کیا کلیسیا کتاب مقدس کو سیاسی مقاصد کے لئے تبدیل نہیں کر سکتی تھی؟

"کیا کلیسیا کتاب مقدس کو سیاسی مقاصد کے لئے تبدیل نہیں کر سکتی تھی؟"

نقاد یہ الزام لگاتے ہیں کہ جب سے یورپی کلیسیا سیاسی قوت کی جدوجہد او رسیاسی مفادات کے ساتھ منسلک ہو ئی ہے،اِنہوں نے اپنی تعلیمات او رصحائف کی بنیاد سیاسی طور پر تحریک یافتہ مسائل پر رکھ دی ہے۔یہ یقینا درست ہے کہ سیاسی قوت مذہبی انتظام کو خراب کرتی ہے مگر یہ الزام سراسرکلیسیا کی تاریخ کی غلط فہمی پر مبنی ہے۔حضر ت یسوع المسیح کے بعد تین صدیوں تک (311عیسوی تک)مسیحیت ایک غیر قانونی مذہب تھا جس پر مشرکانہ سلطنت کی طرف سے پابندی عائد تھی۔یہ ایک زیر زمین ستایا ہوا نیٹ ورک تھا جس کی کوئی سیاسی طاقت نہ تھی۔311عیسوی میں رومی حکمران قسطنطین نے مسیحیت کو قانونی مذہب قرار دے دیا اور رفتہ رفتہ کلیسیا ایک سیاسی طاقت والی تنظیم بن گئی۔325عیسوی میں نقایہ کی کونسل کلیسیا میں سیاسی روابط کا شروعات سمجھی جاتی ہے۔

تب بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہمارے پاس نقایہ سے پہلے اور 311عیسوی کے سیاسی کلیسیا ئی دَور سے پہلے کے لاتعداد نسخوں کے ثبوت موجود ہیں کہ صحائف اور انجیل کا پیغام کلیسیائی سیاست سے پہلے بھی بالکل وہی صحائف اور انجیل شریف تھا جو آج ہمارے پاس ہے۔ مثلاً ہمارے پاس لوقا،یوحنا او ر200عیسوی صدی سے پولُس رسول کے دس خطوط پیائرس پر نقول کی صورت میں موجود ہیں اور ابتدائی افریقی کلیسیا کے رہنما طرطلیان نے اپنی ساری تحریروں میں (200عیسو ی سے)3,800مرتبہ اناجیل کا حوالہ دیا ہے۔

اِسی طرح 311عیسوی سے پہلے کی بے شمار فہرستوں کو بھی ہم جانتے ہیں جب اِس بات پر کوئی جھگڑا نہیں تھا کہ نئے عہد نامے میں کتنی اناجیل تھیں۔311عیسوی سے پہلے اور بعد میں ہر فہرست میں چار اناجیل شامل ہیں اوراِس کے علاوہ کوئی اَور نہیں ہے۔اِس لئے اِس بات کے بے شمار ثبوت موجود ہیں کہ کلیسیا کے سیاسی ہونے سے پہلے انجیل اور نیا عہد نامہ وہی تھا جو آج ہمارے پاس ہے۔ابتدائی ایذا رسانی کے دور میں یہ یقین کرنا احمقانہ بات ہے کہ ایمان داروں نے اپنی الہٰی رہنمائی کو تبدیل کرنے سے خود کو دھوکا دیا ہو گا جب کہ اُن کے عقائد کے بدلے دنیاوی فائدہ کچھ بھی نہیں تھا۔اُنہیں جو فائدہ مل سکتا تھا وہ خدا تعالیٰ کے کلام کی وفاداری سے پیروی کرنے پر موت کے بعد اُس کی طرف سے ابدی اَجر ملنے کی اُمید تھی۔

حضرت عیسیٰ مسیح کے ابتدائی شاگردوں کی جماعت مکمل طور پر اسلامی تاریخ کی پہلی دو صدیوں سے تضاد رکھتی ہے جب خلیفہ کے اعلیٰ ترین مذہبی اختیار نے بڑی سیاسی مملکت پر بھی حکمرانی کی۔اِس دور میں لڑی جانے والی زیادہ تر جنگیں مذہبی معاملات پر لڑی گئیں (جیسے کہ ردا(Ridda)کی جنگیں)۔اِس مرحلے پر "بہت سی" جھوٹی احادیث خاص سیاسی گروہ یا بادشاہ کی حمایت میں ارادتاً لکھی گئی تھیں۔ ۲؎ ایک وقت میں حضرت محمد کے قریب ترین رشتے داروں اور ساتھیوں نے اپنا اقتدار سیاسی مذہبی حکومت کے ہاتھوں کھو دیا، کہ جب حضرت محمد کے جائز خونی رشتے دار نے کربلا کے میدان میں غیرمذہبی خلیفہ یزید کے خلاف جنگ ہار دی،یا جب حضرت عثمان ؓ کے سرکاری قرآن مجید نے اورابنِ مسعود اور أ بی ابن ِ کعب جنہیں حضرت محمد نے بہترین قاری قرار دیا تھا ۴؎ اور جنہوں نے حضرت عثمان ؓ کی قرآن کی جلد کی مخالفت کی تھی،کے قرآن کو ختم کر ڈالا۔ ۵؎ ابن ِ مسعودکا قرآن مجید حضرت عثمان ؓ نے زبردستی لے لیا اور حضرت عثمان ؓ نے اپنے ایک خادم سے کہا کہ وہ ابن ِ مسعود کو اُس کی پسلیاں توڑتے ہوئے مسجد سے باہر نکال دے۔ ۶؎ ہم یہ الزام نہیں لگاتے کہ قر آن کو خاص طور پر تبدیل کیا گیا تھا۔بلکہ یہ اُس موازنہ کو پیش کرتی ہے جو ابتدائی مسیحیت میں سیاسی اثرات کی معاون عدم موجودگی وضاحت سے بیان کرتی ہے۔ عیسیٰ مسیح کے شاگردوں کے پاس پہلی تین صدیوں میں کوئی طاقتور سیاسی قائدین نہیں تھے جو نقایہ کی کونسل سے پہلے اپنے نظریات دوسروں تک زبردستی یا دباؤ دے کر پہنچاتے۔دراصل اِس عرصے کے دوران ایمان داروں کی بنیادی توقعات حد درجہ تک بڑھتا ہوا تشدد اور ظلم وستم تھا۔


  • For example the canon of Origen (A.D.185–254),

ذاکر نائیک سے متعلق معلومات


ذاکرعبدالکریم نائیک بھارت میں ٹیلی وژن پر آنے والا ایک مبلغ ہے جو ممبئی انڈیا سے سیٹلائٹ ٹی وی سٹیشن جس کا نام ”Peace TV“ ہے چلاتا ہے اور وہابی پروپیگنڈہ پھیلا رہا ہے۔پوری دنیا میں ذاکر نائیک کے بہت کم سامعین یہ سمجھتے ہیں کہ اُسے اُس کی غلط معلومات،غلط تشریحات او رغیر الہامی نظریات کی وجہ سے مسلم علما او رغیر مسلم علما نے کس قدر بُرا بھلا کہا ہے۔دیوبند (بھارت کی سب سے مقبول ترین دینی علوم کی مرکزی درس گاہ) کے مفتی نے ذاکر نائیک کے خلاف باقاعدہ فتوے دیئے ہیں اور کہا ہے کہ وہ ”غیر مقلدین کا ایک واعظ ہے“او ریہ بھی کہا ہے کہ کسی کو اُس کی تقاریر پر بھروسا نہیں کرنا چاہئے،”1 وہ معتبر نہیں ہے اور مسلمانو ں کو اُسے ہر گز نہیں سننا چاہئے۔“2

نائیک کی منطق،خیالات او رغلط معلومات کا پوری طرح تفصیلی جائزہ لینے کے لئے ہم آپ کویہ مضمون پڑھنے پر خوش آمدید کہتے ہیں

کیا ذاکر نائیک کی منطق مُعتبر ہے؟

سائنس کا غلط استعمال کرنے پر نائیک کے تجزیے کے لئے ہمارا مضمون دیکھئے بکاؤلے از م سے ہٹ کر:سائنس،صحائف اور ایمان۔.…

یسعیاہ 11:29-13میں ”اَن پڑھ نبی“

ذاکر نائیک بائبل میں حضرت محمد ؐ کے بارے میں نبوت کے بیان کے لئے اپنے الفاظ میں یہ حوالہ دینا پسند کرتا ہے،”یسعیاہ کی کتاب،باب نمبر 12،آیت نمبر29“(دراصل یہ باب نمبر29اور آیت نمبر12ہے!)۔جیسے ڈاکٹر ذاکر نائیک اِسے بیان کرتا ہے یہ ایک متاثر کُن نبوت معلوم ہوتی ہے:

”کتاب کسی نبی کو دی گئی جو پڑھا لکھا نہیں ہے“۔

تاہم اگر ہم حقیقت میں کتاب مُقدس کے کسی بھی نسخے کو کھولیں اور خود اِس آیت کو دیکھیں تو ہم سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ نائیک نے دھوکے سے لفظ ”نبی“ کا اضافہ کیا ہے جو اصلی عبرانی متن میں دکھائی نہیں دیتا:

”پھر وہ کتاب کسی ناخواندہ کو دیں اور کہیں اِس کو پڑھ اور وہ کہے کہ میَں تو پڑھنا نہیں جانتا۔“(یسعیاہ 12:29)

اگر ہم اِس متن کو وسیع تناظر میں دیکھیں،تو یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ کس طرح اسرائیلی یسعیاہ نبی کے مکاشفہ کو نظر انداز کرنے کے لئے جھوٹے بہانے بنا تے ہیں:

”اور ساری رُؤیا تمہارے نزدیک سربمہر کتاب کے مضمون کی مانند ہو گی جسے لوگ کسی پڑھے لکھے کو دیں اور کہیں اِس کو پڑھ اور وہ کہے میَں پڑھ نہیں سکتا کیونکہ یہ سر بمہر ہے۔اورپھر وہ کتاب کسی ناخواندہ کو دیں اور کہیں اِس کو پڑھ اور وہ کہے کہ میَں تو پڑھنا نہیں جانتا۔پس خداوند فرماتا ہے چونکہ یہ لوگ زبان سے میری نزدیکی چاہتے ہیں اور ہونٹوں سے میری تعظیم کرتے ہیں لیکن اِن کے دل مجھ سے دُور ہیں۔“
(یسعیاہ 11:29-13)

اگر یہ ایک نبوت ہوتی (جسے وسیع متن سیاق وسباق سے خارج ازامکان قرار دیتاہے)تو یہ زمین پر موجود پوری انسانی تاریخ میں ہر پڑھے لکھے شخص (آیت 11)اوراَن پڑھ شخص (آیت 12) میں پوری ہوسکتی تھی!یہ…

یوحنا 16:14کا ”پیراکلیتاس“

”اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو گے۔اور میَں باپ سے درخواست کروں گا تووہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک
تمہارے ساتھ رہے۔یعنی رُوح ِ حق جسے دنیا حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ نہ اُسے دیکھتی او رنہ جانتی ہے۔تم اُسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تمہارے اندر ہو گا۔میَں تمہیں یتیم نہیں چھوڑوں گا۔ میَں تمہارے پاس آؤں گا۔“(یوحنا 15:14-18)

”میَں نے یہ باتیں تمہارے ساتھ رہ کر تم سے کہیں۔لیکن مددگار یعنی رُوح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا او رجو کچھ میَں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلائے گا۔“(یوحنا 25:14-26)

”لیکن جب وہ مددگار آئے گا جس کو میَں تمہارے پاس باپ کی طر ف سے بھیجوں گا یعنی رُوح ِ حق جو باپ سے صادر ہوتا ہے تو وہ میری گواہی دے گا۔اور تم بھی گواہ ہو کیونکہ شروع سے میرے ساتھ ہو۔“(یوحنا 26:15-27)

عجیب بات ہے کہ چند لوگ اِن حوالوں کو حضرت محمد ؐ کے آنے کے بارے میں پیشین گوئیوں کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ذاکر نائیکجیسے
مبلغین یہاں بیان شدہ ”مددگار“ کو حضرت محمد ؐ تصور کرتے ہیں۔آئیے!…

میسح کی مقابلتا ً واضح نبوتیں

آئیے! اب اِن الزام لگائی گئی نبوتوں کا عبرانی صحائف میں موجود مسیح (المسیح)کے بارے میں نبوتوں کے ساتھ موازنہ کریں۔ ہم بہت مشہور نبوت سے آغاز کریں گے جو یسعیاہ53 باب میں پائی جاتی ہے۔

”ہمارے پیغام پر کون ایمان لایا؟اور خداوند کا بازو کس پر ظاہر ہوا؟پر وہ اُس کے آگے کونپل کی طرح اور خشک زمین سے جڑ کی مانند پھوٹ نکلا ہے۔نہ اُس کی کوئی شکل و صورت ہے نہ خوبصورتی اور جب ہم اُس پر نگاہ کریں تو کچھ حسن و جمال نہیں کہ ہم اُس کے مشتاق ہوں۔

وہ آدمیوں میں حقیر ومردود، مردِ غم ناک او ر رنج کا آشنا تھا۔لوگ اُس سے گویا رُوپوش تھے۔اُس کی تحقیر کی گئی اور ہم نے اُس کی کچھ قدر نہ جانی۔تَوبھی اُس نے ہماری مشقتیں اُٹھالیں اور ہمارے غموں کو برداشت کیا۔پر ہم نے اُسے خدا کا مارا کُوٹا اور ستایا ہوا سمجھا۔حالانکہ وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھایل کیا گیا اور ہماری بدکرداری کے باعث کُچلا گیا۔ہماری ہی سلامتی کے لئے اُس پر سیاست ہوئی تاکہ اُس کے مار کھانے سے ہم شفا پائیں۔ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گئے۔ہم میں سے ہر ایک اپنی راہ کو پھرا پر خدا وند نے ہم سب کی بدکرداری اُس پر لادی۔وہ ستایا گیا تو بھی اُس نے برداشت کی اور منہ نہ کھولا۔جس طرح برّہ جسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں اور جس طرح بھیڑ اپنے بال کتَرنے والے کے سامنے بے زبان ہے اُسی طرح وہ خاموش رہا۔وہ ظلم کر کے اور فتویٰ لگا کر اُسے لے گئے پر اُس کے زمانے کے لوگوں میں سے کس نے خیال کیا کہ وہ زندوں کی زمین سے کاٹ ڈالا گیا؟میرے لوگوں کی خطاؤں کے سبب سے اُس پر مار پڑی۔اُس کی قبر بھی شریروں کے درمیان ٹھہرائی گئی او روہ اپنی موت میں دولت مندوں کے ساتھ ہوا حالانکہ اُس نے کسی طرح کا ظلم نہ کیا او راُس کے منہ میں ہر گز چھل نہ تھا۔لیکن خداوند کو پسند آیا کہ اُسے کُچلے۔اُس نے اُسے غمگین کیا۔جب اُس کی جان گناہ کی قربانی کے لئے گزرانی جائے گی تو وہ اپنی نسل کو دیکھے گا۔اُس کی عمر دراز ہوگی او رخداوند کی مرضی اُس کے ہاتھ کے وسیلے سے پوری ہو گی۔اپنی جان ہی کا دُکھ اُٹھا کر وہ اُسے دیکھے گا اور سیر ہو گا۔اپنے ہی عرفان سے میرا صادق خادم بہتوں کو راست باز ٹھہرائے گا کیونکہ وہ اُن کی بدکرداری خود اُٹھالے گا۔اِس لئے میَں اُسے بزرگوں کے ساتھ حصہ دوں گا اور وہ لُوٹ کا مال زور آوروں کے ساتھ بانٹ لے گا کیونکہ اُس نے اپنی جان موت کے لئے اُنڈیل دی او وہ خطاکاروں کے ساتھ شمار کیا گیا تَو بھی اُس نے بہتوں کے گناہ اُٹھا لئے اور خطاکاروں کی شفاعت کی۔“ جدید دریافتوں نے حضرت یسوع المسیح کی پیدائش سے 100سال پہلے تعلق رکھنے والے یسعیاہ کے مکمل طُومار(یہ اِقتباس بھی اُس میں شامل ہے) کو لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے۔ مسیح کے بارے میں دیگر مختلف نبوتیں ذیل میں نمونے کے طورپر پیش ہیں،جن میں سے زیادہ ترکا تعلق اُس کی گرفتاری،آزمائش اور موت سے ہے۔یہ سب اُن انبیا کی مختلف کتابوں سے لی گئی ہیں جو ابرہام،اضحاق اور یعقوب کی نسل سے تھے اورجوحضرت یسوع المسیح کی پیدائش سے1000سے 500 سال قبل لکھی گئیں۔نبوت اور اِس کی تکمیل دونوں کے لئے صحائف سے حوالہ جات درج ذیل ہیں:

  1. ۔ داؤد کی نسل سے

(-2سمو ئیل 12:7-14؛زکریاہ10:12؛دیکھئے لوقا 31:3)

 

  • ۔ بیت لحم میں پیدایش

    (میکاہ 2:5؛دیکھئے لوقا 4:2-7)

     

  • ۔ ایک کنواری سے پیدا ہوا

    (یسعیاہ 14:7؛دیکھئے لوقا 34:1-38)

     

  • ۔ سب لوگوں کے لئے نجات لے کر آنا

    (یسعیاہ 6:49؛دیکھئے لوقا 30:2-32؛یوحنا 16:3)

     

  • ۔ گدھے پر سوار ہو کر یروشلیم میں داخل ہوگا

    (زکریاہ 9:9؛دیکھئے لوقا 28:19-36)

     

  • ۔ ایک دوست نے دھوکا دیا

    (زبور 9:41؛دیکھئے متی 4:10)

     

  • ۔ چاندی(سونا نہیں) کے تیس سکوں کے عوض بیچا گیا

    (زکریاہ 12:11؛دیکھئے متی 15:26)

     

  • ۔ روپیہ خدا کے گھر میں پھینک دیا (رکھا نہیں) گیا

    (زکریاہ 13:11ب؛دیکھئے متی 5:27الف)

     

  • ۔ پیسہ کمہار کا کھیت خریدنے میں استعمال کیا گیا

    (زکریاہ 13:11ب؛دیکھئے متی 7:27)

     

  • ۔ الزام لگانے والوں کے سامنے خاموش

    (یسعیاہ 7:53؛دیکھئے متی 12:27-19)

     

  • ۔ گھایل کیا گیا اور کُچلا گیا

    (یسعیاہ 5:53؛دیکھئے متی 26:27)

     

  • ۔ پیٹا گیا اوراُس پر تھوکا گیا

    (یسعیاہ 6:50؛دیکھئے متی 67:26)

     

  • ۔ ڈاکوؤں کے ساتھ مصلوب کیا گیا

    (یسعیاہ 12:53؛دیکھئے متی 38:27)

     

  • ۔ اپنے ستانے والوں کے لئے شفاعت کی

    (یسعیاہ 12:53 ؛دیکھئے متی لوقا 34:23)

     

  • ۔ اپنی جان اپنی مرضی سے موت کے حوالے کی

    (یسعیاہ 12:53 ؛دیکھئے یوحنا 18:10)

     

  • ۔ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھایل کیا گیا

    (یسعیاہ 5:53 ؛دیکھئے متی 26:27)

     

  • ۔ ایک دولتمند کی قبر میں دفن ہوا

    (یسعیاہ 9:53 ؛دیکھئے متی 57:29-60)

     

 

غزل الغزلات 16:5 کا”مَخمَد“

نائیک بائبل میں غزل الغزلات 16:5 کے حوالے میں حضرت محمد ؐ کے بارے میں نبوت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے:

”اُس کا منہ ازبس شیرین ہے۔ہاں وہ سراپا عشق انگیز ہے؛

اے یروشلیم کی بیٹیو!یہ ہے میرا محبوب۔یہ ہے میرا پیارا۔“(غزل الغزلات 16:5)
بڑی احتیاط سے مندرجہ بالا متن کو ختم کرتے ہوئے وہ دلیل دیتا ہے کہ چونکہ عبرانی میں ”عشق انگیز“ کے لئے ”مَخمَد“،(عربی محمد) آیا ہے۔ اِس لئے یہ محمد ؐکے لئے نبوت ہے۔لیکن مندرجہ بالا آیت ایک ایسے باب کا حصہ ہے جس میں ایک دُلہن اپنے شوہر کے بارے میں تفصیل بیان کررہی ہے۔مزید یہ کہ نائیک کا ترجمہ ایک اسمِ صفت کی جگہ محض اسم قرار دیتاہے جو کہ مناسب نہیں ہے:

’اُس کا منہ ازبس شیرین ہے

وہ سراپا محمد ہے‘ ( וכלו מחמדים )

یہ بے حد واضح ہے کہ یہاں ’عشق انگیز‘ درست لفظ ہے۔لفظ کا سیاق وسباق واضح طور پر یہ بتاتا ہے کہ یہ نہ تو کوئی نبوت ہے اور نہ ہی حضرت محمدؐ کی طرف کوئی اشارہ ہے اور اِس بات کا دعویٰ کرنا دھوکا دینے کی ایک کوشش ہے۔اِس طرح ہم دوسرے لوگوں کے بارے میں بھی اِس قسم کی نبوتیں ایجاد کر سکتے ہیں۔حضرت محمدؐ سے پہلے اور بعد میں،دودیگر غیر اسلامی انبیا بنام مانی اور مرزا حسین علی (بہا ء اُللہ)نے صحائف کا حوالہ دیتے ہوئے دوسرے انبیا کے سلسلے میں اگلانبی ہونے کا دعویٰ کیا۔نائیک کے مبہم طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے ہمیں زبور 8:89 میں بہاء اُللہ (حَسِین)کے نام سے نبوت اور مانی (منّی)کا ذکر خاص طور پر اٹھارہ مقامات پر ملتا ہے!کیا…

کیاحضرت محمد ؐ کی نبوتیں ہٹا دی گئی ہیں؟

مندرجہ بالا نبوتوں میں حضرت محمد ؐ کے بارے میں کوئی ذکر نہیں، پھر بھی چند نقاد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مسیحیوں یا یہودیوں نے حضرت محمد ؐ کی یہ نبوتیں بڑی چالاکی سے ہٹا دی ہیں۔ لیکن یہ ناممکن ہے اور اِس کی تین وجوہات ہیں:

  1. ۔ یہودیت حضرت یسوع المسیح کو بطور نبی یا بطور مسیح کے قبول نہیں کرتی جس کی وجہ سے صدیوں سے یہودیوں او رمسیحیوں میں کشمکش چلی آر ہی ہے۔ تا ہم جیسا کہ ہم نے اُوپر دیکھا ہے، یہودیوں کے صحائف میں حضرت یسوع المسیح کے بارے میں بہت سی واضح نبوتیں موجود ہیں۔اگر یہودی نبوتوں کو ہٹانے کی عادت میں ملوث ہوتے تو پھر اُنہوں نے حضرت یسوع المسیح کے بارے میں تمام نبوتوں کو کیوں نہیں ہٹایا؟ آج بھی اگر آپ یہودی صحائف (توریت،زبوراور دیگر نبوتی کتب)کا مسیحی پرانے عہد نامے کے ساتھ موازنہ کریں تو یہ بالکل ایک جیسا ہے اور اِس میں ایک جیسی ہی نبوتیں شامل ہیں۔اگر اُنہوں نے مسیح کی نبوتوں کو نہیں ہٹایا(جن کی وہ مخالفت کرتے ہیں)تو پھر اُنہوں نے حضرت محمد ؐ کی نبوتوں کو کیوں ہٹایا ہو گا؟
  2. ۔ حضرت محمد ؐ کے حوالہ جات کو صرف اُن کی زندگی کے بعد ہٹایا گیا ہو گا۔ لیکن حضرت محمد ؐ کے زمانے سے پہلے کے ہزاروں ایسے یونانی اور عبرانی نسخے صدیوں سے موجود ہیں جو ہماری موجودہ توریت،زبور اور انجیل سے کسی بھی طرح خاص اختلافات نہیں رکھتے اور نہ ہی اُن میں محمدؐکے بارے میں کو ئی نبوت موجود ہے۔اِس سے واضح ہوتا ہے کہ ایسی نبوتیں کبھی موجود ہی نہیں تھیں۔
  3. ۔ قرآن مجید یہ سکھاتا ہے کہ ”خدا کی باتوں کوکوئی بھی بدلنے والا نہیں“(سورۃ الانعام 34:6)اوریہ کہ ”اے اہل ِ کتاب جب تک تم تورات اور انجیل کو اور جو (اور کتابیں)تمہارے پروردگار کی طرف سے تم لوگوں پر نازل ہوئیں اُن کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہو سکتے“(سورۃ المائدہ 68:5)۔خدا کا کلام کس طرح تبدیل ہو سکتا ہے؟

دنیا کا ساتواں بڑا مذہب’بہائی مذہب‘ ہے جو یہ سکھاتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ،موسیٰ ؑ،حضرت یسوع المسیح او رمحمد ؐ کے بعد اگلا نبی بہاء اُللہ ہے۔اگر بہائی مذہب کے لوگ یہ الزام لگائیں کہ قرآن مجید میں بہا ء اُللہ سے متعلق نبوتیں موجود تھیں جو ہٹا دی گئی ہیں تو ردّعمل کیا ہوگا؟ہم یہ کہیں گے کہ یہ احمقانہ سوچ ہے۔

کیونکہ ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ اور پھر یہ کہ نیک لوگ جان بوجھ کر اپنے صحائف کو کبھی بھی تبدیل نہیں کریں گے۔حضرت محمد ؐ کے بارے میں متصورمٹائی گئی نبوتوں کے تعلق سے توریت شریف،زبورشریف اور انجیل شریف کے بارے میں بھی ایسا ہی ہے۔

کیا ذاکر نائیک کی منطق مُعتبر ہے؟

دارالعلوم دیوبند کے دار الافتاء نے جوبھارت کی سب سے مقبول ترین دینی علوم کی مرکزی درس گاہ ہے،اُس نے ذاکر عبدالکریم نائیک کے خلاف یہ فتویٰ دیا ہے کہ وہ:

”غیر مُقلّد ہے اور اُس کا علم اِتناگہرا نہیں ہے۔اِس لئے وہ معتبر نہیں ہے اور مسلمانو ں کو اُسے ہر گز نہیں سننا چاہئے۔“

ایک اَور فتویٰ یہ کہتا ہے:

ؔ”ہم جانتے ہیں کہ وہ غیر مُقلّدین کا ایک نمائندہ ہے،جو علم اور حکمت سے کوسوں دُور ہے،شرارت کی باتیں پھیلاتا ہے اور سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرتا ہے۔“ ۲؎

بہت سے دیگر علما،سائنس دانوں اور مسلم رہنماؤں نے ذاکر نائیک کے خلاف اِسی قسم کے بیانات ۴جاری کئے ہیں۔ مسلم علما ٹیلی وژن کے اِس مُبلّغ کے خلاف کیوں ہیں جو ”امن“ او ر”اسلام“کا پرچار کرنے کا دعویٰ کرتا ہے؟یہ مضمون چند ایسی وجوہات کا جائزہ لے گا کہ کیوں ذاکر نائیک غیر تعلیم یافتہ لوگوں کے مجمع میں تو مقبول ہے مگر تعلیم یافتہ علما کے نزدیک حقیر سمجھا جا تا ہے۔

اُس کے مخصوص چاہنے والوں کے نزدیک،اِس ٹیلی وژن کے دل بہلانے والے مُبلّغ نے اپنی بلا رکاوٹ انگریزی بولنے،پُر اعتماد مسکراہٹیں بکھیرنے اور دوسروں کے ایمان کو حقیر جاننے اوراُسے غلط معنی پہنانے کی قابلیت کی وجہ سے تقریباً ایک جدید فنکار کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔ہم باقی بچ جانے والوں کے نزدیک وہ زبردست یادداشت کا ایک آلہ ہے مگرایک خراب منطق رکھتا ہے،آدھی سچائیوں کا شوقین،اور خطرناک حدتک انتہا پسندی کے نظریات رکھنے والا شخص ہے۔ سیاق و سباق سے باہر بیان شدہ اقتباسات،جھوٹے اعداد و شمار،اور جان بوجھ کر غلط تشریحات کے لئے ٹیلی وژن اُسے ایک زبردست ذریعہ فراہم کرتا ہے۔اِس کتابچے میں ہم ”ریموٹ کا وقفے کا بٹن دبائیں گے“اور بڑی تنقیدی نگاہ سے ذاکر نائیک کی منطق او راُس کے مواد کا جائزہ لیں گے۔

لیکن ذاکر نائیک کے چند منطقی نکات پر تنقید کرنے سے پہلے چند معاملات میں اُس کی تعریف کرنا اچھا ہے۔وہ اپنے سامعین کوخود سے اپنی مادری زبان میں قرآن مجید پڑھنے کی تحریک دیتا ہے جو بہت ضروری ہے۔وہ نوجوانوں کو مشہور شخصیات کو اپنا رہنما بنانے اور مادی اشیاکی پیروی کرنے سے باز رہنے اور اِس کے بجائے اللہ تعالیٰ کی تلاش کرنے پر اُبھارتا ہے۔وہ شراب نوشی،بے حیائی اور کنجوسی کے خلاف بات کرتا ہے۔اِن باتوں کے لئے اُس کی تعریف ہونی چاہئے۔

خاکہ

کیا ذاکر نائیک اسلام کی درست نمائندگی کرتا ہے؟

نائیک اور اسلامی نظریہ اورعلمیت

سائنس پر

مذاہب کے تقابل پر

نائیک اور دہشت گردی

نائیک کے طریقے

اِرتقا پر:25جملوں میں 25اَغلاط

واضح جھوٹے بیانات

مرد و خواتین کے تناسب کے اعداد و شمار

دنیا کے مذاہب،چیونٹی ”رہنما“

تبدیلی

شہری روایات(دنیا کا نقشہ)

صحائف کی ناخواندگی(بی بی حوّا او رگناہ)

تیزی کے ساتھ نصف سچائیاں بیان کرنا(کیمبل کے ساتھ مناظرہ)

سامعین کے تعصب کوابھارنا(سؤر)

کمپیوٹر کی مانند یاداشت(تیزی سے آیات کے نمبر بتانا)

غیر متحرک سامعین

بڑی تعداد میں اسلام قبول کرنا؟

امریکہ میں خیرات دینا

امریکہ میں ہم جنس پرستی

مغرب میں بدعنوانی اور رشوت ستانی

حجاب او رجنسی چھیڑ چھاڑ

منتخب عالمانہ اقتباسات

سیاق وسباق سے باہر صحائف کی آیات

لسانیاتی بازی گری

صحائف کو غلط پیش کرنا

دوہرے معیار

ٹیلی وژن کا ذریعہ

ناقابل ِ چیلنج مناظر کا افسانوی قصہ


کیا ذاکر نائیک اسلام کی درست نمائندگی کرتا ہے؟

ذاکر نائیک غیر مسلموں کے مسلمانوں کے بارے میں رکھے جانے والے منفی اور گھِسے پِٹے خیالات کو متصعبانہ، سرکش اور بددیانت بناتا ہے۔اِس لئے یہ مسلمانوں او رغیر مسلموں دونوں کے لئے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ذاکر نائیک اسلام کے مرکزی علما کی نمائندگی نہیں کرتا۔نائیک کے خیالات اسلام کے ایک ایسے گروہ کی نمائندگی کرتے ہیں جسے وہابی کہا جاتا ہے اور وہ گروہ سعودی عرب سے یہاں پہنچا ہے۔پچھلی چند دہائیوں سے
تیل کی پیداوار سے حاصل کئے گئے کروڑوں ڈالر سعودی عرب سے نچھاور کئے گئے تاکہ اِس قسم کے اسلام کا پرچار کریں اور ذاکر نائیک جیسے لوگوں کی مالی مدد کریں۔

بہت سے تعلیم یافتہ علما کے نزدیک،وہابی فرقہ کو سب سے بڑے سرطان اورمسلم اُمہ میں سب سے بڑے مرض کے طور پر دیکھا گیا ہے۔

مولانا محمود دریا آبادی جو آل انڈیاعلما کونسل کے جنرل سیکرٹری ہیں،وہ ذاکر نائیک کے بارے میں کہتے ہیں:

”وہ نہ تو کوئی عالم ہے او رنہ ہی کوئی مفتی (وہ جو فتویٰ دیتا ہے)۔وہ جیسا چاہتا ہے ویسے اسلام کا پرچار کرتا ہے۔لیکن اُسے عوامی جلسوں میں فتو ے جاری نہیں کرنے چاہئیں۔“ ۵؎

عمرانیات کے ماہر امیتاز احمد لکھتے ہیں:

”سعودی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اُنہیں یہ الہٰی حق ملا ہے کہ وہ پوری دنیا سے لوگوں کو تنگ نظر ی پر مبنی وہابی اسلام کے دائرہ میں لے آئے۔ ذاکر نائیک اُن کا عوامی نمائندہ ہے۔مخصوص وہابی فرقہ بھارت میں عمل میں لائے جانے والے عوامی اور برداشت پر مبنی اسلام کے لئے خطرہ ہے۔میَں نے ایک دو مرتبہ اُسے ٹیلی وژن پر سنا ہے او رمجھے سخت مایوسی ہوئی ہے۔“ ۶؎

بے شک ذاکر نائیک خود وہابی یا سلفی ہونے سے انکار کرے گا(جیسا کہ زیادہ تر وہابی کرتے ہیں)پھربھی اُس کے خیالات مخصوص حد تک وہابی ہیں۔وہابی نظریات شدید حد تک لکیر کے فقیر اور قدامت پسند ہیں جو سعودی عرب سے یہاں آئے ہیں جو بھارت کے بہت سے مسلمانوں کے نظریات کے دشمن ہیں اور وہ مہلک حد تک دوسرے مذاہب کی مخالفت کرتے ہیں۔ذاکر نائیک کے چند مخصوص وہابی نظریات ہیں جو بہت سے بھارتی مسلمانوں سے تضاد رکھتے ہیں:

حضرت محمد ﷺسے اِلتجا کرنا: ذاکر نائیک صوفی مسلمانوں سے انحراف کرتے ہوئے حضوراکرم سے اِلتجا کرنے کی سخت مذمت کرتے ہیں۔

شرعی قانون اور لادینیت پر: ذاکر نائیک دعویٰ کرتا ہے،”بھارت کے مسلمان اسلامی سزا کا قانون (شریعت)کو تمام بھارتیوں پرلاگو کرنے کو ترجیح دیں گے کیونکہ یہ زیادہ قابل ِ عمل ہے۔“

صوفی مُقدسین کا احترام کرنا: نائیک ایسے مسلمانوں کو ملامت کرتا ہے جو صوفی مقدسین کا احترام کرتے ہیں اور اُن کے مزاروں پر بطور
”قبروں کی عبادت کرنے“ والوں کے جاتے ہیں۔

دیگر عقائد پر: 2003ئمیں ٹورنٹومیں اپنی ایک تقریر میں نائیک یہ تسلیم کرتا ہے کہ مسلمانوں کے لئے یہ حرام ہے،منع ہے کہ وہ اپنے مسیحی دوستوں کو کرسمس کی مبارک دیں۔

سعودی عرب تیل کے پیسے یا تیل کی پیداوار سے حاصل کئے گئے ڈالرز سے جارحیت پسندی کی حد تک حرف بہ حرف عمل کرنے والی اسلام کی قسم کو پوری دنیا میں متعارف کروا رہا ہے۔
چند تعلیم یافتہ نامی گرامی مسلم علما نے ماتم کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے زیادہ آزاد خیال اور علم و فضل کا نقطہ نظر رکھنے والے چینل نشر کرنے کے لئے تیل کی پیداوار سے حاصل کئے گئے چند ہی ڈالرزمیسر ہیں جو ٹیلی وژن کے ذریعے اِس طرح کی تشہیر کرنے والوں کا مقابلہ کر تے ہیں۔

8نومبر 2008ئمیں ایک انڈینز پریمئر مسلم سنی تنظیم،رضا اکیڈمی کے اراکین اکٹھے مل کر آئے تاکہ ذاکر نائیک کے پروگراموں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کریں۔کولابا(Colaba)میں دارالعلوم حنفیہ رضویہ کے مولانااشرف رضانے بھی ذاکر نائیک کے خلاف ایک فتویٰ جاری کیا۔7 اکیڈمی کے ایک رُکن ابراہیم تاہل نے کہا،”پہلے اُس نے مسیحیوں کو اپنا ہدف بنایا اور اب وہ سنی مسلمانوں کے خلاف ہے۔ہم
آر۔آر۔پاٹیل اور کے۔پرشاد سے ملے ہیں اور اُن سے اُس کے پروگرام پر پابندی عائد کرنے کو کہا ہے۔“اُس نے مزید کہا،”ہم جاننا
چاہتے ہیں کہ نائیک کو مالی مدد کہاں سے ملتی ہے؟“نمایاں بھارتی مسلمان جیسے کہ سلمان خورشیداور جاویداخترنے نائیک کے بارے میں جو کچھ محسوس کیا وہ اُس کی بھارتی مسلم برادری کو تبدیل کرنے اور فرقہ وارانہ جد و جہد کی شر انگیز کوششیں تھیں۔بھارتی مسلمانوں نے صوفی
پیروکاروں کو ”قبر کے پجاری“ کہنے پر اُس کو ملامت کی۔اِسی طرح برطانیہ کے مسلمانوں نے اُس کے اسلامی تاریخ،اسلامی علم ِ الہٰی سے بے بہرہ ہونے اور اُس کے متعصب وہابی نظریات پر اُس کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

دوسرے کئی مسلمانوں کے برعکس،ذاکر نائیک کے نزدیک اسلامی تاریخ کی حدود میں جو کچھ بھی ہے وہ بِنا کسی سوال کے مثبت ہے اور دائرہ اسلام سے جو کچھ باہر ہے وہ لازمی طور پربُرا اور بدی ہے۔اُس کے اسلام سے جو کچھ بھی باہر ہے وہ بالکل جہالت ہے جو کچھ بھی اسلامی اُمہ کے اندر ہے وہ مثالی او رکامل ہے۔یہ اچانک ردعمل اُس وقت عیاں ہوا جب اُس نے یہ کہہ کر یزید کو برکت دی،”رضی اللہ تعالیٰ عنہُ“،
جس کا مطلب ہے،”خدا اُس سے خوش ہو۔“یزید اسلام کے ابتدائی دور میں ایک غیر معروف شخص تھا،جسے سنی علما کہتے ہیں کہ وہ ”ایک فاسق تھا جس نے اپنی ماں،بہن اور بیٹیوں کے ساتھ ہم بستری کی،جس نے شراب پی اور جو نماز نہیں پڑھتا تھا۔“ ۸؎ اُس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس نے مدینہ کے ایک حملے میں تقریبا ًایک ہزار عورتوں کی عصمت دری کروائی اور دس ہزار لوگوں کو اپنا غلام بنایا ۹؎ اور وہ غالباً اسدومی تھا۔تب بھی یہ شخص ذاکر نائیک کے نزدیک جنت میں جانے کے قابل ایمان دار تھا اور اُس کا دفاع اِس لئے کرنا چاہئے کیونکہ وہ اسلامی تاریخ کا ایک حصہ ہے۔

ذاکر نائیک کے نظریات اِس قسم کا وہابی قدامت پسندی،بنیاد پرستی،اور تنگ نظر ی کا اسلامی نظریہ پیش کرتے ہیں جس میں کسی قسم کی خود پر تنقید یا دیگر مذاہب یا ثقافتوں کو کھلے دل سے قبول کرنے کا کوئی بھی نشان نظر نہیں آتا۔اگر ہم اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ایسی بہت سے باتیں ہیں جن پر ہم فخر کر سکتے ہیں جس میں ایک بہت بڑا تعلیمی اور سائنسی کا میابیوں کادَور بھی شامل ہے۔تب بھی اسلامی تاریخ کی چند ابتدائی صدیوں میں اِن کامیابیوں نے بھارتی تہذیب اور یونانی تہذیب جیسی دیگر ثقافتوں کے لئے بہت بڑے کھلے ذہن کے ساتھ مطابقت رکھی۔یہ وہ وقت تھا جب مسلم علما نے دیگر ثقافتوں کے علما کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے اور اُن کے فلسفو ں کے ساتھ متحد ہوتے ہوئے اُن کے عظیم کاموں کا مطالعہ کیا اور اُس میں ضم ہو گئے۔اسلامی تاریخ کے عظیم ترین علما جیسے کہ ابن ِ سینااور ابن ِ رُشد دیگر ثقافتوں کی روایات کو کھلے دل سے قبول کرتے تھے مگر اُنہیں کافر قرار دیتے ہوئے ملامت کی گئی۔اِس نشا ۃِثانیہ کی تبدیلی، اسلامی عظمت کے زوال سے تب شروع ہوئی جب ذاکر نائیک جیسے تنگ نظرفلسفیانہ نقالوں نے تمام دیگر علم و فضل کو جہالت اور آزمائش قرار دے دیا اور یہ
تقاضا کیا کہ علما صرف”خالص“ اسلامی مضامین کا مطالعہ کریں۔ ۰۱؎ ذاکر نائیک کے ساتھ سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ اگرچہ وہ بڑے جوش و خروش سے اسلام کے سنہرے دَور کا ذکر کرتا ہے مگر یہ بالکل اُسی کی طر ح کاذہین ہے جس نے قبولیت کے اِس سنہرے دور کو تباہ کر دیا اور اِسے زوال کا شکار بنادیا۔

کیا ذاکر نائیک بہترین اسلامی علم ِ الہٰی اورعلمیت کی نمائندگی کرتا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ ذاکر نائیک ایک تربیت یافتہ سرجن اورمنتخب صحائف کے حوالوں کی ایک چلتی پھرتی انسانی یاداشت کی ایک ڈرائیو ہے لیکن وہ کوئی مفکّر یا عالم نہیں ہے۔اسلامی علم ِ الہٰی اور تاریخ میں اُس کی تھوڑی سی عام تعلیم ہے۔اسلام کے چوٹی کے علم ِ الہٰی کے ماہرین اور سائنس دان ذاکر نائیک کے طریقہ کار اور تعلیم کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

سائنس پر

مثلا ذاکر نائیک ایک بات کا شوقین ہے جسے ”بکاؤلے ازم“ (Bucailleism)کہا جاتا ہے یعنی ”قرآن مجید کے سائنسی معجزات“ جنہیں وہ اپنے ٹیلی وژن کے پروگرام میں پیش کرتا ہے۔تاہم مشہوربھارتی اسلامی علم ِ الہٰی کے ماہر جناب مولانا اشرف علی تھانوی (بہشتی زیور کے مصنف)اپنی کتاب ”اسلام اور عقلیات“ ۱۱ ؎میں اِس طریقہ کار کی مخالفت کرتے ہیں۔اِسی طرح مغرب اور عرب یونیورسٹیوں کے بہت سے نامی گرامی اسلامی سائنس دان ”بکاؤلے ازم“ سے اتفاق نہیں کرتے۔ضیاء اُلدین شاکراپنی کتاب،”Exlporations in Islamic Science“ میں سائنسی معجزات پر مناظرہ کو ”بُری طرز کا مناظرہ“ کہتے ہیں۔پین سٹیٹ یونیورسٹی کے مسلم مؤرّخ نعمان الحق”بیکاؤلے ازم“ کے سب سے بڑے نقاد ہیں جو بیکاؤلے ازم کے آغاز کو مسلمانوں میں ”بہت گہرا احساس کمتری“ قرار دیتے ہیں جن کو آبادیانی نظام نے تضحیک کا نشانہ بنایا اور وہ اسلامی سائنس کی گذشتہ عظمت کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔12 ایک اور نقاد مظفر اقبال ہیں جو کینیڈا میں البرٹا میں اسلام اور سائنس کے مرکز میں صدر کے عہدے پر فائز ہیں۔مسلم عملی ماہر طبیعات اورپاکستان کے ایم۔آئی۔ٹی کے گریجویٹ پرویز ہود بائے لکھتے ہیں:

”ایسے دعوے کرنے والوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اُن میں اِس بات کی وضاحت کرنے کی کمی ہوتی ہے کہ کیوں حجم کی تکنیک،مالیکیولز کی ساخت
وغیر ہ کو کہیں اَور دریافت ہونے کے لئے انتظار کرناپڑا۔اور نہ ہی کبھی کسی قسم کی مُستند پیشین گوئیاں کی گئیں۔اُن کے پاس اِس بات کی بھی کوئی دلیل موجود نہیں کہ اینٹی بائیٹکس،اسپرین،بھاپ کے انجن،بجلی،ہوائی جہاز،یا کمپیوٹر پہلے مسلمانوں نے کیوں ایجاد نہیں کئے۔بلکہ ایسے سوالات پوچھنا توہین آمیز سمجھا جا تا ہے۔“ ۱۳؎

ترکی کے فلسفی اور ماہر طبیعات جناب ٹینر ادیس لکھتے ہیں:

”قرآن -سائنس(بیکاؤلے ازم)رقت انگیز ہے لیکن بہت سے مسلمانوں نے بھی اِس بات کو تسلیم کیا ہے۔ جتنی انسٹیٹیوٹ فار کریشین ریسرچ مسیحیت کی ترجمانی کرتا ہے اُسی طرح یہ اُس سے زیادہ اسلام کا اظہار نہیں کرتی۔ تاہم وہ احمقانہ شدت جو میَں نے اُوپر بیان کی ہے وہ سائنس او رقدامت پسند اسلام کے درمیان مبہم تعلق کی وضاحت کرسکتی ہے۔جبکہ بہت سے ایمان دار
اِس مسئلے کے نظر انداز کرنے کو تیار ہیں اور قرآن مجید کے ساتھ مکمل سائنسی ہم آہنگی کا اظہار کرتے ہیں۔کچھ ماہرینِ اَدراکی متعلقہ راستہ اپناتے ہیں،یا اِس بات پر زور دیتے ہیں کہ سائنس کا بیان اسلام کے مطابق ہونا چاہئے،اِس لئے ہمیں فطرت کے اسلامی نظریے کو تسلیم کرنا ہے۔“ ۱۴؎

”اِسلامی سائنس“ کے حوالے سے،پاکستانی نوبل انعام یافتہ اور ماہر طبیعات جناب ڈاکٹر عبدالسلام لکھتے ہیں:

”صرف ایک عالمگیر سائنس ہے؛اِس کے مسائل اور اِس کے طریقے بین الاقوامی ہیں اور اسلامی سائنس جیسی کوئی چیز نہیں ہے جیسے کہ ہندو سائنس یا یہودی سائنس،یا کنفیوشین سائنس اور نہ ہی مسیحی سائنس ہے۔“

مذاہب کے تقابل پر

اپنے قدردانوں کے نزدیک،تقابلی مذاہب میں نائیک سب سے پیش پیش ہے۔جب کہ حقیقی مفکرین جیسے کہ سید حسین نصریا نعمان الحق دیگر مذاہب کے مفکرین کے ساتھ کہیں زیادہ سنجیدہ اورفطین بحث فراہم کرتے ہیں۔

ذاکر نائیک کا موجودہ دَور میں موجود توریت شریف،زبور شریف اور انجیل شریف کو مکمل طور پر ردّ کردینا کسی طرح بھی اسلامی علمیت کو پیش نہیں کرتا۔
سلطنت عمان کے سلطان اور عرب اوراسلامیات کے پروفیسر جناب عبداللہ سعید لکھتے ہیں:

”چونکہ یہودیوں او رمسیحیوں کے مُستندصحائف آج بھی اُسی حالت میں موجود ہیں جیسے وہ نبی اکرم حضر ت محمد ؐ کے دور میں تھے،اِس لئے یہ بحث کرنا قدرے مشکل ہے کہ قرآن مجید میں کیا گیا توریت شریف او رانجیل شریف کا ذکر صرف ”اصلی“زبور شریف او ر
انجیل شریف کی طرف اشارہ ہے جو حضرت موسیٰ او رحضرت عیسیٰ المسیح کے زمانے میں موجود تھی۔اگر یہ متون کم و بیش ویسے ہی ہیں جیسے وہ ساتویں صدی میں تھے،او رقرآن مجید نے اُنہیں تعظیم بخشی تو پھر و ہ تعظیم آج بھی قائم رہنی چاہئے۔قرآن شریف کے بہت سے مفسر، الطبری سے لے کر رازی تک،بلکہ ابن تیمیہ تک اور حتیٰ کہ قطب بھی اِسی خیال کو بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
موجودہ دَور میں بہت سے مسلمانوں کا یہودیت او رمسیحیت کے صحائف کو ردّ کر دینے کا اپنا یا ہوا رویہ خود قرآن مجید اور تفاسیر کرنے والی بڑی شخصیات کی حمایت کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتا ہے۔“ ۱۵؎

ذاکر نائیک اور دہشت گردی

ایک وہابی قدامت پسند ہوتے ہوئے ذاکر نائیک دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے۔جب اُس پر طالبان اور القاعدہ کی زیادتیوں کی مذمت کرنے کے لئے دباؤ ڈالا گیا تو اُس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور یہ بیان دے کر شہرت کھو بیٹھا،”ہر مسلمان کو دہشت گرد ہونا چاہئے،او راگر اُسامہ امریکہ کے خلاف لڑ رہا ہے تو میں اُس کے ساتھ ہوں۔“

بظاہر ذاکر نائیک کی اُسامہ بن لادن سے کوئی رُوبرو ملاقات نہیں ہوئی،لیکن بکاؤلے ازم کا چمپئین ہونے کے ناطے،ذاکر نائیک کو اُسامہ بن لادن کی طرف سے اُس کے بکاؤلے ازم کے وسائل کے لئے براہ ِ راست مالی مدد ملتی تھی۔ ۶۱؎ برطانیہ میں نائیک کے ایک مخالف نے لکھا کہ کس طرح نائیک کے بڑے بڑے قدر دان خود کش بمبار او ردہشت گرد ہیں۔احمد کفیل جس نے گلاسکو ائیر پورٹ پر خود کش حملہ کیا تھااُس نے ذاکر نائیک کو دعوت دی تھی کہ وہ بنگلور آ کر اُسے او راُس کے دوستوں کو ایک درس دے۔جب کراچی کی لال مسجد میں سے پاکستانی طالبان کو زبردستی نکالا گیا تو ڈان اخبار نے یہ رپورٹ دی کہ وہاں سے ذاکر نائیک کی کئی کیسٹس ملیں۔

نائیک کے طریقے

نائیک نے پروپیگنڈہ(غلط منصوبہ بندی) کو عروج پر پہنچایا ہے۔ یہ مسلسل نصف سچائیوں،متن سے باہر اقتباسات اورجھوٹے اعدادوشمار کے استعمال سے علمیت کی وسعت کو محدود کرتاہے۔اِس میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ اپنے خلاف کسی بھی مدبّر مناظرہ کرنے والے جیسے کہ سیم شمعون اور علی سینا کے ساتھ مناظرہ کرنے سے کتراتا ہے۔
درج ذیل میں اُن طریقوں کا ذکر کروں گا جو ذاکر نائیک استعمال کرتا ہے اور ہر ایک کی مثال بھی پیش کروں گا۔

جھوٹی معلومات

دوٹوک بیان کرتے ہوئے،نائیک کی بہت سی معلومات بالکل جھوٹی ہیں۔آئیے!…

استثنا 18 موسیٰ کی مانند نبی

مناظرین جیسے کہ نائیک اور دیدات نے یہ بحث کی ہے کہ استثنا 18 باب حضرت عیسیٰ کی طرف نہیں بلکہ حضرت محمد ؐ کی طرف اشارہ کرتا ہے:

”خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔تم اُس کی سننا۔یہ
اُس درخواست کے مطابق ہو گا جو تُو نے خداوند اپنے خدا سے مجمع کے دن حورب میں کی تھی کہ مجھ کو نہ تو خداوند اپنے خدا کی آواز سننی پڑے اور نہ ایسی بڑی آگ ہی کا نظارہ ہو تاکہ میَں مر نہ جاؤں“۔

”اور خداوند نے مجھ سے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں سو ٹھیک کہتے ہیں۔میَں اُن کے لئے اُن ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا او راپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گا او رجو کچھ میَں اُسے حکم دوں گا وہی وہ اُن سے کہے گا۔اور جو کوئی میری اُن باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے تو میَں اُن کا حساب اُس سے لوں گا۔“

(استثنا 15:18-19)

حضرت عیسیٰ المسیح سے صدیوں پہلے یہودیوں نے اِ س نبوت کوالمسیح کی آمد سے منسوب کیا۔تاہم حال ہی میں چند مسلمانوں نے یہ الزام لگایا ہے کہ یہ نبوت عیسیٰ المسیح کی طرف نہیں بلکہ حضرت محمد ؐ کی طرف اشار ہ کرتی ہے۔یہ نبوت نبی کی شناخت کے لئے تین بنیادی معیار پیش کرتی ہے:

  1. تیرے لئے (جس کا مطلب ہے کہ اسرائیلی جن سے موسیٰ خطاب کر رہا ہے))
  2. تیرے ہی بھائیوں میں سے
  3. موسیٰ کی مانند

پہلا معیار: ”تیرے لئے“

”خداوند تیرا خدا تیرے لئے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔“(استثنا 15:18)

یہاں موسیٰ بڑے واضح طور پر بیابان میں سفر کرنے والی اسرائیلی جماعت سے خطاب کر رہا تھا۔جبکہ حضرت عیسیٰ المسیح او رحضرت محمد ؐ نے پوری انسانیت کے لئے نبی ہونے کا دعویٰ کیا، لیکن حضرت عیسیٰ کی بنیادی خدمت کا محور اسرائیل کے لوگ تھے جبکہ حضرت محمد ؐ کی بنیادی خدمت کا محور عرب کے لوگ تھے۔

دوسرا معیار: ”تیرے ہی بھائیوں میں سے“

”خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔“(استثنا 15:18)

یہاں موسیٰ موآب میں جمع اسرائیلیوں کو مصر میں سے نکال لانے اور چالیس سال بیابان میں اُن کی راہنمائی کرنے کے بعد اُن سے خطاب کر رہا تھا۔اِس لئے ہم توقع کریں گے کہ ”تیرے ہی بھائیوں میں سے“کا مطلب ہو گا کہ تیری ہی قوم اور برادری میں سے۔تاہم مناظرین جیسے کہ دیدات اور نائیک نے ابرہام کی نسل سے د یگر سامی لوگوں اور حضرت محمد ؐ کوشامل کرنے کے لئے اِس لفظ ”بھائیوں /قوم“ کو پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ و ضاحت یہاں بھائی کے لئے استعمال کئے گئے، (عبرانی اور عربی،اَخ)کے بنیادی معنی سے تضاد رکھتی ہے۔یہ لفظ اُسی قبیلے کے فرد کی طرف اشارہ کرتا ہے اور اُس وقت تک اسماعیل کی نسل پانچ صدیوں تک ایک الگ قبیلہ بن چکی تھی۔قرآن مجید کا ایک ممتاز مسلم مترجم محمد حامد اللہ لکھتا ہے:”عربی لفظ اَخ بھائی اور قبیلے کے فرد دونوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔“
1

ایسی وضاحت کی پچھلے 17باب کی آیت15 کے ساتھ موازنہ کرنے کے بعد تصدیق ہوتی ہے،جہاں ہم پڑھتے ہیں:

”تُو اپنے بھائیوں میں سے ہی کسی کو اپنا بادشاہ بنانا اور پردیسی کو جو تیرا بھائی (اَخ) نہیں اپنے اُوپر حاکم نہ کر لینا۔“(استثنا 15:17)

یہ آیت واضح طور پر یہ بتاتی ہے کہ ”تیرے بھائیوں (اَخ)میں سے“کا مطلب صرف ایک اسرائیلی ہی ہو سکتا ہے۔
دراصل اسرائیل کے اِرد گرد پھیلی ہوئی بہت سی قومیں عربوں کی طرح ابرہام کی سامی نسل سے تعلق رکھتی تھیں (جیسے کہ موآبی،
ادومی،وغیرہ)۔کیا محض اِس وجہ سے ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ نبی کسی بھی ایک سامی قوم میں سے ظاہر ہوسکتا تھا؟اِس نبوت کے وقت اسماعیل اور اضحاق کی نسلیں تقریباً پانچ صدیوں سے مختلف براعظموں پر زندگی بسر کررہی تھیں اور مختلف بولیاں بول رہی تھیں۔ایک جدید موازنہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح بنگالی اور افغانی دونوں آریائی نسل سے ہیں لیکن ایک بنگالی کے لئے ”قبیلے کا بھائی“ کا ہر گز مطلب ایک افغانی نہیں ہو گا۔

اِس لئے ہم لازماًیہ نتیجہ اخذ کریں گے کہ جس نبی کی نبوت کی گئی تھی اُسے اسرائیل کے بارہ قبیلوں میں سے آنا تھا جن سے موسیٰ خطاب کر رہا تھا نہ کہ کسی دُور سے تعلق رکھنے والی قوم میں سے۔چونکہ محمد ؐ اسرائیلی نہیں تھے اِس لئے استثنا 18:18 قطعی طور پر اُن کے لئے پیشین گوئی نہیں ہو سکتی۔

تیسرا معیار: ”موسیٰ کی مانند ایک نبی“

”خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔“(استثنا 15:18)

نائیک اور دیدات نے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ یہ نبوت محمد ؐ کے بارے میں ہے نہ کہ حضرت عیسیٰ کے بارے میں محمد ؐ اور موسیٰ ؑکے درمیان یکساں باتوں کی ایک فہرست مرتب کی ہے:

  1. حضرت عیسیٰ المسیح کے برعکس، محمد ؐ او رموسیٰ ؑ دونوں ایک جامع قانونی ضابطہ لے کر آئے۔
  2. حضرت عیسیٰ کے برعکس، محمد ؐ او رموسیٰ ؑدونوں ایک فطری باپ سے پیدا ہوئے۔
  3. حضرت عیسیٰ کے برعکس، محمد ؐ او رموسیٰ ؑدونوں شادی شدہ تھے۔
  4. حضرت عیسیٰ کے برعکس محمد ؐ او رموسیٰ ؑ دونوں اپنے لوگوں کے سیاسی راہنما تھے۔
  5. محمد ؐ او رموسیٰ ؑدونوں سے کہا گیا کہ وہ اُس وقت سے مہینوں کا حساب رکھیں۔
  6. محمد ؐ او رموسیٰ دونوں کو اپنے دشمنوں کی وجہ سے بھاگنا پڑا اور اپنے سُسرکے ہاں پناہ لینی پڑی۔
  7. محمد ؐ او رموسیٰ ؑدونوں نے عام انسانوں کی مانند وفات پائی۔

کچھ مناظرین نے مزید باتیں موازنہ کے طور پر استعمال کی ہیں جوکہ درحقیقت غلط ہیں:

سیدنا المسیح کے برعکس محمد ؐ او رموسیٰ ؑ دونوں نے ایک قطعہ زمین پر قبضہ کیا (جھوٹ:موسیٰ ؑتو ملک ِ کنعان میں داخل بھی نہیں ہوا تھا۔
وہ صرف اُنہیں سرحد تک لایا تھااور یشوع نے اُسے فتح کیا تھا)۔

حضرت محمد ؐ اور اور موسیٰ ؑدونوں نے مدیان کے ملک میں پناہ لی تھی،جسے بعد میں یثرب اور پھر مدینہ کا نام دیا گیا(جھوٹ؛مدیان یثرب سے 400 میل کے فاصلے پر ہے)۔

سید نا عیسٰی المسیح کے برعکس، محمد ؐ او رموسیٰ دونوں نے مدیان /مدینہ میں دس سال تک منادی کی (جھوٹ؛موسیٰ ؑنے مدیان کے بیابانی علاقے میں چالیس سال تک بھیڑیں چرائی تھیں نہ کہ دس سال تک۔اُس کی منادی کی بلاہٹ بعد میں ہوئی تھی)۔

اِس طرح موسیٰ ؑاو رحضرت محمد ؐ کے درمیان سات باتوں میں مماثلت ہے۔ ذرا ملاحظہ کیجئے کہ یہ مماثلت کسی بھی انسانی قائد کی خوبی سے پوری ہو جاتی ہیں یعنی عام پیدائش،شادی شدہ،اپنے لوگوں کا راہنما،شریعت دینے والا،سرزمین پر قبضہ کیا،عام انسان کی طرح مرا۔ہم اِس سے بھی زیادہ حضرت داؤدؑ اور موسیٰؑ کے درمیان مماثلت دیکھ سکتے ہیں:

  1. دونوں سیاسی راہنما تھے
  2. عام پیدائش تھی
  3. کئی عورتوں سے شادی کی تھی
  4. اُن کے بچے تھے
  5. اسرائیلی تھے
  6. کنعانی سرزمین پر قبضہ کیا تھا
  7. صحائف لے کر آئے
  8. ایک عہد ملا
  9. عام موت مرے

حضرت سلیمان اور موسیٰ ؑ:

  1. دونوں سیاسی راہنما تھے
  2. عام پیدائش ہوئی تھی
  3. بہت سی عورتوں سے شادی کی تھی
  4. اُن کے بچے تھے
  5. اسرائیلی تھے
  6. کنعانی سرزمین پر قبضہ کیا تھا
  7. صحائف لے کر آئے
  8. ایک عہد ملا
  9. عام موت مرے

حتیٰ کہ جدید قائدین میں سے جیسے کہ بنگلہ دیش کی عارضی حکومت کے سابقہ چیف ایڈوائزر ڈاکٹر فخرالدین احمد کو بھی اِن حوالوں سے موسیٰ
کی مانند کہا جا سکتا ہے۔اُس کی ایک عام پیدائش ہوئی،شادی شدہ ہے،بچے ہیں، اُس کے لوگ اُسے پسند کرتے تھے اور وہ ایک قوم کا راہنما تھا۔مگر اِس سے کچھ ثابت نہیں ہوتا۔

اِس کے برعکس ہمیں ”موسیٰ علیہ السلام کی مانند ایک نبی“ کی شناخت کے لئے موسیٰ کے کردار او رخدمت کے بنیا دی او رمنفرد پہلوؤں کو دیکھنا ہو گا۔ اگر ہم توریت میں موسیٰ ؑ کے بارے میں مکمل طور پر پڑھیں تو وہاں ہمیں تین ایسی منفرد خصوصیات ملتی ہیں جوحضرت داؤد ؑ،حضرت سلیمان ؑیا محمد ؐ میں نہیں ہیں بلکہ وہ خاص طور پرعیسیٰ المسیح میں کامل طور پر پوری ہوئیں:

  1. خدمت کا بنیادی نکتہ نمبر 1: حضرت موسیٰ ؑخدا کے لوگوں کے لئے طبعی طور پر غلامی سے نجات لے کر آئے او رطبعی لحاظ سے اُن کی سلامتی اورفراوانی کے ملک ِ موعودہ کی طرف رہنمائی کی۔حضرت سیدنا مسیح خدا کے لئے لوگوں کے روحانی غلامی سے نجات لے کر آئے اور اُنہیں سلامتی او رفر اوانی کے روحانی ملک ِ موعودہ فردوس کی راہ دکھائی۔لیکن محمدؐ کی خدمت کا نتیجہ اللہ تعالیٰ کے لوگوں کے لئے نجات لے کر نہ آیا۔
  2. خدمت کا بنیادی نکتہ نمبر : موسیٰ ؑبڑے منفرد انداز میں خدا کے قہر کو باز رکھتے ہوئے، اُن کی شفاعت کرتے ہوئے اور خدا وند تعالیٰ اور اُن کے درمیان کھڑے ہوتے ہوئے خدا وند تعالیٰ او رخداوند تعالیٰ کے لوگوں کے مابین درمیانی تھے(گنتی 7:21؛42:16-50 ؛خروج 23:15-25؛19 باب)۔یہ حضرت یسوع المسیح کی خدمت کا بھی بنیادی حصہ ہے یعنی خدا کے لوگوں کی خاطر شفاعت کرنا (-1تیم5:2؛عبر25:7)اور خدا کے قہر کو باز رکھنا۔
  3. خدمت کا بنیادی نکتہ نمبر : موسیٰ ؑاسرائیلیوں کے لئے ایک نیا عہد لے کر آئے۔ موسیٰ او رحضرت یسوع المسیح ہی واحد و ہ دو افراد تھے جنہوں نے خدا تعالیٰ اور اُس کے لوگوں کے مابین ایک درمیانی عہد باندھا۔حضرت یسوع المسیح کے نئے عہد کے بارے میں یرمیاہ نبی نے نبوت کی تھی۔
  4. ”دیکھ وہ دن آتے ہیں خداوند فرماتا ہے جب میَں اسرائیل کے گھرانے اور یہوداہ کے گھرانے کے ساتھ نیا عہد باندھوں گا۔اُس عہد کے مطابق نہیں جو میَں نے اُن کے باپ دادا سے کیا جب میَں نے اُن کی دست گیری کی تاکہ اُن کو ملک ِ مصر سے نکال لاؤں اور اُنہو ں نے میرے اُس عہد کو توڑا اگرچہ میَں اُن کا مالک تھا خداوند فرماتا ہے۔بلکہ یہ وہ عہد ہے جو میَں اُن دنوں کے بعد اسرائیل کے گھرانے سے باندھوں گا۔خداوند فرماتا ہے میَں اپنی شریعت اُن کے باطن میں رکھوں گا اور اُن کے دل پر اُسے لکھوں گا او رمیَں اُن کا خدا ہوں گا او روہ میرے لوگ ہوں گے“(یرمیاہ 31:31-33)۔

    حضرت یسوع المسیح نے بڑے اختیار سے اِس نئے عہد (متی5-7ابواب)کے حصے کے طور پر ایک نیا باطنی قانون سکھایا۔محمد ؐ نے کبھی بھی کوئی نیا عہد متعارف کروانے کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ اِس کے برعکس جیسے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دنوں میں نظام جاری تھا اُسی کو بحال کرنے کا ارادہ کیا۔

    دراصل موسیٰ ؑ ؑ کی جو لاثانی خصوصیات ہیں توریت شریف اور قرآن مجید اُنہیں صاف صاف بیان کرتے ہیں:

    ”اور اُس وقت سے اب تک بنی اسرائیل میں کوئی نبی موسیٰ کی مانند جس سے خداوند نے رُوبرو باتیں کیں نہیں اُٹھااور اُس کو خداوند نے ملک ِ مصر میں فرعون اور اُس کے سب خادموں اور اُس کے سارے ملک کے سامنے سب نشانوں اور عجیب کاموں کے دکھانے کو بھیجا تھا“
    (استثنا 10:34-11)۔

    ”اگر تم میں کوئی نبی ہو تو میَں خداوند ہوں اُسے رُو ئیا میں دکھائی دوں گا اور خواب میں اُس سے باتیں کروں گا۔پر میرا خادم موسیٰ ایسا نہیں ہے میَں اُس سے مُعموں میں نہیں بلکہ رُوبرو او رصریح طور پر باتیں کرتا ہوں …“(گنتی6:12-8)۔

    ”جیسے کوئی شخص اپنے دوست سے بات کرتا ہے ویسے ہی خداوند رُوبرو ہو کر موسیٰ سے باتیں کرتا تھا“۔(خروج 11:33)

    اِس طرح ہم اب اپنی فہرست میں مزید دو خوبیوں کا اضافہ کر سکتے ہیں:

  5. ۔ خدمت کا بنیادی نکتہ نمبر :درمیانی فرشتوں یا خوابوں کے ذریعے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ساتھ براہ ِ راست باتیں کرنا۔

    محمد ؐکے برعکس بلکہ ُرؤیاؤں یا درمیانی فرشتوں کے بجائے یسوع المسیح اور موسیٰ ؑدونوں باقاعدگی سے خدا تعالیٰ کی آواز کو براہ ِ راست سنتے تھے (گنتی6:12-8؛خر11:33)۔قرآن مجید اِس بات سے اتفاق کرتا ہے:سورۃ النسا ء 163:4-164 میں قرآن مجید فرماتا ہے کہ محمد ؐ او ر دیگر تمام انبیا محض الہام یافتہ تھے لیکن موسیٰ سے تو خدا تعالیٰ نے باتیں بھی کیں (براہ ِ راست) (تَکلیمَا)“۔موسیٰ ؑ فہرست میں الگ ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے اُس سے براہ ِ راست بات کی۔

    محمدؐ کو جبرائیل فرشتے کے ذریعے وحی ملتی تھی (سورۃ البقرہ97:2)۔ جبکہ حضرت یسوع المسیح کو خداتعالیٰ کے ساتھ براہ ِ راست،حتیٰ کہ رُوبرو باتیں کرنے والا بتایا گیا ہے۔پہاڑ کے اُوپر اُس کی صورت کے بدل جانے میں (متی 17،مرقس9،لوقا9)خدا تعالیٰ نے پہاڑ کی چوٹی پرحضرت یسوع المسیح سے براہ ِ راست بات کی،جیسے کہ اُس نے موسیٰ ؑسے بات کی تھی۔یہ ساری اناجیل میں واضح ہے کہ حضرت یسوع المسیح نے بِنا کسی فرشتے کے درمیانی ہوئے اللہ تعالیٰ کی آواز کو براہ ِ راست سنا۔

  6. خدمت کا بنیادی نکتہ نمبر : قدرت والے عجیب معجزاتی کام کئے۔

    قرآن مجید کے مطابق،حضرت یسوع المسیح نے بہت سے مافوق الفطرت معجزات کئے (سورۃ آل عمران49:3؛سورۃالنساء365:2)لیکن قرآن مجید کے مطابق محمدؐ کا واحد معجزہ قرآن مجید تھا (51:48:29)۔حضرت یسوع المسیح اور موسیٰ ؑ دونوں نے بے شمار قدرت والے معجزات کئے جو اُن کے صحائف میں اچھی طرح بیان کئے گئے ہیں۔

    اگر ہم مزید سطحی مماثلت کو دیکھنا چاہتے ہیں تو نائیک اور دیدات کی پیش کردہ مماثلتوں سے دُگنی تلاش کر سکتے ہیں:

  7. محمدؐکے برعکس، حضرت یسوع المسیح او رموسیٰ ؑدونوں اسرائیلی تھے۔
  8. محمد ؐ کے برعکس حضرت یسوع المسیح او رموسیٰ ؑدونوں غریب،غیر معروف خاندانوں میں پیدا ہوئے مگر محمد ؐ ایک نامی گرامی خاندان میں پیدا ہوئے۔
  9. حضرت یسوع المسیح او ر موسیٰ ؑدونوں نے اپنی ماؤں کے زیر سایہ پرورش پائی جب کہ محمدؐ نے صحرا میں ایک بدو دائی بنام حلیمہ سے پرورش پائی۔
  10. محمدؐ کے برعکس حضرت یسوع المسیح اور موسیٰ دونوں کو حکمران کے فرمان سے شیرخوارگی ہی میں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔
  11. محمد کے برعکس حضرت یسوع المسیح اور موسیٰ دونوں کو شیر خوارگی ہی میں الہٰی مداخلت کے ذریعے بچا لیا گیاتھا۔(خروج2: 2-10 ؛متی13:2)۔
  12. محمد ؐ کے برعکس حضرت یسوع المسیح اور موسیٰ ؑ دونوں نے مصر سے فلسطین کو سفر کیا جہاں اُنہوں نے اپنی خدمت مکمل کی۔
  13. محمد ؐ کے برعکس حضرت یسوع المسیح اور موسیٰ ؑدونوں نے ایک پہاڑ پر خدا کے ساتھ ”رُوبرو“ بات کی (خروج 11:33؛متی3:17) جس کے بعد اُن کے چہرے چمک گئے (خروج 29:34؛متی 2:17)۔
  14. محمد ؐ کے برعکس حضرت یسوع المسیح او رموسیٰ ؑ دونوں نے مافوق الفطرت طور پر پانیوں پر اختیار رکھا؛موسیٰ نے بحرِ قلزم کو دو ٹکڑے کیا اورحضرت یسوع المسیح نے طوفان کو تھمایا۔
  15. موسیٰ ؑ کی بیابان میں چالیس برس تک تیاری ہوئی جب کہ حضرت یسوع المسیح کی چالیس دن تک (اعمال 23:7کے ساتھ خروج7:7؛متی1:4)۔
  16. محمد ؐ کے برعکس حضرت یسوع المسیح اور موسیٰ ؑ دونوں نے ایسے واقعات کی نبوت کی جو پورے ہوئے (استثنا 15:18-22؛
    15:28-67:29؛متی24)
  17. دونوں کو صحائف میں ”وفادار خادم“ کہا گیا ہے (گنتی 7:12؛عبرانیوں 2:3-5)۔

نقاد:”لیکن استثنا کے اختتام میں پتا چلتا ہے کہ اسرائیل میں موسیٰ جیسا کوئی نبی نہیں اُٹھا،اِس لئے کوئی ایسا ہونا چاہئے جو اسرائیل سے باہر ہو“۔

پہلی بات یہ کہ یہ حوالہ صرف یہ بیان کر رہا ہے کہ اُس وقت تک اسرائیل میں موسیٰ ؑکی مانند کوئی نبی برپا نہیں ہوا تھا۔اگر یہ جملہ غیر واضح مستقبل کی طرف اشارہ کرتا تو ہم کچھ یوں پڑھتے،”اور اُس وقت سے بنی اسرائیل میں کوئی نبی موسیٰ کی مانند نہیں اُٹھے گا…“
اِس کی بجائے یہ کہتا ہے،”اُٹھا“،توریت کے زمانے میں جو ماضی تھا۔ یقینا،یہ حوالہ موسیٰ ؑاور محمد ؐ کے درمیان فرق کو واضح کرتا ہے جیسے کہ ہم نے پہلے کہا …وہ خداوند کو رُوبرو جانتا تھا اور اُس نے قدرت کے نشان اور عجیب کام دکھائے:

”اور اُس وقت سے اب تک بنی اسرائیل میں کوئی نبی موسیٰ کی مانند جس سے خداوند نے رُوبرو باتیں کیں نہیں اُٹھااور اُس کو خداوند نے ملک ِ مصر میں فرعون اور اُس کے سب خادموں اور اُس کے سارے ملک کے سامنے سب نشانوں اور عجیب کاموں کے دکھانے کو بھیجا تھا۔“
(استثنا 10:34-11)

صحائف کیا کہتے ہیں؟

خداوند تعالیٰ کا کلام،انجیل شریف خاص طور پر یہ کہتی ہے کہ استثنا 18 باب کی نبوت کا تعلق حضرت یسوع المسیح کے ساتھ ہے:

پطرس شاگرد تصدیق کرتا ہے:”ہمارے باپ دادا کے خدا نے اپنے خادم یسوع کو جلال دیا …جن کا ذکر خدا نے اپنے پاک نبیوں کی زبانی کیا ہے جو دنیا کے شروع سے ہوتے آئے ہیں۔چنانچہ موسیٰ نے کہا،’خداوند خدا تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے مجھ سا ایک نبی پیدا کرے گا …بلکہ سموئیل لے کر پچھلوں تک جتنے نبیوں نے کلام کیا اُن سب نے اِن دنوں کی خبر دی ہے۔“(اعما ل 21،13:3-24،22،عبرانیوں 1:3-3بھی دیکھئے)

یسوع نے کہا:”اگر تم موسیٰ کا یقین کرتے تو میرا بھی یقین کرتے اِس لئے کہ اُس نے میرے حق میں لکھا ہے۔“(یوحنا 46:5)

انجیل شریف خاص طور پر اِس استثنا ۸۱ باب کی نبوت کا حوالہ دیتی ہے اور بیان کرتی ہے کہ حضرت یسوع المسیح نے اِسے پورا کیا۔ قرآن مجیدصرف مشکوک انداز میں یہ الزام لگاتا ہے کہ پچھلے صحائف میں کہیں محمد ؐ کا ذکر کیا گیا ہے (157:7)۔قرآن مجید کہیں پر بھی وضاحت سے یہ نہیں کہتا کہ استثنا 18 باب محمد ؐ کی طرف اشارہ کرتا ہے جبکہ انجیل شریف واضح طور پر کہتی ہے کہ استثنا ۸۱ باب حضرت یسوع المسیح کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

  1. الاعراف 73،65:7 کے فرانسیسی ترجمے کے ذیلی نوٹ سے لیا گیا ہے؛Le Coran,Le Francais du Livre, 1959۔

کیسے یسوع کے پیروکار دُعا مانگتے تھے؟

یسوع کے حقیقی شاگرد دُعا کرنے والے لوگ تھے۔ یسوع نے اپنے شاگردوں کو کوئی رسمی نماز نہیں سکھائی، بلکہ اُس نے خدا کے ساتھ دُعا میں وقت کے طویل دورانیے گزارے۔ دُعا پر یسوع کی بنیادی تعلیم میں اِس بات پر زور دیا گیا ہے کہ دُعا دِل سے کی جانی چاہئے:

مسیحیت میں دُعا کیسے کی جاتی ہے؟ — سی۔ ایس۔ ، شام

میرے شامی دوست، آپ نے ایک اہم سوال پوچھا ہے۔ سب سے پہلے، میں کہنا چاہوں گا کہ میں نے ہمیشہ دُعا میں مسلمانو ں کی سپردگی کو سراہا ہے۔ سچے مسیحی بھی یقیناً دُعا کرنے والے لوگ ہیں۔

عیسیٰ مسیح کے بارے میں انجیل مُقدس جس ایک انتہائی اہم بات کاذکر کرتی ہے وہ اُن کی دعائیہ زندگی ہے۔ اُنہوں نے اکثر اللہ کے ساتھ دُعا کرنے میں طویل وقت گزارا۔ شاگردوں نے اِسے دیکھا۔ اُس کی مثال کی پیروی کرنے کے لئے ایک دن اُنہوں نے اُس سے کہا ”اے خداوند ہمیں دُعا کرنا سکھا۔“

عیسیٰ مسیح نے تب اُنہیں سچی دُعا کرنے کا ایک نمونہ دیا۔

آپ نے فرمایا ”پس تم اِس طرح دُعا کیا کرو کہ اے ہمارے باپ!…