کیا کتاب مقدس محض زیادہ تر درست ہے؟

” کتاب مُقدس زیادہ تر درست ہے، صرف کچھ آیات ایسی تھی جن کا اضافہ کیا گیا یا جو نکالی گئیں جنہوں نے اِس کے پیغام کو بگاڑ دیا۔”

چونکہ کتاب مُقدس کی مجموعی صحت سے متعلق بہت زیادہ ثبوت موجود ہے، اِس لئے بہت سے متشکک الزام لگاتے ہیں کہ مجموعی طور پر بائبل قابل اعتبار ہے لیکن کچھ آیات کا اضافہ کیا گیا تھا یا اُنہیں بدل دیا گیا جس سے اِس کا پیغام بگڑ گیا۔ مثلاً کئی مسلمان دعویٰ کرتے ہیں کہ یسوع کی موت اور جی اُٹھنا اور صرف یسوع میں ایمان سے نجات کی تعلیم “معمولی اضافے” تھے جو بعد ازاں شامل کئے گئے۔ اِن نام نہاد “اضافوں” والی تعلیم (جسے مسیحی انجیلی پیغام کے طور پر جانتے ہیں) کا خلاصہ یوں پیش کیا جا سکتا ہے:

انسانیت فقط شریعت کی تعمیل کرنے سے نجات نہیں پا سکتی کیونکہ لوگ اِس کی مکمل طور پر تعمیل نہیں کر سکتے ہیں، لیکن خدا نے اپنے فضل میں نجات کے لئے ایک ذریعہ مہیا کیا، یعنی لاثانی بے گناہ “مسح شدہ نجات دہندہ” یسوع کو بھیجا گیا جس نے صلیب پر ہمارے گناہوں کو سزا کو اپنے اوپر اُٹھا لیااور کفارہ دیا اور یوں خدا سے انسانوں کا میل ملاپ ہو گیا۔نجات کی یہ بخشش جس کے ہم مستحق نہیں، مذہبی وابستگی یا عقیدہ سے ممکن نہیں بلکہ توبہ کرنے اور یسوع کے ایک شاگرد بن جانے سے حاصل ہوتی ہے۔

اِن نقادوں کے مطابق، مندرجہ بالا عقیدہ کا لازماً بعد میں اضافہ کیا گیا ہے کیونکہ یہ ا ُن کے اپنے مذہبی نظریات سے میل نہیں کھاتا۔ اِن نقادوں کے مطابق وہ تمام آیات جن میں غلط سمجھے گئے “بیٹا” اور “خداوند” کے القاب استعمال کئے گئے ہیں بعد کے اضافے ہیں۔

ہر وہ فرد جس نے حقیقت میں پورے نئے عہدنامہ کا مطالعہ کیا ہے، اُس کے نزدیک یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے کیونکہ یہ پیغام واضح طور پر بار بار نئے عہدنامہ کی تمام ستائیس کتابوں میں پایا جاتا ہے۔ اِس بات کا اشارہ نئے عہدنامہ کی کم از کم آدھی کے قریب تعلیم میں بھی ملتا ہے۔ اِس کے بغیر انجیل مُقدس کی کوئی سمجھ نہیں آ سکتی۔

یہ نظریہ کہ “صرف چند آیات” کا بعد میں اضافہ کیا گیا تھا، ہر اُس فرد کے نزدیک مضحکہ خیز ہے جس نے حقیقت میں پورے نئے عہدنامہ کا مطالعہ کیا ہے، کیونکہ یہ پیغام واضح طور پر بار بار نئے عہدنامہ کی تمام ستائیس کتابوں میں پایا جاتا ہے اور اِس بات کا اشارہ نئے عہدنامہ کی کم از کم آدھی کے قریب تعلیم میں بھی موجود ہے۔ یہی خوشخبری تمام انجیلی بیانات میں موجود ہے جسے یسوع نے کئی مرتبہ بیان کیا: متی 26: 28 ;یوحنا 3: 15 ; متی 20: 28 ;مرقس 10: 45 ; یوحنا 10: 9 ; 14: 6 ;یوحنا6: 44،47، 48، 51 ; 10: 11 ،28 ; 11: 25 ; 17: 1-2 ،3 ;لوقا 4: 43 ; 24: 26 – 27 ;یوحنا 6: 29 ،33،35 ; 4 : 14; 5: 21 ;متی 18: 21-35 ۔ یہ وہی خوشخبری ہے جس کی منادی پطرس رسول نے کی ، یعقوب نے کی اور یوحنا رسول نے کی۔ مزید برآں نئے عہدنامہ کی تمام ستائیس کتابوں میں اِس حقیقت کی گواہی ملتی ہے۔

باالفاظ دیگر، یہ پیغام مکمل طور پر نئے عہدنامہ سے ناقابل جدا ہے اور انجیل مُقدس کا مرکزی “خوشخبری” کا پیغام ہے۔ یہ تحریر جامع نہیں ہے۔ یہاں ہر عنوان کے تحت حضرت عیسیٰ کے بارے میں قرآن میں پائے جانے والے تمام حوالہ جات کا احاطہ نہیں کیا گیا۔ اور اِس کے لئے ایک بڑی کتاب لکھنے کی ضرورت ہو گی۔ تاہم یہاں حضرت عیسیٰ کے لئے استعمال ہونے والے مختلف ناموں اور بیانوں کی ایک یا دو مثالیں دی گئیں ہیں تا کہ قاری تک اُس نکتہ نظر کو درست طور پر پیش کیا جائے جسے قرآن ہر عنوان کے تحت بیان کرتا ہے۔ اِن میں سے کئی باتیں صرف حضرت عیسیٰ کے لئے ہی استعمال ہوئی ہیں اور کسی دوسرے کے لئے استعمال نہیں ہوئیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ اِس مختصر تحریر کو پڑھنے کے بعد قاری کو تحریک ملے گی کہ وہ خود قرآن کا مطالعہ کرے اور دیکھے کہ یہ حضرت عیسیٰ اور کئی اَور اہم موضوعات کے بارے میں کیا بتاتا ہے۔

بکاؤلے ازم سے ہٹ کر: سائنس،صحائف اور ایمان

سائنس،صحائف اور ایمان

درج ذیل مضمون اُن مختلف طریقوں کا تجزیہ کرتا ہے جن سے ایمان دار وں نے سائنس او رصحائف کے درمیان تعلق کو سمجھا ہے۔

خاکہ:

حصہ اوّل: ”بکاؤ لے ازم“کو سمجھنا
بکاؤ لے ازم کے لئے مسلم مخالفت
بکاؤ لے ازم کے مسائل
بکاؤ لے ازم کی تاریخ
ویدوں اور دیگر ادب میں ”سائنسی معجزات“
چند دعویٰ کئے گئے معجزات کا تجزیہ
نبوت نمبر۱: چاند کی روشنی منعکس شدہ روشنی ہے
نبوت نمبر۲: جنین (embryo)کے مراحل
نبوت نمبر ۳: چینٹیو ں کا رابطہ

حصہ دوم: کیا سائنس اور صحائف ایک دوسرے سے مربوط ہیں؟
تخلیق او رسائنس
پیدایش کے دنوں کی ترتیب
سورج کی روشنی سے پہلے نباتات؟
کائنات کا علم: چپٹی یا گول زمین؟
کیا زمین چپٹی ہے یا گول؟
آسمان کو تھامے ہوئے ستون
زمین کے نیچے کے ستون
سورج،چاند،ستارے،دمدارتارے اورآسمان

حصہ سوم: سائنس کی تاریخ
سائنس کس نے ’ایجاد‘ کی؟
سنہرا دور کیوں ختم ہوا؟


 

حصہ اوّل

”بکاو لے ازم“کو سمجھنا

”بکاؤ لے ازم“قرآن مجید میں ”سائنسی معجزات“ کی بنیاد ی کی جستجو ہے یعنی جدید سائنسی دریافتیں جنہیں بڑے مخفی انداز میں قرآن میں بیان کیا گیا ہے۔یہاں ذاکر نائیک سے ایک عام مثال پیش کی گئی ہے:

چاند کی روشنی منعکس روشنی ہے: ابتدائی تہذیبوں کا یہ ایمان تھا کہ چاند خود اپنی روشنی دیتا ہے۔اب سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ چاند کی روشنی منعکس روشنی ہے۔تا ہم 1400 سال پہلے قرآن مجید میں اِس حقیقت کا ذکردرج ذیل آیت میں آیا ہے:

  ”بڑی برکت والا ہے جس نے آسمانوں میں بُرج بنائے اور اُنہیں چراغ او رچمکتا ہوا چاند بھی بنایا۔“(القرآن 61:25)

قرآن میں عربی میں سورج کے لئے لفظ شمس ہے۔اِسے سِرٰجاً بھی کہا گیا ہے … چاند کے لئے عربی لفظ قَمَرً ہے اور قرآن میں اِسے مُنّیراً کہا گیا ہے جو ایک ایسا عنصر ہے جو نور دیتا ہے یعنی منعکس شدہ روشنی … اِس کا مطلب ہے کہ قرآن سورج اور چاند کی روشنی کے درمیان فرق کو بیان کرتا ہے۔ 1

اِسی طرح دعوے کئے گئے ہیں کہ بلیک ہولز،علم حیاتیات،علم ارضیات اور علم نجوم کے بارے میں قرآن میں پیشین گوئیاں موجود ہیں۔

بکاولیازم کے لئے مسلمانوں کی مخالفت

قرآن مجید میں ”سائنس کے معجزات“ کی مخفی جستجو اسلامی تاریخ کاحال ہی میں سامنے آنے والا ایک خبط ہے۔یہ بنیاد پرستوں میں بہت مقبول ہے لیکن اِسے چند مسلم مفکرین کی حمایت حاصل نہیں ہے۔نامور بھارتی اسلامی علم ِ الہٰی کے ماہر جناب مولانا اشرف علی تھانوی
(بہشتی زیور کے مصنف)چار نکات کی وجہ سے اِس طریقہ کار کی مخالفت کرتے ہیں۔ 2 اِسی طرح مغرب اور عرب کی یونیورسٹیوں کے بہت سے نامور اسلامی سائنس دان بکاؤ لے ازم کی وجہ سے پریشان ہیں۔ضیاالدین شاکر اپنے کتاب ”اسلامی سائنس میں دریافتیں
”Exploration in Islamic science“میں سائنسی معجزات کو مناظرہ کا’بُری قسم کااعتزار“ کہتا ہے۔پین سٹیٹ یونیورسٹی کے مسلم مؤرخ نعمان الحق بکاؤ لے ازم کے نقادوں میں سب سے آگے ہیں جو بکاؤ لے ازم کے سامنے آنے کی وجہ مسلمانوں میں پائے جانے والے گہرے احساس ِکمتری کو قرار دیتا ہے جنہیں آبادیا تی نظام نے تضحیک کا نشانہ بنایا اور جو اسلامی سائنس کی کھوئی ہوئی شان و شوکت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے ہیں۔ایک او رنقاد مظفر اقبال ہیں جو البرٹا کینیڈا میں اسلام اور سائنس کے مرکز کے صدر ہیں۔


پاکستان کے نامور مسلم ماہر طبیعات پرویز ہود بائے لکھتے ہیں:

”ایسے دعوے کرنے والوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اُن میں اِس بات کی وضاحت کرنے کی کمی ہوتی ہے کہ کیوں مقداری نظریہ،مالیکیولز کی ساخت وغیر ہ کو کہیں اَور دریافت ہونے کے لئے انتظار کرناپڑا۔اور نہ ہی کبھی کسی قسم کی مُستند پیشین گوئیاں کی گئیں۔اُن کے پاس اِس بات کی بھی کوئی دلیل موجود نہیں کہ اینٹی بائیٹکس،ایسپرین،بھاپ کے انجن،بجلی،ہوائی جہاز،یا کمپیوٹر پہلے مسلمانوں نے کیوں ایجاد نہیں کئے۔بلکہ ایسے سوالات پوچھنا توہین آمیز سمجھا جا تا ہے۔“ 4

ترکی مسلمان فلسفی اور ماہر طبیعات ٹینر ادیس لکھتے ہیں:

”قرآن -سائنس( بکاؤ لے ازم)رقت انگیز ہے لیکن بہت سے مسلمانوں نے بھی اِس بات کو تسلیم کیا ہے۔جتنی انسٹیٹیوٹ فار کریشین ریسرچ مسیحیت کی ترجمانی کرتا ہے اُسی طرح یہ اُس سے زیادہ اسلام کا اظہار نہیں کرتی۔تاہم وہ احمقانہ شدت جو میں نے اُوپر بیان کی ہے وہ سائنس او رقدامت پسند اسلام کے درمیان مبہم تعلق کی وضاحت کرسکتی ہے۔جبکہ بہت سے ایمان دار
اِس مسئلے کے نظر انداز کرنے کو تیار ہیں اور قرآن مجید کے ساتھ مکمل سائنسی ہم آہنگی کا اظہار کرتے ہیں،کچھ ماہرین اَدراکی کا متعلقہ راستہ اپناتے ہیں،یا اِس بات پر زور دیتے ہیں کہ سائنس اسلام کی ساخت کردہ ہے،اِس لئے ہمیں فطر ت کی اسلامی نظریے کو تسلیم کرنا ہے۔“ 5

ابو عمر یوسف قاضی جو ایک معروف واعظ اور ییل Yaleکے فارغ التحصیل ہیں،اُنہوں نے اپنی کتاب،”An Introduction
to the Sciences of the Quran"میں لکھا:

”دوسرے الفاظ میں قرآن مجید کی ہر تیسری آیت میں کوئی سائنسی سراب موجود نہیں ہیں جو اِس بات کے منتظر ہوں کہ چند پُر جوش،اعلیٰ تصوراتی مسلمان اُنہیں صفحہ ِ ہستی پر لے کر آئیں گے۔“ 6

”اِسلامی سائنس“ کے حوالے سے،پاکستانی نوبل انعام یافتہ اور ماہر طبیعات جناب ڈاکٹر عبدالسلام لکھتے ہیں:

”صرف ایک عالمگیر سائنس ہے؛اِس کے مسائل اور اِس کے طریقے بین الاقوامی ہیں اور اسلامی سائنس جیسی کوئی چیز نہیں ہے جیسے کہ ہندو سائنس یا یہودی سائنس،یاکنفیو شین سائنس اور نہ ہی مسیحی سائنس ہے۔“

بکاؤ لے ازم کے مسائل

بکاؤ لے ازم کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کو کمزور پیش کرتا ہے جو ناقابل اعتراض حد تک واضح ہونے کے قابل نہیں ہے۔مثلاًاگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ صرف زمین کی شکل ہی بیان کرنا تھا تو پھر اُس نے ایک ہی آیت کیوں نہ رکھی جو یہ کہتی کہ ”کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ہم نے زمین کو چپٹا نہیں بلکہ گول بنایا ہے جو سورج کے گرد گھومتی ہے؟“یا اگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ ٹیلی وژن کی پیشین گوئی کرنا ہوتا تو،وہ واضح طور پر یہ کہہ سکتا تھا کہ،”ایک دن لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کر ڈبوں میں تصویریں دیکھیں گے۔“ دوسری جگہوں پر خدا بڑی وضاحت سے بولتا ہے!…

خدا کس سے محبت کرتا ہے؟

قرآن: خدا کس سے محبت کرتا ہے؟

خدا کی برکات سب کے لئے ہیں، اُس کی محبت اُن کے لئے ہے جنہیں اُس نے پہلے ہی سے نیک اعمال کے لئے مقرر کیا ہے:

”…اللہ تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔“ (8:60)
”اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔“ (9:49)
”اور جو ایمان لائے اور عمل نیک کئے رحمن اُن کی محبت مخلوقات کے دل میں پیدا کر دے گا۔“ (96:19)
”اللہ پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔“ (108:9)
”بیشک اللہ بھروسہ رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔“ (159:3)
اِسی طرح، قرآن کے مطابق خدا بے ایمانوں سے محبت نہیں کرتا:

”کہدو کہ اللہ اور اُس کے رسول کا حکم مانو۔ پس اگر وہ نہ مانیں تو اللہ بھی کافروں کو دوست نہیں رکھتا“(32:3)

”اللہ کسی ناشکرے گناہگار کو دوست نہیں رکھتا۔“ (276:2)

”اللہ کسی خیانت کرنے والے ناشکرے کو دوست نہیں رکھتا۔“ (38:22)
”اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔“ (57:3)
”اللہ تکبر کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔“ (36:3)
”اللہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔“ (87:5)
”اللہ بیجا اُڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔“ (141:6)
”اللہ دغا بازوں کو دوست نہیں رکھتا۔“ (58:8)
”کافروں کا اللہ دشمن ہے۔“ (98:2)

”جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا اُن کو ہم عنقریب آگ میں داخل کریں گے۔ جب کبھی اُن کی کھالیں گل جائیں گی تو ہم اُن کو اور کھالیں بدل کر دیں گے تا کہ ہمیشہ عذاب کا مزہ چکھتے رہیں۔ بیشک اللہ غالب ہے حکمت والا ہے۔“ (56:4)

بائبل: خدا کی غیر مشروط محبت

خدا کی محبت صرف متقی یا ایمانداروں کے لئے نہیں بلکہ سب لوگوں کے لئے ہے –یہ ایک سرگرم، ڈھونڈنے والی، پاس آنے والی محبت ہے جو گناہگاروں کو گناہ کے قبضے سے چھڑانے کی کوشش کرتی ہے اور اُنہیں توبہ اور ایمان کی طرف لے کر آتی ہے تا کہ خدا کے ساتھ اُن کی صلح صفائی ہو سکے:

”خدا …تحمل کرتا ہے اِس لئے کہ کسی ہلاکت نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے“ ( 2-پطرس 9:3)

”خدا اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گنہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر موا۔“   (رومیوں 8:5)

”…یسوع مسیح راستباز۔ اور وہی ہمارے گناہوں کا کفارہ ہے اور نہ صرف ہمارے ہی گناہوں کا بلکہ تمام دُنیا کے گناہوں کا بھی۔“ (1-یوحنا 2:1-2)

”…خداکسی کی جان نہیں لیتا بلکہ ایسے وسائل نکالتا ہے کہ جلاوطن اُس کے ہاں سے نکالا ہوا نہ رہے۔“ (2-سموئیل 14:14)

”فریسی اور فقیہ اُس کے شاگردوں سے یہ کہہ کر بڑبڑانے لگے کہ تم کیوں محصول لینے والوں اور گنہگاروں کے ساتھ کھاتے پیتے ہو؟ یسوع نے جواب میں اُن سے کہا کہ تندرستوں کو طبیب کی ضرورت نہیں بلکہ بیماروں کو۔ میں راستبازوں کو نہیں بلکہ گنہگاروں کو توبہ کے لئے بلانے آیا ہوں۔“ (لوقا 30:5-32)

”پس ہم اِن باتوں کی بابت کیا کہیں؟ اگر خدا ہماری طرف ہے تو کون ہمارا مخالف ہے؟ …کون ہم کو مسیح کی محبت سے جدا کرے گا؟ مصیبت یا ننگی یا ظلم یا کال یا ننگاپن یا خطرہ یا تلوار؟“ (رومیوں 35،31:8)

خدا کی یہ محبت اُس کی فطرت کے مطابق ہے:

”جو محبت نہیں رکھتا وہ خدا کو نہیں جانتا کیونکہ خدا محبت ہے۔… محبت اِس میں نہیں کہ ہم نے خدا سے محبت کی بلکہ اِس میں ہے کہ اُس نے ہم سے محبت کی“ (1-یوحنا 10،8:4)

”میر حکم یہ ہے کہ جیسے میں نے تم سے محبت رکھی تم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھو۔ اِس سے زیادہ محبت کوئی شخص نہیں کرتا کہ اپنی جان اپنے دوستوں کے لئے دیدے۔“ (یوحنا 13،12:15)

کیا حضرت عیسیٰ اللہ کا ایک انوکھاکلام ہیں؟

”قرآن کے مطابق حضرت عیسیٰ اللہ کا ایک انوکھاکلام نہیں ہیں،کیونکہ آل عمران 39:3ذِکر کرتی ہے کہ یوحنا بپتسمہ دینے والے
(حضرت یحیٰی)کو بھی اللہ کا کلام کہا گیا ہے۔“

ذاکر نائیک نے الزام لگایا ہے کہ ٓال عمران 39:3یوحنا بپتسمہ دینے والے (حضرت یحیٰی)کو بھی اللہ کاکلام کہتی ہے،اِس لئے یہ لقب
حضرت عیسیٰ کے انوکھے کردار کی طرف اشارہ نہیں کرتا۔اگر ہم آیت کو پڑھیں،تویہ واضح ہے کہ یہ آیت ذِکر کرتی ہے کہ حضرت یحیٰی حضرت
عیسیٰ کے اللہ کے کلام ہونے کی تصدیق کرتے ہیں:

”…خدا تمہیں یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو خدا کے کلمہ (یعنی عیسیٰ)کی تصدیق کریں گے اور سردار ہوں گے اور عورتوں سے رغبت نہ رکھنے
والے اور (خدا کے) پیغمبر(یعنی)نیکو کاروں میں ہوں گے۔“(سورۃ آل عمران 39:3)

ابتدائی مفسرین تقریبا ً پورے وثوق سے اِس کی تصدیق کرتے ہیں کہ اللہ کا”کلام“ حضرت عیسیٰ ہیں۔اِ س آیت پر ابن ِ عباس کی تفسیر کچھ یوں ہے:

(اور فرشتہ)یعنی جبرائیل فرشتہ (اُس سے مخاطب ہوا جب وہ مقدس مقام میں کھڑا دعا کر رہا تھا)مسجد میں:

(اللہ نے تمہیں حضرت یحیٰی کی خوشخبری دی ہے)ایک بیٹے کی جس کا نام یوحنا ہے (جو آتا ہے)جو اللہ کی طرف سے بخشے گئے کلام کی تصدیق کرتا ہے،حضرت مریم کا بیٹا حضرت عیسیٰ کیونکہ وہ اللہ کی طرف سے کلام ہو گا،جسے بِن باپ (خداکی طرف سے)کے پیدا کیا گیا
جو جب غلطی کرتا ہے تو حلیم ہو جاتا ہے(پرہیزگار)جس کے اندر عورت کی خواہش نہیں،(راست بازی کا ایک نبی)پیغمبروں میں۔(تنویر المقباس من تفسیر ابن ِ عباس)2

اور اِس آیت کی عمدہ وضاحت تفسیر الجلالین میں یوں ہے:

”اور فرشتہ نے جس کا نام جبرائیل ہے،اُس سے مخاطب ہوا جب وہ مقدس مقام میں کھڑا دعا کر رہا تھا،ہیکل میں عبادت کررہا تھا
(اَنَّ کا مطلب ہے اَنَّ، ایک مختلف قراٗت میں اِنَّ ہے،جو براہ ِ راست کلام کرنے کو بیان کرتا ہے)،خدا تمہیں
خوشخبری (یُبشَّرُِک َپڑھاجاتاہے) دیتا ہے،یوحنا حضرت یحیٰی)کی،جو اللہ کی طرف سے عطاکردہ کلام کی تصدیق کرے گا،جس کا نام حضرت عیسیٰ ہے، کہ وہ خدا کا روح ہے؛اُسے ]خدا کا[ کلام بھی کہا گیا ہے،کیونکہ وہ لفظ ”کُن“ ’ہوجا‘
سے خلق کیا گیا؛ایک خدا،کی پیروی کرتے ہوئے،جو پاک دامن ہے،عورتوں سے دُور رہنے والا،اور راست بازی کا ایک نبی ہو گا؛یہ کہا
جاتا ہے کہ اُس نے کبھی گناہ نہیں کیا اور نہ اُس کا کبھی ارادہ کیا۔3

دوسرے علما ئے کرام جیسے کہ الزمخشری اور طبری متفق ہیں اور بے شک انجیل شریف میں حضرت یحیٰی کی زندگی کے تاریخی واقعات یہ بتاتے ہیں کہ اُن کا بنیادی کردار لوگوں کو حضرت عیسیٰ کی طرف آنے کی ہدایت کرنا تھا:

”ایک آدمی یوحنا نام آ موجود ہوا جو خدا کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔یہ گواہی کے لئے آیا کہ نور کی گواہی دے تاکہ سب اُس کے وسیلے سے ایمان لائیں۔“(یوحنا 7:1؛یوحنا 14:1بھی دیکھئے)۔

حضرت یحیٰی جو حضرت عیسیٰ مسیح کے رشتہ دار تھے،جیسے کہ انجیل شریف کئی اقتباسات میں ذِکر کرتی ہے اُنہوں نے حضرت عیسیٰ مسیح کی راہ تیار کی جو کلام تھا اور لوگوں کو اُس کی طرف آنے کی ہدایت کی۔

  1. Zakir Naik, Da’wah Training Programme, retrieved from: www.irf.net/irf/dtp/dawah_tech/t18/t18a/pg1.htm

کیا قرآن کتاب مقدس کا ذِکر کرتا ہے؟

”قرآن ہر گز بائبل مقدس کا ذِکر نہیں کرتا،صرف توریت شریف،زبور شریف او رانجیل شریف کا ذِکر کرتا ہے۔“

دراصل انگریزی کا لفظ ”بائبل“ ایک یونانی اصطلاح ”ببلیا“ کا ترجمہ ہے جس کا مطلب ہے،”کتابیں“۔جب یہودیوں اور مسیحیوں کے صحائف ایک ہی سمجھے گئے، تو اِس کے لئے لاطینی اصطلاح نے ”کتاب“ کا اشارہ دینا شروع کیا۔عربی میں یہ الکتاب یا الکتاب
المقدس ہے کیونکہ بائبل کو ہمیشہ عربی زبان میں یہی کہا گیا ہے۔حضرت محمد سے پہلے او ربعد میں بھی عربی مسیحیوں نے ہمیشہ وہی اصطلاح استعمال کی جو قرآن استعمال کرتا ہے۔قرآن مسیحیوں او ریہودیوں کو اہل ِ کتاب کہتا ہے جس کا مطلب ہے،”کتاب کے لوگ“اوریہ فرماتا ہے کہ وہ الکتاب پڑھتے ہیں۔

”اور یہودی کہتے ہیں کہ عیسائی رستے پر نہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہودی رستے پر نہیں۔حالانکہ وہ کتاب (الکتاب)پڑھتے ہیں۔“
(سورۃ البقرۃ 113:2)

”اے اہل ِ کتاب (خدا)تم (علمائے)ربانی ہو جاؤ کیوں کہ تم کتاب ِ (خدا)پڑھتے پڑھاتے رہتے ہو۔“(سورۃ آل عمران79:3)

الکتاب کی نسبت اَور کوئی قریب ترین لفظ عربی میں نہیں ہے جو بائبل کے لئے استعمال کیا جا سکتاہو۔تورات،توراۃ ہے،زبور شریف مزامیر ہے اور انجیل شریف ایونجل(eungel)جو ایک ایسی اصطلاح ہے جو مجموعی طور پرچار اناجیل یا پورے نئے عہد نامے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔اگر قرآن کا مطلب کچھ اَور ہوتاتو پھر وہ یقینا اُس کا ذِکر کرتا،اِس لئے اُس وقت اِن عربی الفاظ کامطلب یہی تھا۔

انجیل شریف نازل کی گئی؟

"قرآن انجیل شریف کو یوں بیان کرتا ہے کہ وہ نازل کی گئی ہے؛لیکن موجود ہ انجیل شریف حضرت عیسیٰ کے پیروکاروں نے لکھی تھی۔"

"نازل کی گئی" کی عربی اصطلاح کا مطلب یہ نہیں کہ آسمان سے گرائی گئی یا نبی کے ذریعے دی گئی۔اِس کا زیادہ تر عام فہم مطلب اللہ کا عطا کردہ انعام ہے۔یہی "نازل کی گئی" کی اصطلاح 25:57میں لوہے کے لئے استعمال کی گئی ہے:"ہم نے لوہا پیدا کیا؛اور اِس میں خطرہ بھی شدید ہے اور لوگوں کے لئے فائدے بھی ہیں اور اِس لئے کہ جو لوگ … خدا اوراُس کے پیغمبروں کی مدد کرتے ہیں خدا اُن کو معلوم کرے۔

ابتدائی مبصرّین کی رائے

ذاکر نائیک جیسے نقادوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ اُن ابتدائی مبصّرین سے تضاد رکھتا ہے جو یہودیوں او رمسیحیوں کے صحائف کو بڑی قدر سے دیکھتے تھے۔اِس بات کا ذکر سعید عبداللہ نے اپنے اخبار یہودیوں او رمسیحیوں کے صحائف پر تحریف کا الزا م میں کیا ہے۔وہ یہ نتیجہ اَخذ کرتا ہے:

چونکہ یہودیوں اور مسیحیوں کے مُستند صحائف آج بھی بالکل اُسی طرح موجود ہیں جس طرح حضور اکرم کے زمانے میں موجود تھے تو اِس بات پر بحث کرنا مشکل ہے کہ انجیل شریف او رتوریت شریف کے لئے قرآن میں موجود حوالہ جات صرف اُس خالص انجیل شریف یا توریت انجیل کی طرف تھا جو بالترتیب حضرت موسیٰ،حضرت عیسیٰ مسیح کے زمانے میں موجود تھی۔اگر متن کسی حد تک اُسی حالت میں موجود ہے جس طرح ساتویں صدی عیسوی میں تھا،تو اُس وقت جو تعظیم قرآن نے اُنہیں دی وہ آج بھی ویسے ہی قائم رہنی چاہئے۔قرآن کے بہت سے مفسر طبری سے لے کر رازی تک اور ابن تیمیہ،حتیٰ کہ قطب تک یہی نظریہ بیان کرتے نظر آتے ہیں۔
مجموعی طور پر جدید دَور میں بہت سے مسلمانوں کا یہودیت او رمسیحیت کے صحائف کے لئے نفرت انگیز رویہ رکھنے کی نہ تو قرآن اور نہ ہی
تفسیر کے بڑے علماء کی تحریروں میں حمایت دکھائی دیتی ہے۔2

عبداللہ ابن ِ عباس

ابن ِ عباس نے کہا کہ،

”لفظ ”تحریف“(بگاڑ)کسی چیز کی اپنی اصلی حالت سے تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے؛اور پھر یہ کہ کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دئیے گئے کلام میں سے ایک بھی لفظ کو بگاڑ سکے،اِس لئے یہودی او رمسیحی صرف اللہ کے کلام کے الفاظ کے مطلب کو غلط پیش کر سکتے تھے۔“3

ایک دوسری کتاب میں ابن ِ عباس کا بیان دہرایا گیا ہے:

”وہ الفاظ کو بگاڑتے ہیں“ اِس کا مطلب ہے،”وہ اِس کے مطلب کو ختم کر دیتے یا تبدیل کرتے ہیں۔“تاہم کوئی بھی شخص اِس قابل نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں ایک بھی لفظ کو تبدیل کرے۔اِس کا مطلب ہے کہ وہ لفظ کی تشریح غلط کرتے ہیں۔4

ابن ِ کثیر نے بھی ابن ِ عباس کے اِس بیان کو لکھا ہے:

”جہاں تک اللہ تعالیٰ کی کُتب کا تعلق ہے،وہ اب تک محفوظ ہیں اور تبدیل نہیں ہو سکتیں۔“5

یہ تفسیر عبداللہ ابن ِ عباس کی ہے جو حضور اکرم کے چچا زاد بھائی اور اُن کے صحابہ کرام میں سے ایک تھے۔چونکہ وہ ایک صحابی ہیں اِس لئے اُن کی آراء دیگراُن تمام اشخاص کی آراء اور تبصروں سے بالا تر ہے جو صحابی نہیں ہیں۔ ذاکر نائیک کیا سوچتا ہے کہ وہ کون ہے جو بڑے اعتمادسے ابن ِ عباس جیسی شخصیت سے تضاد رکھتا ہے؟

طبری (وفات 855عیسوی)

معروف مفسر علی طبری بڑا واضح یقین رکھتے تھے کہ یہودی اور مسیحی اب تک وہی اصلی صحائف رکھتے تھے جو اُنہیں اللہ تعالیٰ نے عطا کئے تھے۔

”..سب

سورۃ المائدہ 46:5 رہنمائی اور روشنی تھی یا ہے؟

"قرآن کی سورۃ المائدۃ 46:5میں فرماتی ہے کہ انجیل شریف میں رہنمائی اور نور تھا(فعل ماضی)۔”

یہ دعویٰ عربی متن کو غلط طور پر سمجھنے کی بنیاد پر کیا گیاہے۔عربی میں یہ جملہ کچھ یوں ہے “الإِنجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ“; ،جس کا لغوی ترجمہ کچھ یوں ہے "…اِس میں رہنمائی اور نور ہے …"اِس میں کوئی فعل نہیں ہے،یہ محض زمانہ حال ("ہے")استعمال کرتا ہے۔عربی میں زمانہ حال کے جملوں میں فعل"ہونا"("کانا")کی ضرورت نہیں پڑتی۔اِس طرح عربی میں "آدمی بڑا ہے" کے لغوی معنی ہیں "آدمی بڑا۔"یہ زمانہ سیاق و سباق سے اخذ کیا گیا ہے۔مشہور بنگالی مصنف ڈاکٹر لطف الرحمان نے اپنی کتاب دھرما جیون میں اِس آیت پر درج ذیل الفاظ میں تبصرہ کیا ہے:

"کون اللہ تعالیٰ کے تمام صحائف پر حقیقی ایمان رکھتا ہے؟قرآن شریف کے ساتھ میَں نے کبھی کسی کو انجیل شریف (کتاب مقدس)،زبور شریف یا توریت شریف کو پڑھتے نہیں دیکھتا۔بہت سے مسلمان حضرت عیسیٰ کی توہین کرتے ہیں۔قرآن فرماتا ہے رہنمائی اور نور انجیل شریف میں ہے۔میَں نے کسی ایک شخص کو بھی انجیل شریف لینے کی کوشش کرتے نہیں دیکھا!پہلے