زمین حرکت نہیں کرتی؟

زبور1:93 – ”یہاں لکھا ہے کہ زمین حرکت نہیں کرسکتی جبکہ سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ زمین ایک محور کے گرد گھومتی ہے۔“

نقاد نے اشتقاقی غلطی کرتے ہوئے یہ غلط سمجھ لیا ہے کہ عبرانی لفظ، “תּבל تیبل” اور “ארץ ارتض” کا مطلب ”کُرّہ ارض“یا ”سیارہ“ کے معنوں میں زمین ہے۔ اِن الفاظ کا اکثر مطلب صرف ”زمین“ ہوتا ہے جیسے کسی ایک ملک میں۔یہ آیت صرف یہ کہتی ہے کہ براعظموں کے خشکی کے ٹکڑے خُدا تعالیٰ کی اعلیٰ حاکمیت کی وجہ سے محفوظ ہیں۔

کیا دُنیا تباہ ہو گی یا نہیں؟

زبور26:102 – ”یہاں لکھا ہے کہ زمین برباد ہو جائے گی مگر زبور69:78 میں اِس کے بالکل برعکس لکھا ہے۔“

الزام یہ ہے کہ زبور 26:102اور عبرانیوں 11:1کہتی ہیں کہ آسمان او رزمین ”برباد ہو جائیں گے“جب کہ واعظ 4:1میں اِس کے برعکس لکھا ہے (..”زمین…

چیونٹی کے راہنما؟

امثال 7:6 – ”یہ آیت کہتی ہے کہ چیونٹیوں کا کوئی سردار،ناظر یا حاکم نہیں ہوتا لیکن چیونٹیوں کی ملکہ ہوتی ہے۔“

یہ آیت ہمیں چیونٹیوں کے معاشرے کی شا ندار دنیا کو سمجھنے کا کہتی ہے لیکن اپنے اندر کوئی درست معلومات نہیں رکھتی۔نقاد کی دلیل اُن لوگوں کو قائل کرتی ہے جو دراصل ”ملکہ“ چیونٹی کے کردار سے ناواقف ہیں۔”ملکہ“ چیونٹی اپنی چیونٹیوں کی برادری میں کُلّی طور پر کوئی قیادت کی ذمہ داری نہیں رکھتی،وہ محض انڈے پیدا کرنے والی ایک فیکٹری ہے۔ایک معروف انسائیکلوپیڈیا اِس کی وضاحت درج ذیل الفاظ میں کرتا ہے:

”ملکہ“ کی اصطلاح اکثر گمراہ کرتی ہے کیونکہ مجموعی طور پر ملکہ کا کالونی پر کوئی اختیار نہیں ہوتا۔وہ ایک معروف اور فیصلے کا اختیار رکھنے والی ہستی کے طور پر جانی نہیں جاتی؛اِس کے بجائے اُس کا اپنا کام محض بچے پیدا کرنا ہے۔اِس لئے ملکہ کو کالونی کی حکمران کی بجائے پیداوار میں اضافے کرنے والی سمجھا جائے۔“ (“queen ant,” Wikipedia.org)

غزل الغزلات – ایک عاشقیہ مواد؟

غزل الغزلات- ”ممکن نہیں ہے کہ اللہ کا کلام ایسے عاشقیہ یا ناشائستہ مواد پر مشتمل ہو۔“

خدا کا کلام زندگی کے ہر شعبے کے لئے راہنما کا باعث ہے۔غزل الغزلات شوہر او ربیوی کے درمیان محبت کی ایک نظم ہے،جبکہ مواد علامتی ہے جو شادی کے مواد کے لئے زیادہ مناسب ہے۔محبوب اور پیاری کی اصطلاحات کا استعمال کتاب کے مرد او رعورت کے کرداروں کے شادی کے تعلق کی طرف اشارہ کرتا ہے۔مرد کا کردار اپنی بیوی کی طرف بطور ’بیوی‘ کا اشارہ نہیں کرتا بلکہ محبت سے بھرا ہوا نام ’پیاری‘ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔گیت میں جو دو اشخاص ہیں وہ شادی شدہ افراد ہیں،جو ایک دوسرے سے بہت محبت رکھتے ہیں،اِس لئے وہ ایک دوسرے کے لئے اپنی خوشی اور محبت کا اظہار کر رہے ہیں۔یقینا یہ کوئی ناشائستہ بات نہیں ہے،جب تک کوئی یہ نہ سوچے کہ شادی شدہ لوگوں کے درمیان بھی بُری بات ہے۔اِس کے برعکس،ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حضرت محمد ؐ نے یہ سکھایا کہ شادی اور شادی کے تعلقات ایک برکت اور اچھی بات ہے اور اُن کی باتیں (احادیث)شادی کی زندگی کی تفصیلات کی بہت زیادہ وضاحت پیش کرتی ہیں۔

جدید دور میں،مشرق او رمغرب دونوں میں،بعض اوقات ایسا معلوم ہوتا ہے کہ معاشرہ کہتا ہے کہ ہر طرح کا جنسی عمل اور موج مستی کی اجازت ہے ماسوائے وہ جو دو شادی شدہ لوگوں کے درمیان ہوتا ہے!…

کنواری کی نہ پوری ہونے والی نبوت؟

یسعیاہ 14:7 – ”حضرت عیسیٰ میں یہ نبوت تکمیل نہیں پاتی،کیونکہ ”علمہ“ کا مطلب ’کنواری‘ نہیں بلکہ ’جوان عورت‘ ہے اور حضرت عیسیٰ کو کتاب مقدس میں کہیں بھی عمانوایل نہیں کہا گیا۔“

پہلا اعتراض -یہ کہ ”علمہ“کا صرف مطلب ’جوان عورت‘ غلط ہے۔یہ دراصل خاص طور پر ’دوشیزہ‘ کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی وہ جوان عورت جو غیر شادی شدہ ہے اور جنسی طور پر پاک ہے اور اِس طرح وہ اپنی خصوصیات میں سے ایک کی طرح اپنے اندر کنوارپن رکھتی ہے۔اِس لئے جب حضرت یسوع مسیح کی پیدایش سے 200برس پہلے سپٹواجنٹ کے مترجمین نے ”علمہ“ ترجمہ یونانی لفظ پارتھینوس(’کنواری‘کے لئے ایک خاص اصطلاح)کیا تو اُنہوں نے عبرانی اصطلاح کا درست مطلب سمجھا۔
دونوں طرح سے، مقدسہ مریم ”جوان عورت“ بھی تھیں اور ایک ”کنواری“ بھی۔

نبوت کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ یہ بچہ عمانوایل کہلائے گاجس کا سادہ مطلب ”خدا ہمارے ساتھ“ ہے۔
[ عبرانی سے یہ غیر واضح ہے کہ یہ اِس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حضرت مریم اپنے بچے کو یہ کہیں گے یا دوسرے اُس بچے کو یہ کہیں گے ]۔اِس حقیقت کے ساتھ ساتھ کہ انجیل شریف میں یہ لقب خاص طور پر حضرت عیسیٰ کو دیا گیا (متی 23:1) پوری تاریخ میں لاکھوں مسیحی حضرت مسیح کو”عمانوایل“ مانتے رہے ہیں۔
اِس لئے یہ کس لحاظ سے نامکمل نبوت ہو سکتی ہے؟?…

کیا یرمیاہ 30:36 پوری نہ ہونے والی نبوت ہے؟

رمیاہ 30:36 – ”یہ آیت نبوت کرتی ہے کہ یہویقیم کا کوئی بھی داؤد کے تخت پر کبھی بھی نہ بیٹھے گا،لیکن 2 -سلاطین 6:24 میں لکھاء ہے کہ یہویقیم کے بعد اُس کا بیٹا یہویاکین اُس کی جگہ بادشاہ ہوا۔یہ ایک پوری نہ ہونے والی نبوت ہے۔“

یہاں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا،یہ محض عبرانی اصطلاح ”یوشب“ کو نہ سمجھنا ہے۔ عبرانی فعل ”یوشب“ کا ترجمہ ”بیٹھ“ کیا گیا ہے جو واضح طور پر ”رہنا“،”قائم رہنا“،”بسنا“،”مقیم ہونا“کے معنوں میں لاگو ہوتا ہے۔اِس لحاظ سے اِس کا مطلب کم مستقل طور پر تخت نشین ہونے کے ہیں۔یہویقیم کا بیٹا یہو یاکین کسی بھی لحاظ سے تخت پر نہیں بیٹھا،کیونکہ صرف اُس کی حکومت کے تین ماہ بعداُس کے شہر کی دیواریں نبوکد نضر کی فوجوں کے سامنے گر گئیں اور یہویاکین کو اسیر کر لیا گیا۔
نقاد کے الزامات کے برعکس یہ نبوت کہ یہویاکین کی اُ س کے نام سے کوئی بادشاہی سلسلہ نہ ہو گا پوری ہوئی۔

قرآن میں قدرے اِس سے زیادہ پیچیدہ نبوت موجود ہے:”اہل ِ روم مغلوب ہو گئے۔نزدیک کے ملک میں۔اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب آ جائیں گے،چند ہی سال میں“(سورۃ ا لروم 2:30-4)۔قرآن کے نامور عالم یوسف علی کے مطابق،
لفظ ”چند“کے لئے عربی لفظ (بِضع تین سے نو سال کے عرصہ کی طرف اشارہ کرتا ہے؛یا اسلامک فاؤنڈیشن قرآن کے ذیلی نوٹ نمبر 1330کے مطابق یہ تین سے دس سال کی طرف اشارہ کرتا ہے؛ محمدؐ نے خود فرمایا’چھوٹا عدد‘ تین سے نو سالوں کے درمیانی عرصہ کی پیشین گوئی کرتا ہے (البیضاوی)۔فارسیوں نے 615/614عیسوی میں باز نطینیو ں کو شکست دی اور یروشلیم پر قبضہ کر لیا۔
پھر بھی نامور مسلمان مؤرّخ الطبری اور عالم البیضاوی نے اِس شکست کو 13-14سال بعد 628عیسوی میں رکھتے ہیں۔ایسا دکھائی دیتاہے کہ یہ حوالہ پیدایش 12:4کی طرح ہی مسئلے والا ہے۔

ایک سینگ والی افسانوی مخلوقات

یسعیاہ 7:34 – ”بائبل ایک سینگ والی افسانوی مخلوقات کے بارے میں کیوں بات کرتی ہے؟“

کنگ جیمز ورژن میں ترجمہ شدہ لفظ ”یونی کارن“عبرانی میں ”ریم“ ہے جس کا تمام جدید تراجم اور لُغات میں ”جنگلی سانڈ“ کے نام سے زیادہ درست ترجمہ کیا گیا ہے۔جدید آثار قدیمہ نے اِس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ کنگ جیمز ورژن اور سپٹواجنٹ کے یونانی تراجم میں اِس حوالے کی غلط تشریح کیوں کی ہے۔مسوپتامیہ کی کھدائیوں میں دکھایا ہے کہ اسورنصرپال
(Assurnasirpal)بادشاہ ایک جنگلی سانڈ کا شکار کررہا ہے جس کے سر پر ایک سینگ ہے۔ متعلقہ متن یہ بتا تا ہے کہ یہ جانور ’ریمو‘
(rimu)کہلاتا ہے۔جب سپٹواجنٹ کے مترجمین نے غلطی سے”مونو سیروس“(monoceros)ایک سینگ کی اصطلاح استعمال کی
،توشاید وہ اِس مخلوق سے واقف تھے اور یہ سمجھ لیا کہ ”ریم“ ”ریمو“ تھا۔کنگ جیمز ورژن کے مترجمین نے اِس غلط ترجمے کی پیروی کرتے ہوئے ترجمہ کیا۔

قرآن میں ہم پڑھتے ہیں کہ حضرت سلیمان نے ایک دیومالائی مخلوق سے بات چیت کی جسے عفریت کہا جا تا ہے (سورۃ الانعام
15:27-44)جو حامد اللہ کے مطابق،”ایک طرح کا بُرا شیطان ہے جو بہت سی افسانوی کہانیوں میں پایا جاتا ہے۔“بریٹینیکاکے انسائیکلوپیڈیا میں اِس کی تعریف درج ذیل الفاظ میں کی گئی ہے:

”اسلامی دیومالائی کہانیوں میں، جہنمی جنوں کی ایک قسم (ایسی روحیں جو فرشتوں اور شیطانوں کے درجے سے کم ہیں)مذکور ہے جو اپنی قوت اور مکار ی کے بارے میں جاناجاتا ہے۔ایک عفریت ایک عظیم پروں والی دھوئیں کی مخلوق ہے چاہے وہ نر ہو یا مادہ،جو زیر زمین رہتے ہیں اور مسلسل تباہی پھیلاتے ہیں۔عفریت قدیم عربی نسلوں کے ساتھ معاشرے کی طرح رہتے ہیں،جو بادشاہوں،قبیلوں اور برادریوں کی صورت میں مکمل ہوتے ہیں۔وہ عام طور پر ایک دوسرے کے ساتھ شادی کرتے ہیں لیکن وہ انسانوں کے ساتھ بھی شادی کر سکتے ہیں۔
جب کہ عام ہتھیار اور قوتوں کا اُن پر کوئی اختیار نہیں،وہ جادو کے اثر پذیر ہیں،جنہیں انسان اُنہیں مارنے یا اُن پر قبضہ کرنے یا اُنہیں غلام بنانے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔“

معراج کے واقعہ میں کہا گیا ہے ہے کہ حضور اکرم جسمانی طور پر ایک سفید پروں والے گھوڑے پر سوار ہوئے جس کی مور کی طرح کی دُم تھی اور ایک فرشتے کا سر تھا۔اگر یہ عفریت او ربرّاق قابل ِ قبول ہیں،تو یقیناجنگلی سانڈپر بحث کرنا قابل ِ قبول ہے۔

زمین کے چار کونے؟

یسعیاہ 12:11 – ”یہ حوالہ ظاہر کرتا ہے کہ زمین چپٹی ہے،ورنہ اِس کے چار کونے نہیں ہو سکتے تھے۔“

یہ بالکل واضح ہے کہ یہ چاروں سمتوں (شمال،جنوب،مشرق،مغرب)کے لئے ایک محاورہ ہے۔جس لفظ کا ترجمہ ’کونا‘ کیا گیا ہے وہ
’کاناف‘ہے جس کا ترجمہ،”انتہا“،”چوتھائی“،”سرحد“،”حد“یا حتیٰ کہ ”پہلو“ بھی ہو سکتا ہے۔حتیٰ کہ قدیم تہذیبیں جو یہ یقین رکھتی تھیں کہ دنیا چپٹی ہے،اُنہوں نے بھی یہ سوچا کہ یہ چپٹی گول تھی،جو چاروں حدوں یا کونوں سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی ہوگی۔قدیم تہذیبیں چار بنیادی سمتوں شمال،جنوب،مشرق،مغرب کو سمجھی تھیں،اِس لئے ہمیں فطری طور پر چار ’کاناف‘کا ترجمہ کونوں کرنا چاہئے۔ کتاب مقدس کے نقاد احمد دیدات نے یہ کہتے ہوئے اِس عام محاورے کواستعمال کیا:

”دنیا کے چاروں کونوں کے لئے۔“1

قرآن میں بھی ایسی آیات موجود ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ زمین چپٹی ہے:

”اورآسمان کی طرف کہ کیسا بلند کیا گیاہے اور پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح کھڑے کئے گئے ہیں اورزمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئی
(سورۃ الغاشیہ 18:88-20)

اِس آیت پر نامور مفسِّر الجلالین کی تفسیر میں لکھا ہے،

”جہاں تک کے اُس کے لفظ سُطِحتَ،’ہموار بچھا دیا‘ کا تعلق ہے اِس کی لغوی قرأت تجویز کرتی ہے کہ زمین چپٹی ہے جو شریعت کے زیادہ تر علمائے کرام کی رائے ہے نہ کہ گول جیسی کہ علم ِ نجوم والے کہتے ہیں …“2

اِسی طرح مصر کے علم ِ الہٰی کے ماہر امام سیوطی نے بھی یہ کہا کہ زمین چپٹی ہے۔

  1. In Who moved the Stone?

کیا یرمیاہ 8:8بیان کرتاہے کہ توریت شریف تبدیل ہو گئی تھی؟

یرمیاہ 8:8 – ”یہ حوالہ ثابت کرتا ہے کہ توریت شریف بگڑ چکی ہے۔“

”تم کیوں کر کہتے ہو کہ ہم تو دانش مند ہیں اور خدا وند کی شریعت ہمارے پاس ہے؟لیکن دیکھ لکھنے والوں کے باطل قلم نے بطالت پیدا کی ہے۔“(یرمیاہ 8:8)

وہ لوگ جو یرمیاہ کے مرکزی خیال سے واقف ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ آیت صحائف کی جھوٹی تشریح (تفسیر)کی تعلیم کی بات کر رہی ہے نہ کہ متن کی تبدیلی کی۔یہ بات واضح ہے کہ یرمیاہ نے خُدا تعالیٰ کی شریعت کی پائداری پر شک نہیں کیا،کیونکہ وہ باربار اسرائیل کو شریعت کی پیروی کی تلقین کرتاہے کہ جو خُدا تعالیٰ نے ”تمہارے سامنے رکھی“(یرمیاہ 4:26)۔یہ بات اُس کے لئے تضاد کا باعث ہو گی کہ وہ لوگوں کو ایسی شریعت کی فرمانبرداری کرنے کا کہے جو تبدیل ہو چکی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ یہ آیت یہ تعلیم نہیں دے سکتی کہ توریت شریف تبدیل ہو چکی ہے۔یرمیاہ کے دنوں میں، اسرائیلیوں نے سوچا کہ خُدا اُن کی بت پرستی کو نظر انداز کرے گا اور کبھی سزا نہ دے گا۔یہود ی فقیہوں، کاہنوں اور نبیوں نے گناہ آلودہ اسرائیل کو توریت شریف کے ایسے حصے نہ پہنچاکر جن میں نافرمانی کرنے پر عدالت کرنے کی پیشین گوئی کی گئی تھی، شَہہ دی اور توریت شریف کے صرف ایسے حصے پہنچائے جن میں سلامتی کی پیشین گوئی کی گئی تھی۔یرمیاہ کا اُن کے لئے خُداتعالیٰ کی طرف سے مجموعی پیغام یہ تھا،”تم سب نافرمانی کے سبب ہلاک ہونے والے ہو،جیسے کہ شریعت واضح طور پر کہتی ہے مگر فقیہ ایسے نہیں کہہ رہے۔“جلد ہی یرمیاہ سچا ثابت ہوا کیونکہ فوراً اسرائیل بابلیوں کے ہاتھوں برباد ہو گیا۔

جب ہم اُس کے بعد کا متن دیکھتے ہیں تویہ واضح ہو جاتا ہے کہ یرمیاہ یہاں کیا کہہ رہا ہے۔یرمیاہ فقیہوں (دینی اُستادوں) کی ملامت کررہاتھا جو توریت شریف کی ایسی آیات کو بالکل نہیں پہنچاتے تھے جو واضح طور پر نافرمانی کی عدالت کی پیش گوئی کرتی ہیں، اور چھانٹ چھانٹ کر توریت شریف میں سے ایسی آیات پہنچا رہے تھے جو (فرماں برداری کی اوّلین شرط کو نظر انداز کرتے ہوئے)تسلی اور امن کی پیشین گوئی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ شریعت کے بالکل برعکس اپنی تقریروں،تبصروں اور تحریروں میں یہ فقیہ پیشین گوئی کر رہے تھے۔

اگر یرمیاہ یہ کہہ رہا تھا کہ فقیہ نے دراصل متن تبدیل کیا تو اِس کا مطلب یہ ہو گا کہ اُنہوں نے نافرمانی کے حوالے سے عدالت کی واضح تنبیہ مٹاڈالیں۔لیکن ہم اب بھی یہ تنبیہ استثنا15:28-68کے متن میں پاتے ہیں۔صاف ظاہر ہے کہ یہ آیت مقدس کلام کے متن کے بگاڑ کے بارے میں بات نہیں کر رہی اور نہ صرف کتاب مقدس بلکہ قرآن بھی یہی تعلیم دیتا ہے کہ اللہ کا کلام تبدیل نہیں ہو سکتا۔,

یرمیاہ کی طرح حضرت مسیح بھی توریت کی شریعت کو نظرا نداز کرنے اور اِس کے بجائے تالمود کی تعلیم دینے کی وجہ سے یہودی فقیہوں کے
مخالف تھے۔آپ نے واضح طور پر کہا،
”میَں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ ایک شوشہ توریت سے ہر گز نہ ٹلے گاجب تک سب کچھ پورا نہ
ہو جائے۔“(متی 18:5)

اِس سے زیادہ واضح بات نہیں کی جاسکتی۔اَور بھی بہت سی آیات ہیں جو اِسی بات کی تعلیم دیتی ہیں:زبور89:119؛امثال5:30؛
یسعیاہ 8:40؛1 -پطرس23:1؛1 -پطرس25:1؛2 – پطرس 20:1؛2 -تیم 16:3۔یہ بہت دھوکے کی بات ہے کہ اِس طرح کی آیت سیاق و سباق سے باہر لی جائے اور یہ ثابت کیاجائے کہ متن تبدیل ہو چکا ہے جبکہ اِس کے ساتھ سیکڑوں واضح آیات موجود ہیں جو اِس کے برعکس بات کرتی ہیں۔یہ ایسے کہنا ہے کہ جیسے قرآن تعلیم دیتا ہے کہ ”عزرا اللہ تعالیٰ کا بیٹا“ہے،یہ صرف ہم اِس لئے کہتے ہیں کیونکہ یہ الفاظ قرآن میں پائے جاتے ہیں (30:9)۔

کیا حزقی ایل 23باب فحش ہے؟

حزقی ایل 23باب – ”کتاب مقدس میں ’فحاشی‘ اور دیگر غیرشائستہ باتیں موجود ہیں۔“

یہ حوالہ ایک استعارہ ہے جو اسرائیل اور سامریہ کی بت پرستی کا دو کسبیوں کے ساتھ موازنہ کرتا ہے جن کے نام اہولہ او راہولیبہ ہیں۔

اِس حوالہ کو ظاہر کرنے میں خُدا تعالیٰ کا مقصداِن سرد مہر اقوام کو ایک دھچکا پہنچانا ہے تاکہ وہ یہ احساس کریں کہ اُن کی بت پرستی کس حد تک
نفرت انگیز ہے۔اِس مقصد کی خاطر وہ جسم فروشی کا استعارہ استعمال کرتا ہے جو بدترین گناہوں میں سے ایک ہے۔قرآن بھی لوگوں کے عیب جوئی کے گناہ کا آدم خوری کے خوفناک گناہ کے ساتھ موازنہ کرتاہے جو قابل ِنفرت ہے (12:49)۔دونوں حوالوں کا مقصد بے حِس گنہگاروں کو اُن کے خوفناک گناہ سے باخبر کرنا ہے۔ایسی سخت زبان استعمال کرنے کی ضرورت تھی تاکہ نبی کا پیغام اُن کے دل ودماغ پر گہرا کام کرے۔

بت پرستی اور گناہ خُدا تعالیٰ اور ہمارے نزدیک ناپسندیدہ ہیں۔ اِس خُدا کا مقصد فحش باتیں کرنا نہیں بلکہ ایسے لوگوں پر خُدا تعالیٰ کی عدالت کا اعلان کرنا ہے۔حوالہ کے آخر میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اِس طرح کی زبان کیوں استعمال کی گئی ہے۔خُداتعالیٰ فرماتے ہیں: ”وہ تمہارے فسق وفجو رکا بدلہ تم کو دیں گے اور تم اپنے بتوں کے گناہوں کی سزا کا بوجھ اُٹھاؤ گے تاکہ تم جانو کہ خدواند خدا میَں ہی ہوں۔“
(حزقی ایل 49:23)۔

صحیح بخاری سے ہم سیکھتے ہیں کہ قرآ نی بیان ،”تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں تو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاؤ“
(سورۃ البقرۃ 223)کئی طرح کی جنسی حالتوں کے بارے میں ہے ( (صحیح بخاری 51.60.6)۔
حدیث میں وضاحت کے ساتھ چند جنسی واقعات بھی موجود ہیں،لیکن عبرانی صحائف کے برعکس اِن کا مقصد انبیا ئے کرام کی مثبت تصویر پیش کرنا ہے:

ابو ہریرہ سے روایت ہے:اللہ تعالیٰ کے رسول نے فرمایا،”(پیغمبر)حضرت سلیمان نے فرمایا،”آج رات میَں نوے عورتوں کے ساتھ
سوؤں گا،ہر عورت سے ایک لڑکا پیدا ہو گا جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑے گا۔“اِس پر اُن کے ساتھی (سفیان نے کہا کہ اُس کا ساتھی ایک فرشتہ ہے)نے اُن سے کہا،”کہو،”اگر اللہ چاہے (انشااللہ)۔“لیکن حضرت سلیمان (یہ کہنا)بھول گئے۔وہ اپنی تمام بیویوں کے ساتھ سوئے،
لیکن عورتوں میں سے کسی نے بھی بچے کو جنم نہ دیا ماسوائے ایک کے جس نے آدھے بچے کو جنم دیا۔ابو ہریرہ مزید فرماتے ہیں:نبی کریم نے فرمایا،”اگر حضر ت سلیمان نے کہا ہوتا،”اگر اللہ چاہے“(انشا ءَ اللہ)،تو وہ اپنے عمل میں ناکام نہ ہوئے ہوتے اور وہ کچھ حاصل کر لیتے جس کی اُنہوں نے خواہش کی تھی۔“ایک مرتبہ ابو ہریرہ نے فرمایا:رسول اللہ نے فرمایا،”اگر اُنہوں نے قبول کیا ہوتا۔“(صحیح بخاری 711.8)

قرآن اور حدیث کے اِن حصوں کو ناقص مواد نہیں سمجھنا چاہئے اور نہ ہی عبرانی صحائف کے ساتھ ایسا کرنا چاہئے۔یہ طعن آمیز ہے کہ نقاد کتاب مقدس پر فحش مواد رکھنے کا الزام لگائیں،جب پوری تاریخ کے دوران معاشرے میں فحاشی کی مخالفت کرتے ہوئے یہ حیا اور جنسی پاکیزگی کی زبردست قوت رہ چکی ہے۔مثلاً مشرق ِ وسطیٰ میں محمد ؐکے زمانے سے صدیوں پہلے مسیح کے پیروکار حجاب استعمال کرتے تھے جو آج بھی مشرق ِ وسطیٰ میں مسیحی استعمال کرتے ہیں۔

یہ یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ عبرانی میں جنسی اصطلاحات کے تراجم اکثربہت حد تک گمراہ کن ہیں۔عبرانی صحائف جنسی معاملات پر بات چیت کرنے میں شدید حد تک بالواسطہ بات کرتے ہیں۔ اِس لئے مثال کے طورپر آیت 20میں جس لفظ کا ترجمہ اکثر ”عضو تناسل“ کیا گیا ہے وہ سادہ طور پر لفظ ”بدن“ (عبرانی،بسر)ہے۔جو کچھ نقاد کہتے ہیں اُس کے برعکس،جنتا ممکن ہو سکتا ہے عبرانی صحائف ہوش مندی سے کام لیتے ہیں۔