کیا کتا ب مقدس کے مُستند ہونے کے کافی ثبوت موجود ہیں؟

کیا کتاب مقدس کے مُستند ہونے کے کافی ثبوت موجود ہیں؟

1۔ مسوّدوں کا ریکارڈ

لاطینی یا یونانی قدیم ترین ادب میں سے کسی سے بھی کہیں زیادہ کتاب مقدس کے مُستند ہونے کے شاندار اور قلمی نسخوں کے ثبوت موجود ہیں۔ انتہائی قدیم اور شروع کے قلمی نسخے موجود ہیں۔اوسطاً کسی بھی ادبی مصنف کے کام کے قلمی نسخوں کی نسبت انجیل شریف(نئے عہد نامے) کے ایک ہزار سے زیادہ قلمی نسخے موجود ہیں۔دوسرے الفاظ میں،اگر ہم انجیل شریف(نئے عہد نامے)کے مُستند ہونے سے انکار کرتے ہیں تو پھر ہمیں کہیں زیادہ مضبوطی سے قدیم تہذیب کے تاریخی ریکارڈ کا انکار کرنا چاہئے۔آج بھی یونانی میں لکھے گئے نئے عہد نامے کے پانچ ہزار سات سو قلمی نسخے موجود ہیں۔

اب تک موجود ادبی تصانیف کا موازنہ

تصنیف ابتدائی قلمی نسخوں کے درمیان کا وقت موجودقلمی نسخوں کی تعداد
افلاطون 1300 سال 7
ہومر کا ایلیڈ 400 سال 643
قیصر کی گیلک جنگیں 1000 سال 10
لیوی کی روم کی سوانح عمر ی 400 سال 27
ٹیکٹس انالز 1000 سال 20
تھوسی ڈائڈز کی تاریخ 1300 سال 8
ہیرودوتس کی تاریخ 1350 سال 8
انجیل شریف 50 سال 5700

5700 کا اشارہ صرف یونانی زبان میں لکھے گئے اصلی مسودوں کی طرف ہے جب کہ نئے عہد نامے کے سُریانی،قبطی،لاطینی،آرمینی،
جارجین اور گوتھک زبانوں میں 20,000سے لے کر 25,000ابتدائی تراجم کے قدیم قلمی نسخے موجود ہیں۔حضرت محمد کے زمانے سے سینکڑوں سال پہلے نئے عہد نامے کے تین بنیادی یونانی قلمی نسخے موجود ہیں:

کوڈیکس الیگزنڈرینس: یہ متن لندن کے برٹش میوزیم میں محفوظ ہے جو پانچویں صدی عیسوی میں ہاتھ سے لکھا گیا تھا اور چند صفحات کے علاوہ تمام کتاب مقدس موجود ہے۔

Codex Alexandrinus

Codex Alexandrinus

کوڈیکس سینا ٹیکس: یہ مسودہ بھی برٹش میوزیم میں نمائش کے لئے رکھا گیا ہے جس کی تاریخ چوتھی صدی عیسوی کے اواخر کی ہے اور جو پوری انجیل شریف (نیا عہد نامہ)پر مشتمل ہے۔

Codex Sinaiticus

Codex Sinaiticus

کوڈیکس ویٹیکینس: یہ جلدروم میں ویٹکین لائبریری میں محفوظ ہے جو چوتھی صدی عیسوی میں ہاتھ سے لکھا گیا۔

Codex Vaticanus

Codex Vaticanus

یہ دو مختلف اقسام کے متن سے مل کر بنے ہیں (اِس کا مطلب ہے کہ جلدوں کے مختلف خاندانوں سے جن کا حقیقی ماخذ ایک ہی ہے)پھر بھی مجموعی طور پر وہ ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں۔

اِن مکمل جلدوں کے علاوہ انجیل شریف کے بہت سے حصے ہیں جو انجیل شریف کی کتب کے لکھے جانے کے 60-40سالوں بعد منظر عام پر آئے۔مثلاًپیائرس صفحہ نمبر 52تقریباً 135عیسوی کا لکھا ہوا مقدس یوحنا رسول کی انجیل کے 18ویں باب کا ایک ٹکڑا ہے۔یہ قلمی نسخہ دریائے نیل کے ساحلی کنارے سے دریافت ہوا جو یہ ثبوت فراہم کرتا ہے کہ مقدس یوحنا کی انجیل افسس کے مقام سے جہاں یہ مرتب ہوئی بہت دوردراز کے علاقے میں پائی جاتی تھی۔جہاں ایک اوسط ادبی مصنف کا پہلے پانچ سو سالوں کا کوئی قلمی نسخہ موجود نہیں ہے وہاں نئے عہد نامے کی تکمیل کے پہلے 100سال سے 10سے15 نسخے اور ابتدائی تین سو سالوں کے 99قلمی نسخے موجود ہیں۔3

2.کاتب

جعلی اناجیل

”ایسی بہت سے ابتدائی اناجیل اور خطوط تھے جو نئے عہد نامے میں شامل نہیں کئے گئے کیونکہ وہ حضرت عیسیٰ المسیح کے متعلق ایک مختلف کہانی بیان کرتے تھے جیسے کہ تھامس کی انجیل،ایبیونائٹ کی انجیل،عبرانیوں کی انجیل اورمصریوں کی کاپٹک انجیل۔

چند ایسی اناجیل بھی ہیں جو متی،مرقس،لوقا او ریوحنا کے بعد مرتب ہوئیں مگر ابتدائی مسیحی جماعت نے اُنہیں رد کر دیا۔ابتدائی کلیسیا نے یہ
جعلی اناجیل رد کردیں،بالکل اُنہی وجوہات کی بنِا پر جن پر آج کوئی بھی مسلمان کرے گا:

یہ اناجیل تقریباً اُس مذہبی تحریک نے لکھی تھیں جنہیں غناسطیت کہا جاتا تھااور جس کی مخالفت ابتدائی رسولوں نے بھی کی تھی۔غناسطیت
مسیحیت سے پہلے بھی موجود تھی اور بے شک یہ ایک الگ تحریک تھی اگر چہ اُنہوں نے حضرت عیسیٰ کو غناسطیت کے ایک اُستاد کے طور پر
دوبارہ اختراع دینے کی کوشش کی۔بنیادی طور پر غناسطیت کی یہ تعلیم ہے کہ خدا نے دنیا کو خلق نہیں کیا مگر ایک نامکمل بدی نے دنیا کو خلق کیا ہے۔وہ ثنویت تعلیم رکھتے تھے،مطلب ہے کہ وہ یہ یقین رکھتے تھے کہ ساری طبعی دنیا بدی ہے۔وہ یہ تعلیم دیتے تھے کہ حضرت عیسیٰ کا کوئی جسمانی رُوپ نہیں تھا جس کی وجہ سے اُن میں سے چند نے یہ فیصلہ کیا کہ پھر حضرت عیسیٰ کی طبعی موت بھی نہیں ہو سکتی تھی۔وہ عبادت گزار تھے اور اکثر سبزیاں کھایا کرتے تھے اورکچھ جنسی طریقے سے عبادت کیا کرتے تھے۔پولُس رسول کے اعمال،تھامس کی انجیل اور مصریوں کی انجیل جیسے کتابوں کی یہ تعلیم تھی کہ شادی کے باوجود جنسی تعلقات ایک غلط بات تھی۔وہ اِس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ نجات ایمان یا راست بازی سے حاصل نہیں ہو سکتی بلکہ ایک خاص خفیہ علم کے ذریعے حاصل ہو سکتی تھی جیسے کہ آج کل چند ہندو گروہوں میں بھی یہی تعلیم پائی جاتی ہے۔رسولوں کے خلاف اپنے خیالات کی حمایت کے لئے،وہ حضرت عیسیٰ کی بہت سے واقعات کو دوبارہ گھڑ لیتے تھے۔مثلا ً یہوداہ کی انجیل یہ تعلیم دیتی ہے کہ حضرت عیسیٰ نے یہوداہ سے کہا کہ وہ اُسے دھوکا دے کر صلیب دلوائے جس سے اُس کی روح اِس انسانی جسم کی قید سے رہائی پا سکتی تھی۔یہ خیالات تھامس کی انجیل،مریم کی انجیل،یہوداہ کی انجیل اورمصریوں کی کاپٹک انجیل میں بھی سرایت کر گئے ہیں۔

ماسوائے عبرانیوں کی انجیل کے کیونکہ اُس میں غناسطی تعلیم موجود نہ تھی۔علما یقین رکھتے ہیں کہ یہ متی کی انجیل کی بعد کی تزئین و آرائش ہے
جو بڑے محتاط انداز میں وضاحتیں دیتی ہے جیسے کہ دعائے ربانی میں ”روز کی روٹی“ کی جگہ ”کل کی روٹی“ کو بدل دینا۔تزئین و آرائش عموماً
اِس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ متن اصلی نہیں ہے کیونکہ یہ ویسا نہیں ہے جیسے کہ بعد کا ترجمہ متن کو زیادہ غیر واضح بنا دے گا۔چوتھی صدی کا
کتاب مقدس کے عالم جیروم نے اِس متن میں بہت دلچسپی لی جسے وہ محض متی کی انجیل کا عبرانی ترجمہ سمجھتا تھا۔وہ لکھتا ہے:

”وہ انجیل جو ناضرین اور ا یبیونائٹس استعمال کرتے ہیں جسے ہم نے حال ہی میں عبرانی سے یونانی میں ترجمہ کیا ہے اور جسے زیادہ تر لوگ
مُستند متی کی انجیل سمجھتے ہیں …“

جیروم کے مطابق اِس میں متی کی انجیل سے متن میں صرف چند معمولی اختلافات تھے۔اِس متن میں سے چند اختلافات میں سے ایک بدعتی ہے،کیونکہ یہ روح القدس کو حضر ت عیسیٰ کی ماں سمجھتا ہے(خدا معاف کرے!)۔جیروم…

قرآن مجید او رکتاب مقدس کی تاریخ مقرر کرنا

”مسیحی صحائف حضرت عیسیٰ کے ایک صدی بعد مرتب ہوئے،جب قرآن کے حوالے سے ایسا نہیں ہے وہ حضر ت محمدؐ کی زندگی میں لکھا گیا۔“

دراصل قرآن مجید اور کتاب مقدس کی ترسیل کسی حد تک ملتی جلتی تاریخ ہے جیسا کہ ہم دیکھیں گے۔جیسے کہ بہت سے لوگ اِس بات پر یقین رکھتے ہیں،اِن میں سے کوئی بھی کتاب کی شکل میں براہ ِراست آسمان سے نازل نہیں کی گئی،بلکہ دونوں صحائف کی زبانی مرحلے سے لے کر آج تک کے اصلی نسخوں کے مرحلے تک مرحلہ وار ترقی کرنے کی تاریخ موجود ہے جو جزوی نسخوں کے ثبوت سے لے کر موجود مکمل تحریری مجموعوں پر مشتمل ہے جو دیئے جانے کے سو سال بعد سے تعلق رکھتے ہیں۔

1.

انجیل شریف اور قرآن کے نسخوں میں اختلافات

”کتاب مقدس کے ابتدائی نسخوں میں اختلافات ہیں،جبکہ قرآن کے تمام ابتدائی نسخے مماثل ہیں۔“

یہ ایک آسان نظریہ ہے لیکن یہ سب خیالی ہے اورجیسے کہ ہم درج ذیل باتوں میں دیکھیں گے یہ تاریخی اور متنی اندراج کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا۔

توریت شریف،زبور شریف،انجیل شریف
اور قرآن میں نقل نویسی کی معمولی اغلاط اور اختلافات

ہم سب اِس بات سے متفق ہیں کہ خدا کا کلام تبدیل نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ کتاب مقدس او رقرآن دونوں کی واضح گواہی ہے۔لیکن جب ہم کسی نسخے میں اختلاف دیکھتے ہیں تو کیا یہ بات اُس صحیفہ کو ردّ کرتی ہے؟یقینا نہیں،کیونکہ قرآن اور کتاب مقدس دونوں میں ایسی سینکڑوں نقل نویسی کی اغلاط موجود ہیں۔ پچھلے ہی ماہ میں اپنے اسلامی فاؤنڈیشن بنگالی قرآن میں یہ پڑھ کر حیران رہ تھا کہ ”ایمان دار او رراست باز اپنے لئے ”جہنم“ کمائیں گے“(”دوزخ“جو جنت،آسمان کی جگہ چھپ گیا)!…

کیا یرمیاہ 8:8بیان کرتاہے کہ توریت شریف تبدیل ہو گئی تھی؟

یرمیاہ 8:8 – ”یہ حوالہ ثابت کرتا ہے کہ توریت شریف بگڑ چکی ہے۔“

”تم کیوں کر کہتے ہو کہ ہم تو دانش مند ہیں اور خدا وند کی شریعت ہمارے پاس ہے؟لیکن دیکھ لکھنے والوں کے باطل قلم نے بطالت پیدا کی ہے۔“(یرمیاہ 8:8)

وہ لوگ جو یرمیاہ کے مرکزی خیال سے واقف ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ آیت صحائف کی جھوٹی تشریح (تفسیر)کی تعلیم کی بات کر رہی ہے نہ کہ متن کی تبدیلی کی۔یہ بات واضح ہے کہ یرمیاہ نے خُدا تعالیٰ کی شریعت کی پائداری پر شک نہیں کیا،کیونکہ وہ باربار اسرائیل کو شریعت کی پیروی کی تلقین کرتاہے کہ جو خُدا تعالیٰ نے ”تمہارے سامنے رکھی“(یرمیاہ 4:26)۔یہ بات اُس کے لئے تضاد کا باعث ہو گی کہ وہ لوگوں کو ایسی شریعت کی فرمانبرداری کرنے کا کہے جو تبدیل ہو چکی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ یہ آیت یہ تعلیم نہیں دے سکتی کہ توریت شریف تبدیل ہو چکی ہے۔یرمیاہ کے دنوں میں، اسرائیلیوں نے سوچا کہ خُدا اُن کی بت پرستی کو نظر انداز کرے گا اور کبھی سزا نہ دے گا۔یہود ی فقیہوں، کاہنوں اور نبیوں نے گناہ آلودہ اسرائیل کو توریت شریف کے ایسے حصے نہ پہنچاکر جن میں نافرمانی کرنے پر عدالت کرنے کی پیشین گوئی کی گئی تھی، شَہہ دی اور توریت شریف کے صرف ایسے حصے پہنچائے جن میں سلامتی کی پیشین گوئی کی گئی تھی۔یرمیاہ کا اُن کے لئے خُداتعالیٰ کی طرف سے مجموعی پیغام یہ تھا،”تم سب نافرمانی کے سبب ہلاک ہونے والے ہو،جیسے کہ شریعت واضح طور پر کہتی ہے مگر فقیہ ایسے نہیں کہہ رہے۔“جلد ہی یرمیاہ سچا ثابت ہوا کیونکہ فوراً اسرائیل بابلیوں کے ہاتھوں برباد ہو گیا۔

جب ہم اُس کے بعد کا متن دیکھتے ہیں تویہ واضح ہو جاتا ہے کہ یرمیاہ یہاں کیا کہہ رہا ہے۔یرمیاہ فقیہوں (دینی اُستادوں) کی ملامت کررہاتھا جو توریت شریف کی ایسی آیات کو بالکل نہیں پہنچاتے تھے جو واضح طور پر نافرمانی کی عدالت کی پیش گوئی کرتی ہیں، اور چھانٹ چھانٹ کر توریت شریف میں سے ایسی آیات پہنچا رہے تھے جو (فرماں برداری کی اوّلین شرط کو نظر انداز کرتے ہوئے)تسلی اور امن کی پیشین گوئی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ شریعت کے بالکل برعکس اپنی تقریروں،تبصروں اور تحریروں میں یہ فقیہ پیشین گوئی کر رہے تھے۔

اگر یرمیاہ یہ کہہ رہا تھا کہ فقیہ نے دراصل متن تبدیل کیا تو اِس کا مطلب یہ ہو گا کہ اُنہوں نے نافرمانی کے حوالے سے عدالت کی واضح تنبیہ مٹاڈالیں۔لیکن ہم اب بھی یہ تنبیہ استثنا15:28-68کے متن میں پاتے ہیں۔صاف ظاہر ہے کہ یہ آیت مقدس کلام کے متن کے بگاڑ کے بارے میں بات نہیں کر رہی اور نہ صرف کتاب مقدس بلکہ قرآن بھی یہی تعلیم دیتا ہے کہ اللہ کا کلام تبدیل نہیں ہو سکتا۔,

یرمیاہ کی طرح حضرت مسیح بھی توریت کی شریعت کو نظرا نداز کرنے اور اِس کے بجائے تالمود کی تعلیم دینے کی وجہ سے یہودی فقیہوں کے
مخالف تھے۔آپ نے واضح طور پر کہا،
”میَں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ ایک شوشہ توریت سے ہر گز نہ ٹلے گاجب تک سب کچھ پورا نہ
ہو جائے۔“(متی 18:5)

اِس سے زیادہ واضح بات نہیں کی جاسکتی۔اَور بھی بہت سی آیات ہیں جو اِسی بات کی تعلیم دیتی ہیں:زبور89:119؛امثال5:30؛
یسعیاہ 8:40؛1 -پطرس23:1؛1 -پطرس25:1؛2 – پطرس 20:1؛2 -تیم 16:3۔یہ بہت دھوکے کی بات ہے کہ اِس طرح کی آیت سیاق و سباق سے باہر لی جائے اور یہ ثابت کیاجائے کہ متن تبدیل ہو چکا ہے جبکہ اِس کے ساتھ سیکڑوں واضح آیات موجود ہیں جو اِس کے برعکس بات کرتی ہیں۔یہ ایسے کہنا ہے کہ جیسے قرآن تعلیم دیتا ہے کہ ”عزرا اللہ تعالیٰ کا بیٹا“ہے،یہ صرف ہم اِس لئے کہتے ہیں کیونکہ یہ الفاظ قرآن میں پائے جاتے ہیں (30:9)۔

کیا کلیسیا کتاب مقدس کو سیاسی مقاصد کے لئے تبدیل نہیں کر سکتی تھی؟

"کیا کلیسیا کتاب مقدس کو سیاسی مقاصد کے لئے تبدیل نہیں کر سکتی تھی؟"

نقاد یہ الزام لگاتے ہیں کہ جب سے یورپی کلیسیا سیاسی قوت کی جدوجہد او رسیاسی مفادات کے ساتھ منسلک ہو ئی ہے،اِنہوں نے اپنی تعلیمات او رصحائف کی بنیاد سیاسی طور پر تحریک یافتہ مسائل پر رکھ دی ہے۔یہ یقینا درست ہے کہ سیاسی قوت مذہبی انتظام کو خراب کرتی ہے مگر یہ الزام سراسرکلیسیا کی تاریخ کی غلط فہمی پر مبنی ہے۔حضر ت یسوع المسیح کے بعد تین صدیوں تک (311عیسوی تک)مسیحیت ایک غیر قانونی مذہب تھا جس پر مشرکانہ سلطنت کی طرف سے پابندی عائد تھی۔یہ ایک زیر زمین ستایا ہوا نیٹ ورک تھا جس کی کوئی سیاسی طاقت نہ تھی۔311عیسوی میں رومی حکمران قسطنطین نے مسیحیت کو قانونی مذہب قرار دے دیا اور رفتہ رفتہ کلیسیا ایک سیاسی طاقت والی تنظیم بن گئی۔325عیسوی میں نقایہ کی کونسل کلیسیا میں سیاسی روابط کا شروعات سمجھی جاتی ہے۔

تب بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہمارے پاس نقایہ سے پہلے اور 311عیسوی کے سیاسی کلیسیا ئی دَور سے پہلے کے لاتعداد نسخوں کے ثبوت موجود ہیں کہ صحائف اور انجیل کا پیغام کلیسیائی سیاست سے پہلے بھی بالکل وہی صحائف اور انجیل شریف تھا جو آج ہمارے پاس ہے۔ مثلاً ہمارے پاس لوقا،یوحنا او ر200عیسوی صدی سے پولُس رسول کے دس خطوط پیائرس پر نقول کی صورت میں موجود ہیں اور ابتدائی افریقی کلیسیا کے رہنما طرطلیان نے اپنی ساری تحریروں میں (200عیسو ی سے)3,800مرتبہ اناجیل کا حوالہ دیا ہے۔

اِسی طرح 311عیسوی سے پہلے کی بے شمار فہرستوں کو بھی ہم جانتے ہیں جب اِس بات پر کوئی جھگڑا نہیں تھا کہ نئے عہد نامے میں کتنی اناجیل تھیں۔311عیسوی سے پہلے اور بعد میں ہر فہرست میں چار اناجیل شامل ہیں اوراِس کے علاوہ کوئی اَور نہیں ہے۔اِس لئے اِس بات کے بے شمار ثبوت موجود ہیں کہ کلیسیا کے سیاسی ہونے سے پہلے انجیل اور نیا عہد نامہ وہی تھا جو آج ہمارے پاس ہے۔ابتدائی ایذا رسانی کے دور میں یہ یقین کرنا احمقانہ بات ہے کہ ایمان داروں نے اپنی الہٰی رہنمائی کو تبدیل کرنے سے خود کو دھوکا دیا ہو گا جب کہ اُن کے عقائد کے بدلے دنیاوی فائدہ کچھ بھی نہیں تھا۔اُنہیں جو فائدہ مل سکتا تھا وہ خدا تعالیٰ کے کلام کی وفاداری سے پیروی کرنے پر موت کے بعد اُس کی طرف سے ابدی اَجر ملنے کی اُمید تھی۔

حضرت عیسیٰ مسیح کے ابتدائی شاگردوں کی جماعت مکمل طور پر اسلامی تاریخ کی پہلی دو صدیوں سے تضاد رکھتی ہے جب خلیفہ کے اعلیٰ ترین مذہبی اختیار نے بڑی سیاسی مملکت پر بھی حکمرانی کی۔اِس دور میں لڑی جانے والی زیادہ تر جنگیں مذہبی معاملات پر لڑی گئیں (جیسے کہ ردا(Ridda)کی جنگیں)۔اِس مرحلے پر "بہت سی" جھوٹی احادیث خاص سیاسی گروہ یا بادشاہ کی حمایت میں ارادتاً لکھی گئی تھیں۔ ۲؎ ایک وقت میں حضرت محمد کے قریب ترین رشتے داروں اور ساتھیوں نے اپنا اقتدار سیاسی مذہبی حکومت کے ہاتھوں کھو دیا، کہ جب حضرت محمد کے جائز خونی رشتے دار نے کربلا کے میدان میں غیرمذہبی خلیفہ یزید کے خلاف جنگ ہار دی،یا جب حضرت عثمان ؓ کے سرکاری قرآن مجید نے اورابنِ مسعود اور أ بی ابن ِ کعب جنہیں حضرت محمد نے بہترین قاری قرار دیا تھا ۴؎ اور جنہوں نے حضرت عثمان ؓ کی قرآن کی جلد کی مخالفت کی تھی،کے قرآن کو ختم کر ڈالا۔ ۵؎ ابن ِ مسعودکا قرآن مجید حضرت عثمان ؓ نے زبردستی لے لیا اور حضرت عثمان ؓ نے اپنے ایک خادم سے کہا کہ وہ ابن ِ مسعود کو اُس کی پسلیاں توڑتے ہوئے مسجد سے باہر نکال دے۔ ۶؎ ہم یہ الزام نہیں لگاتے کہ قر آن کو خاص طور پر تبدیل کیا گیا تھا۔بلکہ یہ اُس موازنہ کو پیش کرتی ہے جو ابتدائی مسیحیت میں سیاسی اثرات کی معاون عدم موجودگی وضاحت سے بیان کرتی ہے۔ عیسیٰ مسیح کے شاگردوں کے پاس پہلی تین صدیوں میں کوئی طاقتور سیاسی قائدین نہیں تھے جو نقایہ کی کونسل سے پہلے اپنے نظریات دوسروں تک زبردستی یا دباؤ دے کر پہنچاتے۔دراصل اِس عرصے کے دوران ایمان داروں کی بنیادی توقعات حد درجہ تک بڑھتا ہوا تشدد اور ظلم وستم تھا۔


  • For example the canon of Origen (A.D.185–254),