاری کو تحریک ملے گی کہ وہ خود قرآن کا مطالعہ کرے اور دیکھے کہ یہ حضرت عیسیٰ اور کئی اَور اہم موضوعات کے بارے میں کیا بتاتا ہے۔

عیسیٰ مسیح کی ایک انجیل یا آپ کے شاگردوں کی چار انجیلیں؟

“قرآن صرف ایک انجیل کا ذِکر کرتا ہے جو عیسیٰ کو دی گئی، لیکن آج کی انجیل آپ کے شاگردوں نے لکھی۔”
اگرچہ بہت سے لوگ اِس تصوراتی خیال کو مانتے ہیں تاہم نہ ہی نبی اسلام اور نہ ہی جناب عیسیٰ نے کوئی کتاب تحریر کی۔ اُن کی کتابیں سب سے پہلے اُن کی وفات کے بعد لکھی گئیں۔
مگر دوسری کتابوں کے مقابلہ میں انجیل ایک فرق طرح سے دی گئی۔ اگر زیادہ تر نبیوں کو دیکھا جائے جیسے یسعیاہ ا ور یرمیاہ، تو خدا تعالیٰ نے اُنہیں ایک خاص پیغام عنایت کیا جسے “خدا کا کلام” کہا جاتا ہے ، سو نبی کی کتاب وہ خاص “کلام خدا” تھی۔ تاہم، انجیل اور قرآن دونوں میں یسوع کو لاثانی طور پر “کلمتہ اللہ”1 کہا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ بذات خود بنیادی کلام ہے۔دوسرے نبی تو ایک تحریری “کلام خدا” لانے کے لئے آئے مگر عیسیٰ مسیح کے معاملہ میں یہ بات بالکل اُلٹ تھی۔ وہ بذات خود خدا کا زندہ کلام تھے،سو تحریری صورت میں موجود انجیل بنیادی مطمع نظر نہیں تھی بلکہ عیسیٰ مسیح مرکز نگاہ ہیں۔ انجیل مقدس تو سادہ طور پر الہامی گواہی پر مشتمل بیان ہے جس میں زندہ کلام خدا کی زندگی اور تعلیمات مرقوم ہیں۔ عیسیٰ مسیح نے اپنے شاگردوں کو یہ کام تفویض کیا کہ وہ دُنیا کے سامنے آپ کی تمام تعلیمات کی گواہی دیں (متی 28: 18-20)۔آپ نے اُن سے یہ بھی وعدہ کیا کہ روح القد س اُنہیں اِن سب باتوں کی یاد دِلائے گا (یوحنا 14: 26)۔خدا کے زندہ کلام کی بابت اِس مقدس پیغام کو محفوظ کرنے کے لئے آپ کے شاگردوں اور اُن کے ساتھیوں نے الہامی تحریک سے عیسیٰ مسیح کے حالات زندگی اور تعلیمات کو انجیل مقدس میں تحریر کیا۔
قرآن میں مذکور انجیل کی بابت کیا کہا جائے؟ قرآنی علما اِس بات پرمتفق ہیں کہ عربی لفظ “انجیل” درحقیقت ایک عربی لفظ نہیں ہے بلکہ یونانی لفظ “εὐαγγέλ” (evangel) کا ترجمہ ہے جیسے کہ انگریزی زبان کا لفظ “gospel” ہے۔ سو، لفظ انجیل کے معنٰی کو جاننے کے لئے ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اِس لفظ کا اُن لوگوں کے نزدیک کیا مفہوم تھا جنہیں نے اِسے استعمال کیا۔انجیل ایک ایسی اصطلاح ہے جسے عربی، فارسی، اُردو اور ترکی بولنے والے مسیحی اپنے صحائف کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ لفظ “evangel” کے تین متوازی معانی ہیں جنہیں ابتدائی مسیحیوں اور قرآن دونوں نے استعمال کیا ہے:

  • عیسیٰ مسیح کا پیغام: لفظی معنٰی کے لحاظ سے “انجیل” کا مطلب “خوشخبری” کا پیغام ہے۔ عیسیٰ مسیح کے تعلق سے اِ س کا مطلب مسیح کی نجات اور خدا کی بادشاہی کے بارے میں تعلیم ہے۔
  • عیسیٰ مسیح کی زندگی کا بیان: “evangel” کا مطلب عیسیٰ مسیح کی زندگی کا ایک بیان بھی ہے جیسے متی ، مرقس، لوقا اور یوحنا کی معرفت لکھے گئے انجیلی بیان، جنہیں شروع میں سادہ طور پر اکھٹے “the evangel” کہا جانے لگا۔
  • مسیحی صحائف : تیسرا معنٰی یہ ہے کہ عمومی طور پر اِس سے مراد 27 کتابوں پرمشتمل مسیحی صحائف ہیں جنہیں نیا عہدنامہ بھی کہا جاتا ہے۔
    • جیسے” کُھلنا” ایک شہر، ضلع اور ڈویژن کا نام ہے، ویسے ہی “انجیل” سے ایک ہی وقت میں مراد (1) یسوع کا بنیادی پیغام، (2) اُس پیغام کا بیان یا (3) اُس پیغام سے متعلق صحائف ہیں۔ جب قرآن کہتا ہے کہ عیسیٰ مسیح کو انجیل دی گئی تو یہ بات بالکل درست ہے، کیونکہ آپ کا کام انسانیت کو نجات اور خدا کی بادشاہی کی خوشخبری کا پیغام دینا تھا۔انجیلی پیغام کے اِس عمومی مفہوم میں عیسیٰ مسیح کو انجیل ویسے ہی عطا ہوئی جیسے آپ کو حکمت عطا ہوئی (مائدہ 3: 48)۔ جب قرآن کہتا ہے کہ انجیل ایک کتاب ہے تو یہ”evangel” (انجیل) کے ابتدائی معنٰی کے عین مطابق ہے۔ تاریخی ریکارڈ سے یہ واضح ہے کہ ابتدائی مسلمان انجیل سے مراد موجودمسیحی صحائف لیتے تھے، اور تاریخ کثرت سے ثابت کرتی ہے کہ یہ صحائف کس قدر قابل بھروسا ہیں۔
      دوسری صدی عیسوی کے آغاز سے اصطلاح “evangel” کو مسیحیوں نے متی، مرقس، لوقا اور یوحنا کے چاروں انجیلی بیانات کے لئے استعمال کرنا شروع کیا۔ عالم ایف۔ ایف۔ بروس اِس کی وضاحت یوں کرتا ہے:
      انتہائی شروع کے وقت سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ چاروں انجیلیں ایک مجموعہ میں اکھٹی موجود تھیں۔ یوحنا کی معرفت لکھی گئی انجیل کے فوراً بعد اُنہیں ایک جگہ اکھٹا کیا گیا۔ اِن چار کتابوں کے مجموعہ کو اصل میں “انجیل” کہا جاتا تھا نہ کہ “انجیلیں”۔اصل میں ایک ہی انجیل تھی جس کو چاروں بیانات میں بیان کیا گیا تھا جس کا اظہار اِن الفاظ سے ہوتا ہے: “متی کی معرفت” ، “مرقس کی معرفت”، “لوقا کی معرفت” اور “یوحنا کی معرفت”۔ تقریباً 115ءمیں انطاکیہ کا بشپ اگنیشئس “انجیل” کو مستند و معتبر تحریر کہتاہے ، اور وہ چاروں انجیلوں سے واقف تھاتو یہ کہا جا سکتا ہے کہ “انجیل” سے صاف کھلے لفظوں میں اُس کی مراد چاروں کتابوں کا ایک مجموعہ تھا جسے اُس وقت اِس نام سے پکارا جاتا تھا۔
      سو، نبی اسلام کے زمانے میں رہنے والے ایک فرد کے لئے “انجیل” کا مطلب چاروں انجیلی بیانات (متی، مرقس، لوقا اور یوحنا) یا عمومی طور پر مسیحی صحائف تھے۔ پطرس رسول لکھتے ہیں:
      “کیونکہ جب ہم نے تمہیں اپنے خداوند یسوع مسیح کی قدرت اور آمد سے واقف کیا تھا تو دغا بازی کی گھڑی ہوئی کہانیوں کی پیروی نہیں کی تھی بلکہ خود اُس کی عظمت کو دیکھا تھا۔… اور پہلے یہ جان لو کہ کتاب مقدس کی کسی نبوت کی بات کی تاویل کسی کے ذاتی اختیار پر موقوف نہیں۔ کیونکہ نبوت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ آدمی روح القدس کی تحریک کے سبب سے خدا کی طرف سے بولتے تھے۔” (2-پطرس 1: 16 ، 20-21)
      نئے عہدنامہ میں یہ بھی لکھا ہے:
      “ہر ایک صحیفہ جو خدا کے الہام سے ہے تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کے لئے فائدہ مند بھی ہے۔ تا کہ مردِ خدا کامل بنے اور ہر ایک نیک کام کے لئے بالکل تیار ہو جائے۔” (2-تیمتھیس 3: 16-17)
      “پس جو نہیں مانتا وہ آدمی کو نہیں بلکہ خدا کو نہیں مانتا جو تم کو اپنا پاک رُوح دیتا ہے۔” (1-تھسلنیکیوں4: 8)
      1.

    کیا کتا ب مقدس کے مُستند ہونے کے کافی ثبوت موجود ہیں؟

    کیا کتاب مقدس کے مُستند ہونے کے کافی ثبوت موجود ہیں؟

    1۔ مسوّدوں کا ریکارڈ

    لاطینی یا یونانی قدیم ترین ادب میں سے کسی سے بھی کہیں زیادہ کتاب مقدس کے مُستند ہونے کے شاندار اور قلمی نسخوں کے ثبوت موجود ہیں۔ انتہائی قدیم اور شروع کے قلمی نسخے موجود ہیں۔اوسطاً کسی بھی ادبی مصنف کے کام کے قلمی نسخوں کی نسبت انجیل شریف(نئے عہد نامے) کے ایک ہزار سے زیادہ قلمی نسخے موجود ہیں۔دوسرے الفاظ میں،اگر ہم انجیل شریف(نئے عہد نامے)کے مُستند ہونے سے انکار کرتے ہیں تو پھر ہمیں کہیں زیادہ مضبوطی سے قدیم تہذیب کے تاریخی ریکارڈ کا انکار کرنا چاہئے۔آج بھی یونانی میں لکھے گئے نئے عہد نامے کے پانچ ہزار سات سو قلمی نسخے موجود ہیں۔

    اب تک موجود ادبی تصانیف کا موازنہ

    تصنیف ابتدائی قلمی نسخوں کے درمیان کا وقت موجودقلمی نسخوں کی تعداد
    افلاطون 1300 سال 7
    ہومر کا ایلیڈ 400 سال 643
    قیصر کی گیلک جنگیں 1000 سال 10
    لیوی کی روم کی سوانح عمر ی 400 سال 27
    ٹیکٹس انالز 1000 سال 20
    تھوسی ڈائڈز کی تاریخ 1300 سال 8
    ہیرودوتس کی تاریخ 1350 سال 8
    انجیل شریف 50 سال 5700

    5700 کا اشارہ صرف یونانی زبان میں لکھے گئے اصلی مسودوں کی طرف ہے جب کہ نئے عہد نامے کے سُریانی،قبطی،لاطینی،آرمینی،
    جارجین اور گوتھک زبانوں میں 20,000سے لے کر 25,000ابتدائی تراجم کے قدیم قلمی نسخے موجود ہیں۔حضرت محمد کے زمانے سے سینکڑوں سال پہلے نئے عہد نامے کے تین بنیادی یونانی قلمی نسخے موجود ہیں:

    کوڈیکس الیگزنڈرینس: یہ متن لندن کے برٹش میوزیم میں محفوظ ہے جو پانچویں صدی عیسوی میں ہاتھ سے لکھا گیا تھا اور چند صفحات کے علاوہ تمام کتاب مقدس موجود ہے۔

    Codex Alexandrinus

    Codex Alexandrinus

    کوڈیکس سینا ٹیکس: یہ مسودہ بھی برٹش میوزیم میں نمائش کے لئے رکھا گیا ہے جس کی تاریخ چوتھی صدی عیسوی کے اواخر کی ہے اور جو پوری انجیل شریف (نیا عہد نامہ)پر مشتمل ہے۔

    Codex Sinaiticus

    Codex Sinaiticus

    کوڈیکس ویٹیکینس: یہ جلدروم میں ویٹکین لائبریری میں محفوظ ہے جو چوتھی صدی عیسوی میں ہاتھ سے لکھا گیا۔

    Codex Vaticanus

    Codex Vaticanus

    یہ دو مختلف اقسام کے متن سے مل کر بنے ہیں (اِس کا مطلب ہے کہ جلدوں کے مختلف خاندانوں سے جن کا حقیقی ماخذ ایک ہی ہے)پھر بھی مجموعی طور پر وہ ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں۔

    اِن مکمل جلدوں کے علاوہ انجیل شریف کے بہت سے حصے ہیں جو انجیل شریف کی کتب کے لکھے جانے کے 60-40سالوں بعد منظر عام پر آئے۔مثلاًپیائرس صفحہ نمبر 52تقریباً 135عیسوی کا لکھا ہوا مقدس یوحنا رسول کی انجیل کے 18ویں باب کا ایک ٹکڑا ہے۔یہ قلمی نسخہ دریائے نیل کے ساحلی کنارے سے دریافت ہوا جو یہ ثبوت فراہم کرتا ہے کہ مقدس یوحنا کی انجیل افسس کے مقام سے جہاں یہ مرتب ہوئی بہت دوردراز کے علاقے میں پائی جاتی تھی۔جہاں ایک اوسط ادبی مصنف کا پہلے پانچ سو سالوں کا کوئی قلمی نسخہ موجود نہیں ہے وہاں نئے عہد نامے کی تکمیل کے پہلے 100سال سے 10سے15 نسخے اور ابتدائی تین سو سالوں کے 99قلمی نسخے موجود ہیں۔3

    2.کاتب

    جعلی اناجیل

    ”ایسی بہت سے ابتدائی اناجیل اور خطوط تھے جو نئے عہد نامے میں شامل نہیں کئے گئے کیونکہ وہ حضرت عیسیٰ المسیح کے متعلق ایک مختلف کہانی بیان کرتے تھے جیسے کہ تھامس کی انجیل،ایبیونائٹ کی انجیل،عبرانیوں کی انجیل اورمصریوں کی کاپٹک انجیل۔

    چند ایسی اناجیل بھی ہیں جو متی،مرقس،لوقا او ریوحنا کے بعد مرتب ہوئیں مگر ابتدائی مسیحی جماعت نے اُنہیں رد کر دیا۔ابتدائی کلیسیا نے یہ
    جعلی اناجیل رد کردیں،بالکل اُنہی وجوہات کی بنِا پر جن پر آج کوئی بھی مسلمان کرے گا:

    یہ اناجیل تقریباً اُس مذہبی تحریک نے لکھی تھیں جنہیں غناسطیت کہا جاتا تھااور جس کی مخالفت ابتدائی رسولوں نے بھی کی تھی۔غناسطیت
    مسیحیت سے پہلے بھی موجود تھی اور بے شک یہ ایک الگ تحریک تھی اگر چہ اُنہوں نے حضرت عیسیٰ کو غناسطیت کے ایک اُستاد کے طور پر
    دوبارہ اختراع دینے کی کوشش کی۔بنیادی طور پر غناسطیت کی یہ تعلیم ہے کہ خدا نے دنیا کو خلق نہیں کیا مگر ایک نامکمل بدی نے دنیا کو خلق کیا ہے۔وہ ثنویت تعلیم رکھتے تھے،مطلب ہے کہ وہ یہ یقین رکھتے تھے کہ ساری طبعی دنیا بدی ہے۔وہ یہ تعلیم دیتے تھے کہ حضرت عیسیٰ کا کوئی جسمانی رُوپ نہیں تھا جس کی وجہ سے اُن میں سے چند نے یہ فیصلہ کیا کہ پھر حضرت عیسیٰ کی طبعی موت بھی نہیں ہو سکتی تھی۔وہ عبادت گزار تھے اور اکثر سبزیاں کھایا کرتے تھے اورکچھ جنسی طریقے سے عبادت کیا کرتے تھے۔پولُس رسول کے اعمال،تھامس کی انجیل اور مصریوں کی انجیل جیسے کتابوں کی یہ تعلیم تھی کہ شادی کے باوجود جنسی تعلقات ایک غلط بات تھی۔وہ اِس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ نجات ایمان یا راست بازی سے حاصل نہیں ہو سکتی بلکہ ایک خاص خفیہ علم کے ذریعے حاصل ہو سکتی تھی جیسے کہ آج کل چند ہندو گروہوں میں بھی یہی تعلیم پائی جاتی ہے۔رسولوں کے خلاف اپنے خیالات کی حمایت کے لئے،وہ حضرت عیسیٰ کی بہت سے واقعات کو دوبارہ گھڑ لیتے تھے۔مثلا ً یہوداہ کی انجیل یہ تعلیم دیتی ہے کہ حضرت عیسیٰ نے یہوداہ سے کہا کہ وہ اُسے دھوکا دے کر صلیب دلوائے جس سے اُس کی روح اِس انسانی جسم کی قید سے رہائی پا سکتی تھی۔یہ خیالات تھامس کی انجیل،مریم کی انجیل،یہوداہ کی انجیل اورمصریوں کی کاپٹک انجیل میں بھی سرایت کر گئے ہیں۔

    ماسوائے عبرانیوں کی انجیل کے کیونکہ اُس میں غناسطی تعلیم موجود نہ تھی۔علما یقین رکھتے ہیں کہ یہ متی کی انجیل کی بعد کی تزئین و آرائش ہے
    جو بڑے محتاط انداز میں وضاحتیں دیتی ہے جیسے کہ دعائے ربانی میں ”روز کی روٹی“ کی جگہ ”کل کی روٹی“ کو بدل دینا۔تزئین و آرائش عموماً
    اِس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ متن اصلی نہیں ہے کیونکہ یہ ویسا نہیں ہے جیسے کہ بعد کا ترجمہ متن کو زیادہ غیر واضح بنا دے گا۔چوتھی صدی کا
    کتاب مقدس کے عالم جیروم نے اِس متن میں بہت دلچسپی لی جسے وہ محض متی کی انجیل کا عبرانی ترجمہ سمجھتا تھا۔وہ لکھتا ہے:

    ”وہ انجیل جو ناضرین اور ا یبیونائٹس استعمال کرتے ہیں جسے ہم نے حال ہی میں عبرانی سے یونانی میں ترجمہ کیا ہے اور جسے زیادہ تر لوگ
    مُستند متی کی انجیل سمجھتے ہیں …“

    جیروم کے مطابق اِس میں متی کی انجیل سے متن میں صرف چند معمولی اختلافات تھے۔اِس متن میں سے چند اختلافات میں سے ایک بدعتی ہے،کیونکہ یہ روح القدس کو حضر ت عیسیٰ کی ماں سمجھتا ہے(خدا معاف کرے!)۔جیروم…

    برنباس کی انجیل کے بارے میں کیا خیال ہے؟

    برنباس کی انجیل کے بارے میں کیا خیال ہے؟

    اناجیل کے چند نقاد یہ الزام لگاتے ہیں کہ ”برنباس کی انجیل“ کا مسودہ حضرت عیسیٰ کی اصلی انجیل ہے اور وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مسیحیوں نے جان بوجھ کر اُسے چھپایا جب تک یہ 18 ویں صدی میں خود سے اچانک سامنے نہیں آ گئی۔ متی،مرقس،لوقا او ریوحنا کی اناجیل کے سینکڑوں ابتدائی نسخے موجود ہیں، لیکن حضرت عیسیٰ کے ایک ہزار پانچ سو سال بعد تک برنباس کی انجیل کے نسخے کی کوئی نقول موجود نہیں ہیں۔نیچے ہم دیکھیں گے کہ یہ مسودہ جنوبی یورپ میں 1500 اور 1590 کے درمیانی عرصے میں مرتب ہوا۔
    بد قسمتی سے جعلساز کی کتاب مقدس،قرآن اور قدیم فلستین کی غیر واضح سمجھ اِس بات کو عیاں کرتی ہے کہ وہ فلستین سے ناوا قف اور قرون لکھنے کی تاریخ وسطیٰ کی ہے۔

    سولہویں صدی کے آغاز کے ثبوت

    ”برنباس کی انجیل“میں سولہویں صدی کی تصنیف کی چند ناقابل ِ انکار نشانیاں شامل ہیں۔توریت شریف نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ
    ّآرا م کرنے اور قرض اُتارنے کے لئے ہرپچاسواں سال ”یوبلی“ سال کے طور پر منایا کریں،مگر ”برنباس کی انجیل“کا مصنف اِس وقفے
    کے سو سال دیتا ہے۔حضرت عیسیٰ کے زمانے کے کسی بھی یہودی نے ایسی بڑی غلطی نہیں کی ہو گی۔مصنف نے ایک سو کا عدد کہاں سے لیا؟
    تقریباً 1300 عیسوی کے قریب پوپ بونیفس ہشتم نے اِس رہائی کے ”جوبلی“ سال کو دوبارہ متعارف کروایاجس پر صدیوں سے عمل نہیں ہو رہا تھالیکن اِسے کلیسیا کو 100 سال کے بعد منا نے کا حکم دیا۔بعد میں پوپ صاحبان نے اِسے واپس 50 سال پر کردیا اور پھر مزید گھٹا کر 25 سال کر دیا۔بظاہر ”برنباس کی انجیل“کے مصنف نے پوپ بونیفس کے حکم کے متعلق سنا ہو گا اور سمجھا ہو گا کہ یہ حضرت عیسیٰ ؑ نے دیا تھا۔

    اُس نے بغیر سوچے سمجھے قرون ِ وسطیٰ کے مصنف دانتے کے چند اقوال او رخیالات بھی شامل کر دئیے جو نہ تو کتاب مقدس میں اور نہ ہی
    قرآن میں شامل ہیں۔دانتے 13 ویں صدی کا اٹلی کا رہنے والا ایک شخص تھا جس نے جہنم او رجنت کے بارے میں ایک تخیلاتی
    ادب لکھا جسے ”الہٰی مزاح“(The Divine Comedy)کے نام سے جانا جاتا ہے۔دانتے کے بہت سے اقوال نے ”برنباس کی انجیل“میں اپنی جگہ بنالی جیسے کہ یہ ایک جملہ،”dei falsi e lugiadi“(”نقلی اور جھوٹے دیوتا“) (Inferno 1:72, Gospel of Barnabas para 23)جو نہ تو کتاب مقدس میں اور نہ ہی قرآن میں موجود ہے۔

    ”برنباس کی انجیل“مے کو لکڑی کے مٹکوں میں ذخیرہ کرنے کے بارے میں لکھتی ہے (پیرا 152)،یہ دستور قرون ِوسطیٰ میں عام تھا لیکن
    فلستین میں پہلی صدی میں نامعلوم تھا جہاں مے کو مشکوں میں ذخیرہ کرتے تھے۔مزید یہ کہ مصنف یسوع کو یہ فرماتے ہوئے لکھتا ہے کہ
    گرمیوں کے موسم میں دنیا کتنی خوبصورت لگتی ہے جب فصل اور پھل وافر مقدار میں ہوتے ہیں (پیرا 169)۔یہ اٹلی میں موسم گرما کا ایک
    اچھا تذکرہ ہے،لیکن فلستین کا نہیں جہاں اِس وقت بارش ہوتی ہے اور فصلیں موسم سرما میں اُگتی ہیں لیکن کھیت گرمیوں کے دنوں میں پکتے ہیں۔

    مصنف فلستین کے جغرافیہ سے بھی ناواقف تھا کیونکہ وہ ناصرت کو گلیل کی جھیل پر ایک ساحلی شہر قرار دیتا ہے(پیرا 21,20) جبکہ ناصرت کا شہر سطح سمندر سے 1300 فٹ بلند ہے اورسمندر سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ 99 باب میں صور کو دریائے یردن کے قریب بیان کیا گیا ہے جب کہ حقیقت میں یہ موجود ہ لبنان سے کوئی 50 کلومیٹر دُور ہے۔”برنباس کی انجیل“حضرت عیسیٰ مسیح کو
    ہیکل کے کُنگرے سے تعلیم دیتے ہوئے بیان کرتی ہے۔اگر اُس نے ہیکل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوتا تو وہ یہ جان گیا ہوتا کہ وہ کُنگرہ 150 فٹ بلند تھا جہاں سے منادی کرنا ناممکن ہے۔مصنف حضرت عیسیٰ مسیح کی الوہیت کے مسئلے پرتین فوجوں کی بھیڑ بھی بیان کرتا ہے اورہر ایک میں 200,000 آدمی جنگ میں شریک تھے۔ یٹینیکا کے انسائیکلوپیڈیا کے مطابق اُس وقت رومیوں کی باقاعدہ فوج کی تعداد
    کوئی 300,000 تھی جب کہ اِس کی نصف پیچھے محفوظ تھی۔70عیسوی میں رومیوں کے ہاتھوں یروشلیم کی تباہی تک یہودیہ میں صرف ایک چھوٹی سی چھاؤنی موجود تھی۔1

    بہت سی نشاند ہیوں میں سے یہ صرف ایک مختصر سی فہرست ہے کہ یہ مسودہ قرون ِ وسطی کے بُرے یورپی نے لکھا تھا۔اِس کے مزید ثبوت درج ذیل ویب سائٹ پر موجود ہیں: www.unchangingword.com

    قسطنطین اور 325 کی دینی کتب کی مُسلّمہ فہرست

    ”نئے عہد نامے کی کتب کا تب تک فیصلہ نہیں ہو ا تھا جب تک رومی شہنشاہ قسطنطین نے اپنی تثلیث کی تعلیم کو بچانے کے لئے 325 میں
    کتاب مقدس کی مُسلّمہ فہرست مرتب نہ کر لی۔“

    325 کی نقایہ کی کونسل یہ فیصلہ کرنے کے لئے منعقد نہیں ہوئی تھی کہ کون سی کتابیں الہامی ہیں بلکہ کچھ ایسی باتوں کی تصدیق کرنے کے لئے تھی جو ہر جگہ مسیحیوں نے طویل عرصہ سے پہلے ہی قبول کر لی تھیں۔نقایہ کی کونسل صرف ایشیا،افریقہ اور یورپ کے مسیحیوں کے لئے پہلا موقع تھا کہ وہ اکٹھے ہوں اور ہم آہنگی سے یہ کہیں،”یہ وہ الہامی کتب ہیں جنہیں ہم نے 150 سالوں سے قبول کیا ہوا ہے۔“پروپیگنڈہ کرنے والوں نے جیسے کہ جمال بیضا وی نے سینکڑوں اناجیل کے چناؤ کے بارے میں احمقانہ کہانیاں گھڑ لیں،ایسی کہانیاں جن کا کوئی ثبوت نہیں تھا اور جن کا بالکل کوئی حوالہ نہیں تھا۔کانفرنس میں موجود تمام بشپ صاحبان نے صرف چار اناجیل (متی،مرقس،لوقا اور یوحنا)کو ہی قبول کیا اور اُ س کے کافی عرصہ پہلے مُسلّمہ فہرست مرتب ہوئی تھی۔نئے عہد نامے سے پورے 125 سال پہلے ایک مسودہ جسے
    ”میوریتو رین کینن“(Muratorian Canon)کہا جاتا ہے اُس میں الہامی کتب کی مسلمہ فہرست ایک ثبوت کے طور پر موجود ہے۔
    اِس کے علاوہ 180 عیسوی میں بھی ارینیس نے چاروں اناجیل (متی،مرقس،لوقا اور یوحنا)کے بارے میں لکھا ہے:

    یہ ممکن نہیں ہے کہ اناجیل تعداد میں جتنی ہیں اُس سے کم یا زیادہ ہو سکتی ہیں۔چونکہ جس دنیا میں ہم رہتے ہیں اُس کے چار حصے ہیں اور چار
    اہم ہوائیں ہیں،اورجب کہ کلیسیا پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے،اورکلیسیا کے ”ستون او رزمین“ انجیل اور زندگی کا روح ہیں،یہ مناسب بات ہے کہ زمین کے چار ستون ہونے چاہیئں،بداخلاقی ہر سمت سے باہر نکل جائے اور انسانوں میں نئی جان ڈال دے … کیونکہ زندہ جاندار چار رُخوں والے ہیں اور انجیل چار رُخوں والی ہے کیونکہ یہ انداز خداوند نے بھی اپنایا تھا۔ 1

    ارینیس کو پولی کارپ نے تربیت دی تھی جسے خود یوحنا نے تربیت دی تھی اِ س طرح ارینیس حضرت عیسیٰ کے پیارے شاگرد او ریوحنا کی انجیل کے مصنف کا ”روحانی بیٹا“ تھا۔

    درحقیقت مسلمہ فہرست کی تصدیق کرنا کونسل کا ایک معمولی سا کام تھا جب اُن کو زیادہ فکرآریوسی کا مباحثہ تھا جوآریوس کے اِس غیر معمولی خیال کے گرد گھومتا تھا کہ حضرت عیسیٰ کون تھے۔بنیادی طور پر جھگڑا اِس بات پر تھا کہ ”خدا کا بیٹا“ کی تشریح استعاراتی طور پر کی جائے یا لفظی (جیسے کہ آریوس نے کیا)۔آریوس نے اپنی دلیل کی بنیاد یہ کہتے ہوئے مقدس یوحنا رسول کی انجیل 16:3 پر رکھی کہ چونکہ یہ آیت حضرت عیسیٰ کو ”خدا کا اکلوتابیٹا“ کہتی ہے اِس لئے وہ حقیقت میں کہیں تخلیق سے پہلے خدا باپ سے ایک بچے کی طرح ”پیدا ہوا“(نعوذ باللہ)۔آریوس نے سب سے پہلے یہ مباحثہ تب شروع کیا جب اُس نے مندرجہ ذیل نتیجہ اَخذ کیا جسے قسطنطینہ کے مؤرخ سقراط نے درج کیا:

    ”اگر ایک باپ اپنے بیٹے کو جنتا ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ اُس متولّد کی موجودگی کا کوئی آغاز بھی تھا۔“

    یا پھر آریوس اپنی نظم تھیلیا میں حضرت عیسیٰ کے متعلق بیان کرتا ہے:

    اُس (خدا)نے اُسے (حضرت عیسیٰ)اپنے لئے بیٹے کے طور پر جنم دے کر پیدا کیا۔

    یہ کافرانہ خیال 99 فیصد بشپ صاحبان نے رد کر دیا۔چونکہ یہ تعلیم واضح طور پر صحائف کی تعلیم کے برعکس تھی اورنفرت انگیز ہے۔باپ بیٹے کے رشتے کو لفظی معنوں میں نہیں لینا چاہئے۔یہ فرماں برداری اور حضرت عیسیٰ کے خدا کے ماتحت ہونے کا ایک مجازی اِستعارہ ہے۔
    یوحنا 16:3 میں موجود ”اکلوتے“(مونو گینی) کی اصطلاح کا مطلب واحد (انوکھا،منفرد)بھی ہو سکتا ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ کا بطور ”خدا کا کلام“دوسروں لوگوں سے ہٹ کر خدا کے ساتھ ایک مختلف خاص رشتہ ہے۔

    اِس بحث میں آریوس اور اُس کے مخالفین دونوں نے ایک جیسے صحائف کو ایک جیسے بنیادی پیغام کو قبول کیا کہ یسوع زمانے سے پہلے وجود رکھتا ہے،جسے اللہ تعالیٰ نے انسان او رخدا کے درمیان ایک منفرد درمیانی بنا کر بھیجا تاکہ صلیب پر اپنی موت کے وسیلے سے لوگوں کو اُن گناہوں سے بچائے۔

    بالآخر آریوس نے اپنے مخالفین کے اعتراضات کے جواب میں یسوع مسیح کے بارے میں اپنے خیالات تبدیل کر لئے۔

    مسلمان مبلغین قسطنطین کو ایک جابر راہنما کے طور پر پیش کرنا پسند کرتے ہیں جس نے بشپ صاحبان کو آریوس کے بارے میں اپنی مرضی تبدیل کرنے پر دباؤ ڈالا۔دراصل جب آریوس نے اپنے مخالفین کو مطمئن کرنے کے لئے اپنے خیالات پر نظر ثانی کی
    تو قسطنطین نے بشپ اتھنیسیسAthanasiusکو آریوس کو کلیسیا میں دوبارہ شامل کرنے کی ہدایت کی۔اتھنیسیس نے انکار کر دیا
    او راِس لئے قسطنطین نے اُسے Trierجلاوطن کر دیا۔پھر قسطنطین نے بشپ الیگزنڈر کو ہدایت کی کہ وہ آریوس کو اُس کے اعتراضات کے باوجود کلیسیا میں دوبارہ شامل کرے لیکن اِس سے پہلے کہ آریوس کلیسیا میں شامل کیا جاتا اُس کی اچانک موت واقع ہو گئی۔اِس تمام کارروائی سے پتا چلتا ہے کہ قسطنطین بشپ صاحبان کی نسبت آریوس کے حق میں زیادہ تھا۔

    1. Irenaeus, Against Heresies 3.11

    مسیحی علما اور کتاب مقدس کا معتبر ہونا

    ”حتیٰ کہ مسیحی علما بھی کہتے ہیں کہ کتاب مقدس معتبر نہیں ہے“

    توریت شریف اور انجیل شریف کے بارے میں اپنے کم تر نظریے کا دفاع کرنے کے لئے حضرت عیسیٰ کی ”Abysmal failure theory“یورپین سکالرز آف ہائر کرٹیسزم کا حوالہ دینا پسند کرتی ہے۔پچھلی صدی کے اِن مادہ پرست مکتبہ فکر نے یہ رائے قائم کی کہ
    کتاب مقدس غلط او ردیومالائی ہے کیونکہ یہ معجزات کی کہانیوں پر مشتمل ہے۔حتیٰ کہ اِن علما میں سے بہت سے مسیحی ہونے کا لیبل لگائے ہوئے تھے مگر پھر بھی اُن کا دنیا کے بارے میں نظریہ مادہ پرستی کی بنیادی روشن خیالی تھا۔

    وہ یہ قیاس کرتے تھے کہ کائنات ایک بند
    مشین ہے اِس لئے معجزات ناممکن تھے،نبوتی پیشین گوئیاں ناممکن تھیں اور اِس لئے کتاب مقدس کو خیالی کتاب ہونا چاہئے۔اِس قسم کے علما میں سے ایک نے اپنے تعصب کو کھلم کھلا تسلیم کیا: 1

    ایک تاریخی حقیقت جس میں مُردوں میں سے جی اُٹھنا شامل ہے،یہ بالکل ناقابل ِ یقین ہے۔
    تمام سچے مسلمان او رمسیحی اِس مقدمے سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مُردوں میں سے زندہ کرنے اور کنواری سے جنم دلانے کے معجزات کئے ہیں۔ 2 اِس نے لچک بنیادی قیاس کی بنیاد پر اُنہوں نے کتاب مقدس کے دَور کا دوبارہ تعین کیا اورمسوداتی مفروضے اور بیئت پر تنقید کے ساتھ اِس کی تاریخ کی دوبارہ تشریح کی۔اُن کے بہت سے نتائج نے تعلیمی حلقوں میں مقبولیت کھو دی۔اِس لئے یہ ایک المیہ ہے کہ نائیک او ردیدات کتاب مقدس پر اُن کی تاریخوں اور نظر ثانی کی گئی تاریخ کا استعمال کر سکتے ہیں (جو مکمل طور پر معجزات اور نبوتوں کی ممانعت پر مبنی ہیں)اور وہ اُسی تشریحی طریقہ کار کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں جو قرآن پر لاگو ہوتا ہے۔
    چلئے!…

    قرآن مجید او رکتاب مقدس کی تاریخ مقرر کرنا

    ”مسیحی صحائف حضرت عیسیٰ کے ایک صدی بعد مرتب ہوئے،جب قرآن کے حوالے سے ایسا نہیں ہے وہ حضر ت محمدؐ کی زندگی میں لکھا گیا۔“

    دراصل قرآن مجید اور کتاب مقدس کی ترسیل کسی حد تک ملتی جلتی تاریخ ہے جیسا کہ ہم دیکھیں گے۔جیسے کہ بہت سے لوگ اِس بات پر یقین رکھتے ہیں،اِن میں سے کوئی بھی کتاب کی شکل میں براہ ِراست آسمان سے نازل نہیں کی گئی،بلکہ دونوں صحائف کی زبانی مرحلے سے لے کر آج تک کے اصلی نسخوں کے مرحلے تک مرحلہ وار ترقی کرنے کی تاریخ موجود ہے جو جزوی نسخوں کے ثبوت سے لے کر موجود مکمل تحریری مجموعوں پر مشتمل ہے جو دیئے جانے کے سو سال بعد سے تعلق رکھتے ہیں۔

    1.

    انجیل شریف اور قرآن کے نسخوں میں اختلافات

    ”کتاب مقدس کے ابتدائی نسخوں میں اختلافات ہیں،جبکہ قرآن کے تمام ابتدائی نسخے مماثل ہیں۔“

    یہ ایک آسان نظریہ ہے لیکن یہ سب خیالی ہے اورجیسے کہ ہم درج ذیل باتوں میں دیکھیں گے یہ تاریخی اور متنی اندراج کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا۔

    توریت شریف،زبور شریف،انجیل شریف
    اور قرآن میں نقل نویسی کی معمولی اغلاط اور اختلافات

    ہم سب اِس بات سے متفق ہیں کہ خدا کا کلام تبدیل نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ کتاب مقدس او رقرآن دونوں کی واضح گواہی ہے۔لیکن جب ہم کسی نسخے میں اختلاف دیکھتے ہیں تو کیا یہ بات اُس صحیفہ کو ردّ کرتی ہے؟یقینا نہیں،کیونکہ قرآن اور کتاب مقدس دونوں میں ایسی سینکڑوں نقل نویسی کی اغلاط موجود ہیں۔ پچھلے ہی ماہ میں اپنے اسلامی فاؤنڈیشن بنگالی قرآن میں یہ پڑھ کر حیران رہ تھا کہ ”ایمان دار او رراست باز اپنے لئے ”جہنم“ کمائیں گے“(”دوزخ“جو جنت،آسمان کی جگہ چھپ گیا)!…

    کیا یعقوب او رپولُس ایک دوسرے سے تضاد رکھتے ہیں؟

    کیا ایمان او راعمال کے بارے میں یعقوب اور پولُس ایک دوسرے کے ساتھ تضاد نہیں رکھتے؟“

    بہت سے نقادیہ ظاہر کرنے کے لئے پولُس اور یعقوب کی تحریروں میں سے مخصوص آیات کا انتخاب کرنا پسند کرتے ہیں کہ یہ ابتدائی مسیحی قائدین آپس میں اختلاف رکھتے تھے۔تاہم،اگر آپ پورے نئے عہد نامے سے واقف ہیں تو یہ دلیل ردّ ہوجاتی ہے۔یعقوب اور پولُس
    ایک سی انجیل پر ایمان رکھتے تھے اور اُسی کا اُنہوں نے پرچار کیا،اُنہوں نے محض اُن لوگوں کی ضرورت کے مطابق مختلف حصوں پر زوردیا جنہیں وہ لکھ رہے تھے۔ یہ وہ باتیں ہیں جن پر وہ دونوں ایمان رکھتے تھے:
    شریعت اچھی ہے مگر اِس سے ہم نجات حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ لوگ کُلّی طور پر اِس کی فرماں برداری نہیں کر سکتے۔تاہم،خدا نے نجات کے اپنے ذریعے کو ظاہر کیا جو یسوع کے وسیلے کفارے اور صلح صفائی ہے۔ ہمیں ایمان اور توبہ کے ذریعے اور ایک شاگرد بننے سے خُدا کی طرف سے نجات کی بخشش کو قبول کرنا ہے۔ بھلائی کے کام حقیقی ایمان کی ایک ضروری علامت یا نشان ہیں۔اگر کسی شخص کا ایمان بھلائی کے کام پیدا نہیں کرتا تو اِس کا مطلب یہ ہے
    کہ وہ ایک حقیقی ایمان نہیں تھا(اور اُسے نہیں بچائے گا)۔اِس لئے ایمان او رکام دونوں ضروری ہیں مگر ایمان بنیادی چیز ہے۔چونکہ نجات
    حضرت عیسیٰ مسیح کی ہماری خاطر کفارے سے ملتی ہے،اِس لئے نجات کو شریعت کے ذریعے سے حاصل کرنے کی کوشش کرنا بنیادی طور پر حضرت عیسیٰ مسیح کی مفت بخشش کا اِنکار کرناہے۔

    پولُس اور یعقوب دونوں کی تحریریں اِس بات سے مطابقت رکھتی ہیں۔جس طرح نقاد الزام لگاتے ہیں کیا واقعی پولُس شریعت سے نفرت کرتا ہے؟آئیے!…