3,600 یا 3,300 نگران؟

2 -تواریخ 2:2 – ”یہاں لکھا ہے کہ حضرت سلیمان نے ہیکل کی تعمیر کے کام پر 3,600نگران مقرر کئے لیکن 1 -سلاطین 16:5کہتی ہے کہ یہ 3,300تھے۔“

یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔اِس کا زیادہ ممکنہ حل یہ ہے کہ 2 -تواریخ 300آدمی وہ شامل کرتی ہے جو بطور پیچھے رہنے والوں کے منتخب ہوئے تھے تاکہ اُن نگرانوں کی جگہ لیں جو بیمار ہو گئے یا وہ جو مر گئے۔جب کہ 1 -سلاطین 16:5کے حوالے میں صرف نگرانی کرنے والے افراد کا ذِکر ہے۔3,300کے بڑے گروہ میں بیماری اور موت یقینی واقع ہونی تھی اِس لئے پیچھے رہنے والوں کو جب بھی اُن کی ضرورت پڑی بلایا گیا ہوگا۔قرآن میں بھی ایسے ہی اعداد و شمار کے اختلافات پائے جاتے ہیں۔سورۃ آل عمران حضرت مریم کوحضرت عیسیٰ کی پیدایش کا بتاتے ہوئے بہت سے فرشتوں کا ذِکر کرتی ہے،جبکہ سورۃ مریم21:19-17میں صرف ایک فرشتے کا ذکر کیا گیا ہے۔سورۃ قمر19:54فرماتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ہی دن میں عاد کے لوگوں کو نیست کر دیا لیکن سورۃ حآقہ6:69-7میں لکھا ہے کہ وہ آٹھ
طویل دن تھے۔

کیا اخزیاہ 42برس کا تھا یا 22برس کا؟

2 -تواریخ 2:22 -”جب اخز یاہ یروشلیم پرسلطنت کرنے لگاتو کیا وہ اُس وقت 42برس کی عمر کا تھا یا 22برس کی عمرکا (2 -سلاطین 26:8)؟“

چند قدیم نسخہ جات (سپٹواجنٹ اور سُریانی)اِسے ”22“ پڑھتے ہیں جو 2 -سلاطین 26:8سے مطابقت رکھتا ہے جبکہ دیگر نسخہ جات میں ”42“ہے۔یہ صاف واضح ہے کہ چند ابتدائی نسخہ جات میں یہ نقل نویس کی غلطی ہے۔ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ کاتب جو نقل نویسی کرنے کے ذمہ دار تھے وہ بہت محتاط انداز میں کتاب مقدس کے متن کو سنبھالنے میں دیانت دار تھے۔اُنہوں نے بظاہر نظر آنے والی غلطیوں کو بھی تبدیل کئے بغیر جو واقعی چند تھیں،اُنہیں ویسے ہی پیش کیا جیسے اُنہیں ملی تھی۔

تخلیق کے چھ دن؟

پیدایش 1باب”جدید سائنس یہ ثابت کرتی ہے کہ زمین لاکھوں سال پرانی ہے، جو پیدایش میں تخلیق کے”چھ دن“ کے واقعہ سے تضاد رکھتی ہے۔“

دو مکتبء فکر ہیں جو پیدایش کے بارے میں ایک پرانی زمین کے ساتھ موافقت پیدا کرتے ہیں۔ دونوں میں سے کوئی بھی پیدایش کوجدید سائنس کے ساتھ مناسبت دینے کے لئے ”دوبارہ شروع“ کی صرف کوشش بھی نہیں کرتے کیونکہ دونوں مکتبہء فکر ایسے مبصرین کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جو پرانی زمین کی جدید سائنسی دریافت کو اُس کی اصل تاریخ سے پہلے کا بتاتے ہیں۔

پیدایش کا پہلا نظریہ -دن کے دور کی تشریح

The Hebrew word used for day in Genesis 1 is yôm (Hebrew יום), the same as that used by the Qur’ān to describe the six “days” ( يَوْم yaum ) of Creation.…

سورج سے پہلے دن کو خلق کیا گیا؟

پیدایش 1باب-”دن اور رات کس طرح دوسرے دن پر بن سکتے ہیں جب کہ سورج اور چاند چوتھے دن تک خلق نہیں ہوئے تھے؟“

دن یادور کی وضاحت کے بعد پیدایش پہلے باب کی پہلی آیت میں قائم شدہ تناظر یا نقطہء نظر زمین پر پانی کی سطح ہے۔

تخلیق کے مراحل کو یوں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ کسی بیرونی مفروضاتی مشاہدہ کار کی طرف سے نہیں بلکہ اِس تناظر سے
کیسے سمجھے جائیں گے۔جدید سائنس یہ بتاتی ہے کہ ساڑھے چار کروڑ سال پہلے زمین مختلف سیاروں کے ملبے سے اِس قدر گھِری ہوئی تھی
کہ زمین تاریک اور سُنسان تھی۔اگلے صفحے پر دی گئی شکل اِس بات کو ظاہر کرتی ہے۔

قرآن او رتوریت شریف دونوں میں تخلیق کے واقعات میں چند یکساں پیچیدہ مراحل پائے جاتے ہیں۔سورۃ حَئم اسجدہ 9:41-12میں
قرآن کا بنیادی تخلیقی واقعہ زمین کی تخلیق کے دنوں کے بعد سات آسمانوں کی تخلیق کا ذِکر کرتا ہے۔سورۃ البقرۃ آیت 29 بھی یہی ظاہر کرتی ہے:

”وہی تو ہے جس نے سب چیزیں جو زمین میں ہیں تمہارے لئے پیدا کیں پھر آسمانوں کی طرف متوجہ ہوا۔“

اِس طرح ہم قرآن میں یکساں قسم کی تورایخی ترتیب کی مشکل دیکھتے ہیں۔اِس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ قرآن غلط ہے،بلکہ اِس سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم ہمیشہ آیات کی وضاحت ویسے نہیں کرسکتے جیسے وہ پہلے ہمیں نظر آتی ہیں۔

اگر قاری کو ”نقطہء نظر“کے ساتھ مطابقت میں انصاف کرنے میں دشواری پیش آتی ہے تو ہم یہی ضرورت قرآن کے لئے بھی دیکھ سکتے ہیں۔سورۃ کہف 86:18میں ہم پڑھتے ہیں کہ ذوالقرنین ”نے سفر کا ایک سامان کیا۔ یہاں تک کہ جب سورج کے غروب ہونے کی جگہ پہنچا تو اُسے ایسا پایا کہ ایک کیچڑوالے چشمے میں ڈوب رہاہے۔“یہ بیان اسلام سے پہلے کی سورج کی کہانی سے مطابقت رکھتا دکھائی دیتا ہے کہ سورج ہموار زمین کے اُفق پر موجود مٹی کے تالاب میں غروب ہو تا ہے۔“ پھر بھی ہمیں اِس آیت کو ذوالقرنین کے تناظر میں بیان شدہ آیت کے طور پر سمجھنا چاہئے تاکہ یہ با معنی ہو۔بالکل اِسی طرح،ہم تمام صحائف کی ایک قیاسی ”کائناتی“تناظر سے وضاحت نہیں کر سکتے۔

Geologic Timeline of Creation

اعتراض (الف):”لیکن چوتھے دن سورج اور چاند کے لئے جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ ”خلق“ہے نہ کہ ”ظاہر کیا“!“

سورج سے پہلے نباتات؟

پیدایش 1:11-13—”سورج کے بغیر نباتات کیسے وجود میں آ سکتی ہیں؟”

صحیح مسلم1 میں اور الطبری کے مطابق قرآن کی تخلیقی ترتیب میں بھی ہمیں یہ ملتا ہے کہ نباتات سورج کی تخلیق سے دو دن پہلے بنیں۔مندرجہ بالا تشریخی خاکہ توریت شریف کی تخلیقی ترتیب دکھاتے ہوئے اِس نیم شفاف روشنی (جو پہلے دن ظاہر ہوئی)کو یوں بیان کرتاہے کہ یہ روشنی اِس عرصے کی فضا میں سے گزر کر آرہی تھی اگر چہ کہ سورج یا چاند ابھی تک دکھائی نہ دیتے تھے۔ اِس طرح Photosynthesis کا عمل ہو سکا اور پودے اُگ سکے جس کے بدلے میں آکسیجن پیدا ہوئی اور فضا صاف ہوئی۔ڈاکٹر رابرٹ سی۔نیومین (جنہوں نے کارنل یونیورسٹی سے تھیوریٹیکل آسٹروفزکس میں پی۔ایچ۔ڈی کی)یہ نتیجہ اَخذ کرتے ہیں کہ "نباتات فضا میں آکسیجن کے بننے اوراِس پر سے بھاری بادل کے غلاف کو ہٹانے،دونوں کا فوری نتیجہ تھیں۔" 2


.

پیدایش کے مطابق کیا چاند کی براہ ِ راست روشنی ہے؟

پیدایش 1:14-19—”یہ آیت غلط کہتی ہے کہ چاند ایک روشنی ہے،جب کہ دراصل یہ محض سورج کی منعکس شدہ روشنی ہے”۔

یہ دلیل احمقانہ ہے،کیونکہ کوئی بھی شخص جدید لوگوں کو "چاند کی روشنی" کی اصطلاح استعمال کرنے پر تنقید کر سکتا ہے۔تمام صحائف تخلیق کو بیان کرنے کے لئے مظہر یاتی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔—قرآن بھی چاند کو "روشنی" کہتا ہے (71:15-16).…

اللہ تعالیٰ کو آرام کی ضرورت نہیں

پیدایش 2:2-3 -”اللہ تعالیٰ کو آرام کی ضرورت نہیں؛جیسے کہ قرآن بتاتا ہے (سورۃ 38:50)!“

کتاب مقدس واضح بتاتی ہے کہ خُدا تعالیٰ تھکتا نہیں یا اُسے آرام کی ضرورت نہیں۔”تیرا محافظ اُونگھنے کا نہیں۔دیکھ اسرائیل کا محافظ نہ
اُونگھے گا نہ سوئے گا“(زبور شریف 3:121-4)۔”خداوند خدائے ابدی و تمام زمین کا خالق تھکتا نہیں او رماندہ نہیں ہوتا۔اُس کی حکمت
اِدراک سے باہر ہے“(یسعیاہ 28:40)۔آرام کے لئے عبرانی اصطلاح بھی یہی لغوی معنی رکھتی ہے،”ختم کر نا،”رُکنا۔“

قرآن اللہ تعالیٰ کے ”چہرے‘(سورۃ الرحمن27,26:55)،اُس کے ہاتھ (سورۃالفتح 10:48)،اُس کی آنکھ(سورۃ طہٰ
36:20-39)،اُس کے تخت(سورۃالحدید 4:57)؛وہ”بھولتا ہے“(سورۃ الاعراف51:7)‘ کا ذکر کرتے ہوئے اُس کے لئے بالکل علم الانسانی (انسانوں کی مانند)جیسی زبان استعمال کرتا ہے۔اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اُس میں انسانی خصوصیات ہیں بلکہ اِس کے بجائے خُدا تعالیٰ انسانی وضاحتیں استعمال کرتے ہوئے انسانی زبان میں بات کرتا ہے جو محدود انسان کے لئے بعیداز فہم کو سمجھنے کی اجازت دیتا ہے۔

تمام پودے کھانے کے قابل ہیں؟

پیدایش16:2-17 – ”یہ سکھاتی ہے کہ تمام پودے کھانے کے قابل ہیں۔“

جب خورونوش کے قوانین یہ بتاتے ہیں کہ صرف سؤر،گوشت کھانے والے،مُردہ جانور،خون اور الکوحل مُضر ہیں تو یہ صرف ذاکر نائیک جیسے ہی لوگ ہوں گے جن میں عام شعور کی کمی ہے کہ اُنہوں نے زہریلے پودوں اورگوشت سے باز رہنا ہے۔جب خُدا تعالیٰ نے حضرت آدم کو اجازت دی کہ وہ باغ میں موجود کسی بھی درخت کا پھل کھائے تو وہ کھانے کا حکم نہیں دے رہابلکہ کھانے کے لئے اپنا انتخاب کرنے کی آزادی دے رہا ہے۔

اگرہم آیت کا بغور مطالعہ کریں تو ہم دو باتیں ملتی ہیں۔پہلی یہ کہ ’کسی بھی درخت‘ کے ذِکر کا ہر گز مطلب ’تمام‘ نہیں ہے کیونکہ یہ کہتے ہوئے اِس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ کم از کم ایک درخت ہے کہ جس میں سے حضرت آدم نہیں کھا سکتے تھے اور وہ نیک و بد کی پہچان کا درخت تھا۔

دوسری اور سب سے اہم بات یہ جملہ کہ ’باغ میں سے‘ہے۔خُدا تعالیٰ نے یہ سہولت اُس وقت رکھی تھی کہ جب حضرت آدم ابھی تک اُس کی کامل تخلیقی حیثیت میں تھے،اِس سے پہلے کہ گناہ دنیا میں داخل ہو۔ ابتدا میں ہر چیز اچھی تھی (پیدایش 31:1)- ہر ایک چیز خُدا تعالیٰ نے
کاملیت میں بنائی تھی۔ابتدائی تخلیقی حالت بغیر گناہ کے تھی۔اِس لئے کوئی بھی پودا زہریلا یا نشہ آور نہیں تھا۔ہر وہ چیز جو خُداتعالیٰ نے بنائی وہ انسان کے فائدے کے لئے تھی۔جب حضرت آدم کے وسیلے سے گناہ دنیا میں داخل ہو اتو وہ کامل حیثیت بگڑ گئی۔حضرت آدم کے گناہ کے نتیجے میں پیدایش 17:3-18میں خُداتعالیٰ کی سزا نے خاص طور پر زمین او رپودوں کو متاثر کیا۔

قرآن میں بھی ایسا ہی ہے، ہم آیات کو زیادہ لغوی معنوں میں نہیں لے سکتے۔الانعام 38:6پڑھئے،

”اور زمین میں جو چلنے پھرنے والا (حیوان)یا دو پروں سے اُڑنے والا جانور ہے،اُن کی بھی تم لوگوں کی طرح جماعتیں ہیں۔“

تاہم بہت اقسام موجود ہیں جو انسانوں کی طرح برادریوں میں نہیں رہتیں،جیسے کہ مادہ کالی بیوہ مکڑی،مثلا ً جو اپنی ساتھی کو اُس سے صحبت کرنے کے بعد کھاتی ہے۔یہ قرآن کو ردّ نہیں کرتی بلکہ صرف یہ وضاحت کرتی ہے کہ بعض اوقات کس طرح ہم اقتباس کو اُس کے لغوی معنوں میں نہیں لے سکتے۔

سانپ مٹی کھاتے ہیں؟

پیدایش 3:14—”سانپ مٹی نہیں کھاتے!”

ظاہر ہے کہ سانپ اپنی نشو ونما کے لئے مٹی نہیں کھاتے اگرچہ وہ سونگھنے کے لئے مٹی کے چند ذرات اپنی زبان پر ضرور لیتے ہیں تاکہ ہوا کو “چکھ” سکیں۔تاہم،”مٹی کھانا” یا “مٹی چاٹنا” (عبرانی : ועפר תאכל اور לחכו עפר) (وعافار توکال اور لحکوعافار) محض عبرانی محاورات ہیں جو شرمندگی اور شکست کو ظاہر کرتے ہیں:

"بیابان کے رہنے والے اُس کے آگے جھکیں گے اور اُس کے دُشمن خاک چاٹیں گے۔" (زبور شریف 72:9) "بادشاہ تیرے مربّی ہوں گے اور اُن کی بیویاں تیری دایہ ہوں گی۔وہ تیرے سامنے منہ کے بل گریں گے اور تیرے پاؤں کی خاک چاٹیں گے اور تُو جانے گی کہ میَں ہی خداوند ہوں جس کے مُنتظر شرمندہ نہ ہوں گے۔"(یسعیاہ 49:23)

سانپ کا مٹی کھانا ایک استعارہ ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زوال پر اُکسانے کی وجہ سے سانپ کو شرمندہ کیا ہے۔

حضرت قابیل کی نبوت

پیدایش 14:4-16 – ”آیت 12غلط نبوت کرتی ہے کہ حضرت قابیل زمین پر خانہ خراب اور آوارہ ہو گاکیونکہ آیت 16کہتی ہے کہ وہ اپنے علاقے میں جا بسا۔“

نبوت دو باتوں کی پیشین گوئی کرتی ہے: کہ حضرت قابیل اپنے وطن سے جلا وطن ہو گا اور یہ کہ وہ مسلسل اپنے دشمنوں کے آگے بھاگتا
پھرے گا۔عبرانی اصطلاحات(نع اور ناد)جن کا ترجمہ ”خانہ خراب“اور ”آوارہ“کیا گیا ہے، یہ دونوں الفاظ تعاقب کرنے والے سے بھاگنے کے معانی رکھتے ہیں۔ پھر بھی نقاد عام طور پر اِن دونوں کے درمیان موجود آیات کو چھوڑ دیتے ہیں جہاں خُدا تعالیٰ حضرت قابیل کے مایوسی کے ساتھ جواب دینے پر اُس کی سزا کا دوسرا حصہ آسان بنادیتے ہیں۔ خُدا تعالیٰ کے رحم کے وسیلے سے حضرت قابیل مزید اب آوارہ نہیں ہونا ہو گاکیونکہ خُدا تعالیٰ کو حضرت قابیل کو حملے سے بچانا تھا۔ ترمیم شدہ نبوت مکمل طور پر پوری ہوئی کیونکہ حضرت قابیل اپنی سرزمین سے دُور دراز علاقے میں جلاوطن ہو گیا۔ایک اَور تشریح یہ ہے کہ چونکہ خُدا تعالیٰ کی لعنت میں حضرت قابیل کے آوارہ ہونے کی کوئی خاص مدت شامل نہیں تھی،شاید وہ کچھ عرصہ خانہ خراب اور آوارہ رہا اور بعد میں کسی علاقے میں جا بسا۔

قرآن ایک اَور زیادہ پیچیدہ نبوت پیش کرتا ہے:

”اہل ِ روم مغلوب ہو گئے،نزدیک کے ملک میں۔اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آ جائیں گے۔چند ہی سال میں۔“
(سورۃ الر وم 2:30-4)

معروف قرآنی عالم یوسف علی کے مطابق،”کچھ“کے لئے عربی لفظ(بِضع)تین سے نو سال کے عرصے کو ظاہرکرتا ہے؛یا اسلامی فاؤنڈیشن کے قرآن کے ذیلی نوٹ نمبر 1330میں یہ تین سے دس سال کی طرف اشارہ کرتا ہے؛حضرت محمد نے خود ذکر کیا کہ پیشن گوئی کی گئی ’چھوٹی تعداد‘تین سے نو سال کے درمیان ہے ( البیضاوی)۔فارسیوں نے بار نطینیوں کو شکست دی اور 615/614عیسو ی کے قریب یروشلیم کو فتح کر لیا۔تاہم معروف مسلم مؤرخ الطبری اور عالم البیصاوی نے یہ شکست 628عیسوی سے 13-14 سال پہلے رکھی ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ اقتباس کم از کم پیدایش 12:4کی طرح مسئلے والا ہے۔