زمین کے چار کونے؟

یسعیاہ 12:11 – ”یہ حوالہ ظاہر کرتا ہے کہ زمین چپٹی ہے،ورنہ اِس کے چار کونے نہیں ہو سکتے تھے۔“

یہ بالکل واضح ہے کہ یہ چاروں سمتوں (شمال،جنوب،مشرق،مغرب)کے لئے ایک محاورہ ہے۔جس لفظ کا ترجمہ ’کونا‘ کیا گیا ہے وہ
’کاناف‘ہے جس کا ترجمہ،”انتہا“،”چوتھائی“،”سرحد“،”حد“یا حتیٰ کہ ”پہلو“ بھی ہو سکتا ہے۔حتیٰ کہ قدیم تہذیبیں جو یہ یقین رکھتی تھیں کہ دنیا چپٹی ہے،اُنہوں نے بھی یہ سوچا کہ یہ چپٹی گول تھی،جو چاروں حدوں یا کونوں سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی ہوگی۔قدیم تہذیبیں چار بنیادی سمتوں شمال،جنوب،مشرق،مغرب کو سمجھی تھیں،اِس لئے ہمیں فطری طور پر چار ’کاناف‘کا ترجمہ کونوں کرنا چاہئے۔ کتاب مقدس کے نقاد احمد دیدات نے یہ کہتے ہوئے اِس عام محاورے کواستعمال کیا:

”دنیا کے چاروں کونوں کے لئے۔“1

قرآن میں بھی ایسی آیات موجود ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ زمین چپٹی ہے:

”اورآسمان کی طرف کہ کیسا بلند کیا گیاہے اور پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح کھڑے کئے گئے ہیں اورزمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئی
(سورۃ الغاشیہ 18:88-20)

اِس آیت پر نامور مفسِّر الجلالین کی تفسیر میں لکھا ہے،

”جہاں تک کے اُس کے لفظ سُطِحتَ،’ہموار بچھا دیا‘ کا تعلق ہے اِس کی لغوی قرأت تجویز کرتی ہے کہ زمین چپٹی ہے جو شریعت کے زیادہ تر علمائے کرام کی رائے ہے نہ کہ گول جیسی کہ علم ِ نجوم والے کہتے ہیں …“2

اِسی طرح مصر کے علم ِ الہٰی کے ماہر امام سیوطی نے بھی یہ کہا کہ زمین چپٹی ہے۔

  1. In Who moved the Stone?

کیا حزقی ایل 23باب فحش ہے؟

حزقی ایل 23باب – ”کتاب مقدس میں ’فحاشی‘ اور دیگر غیرشائستہ باتیں موجود ہیں۔“

یہ حوالہ ایک استعارہ ہے جو اسرائیل اور سامریہ کی بت پرستی کا دو کسبیوں کے ساتھ موازنہ کرتا ہے جن کے نام اہولہ او راہولیبہ ہیں۔

اِس حوالہ کو ظاہر کرنے میں خُدا تعالیٰ کا مقصداِن سرد مہر اقوام کو ایک دھچکا پہنچانا ہے تاکہ وہ یہ احساس کریں کہ اُن کی بت پرستی کس حد تک
نفرت انگیز ہے۔اِس مقصد کی خاطر وہ جسم فروشی کا استعارہ استعمال کرتا ہے جو بدترین گناہوں میں سے ایک ہے۔قرآن بھی لوگوں کے عیب جوئی کے گناہ کا آدم خوری کے خوفناک گناہ کے ساتھ موازنہ کرتاہے جو قابل ِنفرت ہے (12:49)۔دونوں حوالوں کا مقصد بے حِس گنہگاروں کو اُن کے خوفناک گناہ سے باخبر کرنا ہے۔ایسی سخت زبان استعمال کرنے کی ضرورت تھی تاکہ نبی کا پیغام اُن کے دل ودماغ پر گہرا کام کرے۔

بت پرستی اور گناہ خُدا تعالیٰ اور ہمارے نزدیک ناپسندیدہ ہیں۔ اِس خُدا کا مقصد فحش باتیں کرنا نہیں بلکہ ایسے لوگوں پر خُدا تعالیٰ کی عدالت کا اعلان کرنا ہے۔حوالہ کے آخر میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اِس طرح کی زبان کیوں استعمال کی گئی ہے۔خُداتعالیٰ فرماتے ہیں: ”وہ تمہارے فسق وفجو رکا بدلہ تم کو دیں گے اور تم اپنے بتوں کے گناہوں کی سزا کا بوجھ اُٹھاؤ گے تاکہ تم جانو کہ خدواند خدا میَں ہی ہوں۔“
(حزقی ایل 49:23)۔

صحیح بخاری سے ہم سیکھتے ہیں کہ قرآ نی بیان ،”تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں تو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاؤ“
(سورۃ البقرۃ 223)کئی طرح کی جنسی حالتوں کے بارے میں ہے ( (صحیح بخاری 51.60.6)۔
حدیث میں وضاحت کے ساتھ چند جنسی واقعات بھی موجود ہیں،لیکن عبرانی صحائف کے برعکس اِن کا مقصد انبیا ئے کرام کی مثبت تصویر پیش کرنا ہے:

ابو ہریرہ سے روایت ہے:اللہ تعالیٰ کے رسول نے فرمایا،”(پیغمبر)حضرت سلیمان نے فرمایا،”آج رات میَں نوے عورتوں کے ساتھ
سوؤں گا،ہر عورت سے ایک لڑکا پیدا ہو گا جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑے گا۔“اِس پر اُن کے ساتھی (سفیان نے کہا کہ اُس کا ساتھی ایک فرشتہ ہے)نے اُن سے کہا،”کہو،”اگر اللہ چاہے (انشااللہ)۔“لیکن حضرت سلیمان (یہ کہنا)بھول گئے۔وہ اپنی تمام بیویوں کے ساتھ سوئے،
لیکن عورتوں میں سے کسی نے بھی بچے کو جنم نہ دیا ماسوائے ایک کے جس نے آدھے بچے کو جنم دیا۔ابو ہریرہ مزید فرماتے ہیں:نبی کریم نے فرمایا،”اگر حضر ت سلیمان نے کہا ہوتا،”اگر اللہ چاہے“(انشا ءَ اللہ)،تو وہ اپنے عمل میں ناکام نہ ہوئے ہوتے اور وہ کچھ حاصل کر لیتے جس کی اُنہوں نے خواہش کی تھی۔“ایک مرتبہ ابو ہریرہ نے فرمایا:رسول اللہ نے فرمایا،”اگر اُنہوں نے قبول کیا ہوتا۔“(صحیح بخاری 711.8)

قرآن اور حدیث کے اِن حصوں کو ناقص مواد نہیں سمجھنا چاہئے اور نہ ہی عبرانی صحائف کے ساتھ ایسا کرنا چاہئے۔یہ طعن آمیز ہے کہ نقاد کتاب مقدس پر فحش مواد رکھنے کا الزام لگائیں،جب پوری تاریخ کے دوران معاشرے میں فحاشی کی مخالفت کرتے ہوئے یہ حیا اور جنسی پاکیزگی کی زبردست قوت رہ چکی ہے۔مثلاً مشرق ِ وسطیٰ میں محمد ؐکے زمانے سے صدیوں پہلے مسیح کے پیروکار حجاب استعمال کرتے تھے جو آج بھی مشرق ِ وسطیٰ میں مسیحی استعمال کرتے ہیں۔

یہ یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ عبرانی میں جنسی اصطلاحات کے تراجم اکثربہت حد تک گمراہ کن ہیں۔عبرانی صحائف جنسی معاملات پر بات چیت کرنے میں شدید حد تک بالواسطہ بات کرتے ہیں۔ اِس لئے مثال کے طورپر آیت 20میں جس لفظ کا ترجمہ اکثر ”عضو تناسل“ کیا گیا ہے وہ سادہ طور پر لفظ ”بدن“ (عبرانی،بسر)ہے۔جو کچھ نقاد کہتے ہیں اُس کے برعکس،جنتا ممکن ہو سکتا ہے عبرانی صحائف ہوش مندی سے کام لیتے ہیں۔

صُور کی تباہی

حزقی ایل 26 – ”اِس میں لکھا ہے کہ نبوکد نضر صور کو تباہ کرے گا،لیکن سکند ر ِ اعظم وہ شخص ہے جس نے صور کو تباہ کیا۔“

نبوت میں یہ کہیں نہیں لکھا ہوا کہ نبوکدنضر مکمل طو ر پر یہ کرے گا بلکہ یہاں اِس کے برعکس لکھا ہوا ہے۔نبوت کا آغاز اِس پیش گوئی سے ہوتا ہے کہ خدا صور کو تباہ کرنے کے لئے”بہت سی قوموں کو اُن پر چڑھا لائے گا“جو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ بعد ازاں ایک سے زیادہ قوموں کے ذریعے نبوت کو پورا کرے گا۔اگر اکیلے نبوکد نضر نے ہی صور کو تباہ کیا ہوتا تو پھر یہ نبوت جھوٹی ثابت ہوئی ہوتی۔

صور کے قدیم شہر کے دراصل دو حصے تھے،ایک حصہ مرکزی سرزمین پر قیام پذیر تھا اور دوسرا سمندر سے تقریبا ً ایک میل کے فاصلے پر ایک جزیرے میں ایک قلعہ تھا۔نبوکدنضر نے صور پر حملہ کیا اور مرکزی سرزمین کو تباہ کر دیا جو واضح طور پر آیات 7-11کو پورا کرتی ہے۔حزقی ایل بہت اچھی طرح جانتا تھا کہ نبوکدنضر پورے شہر کو برباد نہیں کرے گا جسے وہ خود 18:29میں درج کرتا ہے۔حزقی ایل کو بھروسا تھا کہ نبوت کا باقی حصہ اُس کی موت کے بعد دوسری ’دیگر قوموں‘کے ذریعے پورا ہو گا۔

جب ہم سکندر اعظم کے صور پر حملے کے تاریخی واقعے کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ حزقی ایل کی نبوت معجزانہ طورپر پوری ہوئی۔

قومیں یہ سوچتی تھیں کہ صور ناقابل ِ تسخیر ہے اور کوئی بھی یہ یقین نہیں کرتا ہو گا کہ یہ مکمل طورپر تباہ ہو سکتا تھا۔حزقی ایل غیر معمولی نبوت کرتا ہے کہ شہرکا پتھر پر پتھر باقی نہ رہے گا لیکن پتھر اور مٹی بھی صاف کر دی جائے گی۔ہم پڑھتے ہیں کہ اسکندر اعظم نے صور سے باہر نکلنے کے راستے پر ایک زبردست محاصر ہ تعمیر کیا جس کے لئے اُس نے صور کے ہرہٹائے جانے کے قابل پتھر روڑے کواِس کی تعمیر میں استعمال کیا۔
کیا زبردست نبوت ہے!…

چپٹی زمین

دانی ایل 10:4-11 – ”یہ آیت سکھاتی ہے کہ زمین چپٹی ہے کیونکہ ایک درخت کُروی زمین کے تمام حصوں میں نظر نہیں آسکتا۔“

نقاد مکمل طور پر اِس حقیقت کو نظر اندازکرتے (یا چھپاتے) ہیں کہ یہ حوالہ محض اِس بات کو بیان کرتا ہے کہ کس طرح ایک بت پرست بادشاہ نے اُلجھاؤ میں ڈالنے والے خواب کو جو اُس نے دیکھا تھا بیان کرنے کی کوشش کی جو اُس نے دیکھا تھا۔شاید نبوکدنضر بادشاہ نے یہ سوچا ہو کہ زمین چپٹی ہے۔جیسے کہ اکثر خوابوں میں ہوتا ہے،شاید اُس کے خوابوں نے طبعی حقائق کو مروڑ دیا یا اُس نے اپنی وضاحت میں اُس خواب کو غلط طریقے سے سمجھا۔تاہم اِس بادشاہ کی خواب کو بیان کرنے کی خطا پذیر کوشش کو درست بیان کرنے پر صحائف کو مورد ِ الزام نہیں ٹھہرناچاہئے۔

کتاب مقدس کو غلط ثابت کرنے کے لئے بت پرست بادشاہوں کے خوابوں کی طرف رجوع کرنا نقاد کی بے باکی کو ظاہر کرتا ہے۔کوئی بھی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ قرآن یہ سکھاتا ہے کہ ”عزرا اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہے“کیونکہ یہ واضح طور پر یہودیوں کے دئیے گئے بیان کا ذِکر کرتاہے (توبہ30:9)۔

قرآن میں بھی ایسی آیات ملتی ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ زمین چپٹی ہے:

”اورآسمان کی طرف کہ کیسا بلند کیا گیاہے اور پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح کھڑے کئے گئے ہیں اورزمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئی
(سورۃ الغاشیہ 18:88-20)

اِس آیت پر نامور مفسِّر الجلالین کی تفسیر میں لکھا ہے،

جہاں تک کہ اُس کے لفظ سُطِحتَ ہموار بچھا دیا‘کا تعلق ہے اِس کی لغوی قرأت تجویز کرتی ہے کہ زمین چپٹی ہے جو شریعت کے زیادہ تر علمائے کرام کی رائے ہے نہ کہ گول جیسی کہ علم ِ نجوم والے کہتے ہیں …“1

اِسی طرح مصر کے علم ِ الہٰی کے ماہر امام سیوطی نے بھی یہ کہا کہ زمین چپٹی ہے۔

  1. Available online from http://altafsir.com

یعقوب یا عیلی؟

متی 16:1 – ”یعقوب(متی 16:1)یا عیلی (لوقا23:3)کون یوسف کا باپ اور حضرت مریم کا شوہر تھا؟“

متی مسیح کے نسب نامے کو اُس کے قانونی باپ یوسف سے شروع کر کے حضرت داؤدکے بیٹے حضرت سلیمان تک لے جاتا ہے جبکہ لوقا نسب نامے کو اُن کی حیاتاتی ماں حضرت مریم سے لے کر حضرت داؤد کے بیٹے ناتن تک لے جاتا ہے۔دونوں نسب ناموں کے اِرد گرد کے متن پر نظر کرتے ہوئے پتاچلتاہے کہ متی یوسف کے پس منظر پر دھیان دیتا ہے جب کہ لوقا کنواری سے پیدایش کے واقعے کو پوری طرح مقدسہ مریم کے نقطہء نظر سے بتاتا ہے۔ایک منطقی سوال پھر یہ اُبھرتا ہے،’لوقاکے نسب نامے میں یوسف کوعیلی کا بیٹا کہا گیا ہے نہ کہ مقدسہ مریم کو؟‘ اِس بات کے لئے چار شہادتیں موجود ہیں:

لوقا صرف مردوں کے ذِکر کرنے کی عبرانی روایت کی سختی سے پیروی کرتا ہے؛ایک کنواری سے پیدایش کسی نہ کسی طرح ایک بد وضع حالت
ہے!…

پاک کرنے کے لئے خون؟

احبار49:14-53 – ”پاک کرنے کے لئے خون استعمال کرنا غیر سائنسی ہے۔“

کوئی بھی شخص درج ذیل بات کے پیچھے سائنسی منطق پوچھ سکتا ہے:

”نبی کریم نے فرمایا،”اگر مکھی آپ میں سے کسی شخص کے مشروب میں گِر جائے تو وہ اُسے (مشروب میں)ڈبوئے،کیونکہ اُس کے پروں میں سے ایک میں بیماری ہے اور دوسرے میں سے اُس بیماری کا علاج موجود ہے۔“(صحیح البخاری:جلد نمبر 4،کتاب 54,، نمبر537)

”مدینہ کی آب و ہوا کچھ لوگوں کو موافق نہیں ہے اِس لئے نبی کریم ؐ نے دوا کے طور پر اُونٹ کا پیشاب پینے کا حکم دیا۔“(صحیح البخاری:
جلد نمبر7،کتاب71، نمبر590)۔

َمیَں نے رسول اللہ کو کہتے ہوئے سنا،”کالے دانے (کلونجی)میں موت کے سوا تمام بیماریوں کی شفا موجود ہے۔“(صحیح البخاری:جلد نمبر7،کتاب
71، نمبر 592)

نقاد مکمل طور پر اِس بات کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ احبار 49:14-53طہارت کی رسم ہے جو صرف اُس وقت ادا کی جاتی تھی جب ایک گھر کے صاف ہونے کا اعلان کر دیا جاتا تھا۔سابقہ آیت (آیت 48)یہ بیان کرتی ہے کہ کس طرح اگر گھر کی استرکاری کے بعد وہ بیماری نہیں پھیلی،تو پھر وہ بیماری دُور ہو گئی ہے جو سائنسی اعتبار سے بھی ٹھیک ہے۔اگلی چند آیات رسمی ”کفارے“(آیت 52)یا طہارت کو بیان کرتی ہیں جس کا مقصداسرائیلیوں کو اُس گہری سچائی کی یاد دلانا تھا کہ موت کامل طور پر صرف قربانی سے ہی ٹل سکتی ہے۔احبار کے تمام رسمی قوانین
کا مقصد ہر شخص کا تعلق اِس مذہبی سچائی کے ساتھ مربوط کرنا تھا کہ گناہ کا کفارہ ادا کرنے اور موت کو ختم کرنے کے لئے خون کا بہایا جانا ضروری ہے۔یہی نظریہ ہمیں عقیقہ میں بھی ملتاہے جہاں یہ کہتے ہوئے بکرے کو قربان کیا جاتا ہے،

اَللَّهُمَّ هَذِهَ اْقِيِقِةِ اْبِنْى(فُلاَنٍ ) دَمُهَا بِدَمِ ه وَاَحْمُهَا بِلَحْمِ ه وَعِظَمُهَا بِغِظَمِه وَجِلْدُهَا بِجِلْدِ ه وَ ثَعْرُهَا بِثَعْرِه اَالَّهُمَّ اجْعَلْهَا فِدَاًء لاِبْنِىْ مِنَ النَّارِ بسْمِ اللَّهِ اللَّهُ ا كْبَرُ

اے اللہ!یہ

زناکاری کی کڑی آزمائش

گنتی 11:5-31 – کیا یہ زناکاری کی کڑی آزمائش کڑوا پانی غیر سائنسی نہیں؟“

جدید اور سائنسی لوگوں کو یہ آزمائش بہت عجیب معلوم ہوتی ہے۔تاہم،وہ جو خُدا تعالیٰ کی قوت کو جانتے ہیں اور وہ یہ جانتے ہیں کہ وہ معجزات کرنے کے قابل ہے،اُن کے لئے اِس اقتباس میں کوئی مشکلات نہیں ہیں۔

دراصل جب زناکاری کے الزامات کے ساتھ نمٹنے کے لئے دوسرے طریقوں کا موازنہ کیا جا تا ہے،تو یہ عمل خُدا تعالیٰ کے رحم کو ظاہر کرتا ہے۔جبکہ یہاں پیش کئے گئے اعمال بہت شدیدمعلوم ہوتے ہیں اور اُس عورت کے لئے بہت سخت ہو ں گے جس پر ایک ناراض شوہر کا زناکاری کا لگایا ہوا الزام تھا اور اُس کے جرم یا معصومیت کی کوئی گنجائش نہیں تھی جس کا اظہار کیا جاتا۔ وہ کاہن کے پاس لے جائی گئی
(آیت 15)جو بالآخر ایک رحم کا عمل ہے،کیونکہ قانون اِس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ شوہرجب اُسے بے وفائی کا شک ہوتو اپنی مرضی سے اپنی بیوی کو پیٹے۔ پورے ایشیا اور مشرق ِ وسطیٰ میں عورتیں محض دوسرے مردسے ناشائستہ تعلق کے شک میں بغیر کسی جانچ پرکھ کے عزت کی خاطر اکثر ماری جاتی ہیں۔

اگلی آیات (آیات 25,21,16) میں خُدا تعالیٰ کے کردار پر باربار یہ دکھانے کے لئے زور دیا گیاہے کہ یہ عمل نہ تو محض جادو کا ایک ہتھیار تھا اور نہ ہی محض دباؤ ڈالنے کا ایک نفسیاتی آلہ تھا۔یہ خدا کا کام تھا۔

ایسی بہت سی احادیث ہیں جو جادو ئی غیر سائنسی توہمات کی حوصلہ افزائی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔بخاری فرماتے ہیں کہ نبی کریم پر بالوں اور زرگُل سے جادو کیا گیا تھا (جلد 4،کتاب54،نمبر 490)۔صحیح مسلم 5254.26کے مطابق،نبی کریم نے کہا،”تم میں سے جوعلاج کے لئے خاص الفاظ پڑھ کر اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے تو وہ ایسا کرے۔“صحیح بخاری کے مطابق،کسی شخص کو بھی بُرے خواب کے بعد اپنے آپ کو اِس کی بُرائی سے بچانے کے لئے اپنی بائیں جانب تھوکنا چاہئے۔1 حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اللہ کے پیغمبر نے مجھے حکم دیا کہ مجھے بُری نظر سے بچنے کے لئے خاص الفاظ کا استعمال کرنا چاہئے۔“2 نبی کریم نے ایک بچے کو روتے ہوئے دیکھا اور تجویز کیا کہ اُسے بُری نظر سے بچانے کے لئے کسی تعویذکرنے والے کو تلاش کریں۔ 3

  1. Sahih Bukhari 9.87.124
  2. Sahih Muslim, 26.5448, 26.5447.

سورج ٹھہر جاناہے؟

یشوع 13-12:10 – ”یہ کس طرح ممکن ہے کہ سورج کائنات میں بڑی توڑ پھوڑ کے بغیر ساکن ٹھہرا رہے؟“

یہ بہت دلچسپ بات ہے کہ کچھ مسلمان نقاداِس اقتباس پر اعتراض کریں گے لیکن صحیح بخاری اور صحیح مسلم تصدیق کرتے ہیں کہ حضور اکرم بھی بالکل اِسی کہانی پر یقین رکھتے تھے:

رسول اللہ نے فرمایا:”انبیائے کرام میں سے ایک نے جہادکیا۔“… وہ (اللہ کا نبی)آگے بڑھے اور تقریباً عصر(شام)کی نماز کے وقت ایک گاؤں میں پہنچے۔اُنہوں نے سورج سے فرمایا:”تم اللہ تعالیٰ کے تابع ِ فرمان ہو او راِسی طرح میَں بھی ہوں۔اے اللہ!اِسے

یروشلیم پر قبضہ ہوا یا نہیں؟

یشوع 40,23:10—"یہ آیت کہتی ہے کہ یشوع اور اسرائیلیوں نے یروشلیم پر قبضہ کیا تھا لیکن یشوع 63:15کہتی ہے کہ اُنہوں نے قبضہ نہیں کیا۔"

اُنہوں نے یروشلیم پر قبضہ نہیں کیا تھا۔دسویں باب میں یروشلیم کے بادشاہ نے جبعون پر حملہ کرنے کے لئے ایک فوج کی قیادت کی جہاں اُسے یشوع کی فوجوں نے ہلاک کر دیا۔یشوع نے ساری سرزمین اور جبعون کو بھی تباہ کر دیاجس میں یروشلیم شامل نہیں ہے۔بعد میں پندرہ باب میں ہم دیکھتے ہیں کہ یبوسی جن کا کوئی بادشاہ نہ تھا اُنہیں شہر سے باہر نکالا نہ جا سکا اِس لئے اسرائیلیوں نے اُن کے ساتھ ایک جنگی معاہدہ کیا اور اُن کے ساتھ رہنے لگے۔

عہد کے صندوق کو کب منتقل کیا گیا؟

2 -سموئیل 6,5 – “کیا حضرت داؤد فلستیوں کو شکست دینے کے بعد(2 – سموئیل 6,5)یا پہلے (1 – تواریخ 13اور14ابواب) عہد کا صندوق یروشلیم لے کر آئے تھے؟”

حقیقت میں یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ اگر ہم 1 -تواریخ کے پندرھویں باب تک مطالعہ کرتے جائیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ حضرت داؤد فلستیوں کو شکست دینے کے بعد عہد کا صندوق لے کر آئے۔اِس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیلیوں نے دو مرتبہ عہد کے صندوق کو اُس کی جگہ سے ہلایا جیسے کہ ہم 2 -سموئیل 5اور6ابواب اور 1 -تواریخ 15باب میں دیکھتے ہیں،پہلی مرتبہ اُنہوں نے فلستیوں کی شکست سے پہلے اِسے بعلہ کے مقام سے منتقل کیا۔ایک مرتبہ سموئیل نبی فلستیوں پر حضرت داؤد کی فتح کو بیان کرتے ہیں اور وہ اُن دونوں اوقات کے بارے میں بتاتے ہیں جب عہد کا صندوق منتقل کیا گیا۔تاہم 1 -تواریخ میں ترتیب درج ذیل ہے:عہد کے صندوق کو پہلے بعلہ سے منتقل کیا گیا؛پھر حضرت داؤد نے فلستیوں کو شکست دی اور آخر میں عہد کا صندوق عوبید ادوم کے گھر سے منتقل کر دیا گیا۔

اِس لئے دونوں بیانات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ ایک حوالہ محض ایک اقتباس ہے جو ہمیں فوراً ہی (بعد میں کوئی اَور حوالہ دینے کے بجائے) عہد کے صندوق کی مکمل تاریخ پیش کر رہا ہے جب کہ دوسرا اقتباس ہمیں فرق طریقے سے تاریخ پیش کر رہا ہے۔ دونوں میں واقعات کے زمانے ایک جیسے ہیں۔

حتیٰ کہ قرآن میں زیادہ پریشان کرنے والی تواریخی ترتیب دیکھی جاسکتی ہے۔سورۃ البقرہ میں ہمیں حضرت آدم کے گُناہ میں گرنے سے متعارف کروایا جاتا ہے اور پھر اسرائیلیوں پر اللہ تعالیٰ کا رحم دکھایا جاتا ہے اور پھر اُس کے بعد فرعون کا ڈوبنا،جس کے بعد حضرت موسیٰ اور سونے کا بچھڑا، اِس کے بعد اسرائیلیوں کی خوراک او رپانی کے بارے میں شکایت،او رپھر ہمیں دوبارہ سونے کے بچھڑے کے واقعے سے متعارف کروایا جاتا ہے اور اِس کے بعد ہم حضرت موسیٰ او رحضرت عیسیٰ کے بارے میں پڑھتے ہیں اور پھر ہم حضرت موسیٰ اور پھر سونے کا بچھڑا اور پھر حضر ت سلیمان او رحضرت ابراہیم کے بارے میں پڑھتے ہیں۔