آدمیوں کا کلام یا اللہ تعالیٰ کا کلام؟

”قرآن تمام کا تمام اللہ تعالیٰ کا کلام ہے لیکن بائبل اللہ تعالیٰ کا کلام،نبیوں کے اپنے الفاظ،اور مؤرّخین یا بیان کرنے والے کے الفاظ کا مجموعہ ہے۔“

یہ اعتراض کُلّی طور پر اِس بات کی غلط سمجھ پر مبنی ہے کہ دراصل ’اللہ تعالیٰ کا کلام‘(کلمتہ اللہ)ہے کیا۔نقاد سوچتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام اِس کے سوا اَور کچھ نہیں کہ وہ صیغہ واحد حاضر کے بیانات ہیں جو اللہ تعالیٰ سے انسان کو دئیے گئے ہیں،یعنی یہ خُدا تعالیٰ کے زبانی کلمات کا ریکارڈ ہے۔یہ غلط خیال دراصل پھر قرآن کو بھی اللہ تعالیٰ کا کلام ہونے کے لئے ردّ کر دے گاکیونکہ اِس معیار کے مطابق قرآن بھی ویسے ہی اللہ تعالیٰ کے کلام،آدمیوں کے الفاظ،اور حتیٰ کہ حضرت جبرائیل ؑ کے الفاظ پر مشتمل ہے۔قرآن زیادہ تر خُداکے صیغہ واحد حاضرمیں انسانوں سے خطاب پر مشتمل ہے۔تضاد کے طورپر،سورۃ فاتحہ انسان کی خدا سے دعا ہے۔اِسی طرح،سورۃ مریم میں حضرت جبرائیل ؑ کا بیان ہے:”ہم تمہارے پروردگار کے حکم کے سوا اُتر نہیں سکتے“(63:19)۔مسلمان مُبصّرین کے مطابق،یہ مکاشفہ دینے کے عرصے کے درمیان طویل وقفوں کی شکایت کے جواب میں حضرت جبرائیل ؑ فرشتے کے الفاظ ہیں۔
اِس لئے غلطی سے ”اللہ تعالیٰ کے کلام“ کی کی گئی تعریف ایسا ہرگز نہیں کرے گی۔”اللہ تعالیٰ کا کلام“ کازیادہ درست مطلب ”اللہ تعالیٰ کا پیغام“ ہے – ”2  ہ اُس کا ایک مکمل پیغام ہے جو ہر وہ چیز ظاہر کرتا ہے جو ہماری”زندگی اور دین داری“ کے لئے ضروری ہے۔خدا کی مرضی تاریخی واقعات اور کئی انبیائے کرام کے ذریعے ظاہر کی گئی اور خدا نے چند خاص لوگوں کو بالکل اُسی طرح یہ تاریخ لکھنے کی تحریک بخشی جس
طرح اُس نے چاہا تاکہ یہ درست طریقے سے اُس کی سچائی اور مرضی کو ظاہر کرے۔ درحقیقت،یہ خُدا تعالیٰ کے کلام کی کاملیت کی خوبصورت علامات میں سے ایک ہے کہ خود اِس میں وہ سب کچھ موجود ہے جو ایمان کی زندگی کے لئے ضروری ہے۔اِس بات کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ کون سی حدیث مُستند ہے اور اِس بات کا فیصلہ کرنے کی ضرورت نہیں کہ خُدا تعالیٰ کیا چاہتاہے۔خُدا تعالیٰ کے کلام میں خود ہر وہ چیز موجود ہے جسے ہمیں جاننے کی ضرورت ہے۔یہ بھرپور اور مکمل ہے،انسان کے لئے اللہ تعالیٰ کی کُلّی مشاورت۔
انجیل شریف میں حضرت عیسیٰ مسیح کے رسولوں کی تحریریں شامل ہیں اُس کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔زیادہ تر انبیائے کرام جیسے حضرت یسعیاہ اور حضرت یرمیاہ،اُن کے سلسلے میں خُدا تعالیٰ نے اُنہیں ”کلمتہ اللہ“ کی صورت میں ایک خاص پیغام دیااور اِس طرح انبیاء کرام کا وہ کلام خاص ”کلمتہ اللہ“ تھا۔تاہم،حضرت مسیح دوسرے انبیائے کرام کی نسبت مختلف تھے کیونکہ وہ اپنی ذات میں خود ”کلمتہ اللہ“ تھے،اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا زندہ پیغام۔اِس وجہ سے اُس کے صحائف بھی مختلف ہیں۔وہ اِس ”کلمتہ اللہ“کے اعمال اور الفاظ کے الہٰی تحریک سے لکھے ہوئے واقعات ہیں جو حضرت مسیح کے شاگردوں نے روح القدس کی تحریک سے لکھے۔

  1. شاید یہی وجہ ہے کہ کیوں ابی بن کعب (جنہیں صحیح بخاری میں قرآن کے بہترین قاریوں میں سے ایک کہا گیا ہے)نے قرآن کی اپنی جلد میں سورۃ فاتحہ شامل نہیں کی،کیونکہ سورۃ الحجر بڑی وضاحت سے سورۃ فاتحہ کو”قرآن“سے الگ مقام دیتی ہے:”اور ہم نے تم کو سات
    (آیتیں)جو (نمازمیں)دہرا کر پڑھی جاتی ہیں (یعنی سورۃ الحمد)اور عظمت والا قرآن عطا فرمایاہے۔“(87:15)۔
    انجیل شریف،2 -پطرس 3:1۔

انسان کی بنائی ہوئی کہانیاں؟

”قرآن کے علاوہ،کتاب ِ مقدس اور باقی تمام صحائف پڑھنے پر انسان کی بنائی ہوئی کہانیاں لگتے ہیں -’ابتدا میں‘وغیرہ۔“

دراصل زیادہ تر مذاہب کے صحا ئف پڑھنے میں کہانیاں معلوم نہیں ہوتے بلکہ وہ انسانی کہانیوں کی نسبت باطنی اظہارِ خیال سے زیادہ ملتے جلتے ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ایک عظیم پیغام رساں ہے۔اِس لئے جب خدا تعالیٰ انسانوں تک اپنی مرضی کو پہنچانے کے لئے انسانی زبان استعمال کرتا ہے تو ہمیں محض یہ توقع رکھنی چاہئے کہ یہ کسی مخفی یا باطنی،بے ربط سے خیال سے مشابہت نہیں رکھتی بلکہ یہ ایک تعارف،سامنے آنے والے مکاشفہ اور نتیجے کے ساتھ اُس کے ایک مکمل اورمنظم منصوبے کی پیش کش ہے۔اور یہی ایک طریقہ ہے جس سے عقلی خبر رسانی ہے۔ یہی وہ کچھ ہے جو ہمیں کتاب ِ مقدس میں ملتا ہے۔ اگر ایک انسانی نصاب کی کتاب یا مضمون میں من مانی کرتے ہوئے،بے ربط طریقے سے ہر 2 – 5 جملوں کے بعد موضوع تبدیل ہو جائے،جیسے کہ چند مذہبی متون میں ہوتا ہے، تو تعلیمی روایت رکھنے والے لوگ اِسے ایک بُری خبر رسانی کے طور پر ردّ کر دیں گے۔

خدا تعالیٰ عظیم ہے اور انسانی زبان سے بالاتر ہے لیکن جب انسانوں پر اپنی کامل مرضی ظاہر کرتا ہے تو وہ ایک اعلیٰ ترین واضح پیغام رساں ہوتا ہے۔اگر اُس کا کلام اُلجھانے والا،بے ربط اور ناکافی،کئی مرتبہ ایک مضمون سے دوسرے مضمون پر چلے جانے والا ہوتا تو اِس ناکافی اور مبہم کلام (نعوذ بااللہ)کی وضاحت کرنے کے لئے عام انسانوں نے دوسری واضح کتابیں مرتب کر لی ہوتیں۔ لیکن پوری تاریخ میں خدا تعالیٰ نے اپنے تمام کاموں کو واضح کر نے کے لئے اپنی حکمت میں ہر قانون،تعلیم اور الہٰی نظریے کے ساتھ جسے ہمیں جاننے کی ضرورت ہے، اپنی آسمانی کتب مکمل طور پر نازل کیں۔

لیکن خداتعالیٰ واضح پیغام رساں ہے،اور اعلیٰ ترین پیغام رساں ہے،جو سہل،ذی عقل،واضح پیغام رسانی کا ماہر ہے۔یہ واقعی ایک معجزہ ہے کہ آسمانی صحائف،جو 40مختلف انبیا ئے کرام کے ذریعے 2000سال کے عرصہ میں لکھئے گئے،اُن میں اتنا واضح اتفاق ہو سکتا ہے،جس میں ایک تعارف(پیدایش1-11)،سامنے آنے والا منصوبہ،اور نتیجہ شامل ہے۔یہ ہر اُس بات کی مکمل پیش کش ہے جسے انسانوں کو خدا کی مرضی کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے اور اِس میں کچھ باقی نہیں چھوڑاگیا۔اِس میں کسی اضافی حدیث،نصابی کتاب یا کسی اَور انسانی اختراع کی ضرورت نہیں۔ایک دور دراز کے جنگل کے قبیلے کا شخص جس کے پاس اُس کی اپنی مادری زبان میں کتاب مقدس موجود ہو،اُس کے پاس خدا تعالیٰ کی سچائی کو سمجھنے کے لئے ہر وہ چیز ہو گی جس کی اُسے ضرورت ہے۔

مورس بیکاؤلے نے الزام لگایا ہے کہ خوشخبری رولینڈ کے گیت کی مانند ہے،”جو غیر حقیقی روشنی میں ایک حقیقی واقعہ کو مربوط کرتا ہے۔“دلیل یہ ہے کہ اناجیل کے لکھنے کا مطمع نظر تخلیقی تھا کہ تاریخی۔آکسفورڈ کا جانا پہچاناماہر سی۔ایس۔ لوئیس جو بیکاؤلے کے برعکس طویل عرصے تک رومانی ادب کا عالم تھا،وہ درج ذیل الفاظ میں گواہی دیتاہے:

مجھے (نیا عہد نامہ کے)نقادوں پر بھروسا نہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُن میں ادبی پرکھ کی کمی ہے اور جو متن وہ پڑھ رہے ہیں اُس کو سمجھنے سے قاصر ہیں …اگر وہ مجھے بتائے کہ انجیل شریف میں کچھ کہانی ہے یا رومان ہے،تو میَں اُس شخص سے پوچھتا ہوں کہ اُس نے کتنی کہانیاں اور کتنی رومانی داستانیں پڑھی ہیں …میَں اپنی ساری زندگی نظمیں،رومانی داستانیں،رویائی ادب،کہانیاں،تصوراتی کہانیاں پڑھتا رہا ہوں۔میں جانتا ہوں کہ وہ کس طرح کی ہوتی ہیں۔میں جانتا ہوں کہ اُن میں سے کوئی بھی اِس (انجیل شریف)کی مانند نہیں ہیں۔2

بہت سے نامور مؤرّخین کے مطابق،عبرانی صحائف انسانی تاریخ میں پہلی اصلی تاریخی تحریریں ہیں،کیونکہ وہ اپنے آباواجداد کے نام کو اُونچا نہیں کرتے بلکہ اُن کی کمزوریاں بھی بتاتے ہیں۔رسولوں نے اِس روایت کی پیروی کی:

”ہم نے دغا بازی کی گھڑی ہوئی کہانیوں کی پیروی نہیں کی تھی بلکہ خود اُس کی عظمت کو دیکھا تھا۔“(2 -پطرس 16:1)

”اِس لئے اے معزز تھیفلُس میں نے مناسب جانا کہ سب باتوں کا سلسلہ شروع سے ٹھیک ٹھیک دریافت کر کے اُن کو تیرے لئے ترتیب سے لکھوں۔تاکہ جن باتوں کی تُو نے تعلیم پائی ہے اُن کی پختگی تجھے معلوم ہو جائے۔“(لوقا3:1-4)

  1. Maurice Bucaille, The Bible, the Qur’ān and Science, (American Trust Publications: Indianapolis, 1979), p viii.

صحائف پرانے ہو چکے ہیں؟

”قرآن کے آنے سے اُسے توریت شریف اور انجیل پر سبقت مل گئی ہے اور وہ غیر متعلقہ ہو گئی ہیں۔“

مسلمانوں کے درمیان یہ ایک وسیع خیال موجود ہے کہ”قرآن کے آنے سے اُسے توریت شریف اور انجیل پر سبقت مل گئی ہے اور وہ غیرمتعلقہ ہو گئی ہیں“۔یہ شاندار الزام قرآن یا حدیث میں کوئی بنیاد نہیں رکھتا یہ محض ایک رائے ہے جو قرآن سے تضاد رکھتی ہے۔

اگر یہ الزامات درست ہوتے تو پھر قرآن یہودیوں او رمسیحیوں کو یہ ہدایت نہ کر رہا ہوتا:”جب تک تم تورات اور انجیل کو اور جو (اَور کتابیں)تمہارے پروردگار کی طرف سے تم لوگوں پر نازل ہوئیں اُن کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہو سکتے۔“(سورۃالما ئدہ 68:5)،
اِس کی بجائے یہ بھی کہا جا سکتا تھا،”تمہاری کوئی بنیاد نہیں ہو سکتی جب تک تم توریت شریف اور انجیل شریف کو قرآن ِ کے حق میں ختم نہیں کر دیتے۔“قرآن یہ نہیں کہتا:”اور اہل ِ انجیل کو چاہئے کہ جو احکام خدا نے اِس میں نازل فرمائے ہیں اُس کے مطابق حکم دیا کریں۔“(سورۃ المائدہ 47:5)بلکہ یہ کہتا کہ،”اہل ِ انجیل کو انجیل کو بھول جانا چاہئے اور قرآن کے مطابق حکم دیں۔“
اِس سے یہ بات واضح ہے کہ قرآن نے کبھی بھی پچھلے مکاشفات کی تبدیلی کا الزام نہیں لگایابلکہ اِس کے بجائے ”صاف عربی زبان“
(195:26)میں اُن کے اب تک مُستند ہونے (48:5)کی تصدیق کرتا ہے۔اگر ہر ایک صحیفہ حقیقت میں اپنے پچھلے صحیفے کو ترک کرتا ہے تو پھر ہم حضرت مسیح سے توقع کریں گے کہ اُنہوں نے توریت شریف کو ردّ کیا ہو گامگر اِس کے برعکس اُنہوں نے اِس کی اب تک قائم اور مُستند ہونے کی تصدیق کی اور خدا تعالیٰ کی اگلی کہانی انجیل شریف کا اضافہ کیا۔ 

منسوخ؟ ”ہم جس آیت کو منسوخ کر دیتے یا اُسے فراموش کرا دیتے ہیں تو اُس سے بہتر یا ویسی ہی اَو رآیت بھیج دیتے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ خدا ہر بات پر قادر ہے؟“(سورۃ البقرۃ 106:2)
تاہم یہ آیت بالکل واضح ہے کہ منسوخ کا اشارہ کس طرح ہے یعنی انفرادی طورپر لکھی گئی قرآنی آیات نہ کہ کتابیں۔جب ہم تمام سیکڑوں احادیث کا جائزہ لیتے ہیں جو اِس منسوخ کے نظریے کی طرف اشارہ کرتی ہیں تو یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ یہ آیت قرآنی آیات کی طرف اشارہ کر رہی ہے نہ کہ کسی کتاب کی طرف۔

غلَط مماثلتیں – وہ جو توریت شریف او رانجیل شریف کو متروک سمجھتے ہیں وہ اکثر مشابہتوں سے بحث کرتے ہیں جیسے کس طرح پرانے کمپیوٹر پروسیسرز کی جگہ نئے کمپیوٹرز نے لے لی ہے، یا نئی حکومتیں نئے آئین لے کر آتی ہیں۔تاہم،ایسی مشابہتیں اِس لئے پیش نہیں کی جا سکتیں کیونکہ پروسیسرز اور آئین اِس لئے بدلے جاتے ہیں کیونکہ وہ کامل نہیں ہوتے۔یہ خدا تعالیٰ کی توہین ہے کہ یہ کہا جائے کہ اُس باری تعالیٰ کا کلام نامکمل ہے۔کیا خدا ایسا پیغام دے گا جو غیر مناسب یا عیب والا ہو؟یہ کہنا کہ صحائف یا کلام غیر مناسب ہیں، خدا تعالیٰ کی توہین ہو گی،کیونکہ یہ اُس کے ساتھ انسانی حدود منسوب کرناہے۔جب خدا تعالیٰ کوئی کلام دیتا ہے تو یہ کامل ہوتا ہے اُس کے ”بدلنے“ کی کبھی ضرورت نہیں پڑتی۔ 

درست مماثلتیں – ایک ایسی مماثلت جو خدا تعالیٰ کے کلام کی بالکل مناسب عزت و تعظیم کرتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ بعد کا آنے والا صحیفہ کسی اَن کہی کہانی کے ابواب یا جلدوں کی صورت میں کام کرتا ہے جن کا ہر ایک حصہ خدا تعالیٰ کے سارے منصوبے کو سمجھنے کے لئے بہت اہم ہے۔
کلام کے صحائف کو کسی عمارت کی منزلوں یا درجوں کے ساتھ بھی مماثلت دی جا سکتی ہے۔اگر آپ بنیاد کی عمارت کو ہٹا دیں تو باقی تمام منزلیں بھی گِر جائیں گی۔اس کا ذکر سورۃ المائدۃ 68:5میں کیا گیا ہے:

”کہو کہ اے اہل ِ کتاب جب تک تم تورات اور انجیل کو اور جو (اور کتابیں)تمہارے پروردگار کی طرف سے تم لوگوں پر نازل ہوئی اُن کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہو سکتے۔“(سورۃ المائدۃ 68:5)

صحائف یا کلام متضاد نہیں ہو سکتےیہ ممکن ہو سکتا ہے کہ ایک زمانے میں خدا تعالیٰ نے ایک قبیلے کوایک خاص قانون کی پیروی کرنی کی ہدایت کی ہے اور بعد میں ایک اَور قوم کو ایک مختلف قانون کی پیروی کی ہدایت کی ہو،یہ دلیل قابل ِ قبول ہے۔لیکن اگر ایک صحیفہ یہ سکھاتا ہے کہ
نجات شریعت کے وسیلے سے حاصل نہیں کی جاسکتی بلکہ خدا تعالیٰ کے واحد اور ایک ہی نجات کے ابدی انتظام کے وسیلے سے حاصل ہوسکتی ہے تو خدا تعالیٰ کا کلام ہوتے ہوئے یہ بیان کبھی بھی تبدیل نہیں ہو سکتا۔ہر صحیفے کی اپنی اہمیت ہے۔ انجیل شریف کا مرکزی نکتہ یہ بات ہے کہ نجات کیسے حاصل کی جائے جبکہ قرآن کا بنیادی نکتہ بت پرستوں کو روزِعدالت کی تنبیہ ہے۔

پولُس رسول نے انجیل شریف چُرا لی؟

”پولُس نے حضرت عیسیٰ مسیح کا پیغام چُرا لیا اور اُسے اپنے مفاد ات کے مطابق بدل ڈالا۔“

کتاب مقدس یا کسی اور مُستند ذریعے سے ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ رسولی جماعت اور پولُس رسول کے درمیان کوئی بڑی کشمکش موجود تھی۔نقاد پولُس رسول اَور برنباس کے درمیان ایک بڑے اختلاف کے طور پر اعما ل39:15کے بارے میں مبالغہ آرائی کرنا پسند کرتے ہیں۔آئیے!…

اناجیل کا مصنف ہونا

”حضرت عیسیٰ مسیح کے حقیقی بارہ شاگردوں نے چاروں اناجیل میں سے ایک بھی انجیل نہیں لکھی۔“

ابتدائی کلیسیا، جس میں بہت سے مقدس متی،مقدس مرقس،مقدس لوقا او رمقدس یوحناکو شخصی طورپر جانتے ہیں،متفق تھی کہ چاروں اناجیل
مقدس متی،مقدس مرقس،مقدس لوقا او رمقدس یوحنانے ہی لکھی ہیں۔مقدس متی او رمقدس یوحنا دونوں حضرت عیسیٰ مسیح کے بارہ شاگردوں میں سے تھے،مقدس مرقس نے تمام واقعات مقدس پطرس (وہ بھی بارہ میں سے ایک تھا)سے سنے،اور مقدس لوقا پہلی نسل کی کلیسیا کا ایک سرگرم رُکن تھا۔ابتدائی کلیسیا کی تحریروں کا تاریخی ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ ابتدائی کلیسیا اِس بارے میں مُتفق الرائے تھی کہ یہ اصلی مصنفین تھے۔یہ محض گذشتہ چند صدیاں ہیں جب مُلحد علماء نے اِن اناجیل کی تاریخ کو نئی شکل دینے کی کوشش کی۔تاریخ کی اِس جھوٹی توضیح و تشریح
کے پیچھے کام کرنے والی بہت سی قوتیں تھیں:

معجزوں کا انکار – کچھ علما ء کا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ معجزات نہیں ہو سکتے اور نہیں ہوئے،اِ س لئے جتنے بھی واقعات میں معجزات درج ہیں وہ شاید خود سے کہانیاں بنائی گئی ہیں جو رفتہ رفتہ فروغ پاتی گئیں۔ اُن کی منطق یہ ہے کہ اگر کوئی متن تاریخی حقیقت کے طور پر کوئی معجزہ پیش کرتا ہے تو تحریر کا وہ پورا حصہ بھی اُسی طرح گھڑا او ربنایا گیا ہوگا۔اِس لئے جب اناجیل حضرت عیسیٰ مسیح کنواری سے پیدایش اور معجزات کو تاریخی حقائق کے طور پر لکھتی ہیں، تو پھر تمام سوانح حیات بتدریج مبالغہ آرائی میں ڈھلنے والی کہانی ہے جو کسی فرض کئے ہوئے مصنف سے نہیں لکھی جا سکتی تھی۔

نئے نظریات اور اشاعت کی ضرورت – حیاتیات اور طب پڑھنے والوں کے نزدیک،تعلیمی اعتبار سے اِس میں تقریباً لامحدود حد تک نامعلوم مواد تازہ تحقیق کا منتظر رہتا ہے۔تاہم،جہاں تک کتاب مقدس کا تعلق ہے، صدیوں سے تقریباًہر ایک آیت اور کتاب پربیش بہا تحقیقی کام موجود ہے۔ایک جدید عالم کو توجہ حاصل کرنے کے لئے کسی نئے نظریے پر مفروضہ قائم کرنا پڑتا ہے جس میں غالباًکچھ نئی آثارِ قدیمہ کی دریافتوں پر مبالغہ آرائی کی گئی ہوتی ہے۔آپ کو اُن باتوں کے لئے کوئی خراج تحسین نہیں ملے گا جو پہلے ہی کئی مرتبہ کہی جا چکی ہیں۔اکثر ”تاریخی حضرت عیسیٰ مسیح“ کی نئی تصاویر محض موجود ہ تعلیمی جنون کو پیش کرتی ہیں۔جب مارکس ازم بہت مشہور تھا تو حضرت عیسیٰ مسیح
کو مارکسی کے طور پر پیش کیاگیا؛جب تصوف مشہور تھا تو جد ید علما نے اُسے ایک صوفی کا رُوپ دے دیا۔جدیدعلمائے کرام کا تاریخی
حضرت عیسیٰ مسیح بھی اکثر محض اُن کی اپنی سوچ اور جنون کی تصویر پیش کرتا ہے۔

تاریخی -تنقیدی طریقے کو زیادہ گراں قدر سمجھنا – کتاب مقدس کے مطالعے کے طریقہ کار تنقید اعلیٰ اور صورت کی تنقید تاریخ کو دوبارہ سے تشکیل دینے کی کوشش ہیں جو ادبی انداز اور موازنے پر مبنی ہیں۔یہ مطالعہ کے لئے گراں قدر طریقہ کار ہیں اور یہ ماضی کے متعلق ہمار ی تصویر کو واضح کرتے ہیں۔مسئلہ تب ہوتا ہے جب علمائے کرام سادہ تاریخی ریکارڈ پر یقین رکھنے کے بجائے ادبی تجزیوں کو بہت مُستند طریقہ کار سمجھتے ہیں اور تکبّر میں آ کر یہ فرض کرتے ہیں کہ وہ دو ہزار سال بعد بھی اُس وقت کے لوگوں کی نسبت قدیم واقعات کو زیادہ جانتے ہیں۔اِس لئے مثال کے طور پر ہمارے پاس نسخہ جات کی شہادت موجود ہے کہ وہ لوگ جو بارہ شاگردوں کو جانتے تھے،اُنہوں نے کہا کہ متی کی انجیل مقدس متی نے ہی لکھی،لیکن دو ہزار سال بعد علماء غرور میں آ کر یہ قیاس کر تے ہیں کہ اِن ابتدائی قائدین کی نسبت زیادہ جانتے ہیں۔

یونانی انجیل

”یونانی انجیل حضرت عیسیٰ مسیح کی اصلی انجیل نہیں ہو سکتی،کیونکہ حضرت عیسیٰ مسیح عبرانی یا ارامی بولا کرتے تھے۔“

ذاکر نائیک نے دعویٰ کیا ہے،

”اگرچہ حضرت عیسیٰ مسیح عبرانی بولا کرتے تھے،لیکن جو اصلی نسخہ جات آپ کے پاس ہیں وہ یونانی میں ہیں“۔1

یہ سچ ہے کہ غالباًحضرت عیسیٰ مسیح عبرانی سمجھتے تھے اگرچہ اُن کی مادری زبان عبرانی نہیں تھی بلکہ گلیل میں بولی جانے والی ارامی زبان تھی۔ یونانی اُس وقت کی بین الاقوامی زبان تھی اِس لئے یہ فلستین میں وسیع پیمانے پر بولی جاتی تھی۔علما ئے کرام کہتے ہیں کہ بڑھئی ہونے کی وجہ سے حضرت عیسیٰ مسیح یونانی بھی جانتے تھے۔کبھی کبھار اُن کی تعلیم ارامی میں ہو گی جبکہ کبھی یہ یونانی میں ہو گی (مثلاً جب وہ سورفینیکی عورت سے بات کر رہے تھے، مرقس 26:7-30 )۔یہ واضح ہے کہ نیا عہد نامہ (انجیل شریف)اصل میں کوئنے یونانی میں لکھی گئی تھی نہ کہ ارامی سے ترجمہ کی گئی تھی۔کوئنے یونانی زبان کتب مقدسہ کے لئے بالکل مناسب زبان تھی کیونکہ یہ اُس وقت دنیا میں زیادہ سمجھی جانے والی زبان تھی۔کتب مقدسہ صرف خاص ”اعلیٰ“سامی زبانوں میں ہی نازل نہیں کی گئی ہیں۔قرآن خود فرماتا ہے کہ یہ اِس لئے ”عربی میں نازل کیا ہے تاکہ تم سمجھ سکو۔“(2:12)

  1. Zakir Naik, The Qur’ān and the Bible in the Light of Science.

عبرانی میں پرانا عہد نامہ ناپید ہے؟

“موجودہ عبرانی پرانا عہد نامہ یونانی ترجمے سے ترجمہ کیا گیا ہے جب کہ اصلی عبرانی متن اب دستیاب نہیں ہے۔”

ذاکر نائیک شرم ناک حد تک دعویٰ کرتا ہے،

“پرانا عہد نامہ جو اصل عبرانی میں ہے اب دستیاب نہیں ہے۔کیا آپ جانتے ہیں؟پرانے عہد نامے کا جو عبرانی ترجمہ موجود ہے وہ یونانی ترجمے سے کیا گیا ہے۔حتیٰ کہ اصلی پرانا عہد نامہ جو عبرانی میں ہے وہ اب عبرانی زبان میں موجود نہیں ہے۔”
1

نائیک کا یہ دعویٰ کہ پرانا عہد نامہ اصل عبرانی میں موجود نہیں ہے،بالکل غلط ہے۔حضرت مسیح سے صدیوں قبل کے عبرانی پرانے عہد نامے کے سینکڑوں طومار موجود ہیں جو بحیرہئ مردار یا قمران کے طومار کہلاتے ہیں۔یہ پرانے عہد نامے کے قدیم ترین نسخہ جات کو پیش کرتے ہیں۔ اِس دریافت سے پہلے عبرانی پرانے عہد نامے کے قدیم ترین نسخہ جات یونانی ترجمہ میں موجود تھے جنہیں سپٹواجینٹ کہا جاتا ہے،جس کے حوالہ جات ابھی تک علماے کرام دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ عبرانی پرانے عہد نامے کے سیکڑوں نسخہ جات مسوراتی روایت میں موجود ہیں جو حیران کُن حد تک بالکل ویسے ہی ہیں جیسے قمران کے قدیم نسخہ جات ہیں۔جیسے کہ علمِ آثارِ قدیمہ مزید قدیم عبرانی طومار دریافت کرتا ہے،تو مزید حیران کُن مطابقت ملتی ہے۔یہ کہنابالکل جھوٹ ہے کہ موجودہ عبرانی متن یونانی سے ترجمہ کیا گیا ہے۔


Zakir Naik, The Quran and the Bible in the Light of Science.

کیا ہر مسیحی گروہ کے پاس اپنی کتاب مقدس نہیں ہے؟

”کیا ہر مسیحی گروہ کے پاس اپنی کتاب مقدس نہیں ہے؟“

مسیحیت کی تمام شاخیں -کیتھولک،پروٹسٹنٹ،آرتھوڈو کس،لوتھرن،اینگلیکن،پینتی کاسٹل وغیرہ کے پاس بالکل ایسی ایک جیسی توریت شریف (تورہ)،زبور شریف (مزامیر)،اور انجیل شریف (نیا عہد نامہ)ہیں۔حتیٰ کہ اگر آپ یہودیوں کی توریت شریف یا زبور شریف کا
مسیحیوں کی کتابوں سے موازنہ کریں تو یہ بالکل ویسی ہی ہیں (اگرچہ اُن کی ترتیب مختلف ہے)۔اِس لئے تمام تینوں متون جنہیں قرآن اختیار مانتا ہے،وہ پوری مسیحی اور یہودی دنیا میں بالکل یکساں ہیں۔

پروٹسٹنٹ اور غیر پروٹسٹنٹ میں واحد فرق یہی ہے کہ کیا اُن میں انبیا کی کتب (کتاب الانبیاء)میں ’اپاکرفا‘ بھی شامل ہیں یا نہیں۔ یہ ’اپاکرفا‘ کتابوں کا ایسا مجموعہ ہے،جسے کیتھولک بھی کتاب مقدس کی فہرست میں ”ثانوی“ درجہ دیتے ہیں۔بالکل ایسا ہی جھگڑا اسلام میں بھی دیکھا جا سکتا ہے،جہاں چند شیعہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن میں دو اَور سورتیں بھی ہیں جنہیں سُنیوں نے نکال دیا ہے۔ایسے مسائل قبول شدہ کلام اللہ کے مُستند ہونے کو ردّ نہیں کرتے۔

کیا یعقوب اور پولُس ایک دوسرے سے تضاد رکھتے ہیں؟

“متی 9:9 -کیا متی نے متی کی انجیل لکھی؟”

نقادوں نے بحث کی ہے کہ چونکہ متی یہاں اپنی طرف واحد غائب کے طور پر اشارہ کرتا ہے اِس لئے وہ اِس انجیل کا مصنف نہیں ہو سکتا:

”یسوع نے وہاں سے آگے بڑھ کر متی نام ایک شخص کو محصول کی چوکی پر بیٹھے دیکھااور اُس سے کہا میرے پیچھے ہولے۔وہ اُٹھ کر اُس کے پیچھے ہو لیا۔“(متی 9:9)

یہ بہت کھوکھلی سی دلیل ہے۔جب کثیر سامعین و قارئین ایک وسیع سامع کے لئے تاریخی واقعات لکھنا ہو تو مصنفین کے نزدیک یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں کہ وہ اپنے لئے واحد غائب کا صیغہ استعمال کریں۔اِسی کمزور دلیل کی وجہ سے پھر قرآن بھی اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اِس میں اُس کی طرف مسلسل واحد غائب کے صیغہ میں اشارہ کیا گیا ہے:

هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ
”وہی خدا ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔“(سورۃ22:59)

اگر مقدس متی یا مقدس یوحنا کااپنے لئے صیغہ واحد غائب استعمال کرنا اُنہیں کتابوں کے مصنفین ہونے کا اہل قرار نہیں دیتا تو پھر یہی بات
قرآن کے بارے میں بھی کہنا چاہئے۔ 

ابتدائی تمام مسیحی اندراج اِس بات میں کوئی شک نہیں رکھتے کہ متی کی انجیل مقدس متی رسول ہی نے لکھی ہے۔اِس کے بر عکس کوئی بھی بیان نہیں ملتا۔انجیل شریف کے خلاف یہ بیان بالکل کھوکھلا ہے جو خالص اندازے پر مبنی ہے اور اِس کی منطق قرآن کو بھی کمتر کر دیتی ہے ۔

کلیسیا میں اندرونی کشمکش

"ابتدائی مسیحی کلیسیا کے اندر جھگڑے پھیلے ہوئے تھے اِس لئے ہم یہ نہیں جان سکتے کہ بالآخر کس کی انجیل شامل کی گئی۔"

اسلامی تاریخ کے مقابلے میں ابتدائی کلیسیا کہیں زیادہ متحد تھی۔حضرت محمد کی وفات کے بعد مسلم گروہوں کے درمیان مسلسل جنگیں ہوتی ر ہیں۔نبی کریم کی بیوہ حضرت عائشہ نے نبی کریم کی موت کے بعد25سال سے بھی کم عرصے میں حضرت علی سے لڑنے کے لئے ایک فوج تیار کی اور اُنہیں جنگ جمل میں شکست ہوئی۔۳۲ ہجری میں ایک فارسی غلا م فیروز نے خلیفہ حضرت عمر کو قتل کر دیا۔35ہجری میں ناخوش مسلمانوں نے حضرت عثمان کو قتل کر دیا۔خودحضرت علی کو40 ہجری میں ایک دوسرے مسلمان گروہوں نے قتل کر دیا۔61ہجری میں یزید کی قیادت میں مسلم فوجوں نے حضرت محمد کے خاندان کی مزاحمت کرنے والی نمائندہ مسلم فوجوں کو کُچل دیا۔اور بھی بہت سے دوسرے گروہوں کے خلاف جنگیں جاری رہیں جیسے کہ مُسیلمہ جس نے حضرت محمد کے نبی ہونے کو قبول کیا تھا لیکن اُس نے اپنے بھی نئے مکاشفات شامل کر لئے۔کہ مُسیلمہ کے ایک لاکھ مضبوط پیروکاروں نے 633ہجری میں الیمامہ کی جنگ میں حضرت محمد کی فوجوں کو تقریبا ً شکست دے دی تھی۔

مقابلتاًیسوع کے پیروکاروں کے ابتدائی گروہ نے کم از کم ڈھائی صدیوں تک ایک بھی جنگ یا ایک بھی مسلح جھگڑانہ کیا،اور نہ ہی رسولوں کے دَور میں اُن کے درمیان کسی قسم کے گھمبیر جھگڑ ے کا ذکر ملتا ہے۔ جیسے کہ تاریخی اِندارج وسیع پیمانے پر ظاہر کرتا ہے وہ ایک ہی انجیلی پیغام پر متفق تھے۔