اُنڈیلا ہوا دودھ؟

ایوب 9:10-10 ”یہاں بائبل ارسطو کی سائنس سے ادبی سرقہ کی مرتکب ہوتی ہے کہ انسان بہائے ہوئے دودھ اور جمائے ہوئے پنیر کی مانند ہے۔“

یہ اقتباس حضرت ایوب کی خُدا تعالیٰ سے شکایت درج کرتا ہے،جس میں حضرت ایوب بھی خُدا تعالیٰ کے باطنی خیالات کو جاننے کا غلط دعویٰ کرتے ہیں۔خُدا تعالیٰ حضرت ایوب کو درج ذیل الفاظ میں جواب دیتے ہیں:

تب خداوند نے ایوب کو بگولے میں سے یوں جواب دیا۔یہ کون ہے جو نادانی کی باتوں سے مصلحت پر پردہ ڈالتا ہے؟مرد کی مانند اب اپنی کمر کس لے کیونکہ میَں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تُو مجھے بتا۔تُو کہا ں تھا جب میَں نے زمین کی بنیاد ڈالی؟تُو دانش مند ہے تو بتا…“
(ایوب 1:38-4)

صحائف یہ واضح بتاتے ہیں کہ حضرت ایوب نے علم ِ غیب یعنی تخلیق کی پوشیدہ سچائیوں کو جاننے کی غلط فہمی میں بغیر سوچے سمجھے باتیں کیں۔
تب حضرت ایوب توبہ کرتے ہیں او ر خُدا تعالیٰ اِس کے لئے اُن کی عزت کرتا ہے۔اِس لئے یہ صاف ظاہر ہے کہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ کتاب مقدس کسی غلط سائنس کی تعلیم دیتی ہے، یہ ایسے ہی ہے کہ ہم دعویٰ کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بتاتے ہیں کہ قرآن میں ”عزرا اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہے۔“یہ بیانات دونوں کتابوں میں چند انسانوں نے درج کئے ہیں لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی بااختیار تعلیم نہیں ہے۔

جہاں تک ادبی سرقہ کے الزام کا تعلق ہے،ارسطو چوتھی صدی عیسوی میں تھا جب کہ ایوب کی کتاب کم از کم ایک صدی پہلے لکھی گئی تھی۔
اگر کوئی ادبی سرقہ کا کام ہوا،تو پھر یہ دوسری طرف سے ہوا ہوگا۔

آسمان کے ستون

ایوب 11:26 -”یہ آیت غلط کہتی ہے کہ آسمان کے ستون ہیں۔“

حضر ت ایوب کی کتاب حکمت کا ادب ہے اور اِس میں کافی زیادہ استعارے،تشبیہات اور شاعرانہ اشارے استعمال ہوئے ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ حضرت ایوب حقیقی طور پر ایمان نہیں رکھتے تھے کہ آسمان کے ستون ہیں کیونکہ اُس کے فوراً بعد کی ایک آیت فرماتی ہے:

وہ شمال کو فضا میں پھیلاتا ہے اور زمین کو خلامیں لٹکاتا ہے۔(ایوب 7:26)

حضرت ایوب نہ صرف یہ جانتے تھے کہ آسمان خلا میں لٹکا ہوا ہے،بلکہ اُنہیں یہ بھی معلوم تھاکہ پوری زمین خلا میں لٹکی ہوئی ہے جو غیر معمولی حد تک قدیم تحریروں کے حوالے سے زیادہ آگے ہے۔حتیٰ کہ اگر نقاد بھی یہ ثبوت قبول نہ کرے،تو اُسے یاد دلانا چاہئے کہ حضرت ایوب کو کتاب کے آخر میں خُدا تعالیٰ اُسے یہ فرض کرنے کی وجہ سے کہ وہ تخلیق کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے ملامت کرتا ہے (ایوب
1:38-4)۔تب حضرت ایوب توبہ کرتے ہیں اور اِس بات کے لئے خُدا تعالیٰ اُسے سراہتے ہیں۔

اتفاقاً،قرآن بھی یہ بیان کرتا ہے کہ آسمانوں کو ستونوں نے سہارا دیا ہوا ہے جو انسانی آنکھ کو نظر نہیں آتے۔(سورۃ لقمان 10:31)
ہمیں قرآن میں بھی کائناتی مشکلات ملتی ہیں،اِس دفعہ مسئلہ دُم دار سیاروں کا ہے۔سورۃ الصّٰفّٰت کہتی ہے:

”بے شک ہم ہی نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے مزیّن کیا اور ہر شیطان سرکش سے اِس کی حفاظت کی کہ اُوپر کی مجلس کی طرف کان نہ لگا سکیں اور ہر طرف سے اُن پر انگارے پھینکے جاتے ہیں۔(یعنی وہاں سے)نکال دینے کو اور اُن کے لئے عذاب دائمی ہے ہاں جو کوئی (فرشتوں کی کسی بات کو)چوری سے جھپٹ لینا چاہتا ہے تو جلتا ہوا انگارا اُس کے پیچھے لگتا ہے۔“(6:37-10)

ایسا لگتا ہے کہ دُم دار سیارے گرنے والے جنوں کا تعاقب کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں جب تک کہ کوئی شخص اِن آیات کا دوبارہ ترجمہ نہ
کرے یا الفاظ کی دوبارہ تعریف نہ کرے۔

دیومالائی مخلوق؟

ایوب 1:41 – ”یہ اقتباس ایک دیومالائی مخلوق کاذِکر کرتا ہے؟“

بعض اوقات کتاب مقدس شیطان کا دیومالائی مخلوقات کے ساتھ موازنہ کرتی ہے جیسے کہ ”اژدہا“(مکاشفہ 9:12)یا ”لویاتان“
(یسعیاہ 1:27)۔ایسے اقتباسات یہ فرض نہیں کرتے کہ ایسی مخلوقات موجود بھی ہیں،وہ ایسے واقف استعاروں کے ساتھ محض شیطان کے بُرے کردار کو پیش کرتے ہیں۔ایوب کی کتاب میں یہ اقتباسات شاید خُدا تعالیٰ کی اعلیٰ حاکمیت کو بیان کرنے کے لئے صرف استعارہ کا استعمال کرتے ہیں۔

ایک چھوٹا سا سوال ہے کہ ایوب 15:40-24میں مذکور ”دریائی گھوڑا“ محض ایک بڑا جنگلی جانور یا ہیپوپوٹیمس ہے۔بہت سے مبصّرین یہ تجویز کرتے ہیں کہ ایوب کی کتاب میں مذکور”لویاتان“ایک بڑے مگرمچھ کی طرف اشارہ کرتا ہے جسے لویاتان کا نام اِس کو قابو نہ کر سکنے پر زور دینے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔مزید یہ کہ شاید یہ ایک غیر موجود مخلوق کو بیان کررہی ہے جس کے بارے میں ہم نہیں جانتے۔حال ہی میں سائنس دان 43فٹ لمبے اور1000کلو گرام وزنی ایسے سانپ کی باقیات دریافت کر کے ششد ر رہ گئے جو مگرمچھوں کو بھی نگل جاتا تھا اور ڈائنو سار کے مر جانے کے بعد طویل عرصہ تک موجود تھا۔ اِن مخلوقات کی قدامت کا ذِکر 19:40میں کیا گیا ہے:”وہ خدا کی خاص صنعت ہے۔“

قرآن میں ہم پڑھتے ہیں کہ حضرت سلیمان نے دیومالائی مخلو ق سے بات کی جسے ’عفریت‘ کہا گیا ہے (سورۃ النمل 15:27-44)جو حامد اللہ کے مطابق،”ایک طرح کا بُرا شیطان ہے جو بہت سی افسانوی کہانیوں میں پایا جاتا ہے۔“بریٹینیکاکے انسائیکلوپیڈیا میں اِس کی تعریف درج ذیل الفاظ میں کی گئی ہے:

”اسلامی دیومالائی کہانیوں میں، جہنمی جنوں کی ایک قسم (ایسی روحیں جو فرشتوں اور شیطانوں کے درجے سے کم ہیں) مذکور ہے جو اپنی قوت اور مکار ی کے بارے میں جانی جاتی ہے۔ایک عفریت ایک عظیم پروں والی دھوئیں کی مخلوق ہے چاہے وہ نر ہو یا مادہ،جو زیر زمین رہتے ہیں اور مسلسل تباہی پھیلاتے ہیں۔ عفریت قدیم عربی نسلوں کے ساتھ معاشرے کی طرح رہتے ہیں،جو بادشاہوں،قبیلوں اور برادریوں کی صورت میں مکمل ہوتے ہیں۔وہ عام طور پر ایک دوسرے کے ساتھ شادی کرتے ہیں لیکن وہ انسانوں کے ساتھ بھی شادی کر سکتے ہیں۔

معراج کے واقعہ میں کہا گیا ہے ہے کہ نبی اسلام جسمانی طور پر ایک سفید پروں والے گھوڑے پر سوار ہوئے جس کی مور کی طرح کی دُم تھی اور ایک فرشتے کا سر تھا۔اگر یہ عفریت او ربرّاق قابل ِ قبول ہیں،تو یقیناجنگلی سانڈاور بڑے مگر مچھ بھی قابل ِ قبول ہیں۔

زمین حرکت نہیں کرتی؟

زبور1:93 – ”یہاں لکھا ہے کہ زمین حرکت نہیں کرسکتی جبکہ سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ زمین ایک محور کے گرد گھومتی ہے۔“

نقاد نے اشتقاقی غلطی کرتے ہوئے یہ غلط سمجھ لیا ہے کہ عبرانی لفظ، “תּבל تیبل” اور “ארץ ارتض” کا مطلب ”کُرّہ ارض“یا ”سیارہ“ کے معنوں میں زمین ہے۔ اِن الفاظ کا اکثر مطلب صرف ”زمین“ ہوتا ہے جیسے کسی ایک ملک میں۔یہ آیت صرف یہ کہتی ہے کہ براعظموں کے خشکی کے ٹکڑے خُدا تعالیٰ کی اعلیٰ حاکمیت کی وجہ سے محفوظ ہیں۔

کیا دُنیا تباہ ہو گی یا نہیں؟

زبور26:102 – ”یہاں لکھا ہے کہ زمین برباد ہو جائے گی مگر زبور69:78 میں اِس کے بالکل برعکس لکھا ہے۔“

الزام یہ ہے کہ زبور 26:102اور عبرانیوں 11:1کہتی ہیں کہ آسمان او رزمین ”برباد ہو جائیں گے“جب کہ واعظ 4:1میں اِس کے برعکس لکھا ہے (..”زمین…

چیونٹی کے راہنما؟

امثال 7:6 – ”یہ آیت کہتی ہے کہ چیونٹیوں کا کوئی سردار،ناظر یا حاکم نہیں ہوتا لیکن چیونٹیوں کی ملکہ ہوتی ہے۔“

یہ آیت ہمیں چیونٹیوں کے معاشرے کی شا ندار دنیا کو سمجھنے کا کہتی ہے لیکن اپنے اندر کوئی درست معلومات نہیں رکھتی۔نقاد کی دلیل اُن لوگوں کو قائل کرتی ہے جو دراصل ”ملکہ“ چیونٹی کے کردار سے ناواقف ہیں۔”ملکہ“ چیونٹی اپنی چیونٹیوں کی برادری میں کُلّی طور پر کوئی قیادت کی ذمہ داری نہیں رکھتی،وہ محض انڈے پیدا کرنے والی ایک فیکٹری ہے۔ایک معروف انسائیکلوپیڈیا اِس کی وضاحت درج ذیل الفاظ میں کرتا ہے:

”ملکہ“ کی اصطلاح اکثر گمراہ کرتی ہے کیونکہ مجموعی طور پر ملکہ کا کالونی پر کوئی اختیار نہیں ہوتا۔وہ ایک معروف اور فیصلے کا اختیار رکھنے والی ہستی کے طور پر جانی نہیں جاتی؛اِس کے بجائے اُس کا اپنا کام محض بچے پیدا کرنا ہے۔اِس لئے ملکہ کو کالونی کی حکمران کی بجائے پیداوار میں اضافے کرنے والی سمجھا جائے۔“ (“queen ant,” Wikipedia.org)

غزل الغزلات – ایک عاشقیہ مواد؟

غزل الغزلات- ”ممکن نہیں ہے کہ اللہ کا کلام ایسے عاشقیہ یا ناشائستہ مواد پر مشتمل ہو۔“

خدا کا کلام زندگی کے ہر شعبے کے لئے راہنما کا باعث ہے۔غزل الغزلات شوہر او ربیوی کے درمیان محبت کی ایک نظم ہے،جبکہ مواد علامتی ہے جو شادی کے مواد کے لئے زیادہ مناسب ہے۔محبوب اور پیاری کی اصطلاحات کا استعمال کتاب کے مرد او رعورت کے کرداروں کے شادی کے تعلق کی طرف اشارہ کرتا ہے۔مرد کا کردار اپنی بیوی کی طرف بطور ’بیوی‘ کا اشارہ نہیں کرتا بلکہ محبت سے بھرا ہوا نام ’پیاری‘ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔گیت میں جو دو اشخاص ہیں وہ شادی شدہ افراد ہیں،جو ایک دوسرے سے بہت محبت رکھتے ہیں،اِس لئے وہ ایک دوسرے کے لئے اپنی خوشی اور محبت کا اظہار کر رہے ہیں۔یقینا یہ کوئی ناشائستہ بات نہیں ہے،جب تک کوئی یہ نہ سوچے کہ شادی شدہ لوگوں کے درمیان بھی بُری بات ہے۔اِس کے برعکس،ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حضرت محمد ؐ نے یہ سکھایا کہ شادی اور شادی کے تعلقات ایک برکت اور اچھی بات ہے اور اُن کی باتیں (احادیث)شادی کی زندگی کی تفصیلات کی بہت زیادہ وضاحت پیش کرتی ہیں۔

جدید دور میں،مشرق او رمغرب دونوں میں،بعض اوقات ایسا معلوم ہوتا ہے کہ معاشرہ کہتا ہے کہ ہر طرح کا جنسی عمل اور موج مستی کی اجازت ہے ماسوائے وہ جو دو شادی شدہ لوگوں کے درمیان ہوتا ہے!…

کنواری کی نہ پوری ہونے والی نبوت؟

یسعیاہ 14:7 – ”حضرت عیسیٰ میں یہ نبوت تکمیل نہیں پاتی،کیونکہ ”علمہ“ کا مطلب ’کنواری‘ نہیں بلکہ ’جوان عورت‘ ہے اور حضرت عیسیٰ کو کتاب مقدس میں کہیں بھی عمانوایل نہیں کہا گیا۔“

پہلا اعتراض -یہ کہ ”علمہ“کا صرف مطلب ’جوان عورت‘ غلط ہے۔یہ دراصل خاص طور پر ’دوشیزہ‘ کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی وہ جوان عورت جو غیر شادی شدہ ہے اور جنسی طور پر پاک ہے اور اِس طرح وہ اپنی خصوصیات میں سے ایک کی طرح اپنے اندر کنوارپن رکھتی ہے۔اِس لئے جب حضرت یسوع مسیح کی پیدایش سے 200برس پہلے سپٹواجنٹ کے مترجمین نے ”علمہ“ ترجمہ یونانی لفظ پارتھینوس(’کنواری‘کے لئے ایک خاص اصطلاح)کیا تو اُنہوں نے عبرانی اصطلاح کا درست مطلب سمجھا۔
دونوں طرح سے، مقدسہ مریم ”جوان عورت“ بھی تھیں اور ایک ”کنواری“ بھی۔

نبوت کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ یہ بچہ عمانوایل کہلائے گاجس کا سادہ مطلب ”خدا ہمارے ساتھ“ ہے۔
[ عبرانی سے یہ غیر واضح ہے کہ یہ اِس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حضرت مریم اپنے بچے کو یہ کہیں گے یا دوسرے اُس بچے کو یہ کہیں گے ]۔اِس حقیقت کے ساتھ ساتھ کہ انجیل شریف میں یہ لقب خاص طور پر حضرت عیسیٰ کو دیا گیا (متی 23:1) پوری تاریخ میں لاکھوں مسیحی حضرت مسیح کو”عمانوایل“ مانتے رہے ہیں۔
اِس لئے یہ کس لحاظ سے نامکمل نبوت ہو سکتی ہے؟?…

کیا یرمیاہ 30:36 پوری نہ ہونے والی نبوت ہے؟

رمیاہ 30:36 – ”یہ آیت نبوت کرتی ہے کہ یہویقیم کا کوئی بھی داؤد کے تخت پر کبھی بھی نہ بیٹھے گا،لیکن 2 -سلاطین 6:24 میں لکھاء ہے کہ یہویقیم کے بعد اُس کا بیٹا یہویاکین اُس کی جگہ بادشاہ ہوا۔یہ ایک پوری نہ ہونے والی نبوت ہے۔“

یہاں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا،یہ محض عبرانی اصطلاح ”یوشب“ کو نہ سمجھنا ہے۔ عبرانی فعل ”یوشب“ کا ترجمہ ”بیٹھ“ کیا گیا ہے جو واضح طور پر ”رہنا“،”قائم رہنا“،”بسنا“،”مقیم ہونا“کے معنوں میں لاگو ہوتا ہے۔اِس لحاظ سے اِس کا مطلب کم مستقل طور پر تخت نشین ہونے کے ہیں۔یہویقیم کا بیٹا یہو یاکین کسی بھی لحاظ سے تخت پر نہیں بیٹھا،کیونکہ صرف اُس کی حکومت کے تین ماہ بعداُس کے شہر کی دیواریں نبوکد نضر کی فوجوں کے سامنے گر گئیں اور یہویاکین کو اسیر کر لیا گیا۔
نقاد کے الزامات کے برعکس یہ نبوت کہ یہویاکین کی اُ س کے نام سے کوئی بادشاہی سلسلہ نہ ہو گا پوری ہوئی۔

قرآن میں قدرے اِس سے زیادہ پیچیدہ نبوت موجود ہے:”اہل ِ روم مغلوب ہو گئے۔نزدیک کے ملک میں۔اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آ جائیں گے،چند ہی سال میں“(سورۃ ا لروم 2:30-4)۔قرآن کے نامور عالم یوسف علی کے مطابق،
لفظ ”چند“کے لئے عربی لفظ (بِضع تین سے نو سال کے عرصہ کی طرف اشارہ کرتا ہے؛یا اسلامک فاؤنڈیشن قرآن کے ذیلی نوٹ نمبر 1330کے مطابق یہ تین سے دس سال کی طرف اشارہ کرتا ہے؛ محمدؐ نے خود فرمایا’چھوٹا عدد‘ تین سے نو سالوں کے درمیانی عرصہ کی پیشین گوئی کرتا ہے (البیضاوی)۔فارسیوں نے 615/614عیسوی میں باز نطینیو ں کو شکست دی اور یروشلیم پر قبضہ کر لیا۔
پھر بھی نامور مسلمان مؤرّخ الطبری اور عالم البیضاوی نے اِس شکست کو 13-14سال بعد 628عیسوی میں رکھتے ہیں۔ایسا دکھائی دیتاہے کہ یہ حوالہ پیدایش 12:4کی طرح ہی مسئلے والا ہے۔

ایک سینگ والی افسانوی مخلوقات

یسعیاہ 7:34 – ”بائبل ایک سینگ والی افسانوی مخلوقات کے بارے میں کیوں بات کرتی ہے؟“

کنگ جیمز ورژن میں ترجمہ شدہ لفظ ”یونی کارن“عبرانی میں ”ریم“ ہے جس کا تمام جدید تراجم اور لُغات میں ”جنگلی سانڈ“ کے نام سے زیادہ درست ترجمہ کیا گیا ہے۔جدید آثار قدیمہ نے اِس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ کنگ جیمز ورژن اور سپٹواجنٹ کے یونانی تراجم میں اِس حوالے کی غلط تشریح کیوں کی ہے۔مسوپتامیہ کی کھدائیوں میں دکھایا ہے کہ اسورنصرپال
(Assurnasirpal)بادشاہ ایک جنگلی سانڈ کا شکار کررہا ہے جس کے سر پر ایک سینگ ہے۔ متعلقہ متن یہ بتا تا ہے کہ یہ جانور ’ریمو‘
(rimu)کہلاتا ہے۔جب سپٹواجنٹ کے مترجمین نے غلطی سے”مونو سیروس“(monoceros)ایک سینگ کی اصطلاح استعمال کی
،توشاید وہ اِس مخلوق سے واقف تھے اور یہ سمجھ لیا کہ ”ریم“ ”ریمو“ تھا۔کنگ جیمز ورژن کے مترجمین نے اِس غلط ترجمے کی پیروی کرتے ہوئے ترجمہ کیا۔

قرآن میں ہم پڑھتے ہیں کہ حضرت سلیمان نے ایک دیومالائی مخلوق سے بات چیت کی جسے عفریت کہا جا تا ہے (سورۃ الانعام
15:27-44)جو حامد اللہ کے مطابق،”ایک طرح کا بُرا شیطان ہے جو بہت سی افسانوی کہانیوں میں پایا جاتا ہے۔“بریٹینیکاکے انسائیکلوپیڈیا میں اِس کی تعریف درج ذیل الفاظ میں کی گئی ہے:

”اسلامی دیومالائی کہانیوں میں، جہنمی جنوں کی ایک قسم (ایسی روحیں جو فرشتوں اور شیطانوں کے درجے سے کم ہیں)مذکور ہے جو اپنی قوت اور مکار ی کے بارے میں جاناجاتا ہے۔ایک عفریت ایک عظیم پروں والی دھوئیں کی مخلوق ہے چاہے وہ نر ہو یا مادہ،جو زیر زمین رہتے ہیں اور مسلسل تباہی پھیلاتے ہیں۔عفریت قدیم عربی نسلوں کے ساتھ معاشرے کی طرح رہتے ہیں،جو بادشاہوں،قبیلوں اور برادریوں کی صورت میں مکمل ہوتے ہیں۔وہ عام طور پر ایک دوسرے کے ساتھ شادی کرتے ہیں لیکن وہ انسانوں کے ساتھ بھی شادی کر سکتے ہیں۔
جب کہ عام ہتھیار اور قوتوں کا اُن پر کوئی اختیار نہیں،وہ جادو کے اثر پذیر ہیں،جنہیں انسان اُنہیں مارنے یا اُن پر قبضہ کرنے یا اُنہیں غلام بنانے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔“

معراج کے واقعہ میں کہا گیا ہے ہے کہ حضور اکرم جسمانی طور پر ایک سفید پروں والے گھوڑے پر سوار ہوئے جس کی مور کی طرح کی دُم تھی اور ایک فرشتے کا سر تھا۔اگر یہ عفریت او ربرّاق قابل ِ قبول ہیں،تو یقیناجنگلی سانڈپر بحث کرنا قابل ِ قبول ہے۔