قرآن میں حضرت عیسیٰ کے نام

قرآن عربی زبان میں ایک بڑی کتاب ہے۔ یہ زبان دُنیا کے زیادہ تر لوگوں کے لئے ایک اجنبی زبان ہے۔ اِسی وجہ سے بہت کم لوگ قرآن میں بیان کئے گئے مختلف قسم کے موضوعات کا درست فہم رکھتے ہیں۔ اِس کے اہم ترین موضوعات میں سے ایک مختلف نبیوں سے متعلق ہے جنہیں اللہ نے دُنیا میں مختلف زمانوں میں بھیجا۔ اُن نبیوں میں سے ایک کے بارے میں قرآن میں بہت تفصیل سے بتایا گیا ہے جو عیسیٰ ابن مریم ہیں۔ بہت سے لوگوں نے اُن کا نام سُن رکھا ہے اور اُن کی زندگی اور کام کے بارے میں کچھ نہ کچھ جانتے ہیں۔ تاہم جیسے قرآن میں آپ کو بیان کیا گیا ہے اُس کے بارے میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو درست آگہی رکھتے ہیں۔ اِسی وجہ سے اِس مضمون کو لکھا گیا ہے۔ اِس مختصر تحریر کا مقصد قارئین کے سامنے قرآنی بیان کے مطابق حضرت عیسیٰ کی ایک واضح اور درست تصویر کشی کرنی ہے۔ اِ س ضمن میں مختلف قرآنی آیات کوبیان کیا گیا ہے اور مطمع نظر یہ ہے کہ قارئین عیسیٰ نبی کے بارے میں قرآنی بیان کی زیادہ بہتر سمجھ کو حاصل کر سکیں۔

عیسیٰ
“پھر جب عیسیٰ نے اُن کی طرف سے انکار اور نافرمانی ہی دیکھی تو کہنے لگے کہ کوئی ہے جو اللہ کا طرفدار اور میرا مددگار ہو۔ حواری بولے کہ ہم اللہ کے طرفدار اور آ پ کے مددگار ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہیں کہ ہم فرمانبردار ہیں۔” (سورہ آل عمران 3: 52)

“(مسلمانو) کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور جو کتاب ہم پر اُتری اُس پر اور جو صحیفے ابراہیم اور اسمعیل اور اسحق اور یعقوب اور اُن کی اولاد پر نازل ہوئے اُن پر اور جو کتابیں موسیٰ اور عیسیٰ کو عطا ہوئیں اُن پر اور جو دوسرے پیغمبروں کو اُن کے پروردگار کی طرف سے ملیں اُن پر سب پر ایمان لائے، ہم ان پیغمبروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور ہم اسی معبود واحد کے فرمانبردار ہیں۔” (سورہ البقرہ 2: 136)

“اور جب عیسیٰ نشانیاں لے کر آئے تو فرمایا کہ میں تمہارے پاس دانائی کی کتاب لے کر آیا ہوں۔ نیز اِس لئے کہ بعض جن میں تم اختلاف کرتے ہو تم کو سمجھا دوں۔ سو اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو۔” (سورہ الزخرف 43: 63)

المسیح
… “مسیح یہود سے یہ کہا کرتے تھے کہ اے بنی اسرائیل اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی اور جان رکھو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے گا۔ اللہ اُس پر بہشت کو حرام کر دے گا۔ اور اُس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہو گا۔” (سورہ المائدة 5: 72)

مسیح اِس بات سے عار نہیں رکھتے کہ اللہ کے بندے ہوں اور نہ مُقرب فرشتے عار رکھتے ہیں اور جو شخص اللہ کا بندہ ہونے کو موجب عار سمجھے اور سرکشی کرے تو اللہ سب لوگوں کو اپنے پاس جمع کر لے گا۔” (سورہ النسا 4: 172)

زکیاً (پاکیزہ)
“فرشتے نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کی بھیجا ہوا یعنی فرشتہ ہوں اور اِس لئے آیا ہوں کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں۔” (سورہ مریم 19: 19)

کلمتہ اللہ
… “مسیح یعنی مریم کے بیٹے عیسیٰ اللہ کے رسول تھے اور اُس کا کلمہ تھا جو اُس نے مریم کی طرف بھیجا اور اُس کی طرف سے ایک روح تھے۔ ” (سورہ النسا 4: 171)

” فرشتوں نے مریم سے کہا کہ مریم اللہ تم کو اپنی طرف سے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح اور مشہور عیسیٰ ابن مریم ہو گا اور جو دُنیا اور آخرت میں آبرومند اور مقربین میں سے ہو گا۔” (سورہ آل عمران 3: 45)

روح منہ (اُس کی طرف سے رُوح)
… “مسیح یعنی مریم کے بیٹے عیسیٰ اللہ کے رسول تھے اور اُس کا کلمہ تھا جو اُس نے مریم کی طرف بھیجا اور اُس کی طرف سے ایک روح تھے۔ ” (سورہ النسا 4: 171)

“اور اُن خاتون یعنی مریم کوبھی یاد کرو جنہوں نے اپنی عفت کو محفوظ رکھا۔ تو ہم نے اُن میں اپنی رُوح پھونک دی اور اُن کو اور اُن کے بیٹے کو اہل عالم کے لئے نشانی بنا دیا۔ ” (سورہ الانبیا 21: 91)

“اور دوسری مثال عمران کی بیٹی مریم کی جنہوں نے اپنی عزت و ناموس کو محفوظ رکھا۔ تو ہم نے اُس میں اپنی رُوح پھونک دی اور وہ اپنے پروردگار کے کلام اور اُس کی کتابوں کو برحق سمجھتی تھیں اور وہ فرمانبرداروں میں سے تھیں۔” (سورہ التحریم 66: 12)

ابنِ مریم
“تب عیسیٰ ابن مریم نے دُعا کی کہ اے ہمارے پروردگار ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما کہ ہمارے لئے وہ دِن عید قرار پائے یعنی ہمارے اگلوں اور پچھلوں سب کے لئے۔ اور وہ تیری طرف سے نشانی ہو اور ہمیں رزق دے اور تُو بہترین رزق دینے والا ہے۔” (سورہ المائدہ 5: 114)

“اور اُن پیغمبروں کے بعد اُنہیں کے قدموں پر ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا جو اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتے تھے اور اُن کو انجیل عنایت کی جس میں ہدایت اور نور ہے اور تورات کی جو اِس سے پہلی کتاب ہے تصدیق کرتی ہے اور پرہیزگاروں کی راہ بتاتی اور نصیحت کرتی ہے۔” (سورہ المائدہ 5: 46)

عبد اللہ (اللہ کا بندہ)
“اُس (عیسیٰ) نے کہا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں، اُس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے۔” (سورہ مریم 19: 30)

“مسیح اِس بات سے عار نہیں رکھتے کہ اللہ کے بندے ہوں اور نہ مُقرب فرشتے عار رکھتے ہیں اور جو شخص اللہ کا بندہ ہونے کو موجب عار سمجھے اور سرکشی کرے تو اللہ سب لوگوں کو اپنے پاس جمع کر لے گا۔” (سورہ النسا 4: 172)

نبی
“اُس (عیسیٰ) نے کہا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں، اُس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے۔” (سورہ مریم 19: 30)

رسول اللہ
… “مسیح یعنی مریم کے بیٹے عیسیٰ اللہ کے رسول تھے اور اُس کا کلمہ تھا جو اُس نے مریم کی طرف بھیجا اور اُس کی طرف سے ایک روح تھے۔ ” (سورہ النسا 4: 171)

“یہ پیغمبر جو ہم وقتاً فوقتاً بھیجتے رہے ہیں اُن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ بعض ایسے ہیں جن سے اللہ نے گفتگو کی اور بعض کے دوسرے امور میں مرتبے بلند کئے۔ اور عیسیٰ ابن مریم کو ہم نے کھلی نشانیاں عطا کیں۔ اور رُوح القدس سے اُن کو مدد دی۔” (سورہ البقرہ 2: 253)

” اور عیسیٰ بنی اسرائیل کی طرف پیغمبر ہو کر جائیں گے اور کہیں گے کہ میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں۔ وہ یہ کہ تمہارے سامنے مٹی سے پرندے کی صورت بناتا ہوں پھر اِس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے سچ مچ پرندہ ہو جاتا ہے۔ اور پیدائشی اندھے اور ابرص کو تندرست کر دیتا ہوں۔ اور اللہ کے حکم سے مُردوں کو زندہ کر دیتا ہوں۔ اور جو کچھ تم کھا کر آتے ہو اور جو کچھ اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو، سب تم کو بتا دیتا ہوں اگر تم صاحب ایمان ہو تو اِن باتوں میں تمہارے لئے نشانی ہے۔” (سورہ آل عمران 3: 49)

“اے پروردگار جو کتاب تُو نے نازل فرمائی ہے ہم اُس پر ایمان لے آئے اور تیرے پیغمبر کے متبع ہو چکے ، تُو ہم کو ماننے والوں میں لکھ رکھ۔” (سورہ آل عمران 3: 53)

مفضل (فضیلت بخشا ہوا)
“یہ پیغمبر جو ہم وقتاً فوقتاً بھیجتے رہے ہیں اُن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ بعض ایسے ہیں جن سے اللہ نے گفتگو کی اور بعض کے دوسرے امور میں مرتبے بلند کئے۔ اور عیسیٰ ابن مریم کو ہم نے کھلی نشانیاں عطا کیں۔ اور رُوح القدس سے اُن کو مدد دی۔” (سورہ البقرہ 2: 253)

الصالح (نیکوکار)
“اور (عیسیٰ) ماں کی گود میں اور بڑی عمر کا ہو کر دونوں حالتوں میں لوگوں سے یکساں گفتگو کرے گا اور نیکوکاروں میں ہو گا۔ ” (سورہ آل عمران 3: 46)

“اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کوبھی۔ یہ سب نیکوکار تھے۔” (سورہ الانعام 6: 85)

مبارک
“اور میں جہاں ہوں اور جس حال میں ہوں اُس نے مجھے صاحبِ برکت بنایا ہے اور جب تک زندہ ہوں مجھ کونماز اور زکوٰة کا ارشاد فرمایا ہے۔” (سورہ مریم 19: 31)

آیت(ایک معجزہ یا نشان)
“اور اُن خاتون یعنی مریم کوبھی یاد کرو جنہوں نے اپنی عفت کو محفوظ رکھا۔ تو ہم نے اُن میں اپنی رُوح پھونک دی اور اُن کو اور اُن کے بیٹے کو اہل عالم کے لئے نشانی بنا دیا۔ ” (سورہ الانبیا 21: 91)

“فرشتے نے کہا کہ یونہی ہو گا تمہارے پروردگار نے فرمایا کہ یہ مجھے آسان ہے اور میں اِسے اِسی طریق پر پیدا کروں گا تا کہ ہم اِس کو لوگوں کے لئے اپنی طرف سے نشانی اور ذریعہ رحمت بنائیں اور یہ کام مقرر ہو چکا ہے۔ ” (سورہ مریم 19: 21)

مُقرب (خدا کے نزدیک)
” فرشتوں نے مریم سے کہا کہ مریم اللہ تم کو اپنی طرف سے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح اور مشہور عیسیٰ ابن مریم ہو گا اور جو دُنیا اور آخرت میں آبرومند اور مقربین میں سے ہو گا۔” (سورہ آل عمران 3: 45)

فِی کَمثَلِ آدَمَ (آدم کی مانند)
“عیسیٰ کا حال اللہ کے نزدیک آدم کا سا ہے کہ اُس نے پہلے مٹی سے اُن کو بنایا پھر فرمایا باشعور انسان ہو جا تو وہ ویسے ہی گئے۔” (سورہ آل عمران 3: 59)

شہید (گواہ)
“میں نے اُن سے کچھ نہیں کہا بجز اِس کے جس کا تُو نے مجھے حکم دیا وہ یہ کہ تم اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہے۔ اور جب تک میں اُن میں رہا اُن کے حالات کی خبر رکھتا رہا پھر جب تُو نے مجھے دُنیا سے اُٹھا لیا تو تُو ہی اُن کا نگران تھا اور تُو ہر چیز سے خبردار ہے۔ ” (سورہ المائدہ 5: 117)

“اور اہل کتاب میں سے کوئی نہیں ہو گا ، مگر اُن کی موت سے پہلے اُن پر ایمان لے آئے گا اور وہ قیامت کے دِن اُن پر گواہ ہوں گے۔ ” (سورہ النسا 4: 159)

مُعیّد بِرُوح القُدُس (روح القدس سے مدد پہنچایا ہوا)
“اور ہم نے موسیٰ کو کتاب عنایت کی اور اُن کے پیچھے یکے بعد دیگرے پیغمبر بھیجتے رہے اور عیسیٰ ابن مریم کو کھلے نشانات بخشے اور رُوح القدس سے اُن کو مدد دی۔ تو کیا ایسا ہے کہ جب کوئی پیغمبر تمہارے پاس ایسی باتیں لے کر آئے جن کو تمہارا جی نہیں چاہتا تھا تو تم سرکش ہو جاتے رہے اور ایک گروہ انبیا کو تو جھٹلاتے رہے اور ایک گروہ کو قتل کرتے رہے۔ ” (سورہ البقرہ 2: 87)

“یہ پیغمبر جو ہم وقتاً فوقتاً بھیجتے رہے ہیں اُن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ بعض ایسے ہیں جن سے اللہ نے گفتگو کی اور بعض کے دوسرے امور میں مرتبے بلند کئے۔ اور عیسیٰ ابن مریم کو ہم نے کھلی نشانیاں عطا کیں۔ اور رُوح القدس سے اُن کو مدد دی۔” (سورہ البقرہ 2: 253)

“جب اللہ عیسیٰ سے فرمائے گا کہ اے عیسیٰ ابن مریم!…

کیا حضرت عیسیٰ مسیح نے سؤر چُرائے؟

متی 28:8-34 – ”حضرت عیسیٰ مسیح نے سؤروں کا ایک غول چُرایا اور اُنہیں ہلاک کر دیا اِس لئے وہ ایک چور ہیں۔“

صاف ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ مسیح نے سؤروں کا غول نہیں ”چُرایا“ حتیٰ کہ اُنہوں نے ہاتھ بھی نہیں لگایا؛سؤروں کو کسی چیز میں بھیج دینا مشکل ہی سے ”چوری“ سمجھا جا سکتا ہے۔

حقیقت میں کھوئے ہوئے سؤروں پر دھیان دینابالکل گناہ آلودہ سوچ ہے جو حضرت عیسیٰ مسیح اِس واقعہ کے ساتھ دکھانے کی کوشش کررہے تھے۔دنیاوی سوچ لالچ کے ساتھ املاک اور ملکیت کے حقوق پر لگی رہتی ہے جو کہ بدروح گرفتہ آدمی کی طرح کے لوگوں کے دُکھوں کو نظر انداز کرتی ہے۔حضرت عیسیٰ مسیح گاؤں والوں کی اِس ڈرامائی واقعہ کے ساتھ غلط ترجیحات کو چیلنج کرتے ہیں اور اِ س رُوح میں کہتے ہیں،”یہ آدمی جو دُکھ اور مصیبت سے آزاد کیا گیا وہ اُ س بات سے کہیں زیادہ اہم ہے جس پر آپ توجہ دیتے ہیں اور وہ ہے آپ کا مال و اسباب۔“

کیا حضرت عیسیٰ مسیح صرف یہودیوں کے لئے ہیں؟

بہت سے نقادیہ ظاہر کرنے کے لئے کہ حضرت عیسیٰ مسیح کو صرف یہودیوں کے لئے بھیجا گیا تھا،دو اقتباسات کی طرف نشان دہی کرنا پسند کرتے ہیں۔یہ تو ایسے کہنا ہے جیسے کہ محمدؐ صرف عرب لوگوں کے لئے بھیجے گئے تھے کیونکہ وہ عرب سے باہر کبھی نہیں گئے اور ایک جگہ قرآن فرماتا ہے،”ہم نے تم کو ایک عربی قرآن نازل فرمایا تاکہ تم مکہ او راِس کے اِرد گرد رہنے والوں کو خبردار کرو۔“ایسے غیر متوازی دعوے کرنے کے لئے آپ کو دوسری آیات کو چھپا نا یا نظر انداز کرنا ہوگا۔نیچے ہم اُن دو اقتباسات کا جائزہ لیں گے اور مجموعی طور پر ثبوت کا جائزہ لیں گے۔

متی 5:10 – ”صرف یہودیوں کو؟“

متی 10باب میں حضرت عیسیٰ مسیح اپنے شاگردوں کو عارضی سفر کے لئے بھیج رہے ہیں مگر اِس مرتبہ صرف یہودیوں کے پاس۔ہم جانتے ہیں کہ یہ ہدایات عارضی تھیں،جب کہ لوقا9باب اِس دئیے گئے کام کا خاتمہ درج کرتا ہے اور بعد میں حضرت عیسیٰ مسیح اُن چندابتدائی ہدایات میں خاص طور پر تبدیلی کی (لوقا35:22-36)۔

متی 21:15-28 – ”صرف یہودیوں کے لئے؟“

متی 21:15-28(مرقس23:7-30بھی)میں حضرت عیسیٰ مسیح ایک کنعانی عورت کو واضح کر رہے ہیں کہ کس طرح اُن کی بنیادی زمینی خدمت بنی اسرائیل کے لئے تھی۔اِس حوالہ او رمتی 10باب میں حضرت عیسیٰ مسیح کی اپنے شاگردوں کو ہدایات کویہ تجویز کرنے کے لئے کئی نقادوں نے بگاڑا کہ وہ صرف بنی اسرائیل کے لئے بھیجا گیا تھا۔اِس کے برعکس توریت شریف،زبور شریف او راناجیل میں دس مرتبہ سے زیادہ واضح اقتباسات موجود ہیں۔ صرف پولُس کے خطوط ہی کو دیکھیں جو انکار کئے بغیر یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ مسیح کے پیغام کا مقصد پوری دنیا کے لئے تھا۔یہ سچ ہے کہ اُ ن کی زمینی خدمت یہودیوں کے لئے تھی کیونکہ حضر ت ابراہیم کے وقت سے بنی اسرائیل خُدا کے پیغام کے خادم تھے۔ اِس لئے حضرت عیسیٰ مسیح سب سے پہلے اسرائیل کے لئے پیغام لے کر آئے!…

حضرت عیسیٰ مسیح کبھی بھی نہیں مرے؟

متی 40:12 -(سوال نمبر2):”چونکہ حضرت یونس مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہے،حضرت عیسیٰ مسیح بھی قبر میں زندہ ہو ں گے،اِس لئے درحقیقت حضر ت عیسیٰ مسیح صلیب پر نہیں مرے۔“

[see here for the related question of duration; 3 days & 3 nights]

دیدات نے آیت کے چند خاص حصے چُن چُن کر پیش کرنے اور دوسری آیات کو چھپانے سے صرف یہ دلیل قابل ِ یقین بنائی ہے۔اِس لئے پوری آیت یہ ہے جو حضر ت عیسیٰ مسیح نے فرمائی:

”کیونکہ جیسے یونا ہ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسے ہی ابن ِ داؤد تین رات دن زمین کے اندر رہے گا۔“(متی 40:12)

دیدات اِ س آیت کو یوں کاٹتا ہے، ”جیسے یوناہ …ویسے ہی ابن ِ آدم بھی“اِس آیت کے مرکزی خیال کو کاٹ دینا جو واضح طور پر(۱) آیت کا پہلا حصہ ہے (یعنی دورانیہ،تین دن اور تین راتیں)اور (۲) اُس وقت ایک بند جگہ پر رہے گا۔یہاں ایسا کوئی ذِکر موجود نہیں کہ آیا حضرت عیسیٰ مسیح یا حضرت یونس زندہ تھے یا نہیں کیونکہ یہ پیغام کا مرکزی نکتہ نہیں ہے۔اگر ہم دیدات کی منطق کو قبول کرتے ہیں تو آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ بات کس طرح حضر ت عیسیٰ مسیح کی مو ت کے بارے میں ایک ملتی جلتی نبوت پر لاگو ہوتی ہے:

”اور جس طرح موسیٰ نے سانپ کو بیابان میں اُونچے پر چڑھایا اُسی طرح ضرور ہے کہ ابن ِ آدم بھی اُونچے پر چڑھایا جائے تاکہ جو کوئی ایمان لائے اُس میں ہمیشہ کی زندگی پائے۔“(یوحنا 15,14:3)

یہاں موسیٰ کے بنائے ہوئے پیتل کے سانپ(دیکھئے گنتی 9:21) اور حضرت عیسیٰ مسیح کے درمیان ایک مماثلت پیدا کی گئی ہے،جن میں سے دونوں دوسروں کی نجات کا وسیلہ بننے کے لئے اُونچے پر چڑھائے گئے۔اِس لئے اگر ہم دیدات کی منطق کی پیروی کریں تو یہ آیت ثابت کرتی ہے کہ پیتل کے سانپ کی طرح حضرت عیسیٰ مسیح بھی صلیب سے پہلے،اُس کے دوران اور اُس کے بعد زندگی سے عاری تھے!…

مرقس 15:11-16 ہیکل کی صفائی کرنا

مرقس 15:11-16 -”جذباتی جوش میں آکرہیکل میں چوکیوں کو کیوں اُلٹا گیا؟“

”پھر وہ یروشلیم میں آئے اور یسوع ہیکل میں داخل ہو کر اُن کو جو ہیکل میں خرید و فروخت کر رہے تھے باہر نکالنے لگا او رصرّافوں کے تختوں
اور کبوتر فروشوں کی چوکیوں کو اُلٹ دیا۔اور اُس نے کسی کو ہیکل میں سے ہو کر کوئی برتن لے جانے نہ دیا۔اور اپنی تعلیم میں اُن سے کہا کیا یہ نہیں لکھا ہے کہ میرا گھر سب قوموں کے لئے دعا کا گھر کہلائے گا مگر تم نے اُسے ڈاکوؤں کی کھوہ بنا دیا ہے۔“(مرقس15:11-17)

اِس ”جذباتی جوش“یا ”جھنجھلاہٹ“کو ملامت کرنے کے لئے متن میں ایسا کچھ موجود نہیں ہے جہاں صرف حضرت عیسیٰ مسیح کے کام اور الفاظ درج ہیں۔اگر ہم فرض کر لیں کہ حضرت عیسیٰ مسیح کے کام درست تھے تو پھر جوش اور انصاف کے لئے جذبات کسی طرح بھی غلط نہیں ہوں گے۔

اگر حضرت عیسیٰ مسیح ایک عام شہری ہوتے تو ظاہر ہے کہ اُن کے پاس ہیکل میں کاروبار کرنے والوں کو نکالنے کا بہت تھوڑا اختیار ہوتا۔لیکن اگر ہم تھوڑا سا یہ بھی فرض کر لیں کہ حضرت عیسیٰ مسیح اسرائیل کے لئے خُدا تعالیٰ کے نبی تھے تو پھر اُن کے پاس ہیکل کے احاطے کو درست عبادت میں بحال کرنے کے لئے اُسے صاف کرنے کا پورا اختیار ہو گا۔

اِس لئے ہیکل کو صاف کرنے میں حضرت عیسیٰ مسیح کے انصاف یا جذبے کی مذمت کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

مرقس11باب-انجیر کے درخت پر لعنت کرنا

مرقس12:11-14 – ”حضرت عیسیٰ مسیح کیوں انجیر کے درخت پر جذباتی ہوکر برس پڑے۔ کیا وہ وہاں صرف انجیر پیدا نہیں کر سکتے تھے؟“

یہ اعتراض کسی حد تک حضرت عیسیٰ مسیح میں غلطی تلاش کرنے کی مایوس کُن کوشش ہے۔جیسے کہ حضرت عیسیٰ مسیح اکثر کیا کرتے ہیں،وہ اپنے شاگردوں کو روحانی نکتہ سمجھانے کے لئے روزمرہ اشیا اور تصاویر کو بطور استعارہ استعمال کرتے ہیں۔انجیر کا شاگردوں کے لئے ایک شے سے سکھایا ہوا سبق تھا،کہ وہ انسانی زندگیاں جو اُس وقت پھل نہیں لاتیں جب اُنہیں پھل لانا چاہئے،وہ لعنت کئے جانے اور کاٹ ڈالے جانے کے خطرے میں ہیں (لوقا6:13،یوحنا7,6:15)۔انجیر کے درخت پر لعنت کرنا دعا کی طاقت کے بارے میں بھی ایک سبق تھا۔ متی 32:24میں اُنہوں نے اپنی تعلیم میں دوبارہ اِسی انجیر کے درخت کی طرف اشارہ کیا۔اِس لئے یہ واضح ہے کہ یہ کوئی جذباتی جوش نہیں تھا بلکہ اُن کے شاگردوں کے لئے محتاط طریقے سے ایک شے سے سبق سکھایا گیا تھا۔

انبیائے کرام چور یا ڈاکو؟

یوحنا 8:10 -”حضرت عیسیٰ مسیح یہ تعلیم کیسے دے سکتے تھے کہ اُن سے پہلے تمام انبیائے کرام چور اور ڈاکو تھے؟“

یہ کلام کے خلاف حد سے زیادہ احمقانہ حملوں میں سے ایک ہے۔یہ کسی پر بھی حد سے زیادہ واضح ہے جو انجیل شریف سے واقف ہے کہ حضرت عیسیٰ مسیح سابقہ انبیائے کرام کے لئے اپنے دل میں بہت عزت رکھتے تھے (متی 17:5؛متی 3:12؛لوقا28:13؛یوحنا40,39:8)۔ متن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اِس آیت کا اشارہ انبیائے کرام کی طرف نہیں ہے بلکہ جھوٹے مسیحاؤں اور قائدین کی طرف ہے جو انبیا ئے کرام کے دنوں سے ہی سر اُٹھا چکے تھے۔حضرت عیسیٰ مسیح کے یہودی سامعین یہ جانتے ہو ں گے کہ حضرت عیسیٰ مسیح حزقی ایل کی جھوٹے اور اپنی خدمت کرنے والوں (حکمرانوں)پر تنقید کی طرف اشارہ کر رہے تھے اور اِس کے ساتھ ساتھ اُس شخص کے بارے میں حزقی ایل کی حتمی نبوت کی طرف اشارہ کررہے تھے جو حضرت داؤد کی نسل سے آنے والا تھا اور جو حقیقی چرواہا ہو گا (حزقی ایل 23:34)۔حزقی ایل کی نبوت کے بعد چھ سو سال تک،اسرائیل میں اپنے آپ کو مسیحا ظاہر کرنے والے اور گمراہ کرنے والے بہت سے افراد اُٹھ چکے تھے جنہوں نے اپنے پیروکاروں کو آزادی دلانے کا وعدہ کیا مگر اِس کے بجائے وہ اُنہیں جنگی جھگڑوں اورتباہی کی جانب لے گئے۔حضرت عیسیٰ مسیح کا چور کا لفظ استعمال کرنا شاید اُن کے بزدلانہ طریقے سے اندر داخل ہونے (دیکھئے آیت 1)اور ڈاکو اُن کے تشدد استعمال کرنے پر توجہ دلانے کے لئے ہو گا۔

کیا حضرت عیسیٰ کو خداوند کہا جا سکتا ہے؟

”جیسے کہ انجیل شریف بیان کرتی ہے،حضرت عیسیٰ کو’خداوند‘ نہیں کہا جا سکتا۔“

جیسے کہ قرآن سکھاتا ہے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی خداوند (”ربّ“)نہیں ہے،تو بہت سے لوگ انجیل شریف کے حضرت عیسیٰ مسیح کو
”خداوند“ کا لقب دینے پر اعتراض کریں گے۔یہ غلط فہمی پر مبنی ہے،کیونکہ قرآن سورۃ 10:89میں خود فرعون کو ”خداوند“ کہتا ہے –

”اور فرعون کے ساتھ (کیاکیا)جو خیمے اور میخوں کا ملک تھا۔“

”خداوند“محض ایک عزت اور اطاعت کا ایک لقب ہے چاہے وہ کسی آقا،بادشاہ یاحتمی طور پر خُدا تعالیٰ کے لئے ہو۔بے شک،حتمی لحاظ سے خُدا تعالیٰ ہی واحد اور حتمی ”خداوند“ ہے۔

تاہم، جناب عیسیٰ مسیح کے پاس ”خداوند“ کا لقب رکھنے کا خاص دعویٰ ہے۔حضرت عیسیٰ مسیح کی پیدایش سے سیکڑوں سال پہلے،زبور شریف کی تحریروں میں آنے والے مسیحا (مسیح)کو ایک ایسی ہستی کے طور پر بیان کیاگیاہے جسے خُدا تعالیٰ کی طرف سے ”کل زمین کا اختیار“ملا ہے
(زبور شریف 8:2)۔ دوسرے الفاظ میں،آنے والا مسیحا کوکسی خلیفہ یا نائب کی مانند ہو نا تھا،جو مکمل طور پر خُدا تعالیٰ کا فرماں بردار تھا مگر تب بھی خُدا تعالیٰ کی طرف سے بنی نوع ِانسان پر پور ااختیار رکھنے والا تھا۔حضرت عیسیٰ مسیح نے مُردوں میں سے جی اُٹھنے سے شیطان کے کام کو شکست دینے کے بعد اپنے شاگردوں سے کہا،

”آسمان اور زمین کا کُل اختیار مجھے دیا گیا ہے۔“(متی کی انجیل 18:28)

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنا شاندار اختیار حضرت عیسیٰ مسیح کو عنایت کیا ہے۔وہ انجیل شریف اور قرآن شریف کے مطابق ”کلمتہ اللہ“ کا منفرد لقب بھی رکھتے ہیں۔دوسرے الفاظ میں،حضرت عیسیٰ مسیح تمام بنی نوعِ انسان کے دیکھنے کے لئے خُدا تعالیٰ کی مرضی کا زندہ اظہار یا پیغام ہیں۔ مزید یہ کہ وہی واحد کُلّی طور پر بے گناہ انسان ہیں،اِس لئے وہی وہ واحد شخصیت ہے جس کی کُلّی طور پر پیروی یا تقلید کی جانی چاہئے۔

اِن تمام وجوہات کی بِنا پر یہ حضرت عیسیٰ مسیح کے لئے بالکل درست ہے کہ اُنہیں ”خداوند“ کہا جا ئے کیونکہ انجیل شریف میں اُنہیں باربار یہ کہا گیا ہے۔ہمیں خُدا تعالیٰ کے مقدس صحائف کے مطابق اپنی سمجھ کی تعمیرکرنی چاہیے، اور خُدا کے کلام کو اپنے خیالی تصوارات سے رد نہیں کرنا چاہیے۔