یہوداہ -اُس کی موت کیسے واقع ہوئی اور کھیت کس نے خرید ا؟

اعمال 18:1-19 – ”یہوداہ -اُس کی موت کیسے واقع ہوئی اور کھیت کس نے خرید ا؟“

جب ہم متی 3:27-8 کا موازنہ اعمال 18:1-19 سے کرتے ہیں تو دو پریشان کرنے والے سوالات ہیں جو یہوداہ کی موت سے متعلق ہیں:

یہوداہ کی موت کیسے واقع ہوئی؟

متی کہتا ہے کہ یہوداہ نے ”جا کر اپنے آپ کو پھانسی دی“جبکہ اعما ل کی کتاب کہتی ہے،”کہ وہ سر کے بل گرا او راُس کا پیٹ پھٹ گیا
اور اُس کی سب انتڑیاں نکل پڑیں۔“اِس کی روایتی تشریح یہ ہے کہ یہوداہ نے اپنے آپ کو درخت کی اُونچی شاخ سے لٹکا لیا،اور نتیجتاًشاخ ٹوٹ گئی اور وہ سر کے بل گرا او راُس کا پیٹ پھٹ گیا۔واقعی اعمال کی کسی اور طرح تشریح کرنا مشکل ہو گا،کیونکہ پیٹ تب تک نہیں پھٹ سکتا جب تک وہ اچھی خاصی اُونچائی سے پہاڑی خطے(جو یروشلیم کے اِرد گرد کا خطہ تھا) میں نہ گرے۔ہم یہ قیاس کر سکتے ہیں کہ جسم کچھ وقت
تک لٹکا،کیوں یہوداہ نے سبت سے تھوڑی دیر پہلے اپنے آپ کو پھانسی دی اور سبت سے پہلے لاش کو ہاتھ لگانا منع تھا۔

دیگر مبصّرین نے ذِکر کیا ہے کہ ”اپنے آپ کو پھانسی دی“کے لئے یونانی اصطلاح (اپینگخومائے) کا مطلب جذبات سے بھر جانا یا غم سے نڈھال ہو جانا بھی ہو سکتا ہے،جیسے کہ انگریزی زبان کا جزوِ جملہ ہے، ”All choked up (سب بھر گئے)۔“

چاندی کے سکوں سے کھیت کس نے خریدا؟

ہم درج ذیل طریقے سے دونوں واقعات کو اکٹھا کر سکتے ہیں:یہوداہ نے ہیکل میں کاہنوں کو چاندی (خون کا کھیت) واپس کرنے کی کوشش کی لیکن اُنہوں نے لینے سے انکا رکر دیا،اِس لئے اُ س نے اُسے اُدھر ہی چھوڑا اور چلا گیا اور شہر کے باہر زمین کے ایک خالی خطے میں جا کر اپنے آپ کو پھانسی دے دی۔اب کاہن تذبذب میں مبتلا ہو ئے،اب اُن کے پاس مُردہ یہوداہ اسکریوتی کی رقم تھی جو وہ ہیکل میں نہیں ڈال سکتے تھے۔چونکہ یہ داغ دار خون کا روپیہ تھا،اِس لئے وہ نہیں جانتے تھے کہ اُس کے ساتھ کیا کریں۔اِس وجہ سے،وہ شخص جس کا یہ خطہ تھا جہاں یہوداہ نے اپنے آپ کو پھانسی دی،وہ اِس حقیقت کی وجہ سے خوفزدہ تھا کہ ایک مجرم شخص کی ایسی خوف ناک موت اُس کی شخصی
جائیداد پر ہوئی ہے،اِس لئے شاید وہ اِس جائیداد سے جان چھڑانا چاہتا تھا۔زمین کے مالک اور کاہنوں نے آپس میں سودا کیا جس سے
دونوں فریقوں کو سکون ملا یعنی ’ناپاک‘ روپے سے پردیسیوں کے لئے قبرستان کے طور پر ’ناپاک‘ زمین خریدی گئی،اِس لئے داغ دار روپے سے ناپاک زمین کے ذریعے چھٹکا را پالیا گیا۔چونکہ زمین یہوداہ کے روپے سے خریدی گئی تھی،اِس لئے کاہنوں نے قدرتی طور پر اِسے اُس کے نام کی لکھ دیا ہو گا جیسے کہ وقف یا ٹرسٹ۔یہی وجہ ہے کہ لوقا اعمال میں لکھتا ہے کہ ”اُس نے بدکاری کی کمائی سے یہ کھیت حاصل کیا،“کیونکہ وہ کھیت اُس کے نام سے حاصل کیاگیا۔ لوقا یہ کہتے ہوئے شروع کر تا ہے کہ یہوداہ نے بالآخر روپے سے ایک کھیت حاصل کیا؛پھر وہ بیان کرتا ہے کہ کس طرح اُس نے یہ زمین حاصل کی -اور پھر دہشت ناک خود کشی سے اُسے گندا کیااورزمین کے مالک کے لئے اُسے نفرت انگیز بنا دیا۔

  1. یہاں استعمال کی گئی اصطلاح (کٹاما) ترجمہ ”خریدا“ یا ” حاصل کیا گیا“ بھی کیا جا سکتا ہے۔

کیا حضرت یحییٰ بپتسمہ سے پہلے حضرت عیسیٰ کو جانتے تھے؟

متی 13:3-14 – ”کیاحضرت یحییٰ حضر ت عیسیٰ کے بپتسمہ سے پہلے اُنہیں جانتے تھے یا نہیں (یوحنا 33:1)؟“

جناب مسیح کے بپتسمہ تک،حضرت یحییٰ، مسیح کو ایک دُور کے رشتہ دار کے طور پر جانتے تھے جو ایک اَور شہر میں پلے بڑھے تھے۔
اُن کے دل میں اِس بات کے چند شکوک ہو سکتے تھے کہ آیا حضرت عیسیٰ مسیحا ہیں یا نہیں لیکن جب رُوح القدس کبوتر کی مانند اُن پر اُترا تو یہ واضح تصدیق تھی کہ اس سے حضرت یحییٰ کو یقین ہو گیا کہ واقعی حضر ت عیسیٰ ہی خُدا تعالیٰ کے موعودہ مسیحا ہیں۔

یردن یا گلیل؟

متی 18:4-22 – ”کیا حضرت عیسیٰ پطرس اور اندریاس کوپہلے گلیل کی جھیل کے کنارے ملے یا دریائے یردن کے کنارے (یوحنا42:1-43)؟“

کوئی بھی حوالہ یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ یہ پہلا موقع تھا کہ حضرت عیسیٰ شمعون او راندریاس سے ملے،مگر ہم یہ نتیجہ اَخذ کر سکتے ہیں کہ یوحنا
اُن کی پہلی ملاقات حضرت یحییٰ کے علاقے میں لکھتے ہیں اور متی دوسری ملاقات واپس گلیل میں بیت صیدا میں گھر پر بیان کرتا ہے۔ ورنہ شمعون او راندریاس کے لئے یہ واقعی حیرت کی بات ہوتی کہ ایک مکمل اجنبی شخص کے محض یہ کہنے پر کہ ”میرے پیچھے ہو لے“ اُس کی پیروی کرتے، جب تک کہ اُن کا اُس کے ساتھ ماضی میں کوئی تجربہ نہ ہوا ہوتا۔حضرت عیسیٰ پہلے ہی اُن پر اپنے معصوم کردار،معجزات اور تعلیم کو یردن میں ثابت کر چکے تھے۔یہی وجہ ہے کہ وہ بغیر کوئی سوال کئے گلیل میں اُن کے پیچھے ہو لئے۔

کیا یائیر کی بیٹی مُردہ تھی یا تقریبا ً مُردہ تھی؟

متی 18:9 -”کیا یائیر نے حضرت عیسیٰ مسیح کو بتا یا تھا کہ اُس کی بیٹی ’ابھی مری ہے‘یا وہ’مرنے کو تھی‘(مرقس23:5)؟“

دونوں بیانات یائیر نے کہے ہوں گے؛متی ایک بیان شامل کرتا ہے اور مرقس دوسرا۔ایسا ہو سکتا ہے کہ جیسے یائیر حضرت عیسیٰ مسیح کو بتا رہا تھا کہ اُس کی بیٹی موت کے دہانے پر ہے یہ اُسے ایک پیامبر نے یہ خبر دی کہ وہ مر چکی ہے۔یا پھر شاید وہ شروع میں حضرت عیسیٰ مسیح کے سامنے یہ تسلیم کرنے میں خوفزدہ(خوفزدہ اِ س وجہ سے کہ شاید یہ معاملہ حضرت عیسیٰ مسیح کے لئے کہیں زیادہ مشکل ہو) تھا کہ درحقیقت وہ مر چکی تھی،لیکن جیسے ہی اُس نے بتانا شروع کیا،اُس نے یہ تسلیم کیا کہ وہ مر چکی ہے۔اناجیل کے مصنفین اِس مکمل واقعہ کی ہر ایک تفصیل اور کہے ہوئے لفظ کو لکھنے کا دعویٰ نہیں کرتے بلکہ وہی بیان کیا ہے جو واقعے کے لئے خاص تھا۔

لاٹھی یا کچھ بھی نہیں؟

متی 9:10 -”کیا حضرت عیسیٰ مسیح نے اپنے شاگردوں کو اپنے سفر میں لاٹھی لینے کو منع کیا یا اجازت دی؟“

شاگردوں سے کہا گیا کہ وہ سفر کے لئے سامان لینے یا نئی لاٹھی خریدنے میں وقت ضائع نہ کریں لیکن اگر اُن کے پاس پہلے سے لاٹھی تھی تو اُنہیں اُسے اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت تھی۔ہمیں یہ فرض کرنا چاہئے کہ سفر کے لئے اضافی سامان نہ خریدنے کی غرض سے لوقا کا مطلب بھی وہی ہے جو متی کا ہے۔ضروری طور پر حضرت عیسیٰ مسیح فرما رہے تھے،جیسے تم ہو ویسے ہی جاؤاور سفر کے لئے کوئی سامان نہ خریدو،
خُدا تعالیٰ تمہیں خود عطا کر دیں گے۔اناجیل ہمیں واضح طور پر یہ بتاتی ہیں کہ حضرت عیسیٰ مسیح کے احکام دقیانوسی معنویت پر مرکوز نہیں تھے بلکہ فہم اور فرماں برداری کی سمجھ پر مرکوز تھے۔

اناجیل کے مُستند ہونے پر سوال اُٹھانے کے لئے ایک معمولی بات سامنے لائی گئی ہے، جو نقادوں کی مایوسی کی باتوں کو ظاہر کرتی ہے۔یہ حقیقت کہ صدیوں سے مسیحی نقل نویسوں نے اِس اقتباس کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی او ریہ اصلی متن کے معتبر ہونے کا ایک ثبوت ہے جسے جان بوجھ کر بگاڑا یا مسخ نہیں کیا گیا۔

حضرت یحیٰی علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ مسیح

متی 2:11 – ”کیاحضرت یحیٰی نے حضرت عیسیٰ مسیح کو بطور مسیحا پہلے نہیں پہچانا تھا؟(جیسے کہ یوحنا 32:1-33میں ہے)“

جب حضرت یحیٰی (یوحنا بپتسمہ دینے والا) نے حضرت عیسیٰ مسیح کو بپتسمہ دیا،تو اُنہوں نے یہ واضح تصدیق دیکھی کہ حضرت عیسیٰ مسیح ہی مسیحا تھے۔لیکن حضرت عیسیٰ نے مسیحا کے بارے میں یہودیوں کے روایتی نظریے کو پورا نہیں کیا جو ایک سیاسی قائد کا تھا جو رومی حکومت کو نکال پھینکے گا اور یہودیوں کے لئے سیاسی نجات کا باعث بنے گا۔حضرت یحیٰی جناب مسیح سے ایک سیاسی فوجی انقلاب کی قیادت کرنے کی توقع کر رہے تھے،اِس لئے اُنہوں نے اِس تذبذب کو دُور کرنے کے لئے اپنے شاگردوں کو اُن کے پاس بھیجا۔

اندریاس کے ذریعے یا آسمان کے ذریعے؟

متی 17:16 -”کیا شمعون پطرس کو آسمانی مکاشفے کے ذریعے یا اندریاس کے ذریعے پتا چلا کہ حضرت عیسیٰ مسیح تھے (یوحنا 41:1)؟“

اِس کی بظاہر تشریح یہ ہے کہ شمعون پطرس نے حتیٰ کہ تب بھی تشکیک پرستی کو قائم رکھاجب اندریاس نے اُس پر یہ ظاہر کیا حضرت عیسیٰ مسیح ہی مسیحا ہے؛اُس نے اندریاس کا یقین نہ کیا۔بعد میں جب وہ حضرت عیسیٰ مسیح کو جان گیا تو اُس کے دِل میں خُدا تعالیٰ نے یہ ظاہر کیااور اُس نے اپنے لئے یہ قبول کر لیا کہ واقعی حضرت عیسیٰ مسیح ہی مسیحا ہے۔پطرس ایک زبردست شخص کی مثال مہیا کرتا ہے جو بڑی دیانت داری سے حضرت عیسیٰ مسیح کا متلاشی تھا،اُن کے پاس آیا تاکہ اُنہیں اُس مسح شدہ مسیحا کے طو ر پر قبول کرے جس کے بارے میں بہت سی نبوتیں کی گئی تھیں۔

تین دن یا دو دن؟

متی 40:12 – ”(سوال نمبر1):”حضرت عیسیٰ مسیح نے پیشین گوئی کی تھی کہ وہ قبر میں تین دن تین رات رہیں گے،لیکن وہ قبر میں
دوراتیں او رایک پورا دن رہے۔“

chart
یہاں نقاد دیدات صرف اپنی یہودی ثقافت اور زبان سے لاعملی کا مظاہر ہ کرتا ہے۔یہودی ثقافت میں دن کا کوئی بھی حصہ تب گِنا جاتا ہے جب ایک مسلسل وقت کے عرصے کا شمار کیا جائے او رایک دن کا شمار ایک غروب ِ آفتاب سے لے کر دوسرے غروب آفتاب تک ہوتا ہے۔
چونکہ حضرت عیسیٰ مسیح جمعہ،ہفتہ اور اتوار کے دن کے ایک حصے میں قبر میں رہے،اِس طرح عبرانی حساب کتاب کے مطابق وہ تین دن قبر میں رہے۔ 

”تین دن او رتین راتیں“ کا فقرہ یہودی بات چیت کا وہ کلمہ ہے جس کا مطلب صرف تین دن ہے؛ایک دن کی زبان میں یہ کبھی بھی کوئی نہیں کہے گا،”تین دن اور دو راتیں۔“یہ گویا انگریزی اظہار ِ بیان کی طرح ہو گا،”پندرہ روزہ“ (biweekly)جس کا تکنیکی مطلب ہے
ہر دو ہفتے میں ایک مرتبہ،لیکن عام بول چال میں اِس کا مطلب ہے ہفتے میں دوبار۔”تین دن او رتین راتیں“اِس فقرے کے یہودی فہم کا واضح اظہار آستر کی کتاب میں ملتا ہے جہاں ملکہ نے کہا کہ کوئی بھی تین روز تک دن او ررات نہ کچھ کھائے نہ پیئے(آستر 16:4) مگر تیسرے روز جب ابھی صرف دو راتیں ہی گزری تھیں،وہ بادشاہ کے محل میں گئی اور روزہ ختم ہو گیا۔طوبیاہ کی کتاب (200ق م)اِس استعمال کی ایک واضح تصدیق ہمیں دیتی ہے (12:3-13):”جب اُس نے یہ بات سُنی تو اپنے گھر کے بالا خانے میں چڑھی۔اور تین
دن اورتین رات وہیں رہی نہ کچھ کھایا اور نہ پیا۔مگر دعا کرتی اور آنسوؤں کے ساتھ خدا کی منت کرتی رہی کہ یہ ننگ مجھ سے دُور کر [اُس پر
قتل کا الزام تھا]۔اور تیسرے دن جب اُس نے اپنی دعا تمام کی اور خداوند کو مبارک کہا…“

اِس لئے آپ کو صرف ترجمہ ہی سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح صحائف کی اصلی زبانوں میں الفاظ اور محاورے استعمال ہوئے ہیں۔یہاں دیدات کی دلیل یہ بحث کرنے کے مترادف ہے کہ چونکہ توریت شریف اور قرآن اللہ تعالیٰ کے لئے جمع کا صیغہ ”ہم“ استعمال کرتے ہیں اِس لئے وہ بہت سے خداؤں کی تعلیم دیتے ہیں۔

Related Articles:

Were Jesus & Jonah dead in the tomb?

حضرت عیسیٰ مسیح نے کس دن ہیکل کو صاف کیا؟

متی 12:21 – ”کیا حضرت عیسیٰ مسیح نے اُس دن ہیکل کو صاف کیا جس دن وہ یروشلیم میں داخل ہوئے (متی 12:21)یا اگلے دن (مرقس1:11-17)؟اور انجیر کے درخت کو کب لعنت کی (دیکھئے مرقس12:11)؟“

تاریخی ترتیب یوں ہے:

پہلا دن: حضرت عیسیٰ مسیح ایک گدھی کے بچہ پر یروشلیم میں داخل ہوتے ہیں،مختصراً ہیکل کا دورہ کرتے ہیں،اور رات بسر کرنے کے لئے بیت عنیاہ چلے جاتے ہیں۔

دوسرا دن: حضرت عیسیٰ مسیح صبح جلدی اُٹھتے ہیں،اور یروشلیم جاتے ہوئے انجیر کے درخت پر لعنت کرتے ہیں اور پھر ہیکل کو صاف کرتے ہیں۔

مرقس او رلوقا میں تو یہ بات واضح ہے مگر متی ہیکل کی صفائی کو یروشلیم میں فاتحانہ داخلے اور انجیر کے درخت پر لعنت کے درمیان رکھتا ہے۔ اِس کا سادہ سا حل یہ ہے کہ متی کی انجیل تواریخی اعتبار سے اِتنی سخت نہیں ہے،بلکہ موضوعاتی ہے جو ابتدائی سوانح ِ حیات کی ایک عام خصوصیت ہوتی تھی۔وہ فاتحانہ داخلے اور ہیکل کی صفائی کے دو مربوط واقعات کو اکٹھا ملانا چاہتا تھا اور اِس لئے انجیر کے درخت کے غیر متعلقہ واقعے کو بعد میں ڈال دیا۔ملاحظہ کیجیے کہ متی میں نہ تو ہیکل کی صفائی کا واقعہ اور نہ ہی انجیر کے درخت کا واقعہ واضح او رترتیب کی زبان سے شروع ہوتاہے (’پھر‘،’اُس کے بعد‘،وغیرہ)۔

یکونیاہ ناجائز اولاد؟

لوقا32:1 – ”یہ حوالہ یہ بتاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ مسیح داؤد کے شاہی وارث تھے مگر حضر ت عیسیٰ مسیح کے بزرگ یکونیاہ (متی 11:1)کوآخری بادشاہ کے طور پر شاہی نسل سے خارج کر دیا گیا تھا (یرمیاہ 30:36)،اِس طرح یہ نسل قانونی حیثیت نہیں رکھتی۔“

حضرت عیسیٰ مسیح کا حیاتیاتی نسب نامہ یوسف کی نسل سے نہیں تھا بلکہ اُن کی والدہ ماجدہ بی بی مریم سے تھا (لوقا کی معرفت لکھاگیا نسب نامہ)جو حضرت داؤد سے بھی تھا مگر یکونیاہ سے الگ تھا۔جبرائیل فرشتے کا اعلان اِس قانونی استحقاق کو مضبوط بناتا ہے: ”اور خداوند خدا اُس کے باپ داؤد کا تخت اُسے دے گا۔“